علامہ محمد اقبالؒ اسلام اور سائنس
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں اقبالؒ کے نزدیک ’’معرکۂ مذہب و سائنس‘‘ اصل میں مذہب اورسائنس کی ہنگامہ آرائی کی مظہر نہیں بلکہ عیسائیت اور سائنس کے تصادم کی تاریخ ہے اسلام کے نزدیک زندگی کی بنیادٹھوس حقائق پر ہے،علامہ اقبالؒ بجا طور پر اپنے تصورات کی اساس قرآن پاک میں تلاش کرتے ہیں
اسلام دین اعتدال ہے، جس نے درمیانی راہ کو بہترین قرار دیااور ماضی میں پائے جانے والے انتہائی رویوں میں درمیانی راستہ اختیار کیا۔ قومیں جب اپنے اقتدار اعلیٰ سے محروم ہوجاتی ہیں تو ان کے فلسفہ ٔحیات سے متعلق سوالات جنم لینے لگتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں مسلم اقتدار کے زوال اور انگریز استعمار کی آمد کے بعدبھی ایسا ہی ہوا اور اسلام کی تعبیر وتشریح کے نئے نئے مکاتب فکر وجود میں آنے لگے۔ان مکاتب فکر میں سرسید احمد خان نے اپنے تصور اسلام کی توسیع و اشاعت کیلئے علی گڑھ میں ایک تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی اور دوسری طرف سرسیّد سے اختلاف رکھنے والے علمانمایاں تھے ،جنھوں نے نہ صرف یہ کہ سر سیّد کی مخالفت کی بلکہ اپنے تصور اسلام کے مطابق دینی اداروں کی بنیاد رکھی اور تحریکوں کی قیادت کی ایسے اداروں میں دارالعلوم دیوبند کانام نمایاں ہے۔جس کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی تھے۔
نئے اور بدلے ہوئے حالات میں اسلام کی یہ دو تعبیریں بجائے خود دریا کے دو کنارے بن گئیں۔ اقبالؒ ان دونوں تصورات کا نقطہ اتصال ہیں جس نے مغرب کی دانش گاہوں سے تعلیم حاصل کی اور اپنے مشرقی سرمائے کو اپنی آنکھ کا سرمہ بنائے رکھا۔ جس کے نتیجے میں اس کے ہاں ایک ایسے معتدل تصور نے جنم لیا جو اس کے معاصرین میں کمیاب ہے۔
اقبالؒ کے معتدل رویے کی بنیاد جہاں ان کا دوطرفہ،معروضی، وسیع البنیادمطالعہ ہے ،وہاں ان کا تصور تاریخ بھی اس کی بنیاد بنا۔اقبالؒ نے تاریخ کو علمی اور فلسفیانہ حوالے سے دیکھاجس کے نتیجے میں ان کے ہاں نہ صرف تاریخ بلکہ مذہب کے حوالے سے بھی جامع اور اعتدال پسند تصور نے جنم لیا۔یہ تصور چونکہ عام اور روایتی تصورات سے ہٹ کر ہے اس لیے وہ روایتی تصورات کے حامل علما اور قارئین کے ممکنہ ردعمل سے بھی اپنے کشادہ دل قاری کو آگاہ کرتے ہیں۔
انھوں نے مختلف زمانوں کے فکری دھاروں کاجائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ماضی میں مذاہب قومی، نسلی یا نجی دوائر میں محدود رہے لیکن اسلام نے اس حقیقت کو آشکاراکیا کہ مذہب قومی ہے نہ نسلی نہ ذاتی بلکہ خالصتاً انسانی معاملہ ہے۔ انھوں نے کہا: ’’اسلام اصطلاح کے مفہوم قدیم کے مطابق ایک مذہب نہیں بلکہ یہ تو ایک رویہ ہے۔ایسی آزادی کا رویہ جو کائنات کے ساتھ حریفانہ کشاکش کی ترغیب دیتا ہے۔ دراصل یہ دنیائے قدیم کے تمام تصورات کے خلاف ایک احتجاج ہے۔مختصراً اسلام انسان کا حقیقی انکشاف ہے‘‘۔
اس نئے زاویۂ نگاہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو اقبالؒ مذہب کو ایک متحرک مظہر قرار دیتے ہیں۔ ایک ایسا متحرک مظہر جس کا تحرک کشاکش سے عبارت ہے۔ جس کے نتیجے میں انسان کی خفتہ و خوابیدہ قوتیں بیدار ہو جاتی ہیں اور اس پر ایک نیا جہان امکانات منکشف ہوتا ہے ۔یہ مذہب کا ایسا تصور ہے جو سراسر غیر روایتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر مذہب ایسا ہی انقلاب آفریں رویہ ہے تو طول تاریخ میں اس کی یہ انقلابیت کیوں نمایاں دکھائی نہیں دیتی؟۔ مذہب کا یہ حقیقی تصور پیش کرنے والے اقبالؒ نے اس سوال سے اغماض نہیں برتا بلکہ اس سوال کی تحقیق بڑی باریک نگاہی سے کی ہے ۔اس حوالے سے اقبالؒ کا نتیجہ تحقیق یہ ہے کہ تاریخ پر یونانی فلسفہ چھایا ہوا ہے۔ یونانی فلسفیانہ روایت،بعد کے زمانوں میں عیسائیت، یہودیت اور اسلام کی تاریخ پر اثر انداز ہو تی رہی ہے۔ اقبالؒ کے خیال میں اس فکری روایت کا بنیادی نقطہ عدم تحرک ہے ، افلاطون اورارسطوخدا کو محرک ِاوّل سمجھتے ہیں لیکن خود خداان کے نزدیک غیر متحرک ہے ، اواخر چھٹی صدی قبل مسیح کے مفکرہراقلیطوس Heraclitous نے حرکت کو حقیقی قرار دیا لیکن اس کے ہاں بھی یہ حرکت دائروی حرکت میں تبدیل ہو گئی،یہی صورت بعدازاں رواقیینSatoic کے ہاں بھی پیش آئی، اقبالؒ نے لکھاہے : ’’یونانیوں کے نزدیک زمانے کی یا تو کوئی حقیقت ہی نہیں تھی جیسا کہ زینو اور افلاطون کاخیال تھا یایہ کہ وہ ایک
دائرے میں گردش کرتا رہتا ہے جیسا کہ ہراقلیطوس اور رواقین نے اس کا تصور کیا۔ حالانکہ ہم کسی تخلیقی حرکت کے پیش رس اقدامات پر جس معیار کی رو سے بھی حکم لگائیں گے اس حرکت کاتصور بطور ایک دائرے کے کیاگیاتو اس کی خلاقی کالعدم ہوجائے گی، دوامی رجعت ،دوامی تخلیق نہیں اسے دوامی تکرار ہی کہاجائے گا‘‘۔
دائروی حرکت کے اس تصور نے بہت قبولیت حاصل کی ، مسلم فکر کی تاریخ کاایک پورا دور اس تصور سے متاثردکھائی دیتا ہے ، جب کہ اسلام اس تصور پر یقین نہیں رکھتا لیکن اہلِ اسلام کو اس حقیقت تک پہنچنے میں وقت لگا۔ بقول اقبالؒ: ’’جب مسلمان رفتہ رفتہ اس حقیقت کو پاگئے کہ کائنات میں روانی اور حرکت ہے، وہ متناہی ہے اور اضافہ پذیر تو انجام کار یونانی فلسفہ کی مخالفت پر، جس کا اپنی حیات ِذہنی کی ابتدا میں انھوں نے بڑے ذوق و شوق سے مطالعہ کیا تھا، اتر آئے‘‘۔
شروع شروع میں توانھیں اس امر کا احساس نہیں ہوا کہ قرآن مجید کی روح فلسفۂ یونان کے منافی ہے اور اس لیے حکمت یونان پر اعتقاد کرتے ہوئے انھوں نے قرآن پاک کا مطالعہ بھی فکر یونان ہی کی روشنی میں کیا، لیکن قرآن مجید کا زور چونکہ محسوس اور ٹھوس حقائق پر ہے اور حکمت ِیونان کا حقائق کی بجائے نظریات پر، لہٰذا ظاہر ہے یہ کوششیں ایک نہ ایک دن ضرور ناکام رہتیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، اور یہ اسی کوشش کی ناکامی تھی جس کے بعد اسلامی تہذیب وثقافت کی حقیقی روح برسرِکار آئی، حتیٰ کہ تہذیب جدید کے بعض اہم پہلوئوں کو دیکھیے تو ان کا ظہور بھی اسی کا مرہون منت ہے۔اقبالؒ کہتے ہیں ’’اب ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ فکر ودانش کی دنیا میں اسلام کے لائے ہوئے انقلاب کو دیکھ سکیں جو اس نے یونانی فلسفے کے خلاف پیدا کیا‘‘۔
اقبالؒ کے نزدیک حکمت یونان کے خلاف اسلام کے لائے ہوئے اس انقلاب نے علم کی تمام شاخوں میں ظہور کیا۔ ریاضی، طب، فلکیات جیسے علوم بھی اس انقلاب سے متاثر ہوئے۔ اقبالؒکے نزدیک حکمت یونان کی اساس جمود پرستانہ ہے۔ یہ جمود پرستی اقبالؒ کو اس کے خلاف آمادئہ پیکار کر دیتی ہے اور وہ تاریخ اسلام میں بھی جہاں جہاں اس کے اثرات دیکھتے ہیں ۔ ان پر تنقید کیلئے نوکِ قلم سے نوکِ خنجر کا کام لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسرارِ خودی میں حافظ شیرازی پر تنقید ہو یا عراقی کی تردید ، وہ ان کے پیچھے افلاطونی نظریات کوکارفرمادیکھتے ہیں اوروہ افلاطون کو راہبِ دیرینہ اور گوسفندِ قدیم قراردیتے ہیں۔
قرآن اور حکمت یونان کے درمیان جس بنیادی فرق کی طرف سطورِ بالامیں اشارہ کیاگیا ہے،یہ وہی فرق ہے جو بعدکے زمانے میں مذہب اور سائنس کے فرق کے طور پرسامنے آیا۔ اقبالؒ یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب میں مذہب اور سائنس کاتفاوت، مذہب کے عمومی مزاج کی سائنس سے عدم مطابقت کی دلیل نہیں ہے بلکہ وہ اسے مذہب اور سائنس کے تفاوت کی بجائے عیسائیت اور سائنس کی چپقلش سے تعبیرکرنا زیادہ مناسب سمجھتے ہیں۔
ایک زمانے میں ڈاکٹر جان ولیم ڈریپر کی کتاب ’’A Conflict Between Religion and Science.‘‘ کا بہت شہرہ تھا۔ اس کتاب سے متعلق بھی اقبالؒ کی رائے یہ تھی کہ اسلام کا مزاج سائنس سے متصادم نہیں بلکہ سائنس کا منہاج دراصل مسلمانوں کی دریافت ہے لیکن یورپ اس بات کو تسلیم نہیں کرتا۔
اقبالؒ کے نزدیک ’’معرکۂ مذہب و سائنس‘‘ اصل میں مذہب اورسائنس کی ہنگامہ آرائی کی مظہر نہیں بلکہ عیسائیت اور سائنس کے تصادم کی تاریخ ہے ۔ اس تصادم کی وجہ یہ تھی کہ یورپ کے علما و حکما مسلمانوں کی علمی ترقی سے متاثر ہوئے تو اہلِ فرنگ کے خیالات میں زبردست انقلاب پیدا ہونے لگا اور رومن کیتھولک مذہب والے اس علمی انقلاب سے متصادم ہوئے۔ ڈاکٹر ڈریپر نے اسی انقلاب کی تاریخ لکھ دی۔ اقبالؒ نے لکھاہے کہ یورپ نے اس حقیقت کو اگرچہ بہت دیرمیں تسلیم کیا لیکن بالآخر اسے اس کا اعتراف کرنا ہی پڑا۔ اس حوالے سے انھوں نے روبرٹ بریفالٹ (Robert Briffault)کی کتاب (The Making of Humanity)’’تشکیل انسانیت ‘‘کاایک اقتباس بھی نقل کیاہے: ’’ہم جسے سائنس کہتے ہیں یورپ میں اس کا ظہورتحقیق و تفتیش کی جس نئی روح کی بدولت ہوا وہ نتیجہ تھی اس کے نئے نئے منہاجات تحقیق ، منہاج تجربی ، مشاہدے ، پیمائش اور ریاضی کی ایک ایسی شکل میں نشوؤنما کا جس سے اہل یونان سرتاسر بے خبر تھے۔ یہ نئی روح اور نئے منہاجات یورپ میں عربوں ہی کے ذریعے پھیلے۔
اقبالؒ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیاکوتجربی طریقے کا سبق اسلام ہی نے دیا تھا۔انھوں نے یہ بات صراحت کے ساتھ لکھی ہے کہ ’’یہ کہنا کہ تجربی منہاج (Experimental method)کی دریافت کاسہرا مغرب کے سر ہے ، سر تا سر غلط ہے ‘‘ ۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ راجربیکن (Roger Bacon) کے تصوراتِ سائنس کامآخذ بھی اسلامی علوم ہیں۔ ان کے بقول راجر بیکن نے علم وحکمت کادرس لیاتو کہاں سے؟ اس کاایک ہی جواب ہے اندلس کی اسلامی درس گاہوں میں۔ انھوں نے بیکن کی تصنیف ’’Opus Majus‘‘کے پانچویں باب کو ابن الہیثم کی بصریات (optics )کاچربہ قرار دیا۔
اسلام کے نزدیک زندگی کی بنیادٹھوس حقائق پر ہے، اقبال بجا طور پر اپنے تصورات کی اساس قرآن میں تلاش کرتے ہیں ۔’’قرآن کی تعلیم دراصل انفس و آفاق میں غوروتدبر کی تعلیم ہے۔اقبالؒ نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم کے ہر صفحہ پر انسان کو مشاہد ہ اور تجربہ کے ذریعے علم حاصل کرنے کی تعلیم دی گئی ہے اور منتہائے نظر یہ بتایاگیاہے کہ قواے فطرت کو مسخرکیاجائے چنانچہ قرآن پاک تو صاف الفاظ میں انسان کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر وہ قواے فطرت پر غلبہ حاصل کرلیں گے تو ستاروں سے بھی پرے پہنچنے کے قابل ہو جائیں گے ۔
جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود
کہ خالی نہیں ہے ضمیرِ وجود
ہر اک منتظر تیری یلغار کا
تری شوخیِ فکر و کردار کا
یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار
…………
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
…………
اقبالؒ کے نزدیک جذبہء تخلیق و ارتقا ہی کا دوسرا نام عشق ہے اوردنیا کوجس مثبت اور تازہ روشِ فکر کی ضرورت ہے وہ تخلیقی سوچ ہی کے نتیجے میں ممکن ہے۔عشق تخلیقی سوچ کا محرک ہے اورحرکت کے بغیر زندگی ممکن نہیں اس لیے زندگی حرکت و انقلاب سے عبارت ہے۔ حرکت و انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والا جہان تازہ، نئے خیالات اور تخلیقی سوچ کو کروٹ دیتا ہے۔ اس لیے جب تک تخلیقی سوچ زندہ ہے انسان ترقی کرتا رہے گا۔
آفتاب صبح
(علامہ محمد اقبالؒ)
شورش میخانہ انساں سے بالاتر ہے تو
زینت بزم فلک ہو جس سے وہ ساغر ہے تو
ہو در گوش عروس صبح وہ گوہر ہے تو
جس پہ سیمائے افق نازاں ہو وہ زیور ہے تو
صفحہ ایام سے داغ مداد شب مٹا
آسماں سے نقش باطل کی طرح کوکب مٹا
حسن تیرا جب ہوا بام فلک سے جلوہ گر
آنکھ سے اڑتا ہے یک دم خواب کی مے کا اثر
نور سے معمور ہو جاتا ہے دامان نظر
کھولتی ہے چشم ظاہر کو ضیا تیری مگر
ڈھونڈتی ہیں جس کو آنکھیں وہ تماشا چاہیے
چشم باطن جس سے کھل جائے وہ جلوا چاہیے
شوق آزادی کے دنیا میں نہ نکلے حوصلے
زندگی بھر قید زنجیر تعلق میں رہے
زیر و بالا ایک ہیں تیری نگاہوں کے لیے
آرزو ہے کچھ اسی چشم تماشا کی مجھے
آنکھ میری اور کے غم میں سرشک آباد ہو
امتیاز ملت و آئیں سے دل آزاد ہو
بستہ رنگ خصوصیت نہ ہو میری زباں
نوع انساں قوم ہو میری ، وطن میرا جہاں
دیدہ باطن پہ راز نظم قدرت ہو عیاں
ہو شناسائے فلک شمع تخیل کا دھواں
عقدہ اضداد کی کاوش نہ تڑپائے مجھے
حسن عشق انگیز ہر شے میں نظر آئے مجھے
صدمہ آ جائے ہوا سے گل کی پتی کو اگر
اشک بن کر میری آنکھوں سے ٹپک جائے اثر
دل میں ہو سوز محبت کا وہ چھوٹا سا شرر
نور سے جس کے ملے راز حقیقت کی خبر
شاہد قدرت کا آئینہ ہو ، دل میرا نہ ہو
سر میں جز ہمدردی انساں کوئی سودا نہ ہو
تو اگر زحمت کش ہنگامہ عالم نہیں
یہ فضیلت کا نشاں اے نیر اعظم نہیں
اپنے حسن عالم آرا سے جو تو محرم نہیں
ہمسر یک ذرہ خاک در آدم نہیں
نور مسجود ملک گرم تماشا ہی رہا
اور تو منت پذیر صبح فردا ہی رہا
آرزو نور حقیقت کی ہمارے دل میں ہے
لیلی ذوق طلب کا گھر اسی محمل میں ہے
کس قدر لذت کشود عقدہ مشکل میں ہے
لطف صد حاصل ہماری سعی بے حاصل میں ہے
درد استفہام سے واقف ترا پہلو نہیں
جستجوئے راز قدرت کا شناسا تو نہیں
(بانگ درا سے انتخاب)