جدید دور
چھٹیوں کے بعد بچوں کا سکول میں پہلا دن تھا، سب بچے خوشی خوشی سکول کی اسمبلی میں جمع تھے، پرنسپل نے بچوں کو تعلیمی کارکردگی بہتر بنانے اور چُست و توانا رہنے کاکہا۔ ساتھ ہی تمام کلاس ٹیچرز کو تلقین کی کہ بچوں کو پہلے دن زیادہ کام نہ دیا جائے بلکہ ان سے کلا س میں کوئی ایکٹیویٹی کروائی جائے۔
مس مریم کلاس8 کی ٹیچر تھیں۔ کلاس میں پہنچ کر انھوں نے بچوں کو خوش آمدید کہااورسب بچوں سے پوچھا کہ ’’ان چھٹیوں میں انھوں نے کیا کچھ کیا‘‘۔ سب بچے اپنی اپنی سرگرمیوں سے آگاہ کرنے لگے تو ہاشم کی باری آئی۔ ہاشم کلاس کا سب سے ہونہار طالب علم تھا۔
مس نے اس سے پوچھا تو وہ بولا’’مس پہلے تو میں نے ان چھٹیوں میں نماز کی مکمل پابندی کرنا شروع کی اور الحمد للہ نمازِ پنجگانہ اب میری عادت بن چکی ہے۔ پہلے پہل تو میں موبائل میں ویڈیو گیمز کھیلتا تھا پھر اچانک دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ نماز ادا کر لی جائے۔ ماما، بابا بھی نماز کیلئے کہتے ہیں تو کیوں نہ میں بھی اس عادت کو پختہ کرلوں۔ نماز واقعی دلوں کا سکون اور کامیابی کا ذریعہ ہے۔
نماز وں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ دوسرا میں نے اے آئی کے بارے میں معلومات حاصل کی ہیں۔ اے آئی جسے اُردُو میں مصنوعی ذہانت کہا جاتا ہے۔میں نے اس کو جانچا ہے۔ کیونکہ آگے کادور اسی پر مبنی ہے۔ اے آئی اصل میں کمپیوٹر سائنس کی ایک شاخ اورایک مشین ہے جو انسانی ذہانت کی طرح سوچنے، مسائل حل کرنے اور فیصلہ کر نے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔
یہ ہرشعبہ زندگی یعنی مختلف مقاصد اور مختلف ایپلی کیشنز میں استعمال ہورہا ہے۔انسان خود کو ہر جگہ دکھا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ انسان جو ہم میں نہیں رہے ان کی تصاویر کے ذریعے ہم انھیں اپنے پاس اے آئی کی مدد سے دکھا سکتے ہیں، یعنی وہ ہمارے آس پاس موجود ہیں ، ہم سے بات چیت کررہے ہیں ‘‘۔
’’اُہ تو یہ تو واقعی بہت بڑا ٹیکنالوجی کے میدان میں انقلاب آگیا ہے۔اور آپ نے اس کے متعلق کافی حیرت انگیز معلومات حاصل کی ہیں‘‘،مس نے کہا۔
’’جی مس جی! آئندہ آنے والا دور اسی کا ہے۔ہم خود کو ہر جگہ ہر کسی کے ساتھ محض اپنی تصویر کے ذریعے دکھا سکتے ، بلکہ گفتگو بھی کرسکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم قدیم ابتدائی دور کا پورا حال و احوال آج کے اس مشینی دور میں بھی محسوس کرسکتے ہیں۔ پیغمبروں کے ادوار ہوںیا بادشاہوں کے ادوار ہر جگہ خود کو کہیں بھی اس ٹیکنالوجی کے ذریعے محسوس کرسکتے ہیں۔
لیکن مس ا س کے استعمال کرنے میں بھی کچھ پہلو ہیں‘‘۔ ہاشم نے تجسس چھوڑا۔ ’’ وہ کیا‘‘ مس مریم اور ساری کلاس سنجیدگی سے متوجہ ہوئی۔’’ مس ہر شے کا بامقصد استعمال انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے جہاں ہر کام آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے بآسانی ہوجاتے ہیں۔ہم کافی معلومات بغیر کسی رکاوٹ حاصل کر لیتے ہیں، وہیں کہیں نہ کہیں اخلاقی گراوٹ بھی زیر غور رہی ہے۔ ہمارا جہاں اور جس کے ساتھ بھی دل چاہے کسی کا کسی کے ساتھ بھی تعلق جوڑ دیتے ہیں۔قائد اعظمؒ جو سر سید سے ملے بھی نہ تھے ، وہ نہ صرف اس اے آئی کے ذریعے ان سے ہنستے مسکراتے باتیں کرتے ملتے ہیں وہ ہمارے حکمرانوں کے ساتھ بھی بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اے آئی کی غلطی نہیں بلکہ اُن افراد کی غلطی ہے جو اس کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
ہر چیز کا استعمال مثبت اور منفی ہم انسانوں کے ہاتھوں میں ہے ۔اگر ہم چاہیں تو اس سے اپنے لیے آسانی حاصل کر سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو اس کا منفی استعمال کر کے لوگوں کی ذات کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں، جو کہ غلط ہے ‘‘۔جیسا کہ اقبال ؒ نے فرمایا:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
’’ تو کیا اس کے منفی استعمال سے بچنے کا کوئی ٹول ہے کہ ان لوگوں کو پکڑا جائے جو ایسا کرتے ہیں ‘‘، مس مریم نے پوچھا۔’’جی مس جس طرح سائنس نے بے شمار ترقیاں کی ہیں ، وہیں سائنسدان اس سے بچنے کیلئے بھی راستے نکال رہے ہیں اورآئندہ بھی کوشش ہوتی رہے گی‘‘۔
’’ بالکل اللہ پاک آسانیاں عطا فرمائے اور ہمیں سوچنے سمجھنے کی تو فیق عطا فرمائے ‘‘ مس مریم نے دعا کی۔ ’’ آپ نے کافی اچھی اور حیرت انگیز معلومات لی ہیں۔تو کیا آپ نے اس کو آگے لیجانے یعنی اس علم کو آگے بڑھانے کا سوچا ہے‘‘، مس مریم نے پوچھا۔’’ جی مس،میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں آئندہ کمپیوٹر سائنس ہی پڑھوں گا اور اے آئی کو بامعنی انداز میں فروغ دوں گا‘‘۔