جدید اردو شاعری کی عصری معنویت
جدیدیت اور ترقی پسند تحریک عالمی ادبیات میں رو نما ہونے والی دو اہم تحریکات تھیں۔ اردو ادب پر بھی ان دونوں تحریکات کے گہرے اثرات مرتسم ہوئے۔ ترقی پسند تحریک کے عطا کر دہ ادبی سرمائے کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ زمینی حقیقتوں کی عکاسی، بعض روایات سے بغاوت، احتجاج اور سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت اس کی امتیازی خوبیاں تھیں۔
یہی ترقی پسندی کی پہچان بھی تھی۔وقت کے ساتھ اشتراکیت کے سماجی اور سیاسی سروکار جب مخصوص نظریات کی ترویج کی دھن میں ادب اور تخلیقی سر گرمیوں سے انحراف کرتے ہوئے کھوکھلی نعرے بازی میں ڈھل گئے تو اس کا دامن تھامنے والے بعض فنکاروں نے اس تحریک سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ جدیدیت کے متعلق یہ خیال عام ہے کہ وہ ترقی پسند تحریک کے رد میں وجود میں آئی تھی۔ جدیدیت محض ترقی پسندی سے انحراف نہ تھا۔ اس تحریک کی بنیاد عصری زندگی کے وہ نئے مسائل تھے جن کے فنی اظہار کے لئے نئے وسیلے، اسالیب اور طریقے در کار تھے۔ جدیدیت نے تخلیقی سطح پر یہ لوازمات مہیا کئے۔ اسی کے ساتھ عصری شعور کے اظہار نے اسے ترقی پسندی سے الگ کر دیا تھا۔
جدیدیت نے ادب میں ایک بدلتی ہوئی زندگی اور بڑے تغیرات کی زد پر موجود دنیا کو اپنا موضوع بنایا اور اس کے لیے اپنے اظہار کے طور طریقے اپنائے جن میں موضوعات کے ساتھ زبان، بیان، لفظیات اور طرزِ اظہار سب میں نمایاں تبدیلیاں موجود تھیں۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے جدیدیت کی تحریک کو ماہ و سال کے حوالے سے بیان کر تے ہوئے لکھا ہے:خالص میکانیکی اور زمانی نقطہ نظر سے نئی شاعری سے میں وہ شاعری مراد لیتا ہوں جو 1955ء کے بعد تخلیق ہوئی ہو۔ 1955 ء کے پہلے ادب کو میں نیا نہیں سمجھتا ہوں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ 1955 ء کے بعد جو بھی کچھ لکھا گیا وہ سب نئی شاعری کی زمرے میں آ تا ہے اور یہ بھی نہیں کہ 1955 ء کے پہلے کے ادب میں جدیدیت کے عناصر نہیں ملتے۔ داخلی اور معنوی حیثیت سے میں اس شاعری کو جدید سمجھتا ہوں جو ہمارے دور کے احساسِ جرم، خوف، تنہائی، کیفیتِ انتشار اور اس ذہنی بے چینی کا اظہار کرتی ہو جو صنعتی اور مشینی اور میکانیکی تہذیب کی لائی ہوئی مادی خوش حالی، ذہنی کھوکھلے پن، روحانی، دیوالیہ پن اور احساسِ بے چارگی کا عطیہ ہے۔
جدیدیت کا تصور ادب میں نئے پن کو اختیار کرنے اور روایتی موضوعات اور طرزِ اظہار کے برتنے سے زیادہ بدلتی ہوئی زندگی کو ادب میں پیش کرنے پر زور دیتا ہے۔ انیسویں صدی اور اس سے پہلے سے وجود میں آ نے والے سائنسی نظریات، ایجادات اور علمی انکشافات نے انسانی سوچ کو عالمی پیمانے پر متاثر کیا جن کا اثر حیاتِ انسانی پر پڑنا لازمی تھا۔ جن ذہنی اور قلبی سہاروں نے صدیوں سے انسانی زندگی کی راہیں ساری دنیا میں متعین کر رکھی تھیں۔ کائنات اور انسان کے متعلق سائنسی انکشافات نے عقائد اور نظریات کے وہ قلعے مسمار کر دئے۔دو عالمی جنگوں نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ انسانی زندگی کے اتحاد اور امن و امان، آسودگی کو ان آفات نے نہ صرف ختم کیا بلکہ خوف، دہشت تشکیک اور سراسیمگی پیدا کر دی۔ آج کا انسان اب سے پہلے کے انسان سے ذہنی طور پر بہت ہی مختلف ہے۔ وہ اب زمینی فاصلوں کے کم یا ختم ہو جانے سے بین الاقوامی سطح پر ایک عالمگیر قوم میں شامل ہو چکا ہے۔ اس کا کرب اب محدود نوعیت کا نہیں رہا۔ آج جبکہ کائنات کے اسرار کی گرہیں کھل چکی ہیں، اس کے کرب کی شدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ نیا انسان خارجی وسعتوں کے سامنے خود کو ہیچ پا کر اب اپنے وجود کو تلاش کرنے نکلا ہے۔ اس کا سفر اب خارج سے باطن کی جانب ہے۔ اس لیے آج وہ خود سے ہم کلام ہے۔