فوڈ سکیورٹی ! دنیا میں 8کروڑ افراد بھوک کا شکار

اسپیشل فیچر
برق رفتار سے ترقی کرتی دنیا میں جہاں مصنوعی ذہانت انڈسٹریل استعمال سے ہوتی ہوئی آہستہ آہستہ انسانی معاشرے پر اثرانداز ہونے لگی ہے ،وہیں ایک ایسا مسئلہ بھی ہے جس نے پوری دنیا کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وہ مسئلہ خوراک کی موجودگی اور فراہمی ہے۔ جدید الفاظ میں اسے '' فوڈ سکیورٹی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
مصنوعی ذہانت کی مدد سے ڈیم، عمارتیں،جہاز اورسوفٹ وئیر تو بنائے جا سکتے ہیں لیکن مصنوعی ذہانت خوراک پیدا کرنے یا اسے مساوی انداز میں تقسیم کرنے سے فی الحال قاصر نظر آتی ہے۔ دنیا''فوڈ سکیورٹی‘‘ کے لفظ سے اس وقت متعارف ہوئی جب ماہرین نے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو دنیا کے لئے ایک ''ٹائم بم‘‘ قرار دیا کیونکہ آبادی میں اضافہ سب سے پہلے خوراک اور اس کی فراہمی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جتنے زیادہ لوگ موجود ہوں گے اتنی زیادہ خوراک کی ضرورت محسوس ہوگی۔
1950ء میںپاکستان کی آبادی پونے چار کروڑ تھی لیکن آج یہی آبادی 22کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور ایک اندازے کے مطابق2050ء تک پاکستان کی آبادی تقریباً34کروڑ تک پہنچ جائے گی۔بڑھتی ہوئی آبادی سے نہ صرف پاکستان جیسا زرعی ملک مشکلات کا شکار ہو رہا ہے بلکہ اس مسئلے نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
1950ء میں دنیا کی آبادی 2ارب کے قریب تھی جو بڑھتی ہوئی تقریباً8ارب ہو چکی ہے جبکہ2050ء تک یہ آبادی12ارب تک پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
ماہرین کے مطابق12ارب آبادی کیلئے ہمارا یہ سیارہ بہت چھوٹا ہے، اس پر کاشت کی جانے والی اجناس کو 12 ارب افراد میں تقسیم کرنا ممکن نہیں ہوگا ۔ خوراک کی عدم موجودگی عالمی جنگ کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اگر ایسی صورتحال رہی تو ''فوڈ سکیورٹی‘‘ نیشنل سکیورٹی کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق اس وقت دنیا میں 8 کروڑ سے زائد افراد بھوک کا شکار ہیں۔ 2005ء کے بعد اس تعداد میں کمی واقع ہوئی تھی لیکن کورونا اور اس کے '' آفٹر شاکس‘‘ کی وجہ سے بھوک کے شکار افراد کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
''ہنگر انڈکس‘‘ (Hunger Index) پر نظر ڈالی جائے تو بدقسمتی سے پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جو شدید بھوک کا شکار ہیں۔ ''ہنگر انڈکس‘‘ کے مطابق پاکستان 121 ممالک میں سے 99نمبر پر ہے ۔ ماہرین کے مطابق اگر بروقت اقدامات نہ اٹھائے گئے تو صورتحال مزید بدتر ہو سکتی ہے۔ کرۂ ار ض کا 29فیصد حصہ خشکی جبکہ 71 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ خشک حصے کا صرف 71فیصد قابل کاشت ہے جبکہ دیگر 10 فیصد حصے پر گلیشیئرز موجود ہیں اور19فیصد حصہ ناقابل کاشت یعنی بنجر ہے۔اعدادو شمار کے مطابق خشکی کا جو 71 فیصد حصہ قابل کاشت ہے اس میں سے 50فیصد پر کاشت کی جارہی ہے،37 فیصد پر جنگلات موجود ہیں جبکہ13فیصد پر شہر آباد کئے جاچکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس 50فیصد حصے پر کاشتکاری کی جارہی ہے اس میں سے انسانوں کیلئے صرف 33فیصد جبکہ جانوروں کی خوراک اور چراہ گاہوں کے لئے67 فیصد رقبہ استعمال کیا جارہا ہے۔ ایمیزون جنگلات کو کاٹ کر بھی وہاں سویابین کی کاشت کی جارہی ہے جو 90فیصد تک جانوروں کی خوراک کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس وقت دنیا اگر ''فوڈ سکیورٹی‘‘ یا بھوک کا شکار ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ وسائل کا بے دریغ استعمال ہے۔ نسل انسانی نے قدرتی وسائل کو اس بے دردی سے استعمال کیا ہے کہ یہ اپنے قدرتی سائیکل سے باہر نکل چکے ہیں۔پانی کو زندگی کی علامت اور سب سے قیمتی وسائل میں سے ایک سمجھا جاتا ہے لیکن پانی کے بے جا استعمال نے بھی فوڈسکیورٹی جیسے مسائل پیدا کر دئیے ہیں۔
کرۂ ارض پر اس وقت جتنا بھی پانی موجود ہے اس کا صرف 2.5 فیصد حصہ میٹھے پانی پر مشتمل ہے۔اگر اس 2.5فیصد میں سے گلیشیئرز کو نکال دیا جائے تو پانی کا صرف ایک فیصد حصہ ایسا ہے جسے پینے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر اس ایک فیصد میں سے زیر زمین پانی کو بھی نکال دیا جائے تو صرف 0.7 فیصد حصہ پینے کے قابل بچتا ہے جو پہاڑوں سے ہوتا ہوا دریاؤں اور نہروں میں گرتا ہے۔ نہروں اور دریاؤں میںموجود پانی کے 0.7 فیصد حصے میں سے70فیصد پانی زراعت میں استعمال کیا جاتا ہے۔یعنی پوری دنیا میں موجود پانی کے0.7فیصد حصے کا صرف30فیصد 8ارب آبادی کے پینے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ماہرین کے مطابق ایسے طریقوں کی ایجاد ناگزیر ہے جن میں وسائل اور زمین کا کم سے کم استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کی جاسکے۔
اس سلسلے میں ایلون مسک کے بھائی کمبل مسک(Kimbal Musk) نے ایک سٹارٹ اپ کا آغاز کیا ہے جسے ''Squareroot‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس پروجیکٹ میں 40فٹ کے کنٹینر میں مختلف اقسام کے پودے کاشت کئے جارہے ہیں اور صرف8گیلن پانی کا استعمال کرتے ہوئے ایک کنٹینر میں ایک سے دو ایکٹر تک کی پیداوار حاصل کی جارہی ہے۔کنٹینرز میں مختلف اقسام کے سینسرز بھی نصب کئے گئے ہیں جن کی مدد سے پودوں میں ہونے والی حرکات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور ایسے طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے جن سے بہترین اور ذائقہ دار اجناس حاصل کی جاسکیں۔ماہرین کے مطابق اس طرح کے جدید طریقوں اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے کم سے کم زمین کو استعمال کرتے ہوئے خوراک کی پیداوار کو بڑھایا جا سکتا ہے اور انسانیت کو اس تاریک مستقبل سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے جس کا اندازہ شاید ابھی کسی کوبھی نہیں۔