روس،کینیڈا،ڈنمارک ان دیکھے زیر آب علاقے کے دعویدار
![روس،کینیڈا،ڈنمارک ان دیکھے زیر آب علاقے کے دعویدار](https://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/27147_37681188.jpg)
اسپیشل فیچر
آرکٹک کے بے پناہ معدنی ذخائر اپنے ارد گرد کے ممالک کے لیے تنازعے کا سبب بنے ہوئے ہیں، لومناسو رِج(Lomonosov Ridge) کا علاقائی تنازعہ بھی ان میں سے ایک ہے ، جس پر روس،ڈنمارک اور کینیڈا ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کسی متنازعہ علاقے کے دعویدار دو ملک ہوتے ہیں لیکن آپ کو سن کر حیرت ہو گی کہ اس روئے زمین پر ایک ایسا زیر آب علاقہ بھی ہے جس کے دعویدار تین ملک ہیں۔ اس سہ ملکی قدیم تنازعہ کو سمجھنے کیلئے اس کا مختصر جغرافیائی محل وقوع ذہن میں رکھنا ضروری ہو گا۔ بنیادی طور پر یہ متنازعہ علاقہ قطب شمالی کا حصہ ہے۔ جسے آرکٹک بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں بحر منجمد شمالی، کینیڈا، روس، گرین لینڈ، آئس لینڈ، ناروے، امریکہ (الاسکا)، سویڈن اور فن لینڈ کے کچھ حصے شامل ہیں۔
ملکیت کا دعوی ہے کیا؟
ڈنمارک کا دعویٰ ہے کہ یہ پہاڑی سلسلہ اس کے خودمختار علاقے گرین لینڈ کا حصہ ہے۔ روس کے مطابق یہ پہاڑی سلسلہ سائبیریا کے ایک جزیرے کا حصہ ہے جبکہ کینیڈا کا دعویٰ ہے کہ یہ ایلزمئیر جزیرے کا حصہ ہے۔ لومانسو نام کا یہ پہاڑی سلسلہ گرین لینڈ سے شروع ہو کر کینیڈا پر جا کر ختم ہوتا ہے۔
Lomonosov Ridge لگ بھگ 1700 کلومیٹر پر محیط ہے۔ زیر زمین اس پہاڑی سلسلے کا بلند ترین مقام سمندر کی تہہ سے صرف تین، چار کلومیٹر بلند ہے۔ اگرچہ لومانسو کوئی قابل ذکر پہاڑی سلسلہ نہیں ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ مذکورہ بالا تینوں ممالک قطب شمالی کے اردگرد 54850 مربع ناٹیکل میل کے اس متنازعہ علاقے کی ملکیت کے دعویدار ہیں۔ عالمی قواعد کے مطابق مذکورہ دعویدار ممالک کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ متعلقہ سطح سمندر ان کے براعظم ہی کا حصہ ہے۔ اس کیلئے ان ممالک کو یہ شواہد سامنے لانے ہیں کہ یہ ان کے ممالک کا وہ حصہ ہے جو پانی میں ہے۔ باالفاظ دیگر یہ کہ یہ علاقہ سطح سمندر ہے، سمندری چٹان نہیں۔ بصورت دیگر ان کا اس ملک کے زمینی رقبے کے دعوے کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ یہی وہ تکنیکی نکتہ ہے جس کیلئے تینوں ممالک کے درمیان ملکیت کی دعویداری کی رسہ کشی جاری ہے۔
یہ پہاڑی سلسلہ کب اور کیسے دریافت ہوا؟
لومانسوِ کی دن بدن بڑھتی اہمیت اور روس، کینیڈا سمیت گرین لینڈ (ڈنمارک) کے مابین پھیلتے تنازعہ نے ماہرین کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ صدیوں سے موجود اس علاقے کو 1948ء سے پہلے کیوں نہ کھوجا گیا۔1948ء میں یہ پہاڑی علاقہ آرکٹک کے مرکز میں سوویت یونین کی جانب سے سروے کیلئے لگائے ایک کیمپ کے دوران دریافت ہوا تھا۔ دراصل آرکٹک کی برف کے اوپر لگائے گئے خیموں کے دوران سوویت ماہرین کو معلوم ہوا کہ شمال کی جانب سائبیرین جزیروں پر پانی کی گہرائی دوسرے ملحقہ علاقوں کی نسبت کم ہے۔ اس کے علاوہ ماہرین کو یہ بھی پتہ چلا کہ اس مقام پر سمندر ایک پہاڑ کی وجہ سے دو حصوں میں منقسم ہے ، اس سے پہلے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ سمندر کا مسلسل ایک ہی طاس ہے؛ چنانچہ اس کے بعد سائنسدانوں کی دلچسپی اس علاقے میں بڑھنا شروع ہوئی تو اس علاقے کی مزید تحقیق کیلئے نقشوں کی ضرورت محسوس کی گئی۔
اس علاقے بارے سب سے پہلے 1954ء میں ماہرین نے ایک نقشہ تیار کیا جس میں پہلی بار زیر آب اس پہاڑی سلسلے کو دیکھا جاسکتا تھا۔ اس پہاڑی سلسلے کی دریافت کے بعد ماہرین اب اس نقطے پر یکسو ہیں کہ زیر سمندر یہ پہاڑی سلسلہ کیسے بنا ہو گا؟ ماہرین کے مطابق سائنسدانوں کو اس سلسلے میں پہاڑ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا حاصل کرنا ہو گا جس سے اس معمے کی گتھیاں سلجھنے کی امید پیدا ہو جائے گی اور اسکی ارضیاتی اساس بارے معلوم ہو سکے گا۔
اس سے پہلے روس کے سائنسدان بھی اس پہاڑی سلسلے کے پتھروں کا جائزہ لیتے رہے ہیں۔ بیشتر عالمی ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ یہ جاننا انتہائی مشکل ہے کہ آیا انہوں نے جو پتھرتحقیق کیلئے حاصل کیا ہے، وہ کسی اور پہاڑ کا تو نہیں، کیونکہ آرکٹک کے ساحلوں پر اکثر دور دراز جیسے سائبیریا کے برف کے پہاڑوں سے آیا ہوا پتھر بھی ہو سکتا ہے؛ چنانچہ اس طرح تحقیق غلط سمت میں بھی جا سکتی ہے۔
اسی طرح کچھ عرصہ پہلے ڈنمارک میں ارضیات کے سروے کے ایک ماہر کرسٹین نڈسن نے اپنی تحقیقی کے دوران کہا تھا کہ ہو سکتا ہے یہ چٹان گرین لینڈ کا حصہ ہو، لیکن اگر آپ اس کا دوسرا رخ دیکھیں گے تو یہ آپ کو روس کا تسلسل نظر آئے گا کیونکہ ایسے پتھر روسی جزیروں پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحقیق کو اور آگے لے جائیں تو کینیڈا سے ملنے والے شواہد کا بھی جائزہ لینا ہو گا جن کے مطابق یہ پہاڑی سلسلہ کینیڈا کے جزیرے کا تسلسل بھی لگتا ہے۔
ماہرین یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ یہ بھی ممکن ہے کہLomonosov Ridge ایک ہی وقت میں روس،کینیڈا اور گرین لینڈ کا حصہ رہا ہو۔ ڈنمارک، کینیڈا اور روس نے اگرچہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے حدودبراعظم میں اپنے ملکیتی دعوے دائر کر رکھے ہیںمگر یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اس منفرد کیس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
متنازعہ علاقہ اتنا اہم کیوں؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس پوشیدہ زیر زمین پہاڑی سلسلے میں کیا کشش ہے کہ ایک عرصے سے تین ممالک اس کی ملکیت کے دعویدار چلے آ رہے ہیں۔سب سے پہلے ہمیں اس دعوے کے پس پردہ چھپی تینوں مذکورہ ممالک کی ترجیحات کو مد نظر رکھنا ہو گا۔
اقوام متحدہ کے سمندری قوانین کے مطابق ہر وہ ملک جو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک 370 کلومیٹر کے برابر فاصلے کا مالک ہے وہ وہاںاکنامک زون قائم کرنے کااہل ہو گا۔اس زون کے قیام سے اس ملک کو مچھلیاں پکڑنے،قدرتی وسائل تک رسائی اور عمارتوں کی تعمیر کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ دور جدید میں چونکہ گیس،تیل اور معدنیات کی دستیابی اس طرح کے خطوں کی کشش کا سبب بنتی ہے لیکن بیشتر عالمی ماہرین جغرافیائی علوم کے مطابق چونکہ زیر بحث علاقہ ایک طویل عرصہ سے متنازعہ چلا آرہا ہے جس کے سبب یہاں کسی قسم کاسروے نہ ہونے کے باعث وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ علاقہ قدرتی وسائل کا خزانہ ثابت ہوگا۔