یادرفتگاں: میجر شبیر شریف شہید
![یادرفتگاں: میجر شبیر شریف شہید](https://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/27150_96135402.jpg)
اسپیشل فیچر
میجر شریف نے گرجدار آواز میں اپنے ساتھیوں سے کہا: ''بہادرو! یہ حق و باطل کی فیصلہ کن جنگ ہے، یہ ہماری ملی غیرت کا امتحان ہے، خدا کی قسم! اگر میں پیچھے ہٹوں تو مجھے گولی مار دینا اور اگر تم پیچھے ہٹے تو میں تمہیں گولی مار دوں گا جو پیچھے رہنا چاہتا ہے ، وہ ابھی رہ جائے، ہمیں ہر حال میں آگے بڑھنا ہے۔ بولو! میرے ساتھ چلو گے؟‘‘میجر شریف کی آوازپر سب نے لبیک کہا۔
میجر شبیر شریف کی قیادت میں مجاہدوں کی یہ جماعت گولوں کی بارش میں آگے بڑھتی ہوئی سبونہ نہر کے کنارے پر جا پہنچی۔ یہ واقعہ 3 دسمبر کا ہے ، خون جما دینے والی سردی میں میجر شبیر شریف اپنی کمپنی کی قیادت کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے، سب سے پہلے وہ کنکریٹ سے بنے ہوئے بنکروں پر حملہ آور ہوئے۔ دشمن نے مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن میجر شبیر شریف کی کمپنی نے بڑی تیزی سے دشمن پر قابو پا لیا اور پسپا ہوتی ہوئی بھارتی فوج کی اہم سرحدی چوکی جھانگر بھی پاکستان کے قبضے میں آ گئی۔
نہر ابھی دو میل دُور تھی۔ یہ علاقہ دشمن کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں سے اَٹا پڑا تھا، قدم قدم پر موت منتظر تھی لیکن یوں دِکھائی دے رہا تھا کہ میجر شبیر شریف کی لغت میں ڈر اور خوف کا کوئی لفظ نہیں تھا۔وہ بارودی سرنگوں کے درمیان سے خود بھی گزر گئے اور اپنے ساتھیوں کو بھی بچا کر لے گئے۔ اب وہ دشمن کے گاؤں بیری والا کے سامنے پہنچ چکے تھے۔بھرپور لڑائی کے بعد بیری والا گاؤں پر بھی پاکستانی جانبازوں کا قبضہ ہو گیا۔
پیش قدمی کیلئے نہر عبور کرنا ضروری تھا، سردیوں کی سرد راتوں میں خون جما دینے والا ٹھنڈا پانی اور اس پر بھارتی توپ خانہ کی گولہ باری مزید مشکلات پیدا کر رہی تھی، یہاں سے آگے بڑھنا ایک چیلنج بن چکا تھا۔ دشمن نے بہت کوشش کی کہ یہ جوان نہر کے دوسرے کنارے پر نہ پہنچ سکیں لیکن تمام تر رکاوٹوں کو عبور کر کے ہمارے مجاہد دوسرے کنارے پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ اب انہیں دشمن کے آہنی مورچوں کا سامنا تھا۔ فولاد کی دیواروں کے ساتھ ساتھ ٹینکوں کا ایک سکواڈرن بھی وہاں موجود تھا۔ میجر شبیر نے اپنے ساتھیوں کو آگے بڑھنے کا حکم دیا تو تمام ساتھی دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ وہاں متعین 43 بھارتی فوجی مارے گئے جبکہ28 قیدی بنا لیے گئے۔نہر پر بنا ہوا انتہائی اہم پل بھی پاکستان کے قبضے میں آگیا۔
میجر شبیر شریف دشمن کے علاقے میں موجود تھے۔ دشمن نے اس محاذ پر مزید فوجی کمک بھیج دی۔ رات بھر بھاری ہتھیاروں سے دشمن کا حملہ جاری رہا۔ دوسری صبح بھارت نے پہلے سے کئی گنا زیادہ فوج کے ساتھ حملہ کر دیا اس معرکے میں ہلکی اور بھاری توپوں کے علاوہ اسے ٹینکوں کی بھی مدد حاصل تھی ۔بہت سے ٹینکوں اور توپوں کو خاموش کرا دیا گیا۔ اسی دوران دشمن کا کمپنی کمانڈر کسی نہ کسی طرح میجر شبیر کے مورچے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ میجر شبیر نے چابکدستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے دبوچ لیا اور اس سے انتہائی قیمتی دستاویزات چھین لیں جن میں بہت سے فوجی راز موجود تھے۔ میجر شبیر کی یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔
اگلے دن 6 دسمبر کی سہ پہر بھارتی فوج نے ٹینکوں اور فضائیہ کے ساتھ ایک اور حملہ کر دیا۔ ٹینک اور توپیں دیوانہ وار گولہ باری کر رہی تھیں ایک نازک موقع پر جب ان کا توپچی شہید ہو گیا تو انہیں یہ کام بھی خود سنبھالنا پڑا۔ وہ بڑی مستعدی سے دشمن پر گولہ باری کروا رہے تھے۔یہ ان کی زندگی کا آخری معرکہ تھا۔ بھارتی ٹینکوں کی طرف سے ایک گولہ ان کیلئے شہادت کا پیغام لے کر آیا اور میجر شبیر شریف کے سینے میں کاری زخم لگا گیا جس سے وہ نڈھال ہو کر زمین پر گر پڑے۔ بے ساختہ ان کی زبان پر کلمہ شہادت جاری ہو گیا جیسے ہی جوان ان کے قریب پہنچے تو وہ جامِ شہادت نوش کر چکے تھے۔ یہ 6 دسمبر 1971ء کا دن تھا، شہادت کے وقت میجر شبیر شریف کے آخری الفاظ یہ تھے: ''میرے جوانو! اس بند اور پل کو کسی قیمت پر نہ چھوڑنا ۔یاد رکھنا کہ دشمن کے ناپاک قدم اس پل پر نہ پڑیں۔ ثابت قدمی اور مستقل مزاجی سے ڈٹے رہنا۔ خدا تمہارا حامی و ناصر ہو‘‘۔
میجر شبیر شریف 28 اپریل 1943ء کو کنجاہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم راولپنڈی، مری اور کوئٹہ کے سکولوں سے حاصل کی پھر جب والد کا تبادلہ کوئٹہ سے لاہور ہو گیا تو آپ کو سینٹ انتھونی سکول لاہور میں داخل کرا دیا گیا۔سینئر کیمبرج کے بعد آپ گورنمنٹ کالج میں داخل ہو گئے۔ یہاں سائیکل ریس میں اوّل انعام حاصل کیا۔ یہیں سے آپ کیڈٹ کی حیثیت سے فوج میں بھرتی ہوئے۔
میجر محمد شبیر شریف اپریل 1961ء پاک فوج کے 29 ویں لانگ کورس کا حصہ بنے،اعزازی شمشیر کے ساتھ پاس آئوٹ ہوئے اور 19 اپریل 1964ء کو 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا، انہیں یکم اکتوبر 1965 ء کو لیفٹیننٹ، 19 اپریل 1966 ء کوکیپٹن اور 19 اپریل 1970 ء کو میجر کے عہدے پر ترقی دی گئی۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ میں چھمب جوڑیاں سیکٹر میں حصہ لیا اور آپ کی قیادت میں یونٹ منادر اور چھمب کو روندتے ہوئے 4 ستمبر کو جوڑیاں سے کچھ فاصلے پر پہنچ گئی اس محاذ جنگ پر ناقابلِ یقین بہادری کے جوہر دِکھانے پر آپ کو ستارہ جرأت‘ تمغہ حرب اور تمغہ دفاع سے بھی نوازا گیا۔
میجرشبیر کا تعلق فوجی ہیروز کے خاندان سے تھا۔ ان کے والد محمد شریف ایک ریٹائر میجر تھے۔ میجر عزیز بھٹی جنہیں نشانِ حیدر سے بھی نوازا گیا، شبیر شریف کے ماموں تھے اور ان کے چھوٹے بھائی جنرل راحیل شریف، پاکستانی افواج کے نویں سپہ سالار بنے۔
میجر شبیر شریف کی وصیت جو لیفٹیننٹ کرنل (ر)اشفاق حسین کی شبیر شریف کے حالات زندگی پرلکھی گئی کتاب ''فاتح سبونہ''میں درج ہے۔ شبیر شریف کے بچپن کاایک بہت گہرا دوست تنویر تھاوالدین نے اُس کی پسند کی جگہ پر شادی کرنے سے انکار کیاتوتنویر نے خودکشی کر لی۔شبیر کو اس کی موت کادیر سے علم ہواتو غم کی انتہا نہ رہی ۔شبیر جب بھی فوج سے چھٹی پر لاہورآتے تو تنویر کی قبر پر دعا کرنے ضرور جاتے۔ ایک دن قبرستان میں مرحوم کی والدہ سے ملاقات ہوئی۔ماں اپنے بیٹے کی موت کے بعد ٹوٹ چکی تھی۔شبیر کو کہنے لگیں بیٹا خواب میں ملتا ہے تو بہت تکلیف میں ہوتا ہے۔علما ء نے کہاہے کہ اگرکوئی باعمل عالم یا شہیدتنویر کے پہلو میںدفن ہو تواُمید ہے حرام موت کی وجہ سے اس پر ہونے والی سختی کم ہو جائے۔شبیر یہ سن کر چپ چاپ چلا آئے۔جانے کس وقت وصیت لکھ دی کہ میں جنگ میں کام آجائوںتو دوست کے ساتھ دفنا دیاجائے۔بعد ازشہادت شبیر کی وصیت کے مطابق دوست کو دوست کے پہلو میں دفنا یا گیا۔