عظیم مسلم سائنسدان ابومعشرالبلخی
![عظیم مسلم سائنسدان ابومعشرالبلخی](https://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/27324_71623052.jpg)
اسپیشل فیچر
ابو معشر کی شہرت بطور ماہر نجوم اپنے معاصرین میں اور بعد کے دور میں بھی بے حد زیادہ تھی۔ اس نے ایک ہندوستانی شہزادے (شاندراشٹر کوٹ) کا زائچہ بنایا جو 11 جنوری 826ء کو پیدا ہوا تھا۔ اس نے خلیفہ کے اقتدار کے خلاف بعض باغیوں کو مشورے دیئے اور 883-880ء میں بصرہ میں زنجیوں کے خلاف محاذ آرائی میں وہ خلیفہ الموفق کے ہمراہ رہا۔ ابن القفطی کے مطابق اسلامی دنیا کے ماہرین نجوم کی طرح ''اثرات کو کب کے ضمن میں وہ مسلمانوں کا استاد تھا‘‘۔
جعفر بن محمد ابو معشر البلخی کو انگریزی میں Albumasarکے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ 10اگست787ء کو بلخ میں یا اس کے نواح میں پیدا ہوا اور خاصی طویل عمر گزار کر عراق کے ایک شہر الواسط میں 9مارچ 886ء کو انتقال کر گیا۔ اس کی شہرت ایک ماہر نجوم کی حیثیت سے ہے۔ ابو معشر البلخی کی جائے ولادت یعنی بلخ ایک قدیم شہر تھا اور یہ وسط ایشیا کا ایسا شہر تھا جہاں یونانی تمدن کے آثار پائے جاتے تھے۔ ساسانیوں کے دور میں اسی جگہ اہل ایران کے ہندوستانیوں، چینیوں، تورانیوں اور شامیوںسے سماجی تعلقات استوار ہوئے۔ حضرت عثمان غنی ؓ کے زمانہ خلافت 656/644ء میں حضرت احنف بن قیس ؓ نے اس شہر کو فتح کیا۔ اس وقت یہاں کی آبادی میں زرد شتیوں کے علاوہ ہندو، یہودی، بدھ، نستوری، عیسائی اور مانوی مذاہب کے پیرو کار شامل تھے۔ آٹھویں صدی عیسوی کے وسط میں سلطنت عباسیہ کے بہت سے فوجی افسر اور دانشور اس علاقے سے تعلق رکھتے تھے۔ عباسیوں نے بغداد میں کتاب خانوں اور دارالتراجم کے قیام میں ان کے علم و دانش سے بھرپور استفادہ کیا اور انہیں یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے علوم کو عربی میں منتقل کر سکیں۔یوں وہ اپنی علمی وراثت کو مسلمانوں کی روایت کا حصہ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
ابو معشر بھی اہل خراسان کے ان دانشوروں میں سے تھے۔ وہ اپنے ہاں کی عقل و دانش کی برتری کا قائل تھا اور اس کا اظہار اس نے اپنی کتابوں (کتاب اختلاف الزیجات‘‘ اور ''کتاب الالوف‘‘ میں بڑے پرزور انداز میں کیا ہے۔ ساسانیوں کی سائنسی تحقیقات کا اسے براہ راست علم نہیں تھا، بلکہ اس سلسلے میں اس کی معلومات کا انحصار صرف تراجم پر تھا۔ اس نے اپنی علمی اور تہذیبی روایات سے جو کچھ حاصل کیا وہ واضح نہیں ہے۔ اس نے بڑی مہارت اور چابکدستی سے اپنے موروثی علم میں ان فکری رجحانات کی آمیزش کی جو ان دنوں بغداد کے علمی حلقوں میں رائج تھے۔ یوں وہ اس نظریہ کا داعی بن گیا کہ تمام مختلف قوی نظامہائے فکر کی اصل ایک ہی ہے۔ یہ نظریہ ایک طرح فکری تاریخ میں نو افلاطونی نظریہ تجلی کے مشابہ ہے، جس کو اس نے فلسفہ کی رو سے حرآنی لبادے میں قبول کر لیا۔ ابومعشر کا یہ نظریہ ایک اور بڑے ہی عجیب اور متناقض نظریہ اصطفائیت کو بھی جواز فراہم کرتا تھا۔
ابو معشر ایک ماہر نجوم تھا اور یہی وجہ ہے کہ اپنے نظریات کی وجہ سے کسی باز پرس یا گرفت سے محفوظ رہا۔ البتہ ایک بار اسے خلیفہ المستعین کے دور خلافت866/862ء میں کوڑے لگائے گئے۔ اس کی وجہ اس کے مخصوص افکار نہیں تھے بلکہ علم نجوم میں اس کی گہری وابستگی تھی۔
ابومعشر نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بغداد میں خلیفہ المامون کے دور خلافت (833-813ء) کے شروع میں بطور محدث کیا۔ احادیث کے مطالعہ ہی کے ضمن میں اس نے قبل از اسلام عربی تقویم اور خلفائے راشدین کا بغور مطالعہ کیا۔ تقریباً 825ء میں ابومعشرکی زندگی میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے اس کی علمی سرگرمیوں کا رخ تبدیل کردیا۔ یہ واقعہ وہ تنازعہ تھا جو اس کے مشہور فلسفی ابو یوسف یعقوب بن اسحاق الکندی (873-796ء )کے مابین شروع ہوا اور اس نے بعد میں خاصی تلخی اختیار کرلی۔ الکندی بیک وقت افلاطون، ارسطو، شارحین ارسطو نو افلاطونیوں، حراّن کے صابیوں کی ہرمیس (Hermes)اور اگاتھو ڈیمن سے منسوب کتابوں اور بالعموم ریاضی کے علوم مثلاً حساب، جیومیٹری، موسیقی، ہئیت اورہجوم، میں دلچسپی رکھتا تھا۔ اس سے متاثر ہو کر ابو معشر کو فلسفیانہ استدلال کی تفہیم کیلئے علم ریاضی پڑھنے کا احساس ہوا۔ چنانچہ اس نے اپنی تمام تر صلاحیت نجوم کی فلسفیانہ اور تاریخی توجیہات بیان کرنے اور اس علم کی عملی افادیت کو واضح کرنے میں صرف کر دی۔ اس کوشش میں اس نے ان تمام عقلی روایات سے استفادہ کیا جن کا وہ ذاتی طور پر وارث تھا۔
ابومعشر نے علم نجوم کی ضرورت اور اہمیت کو ثابت کرنے کیلئے جو فلسفیانہ دلائل دیئے وہ غالباً سب سے زیادہ وضاحت کے ساتھ اس نے اپنی کتاب بعنوان کتاب اثبات علم النجوم‘‘ میں بیان کئے گئے تھے۔ یہ کتاب اب ناپید ہو چکی ہے۔ اس موضوع پر مزید تفصیل اس کی ایک اور تصنیف ''کتاب الدغل الکبیر‘‘ کے پہلے مقالہ میں ملتی ہے۔ یہ کتاب اس نے 950-849ء میں لکھی تھی۔
حرانیوں کے مذہبی نقطہ نظر میں گویا ارسطو ہی کی طبیعی کائنات مانی جاتی ہے جس میں چار ایمپیڈو کلیزی عناصر زیر قمری دنیا تک محدود ہیں جبکہ فلکی کُرے پانچویں عنصر پر مشتمل ہیں۔ نجوم کے عام نقطہ نظر کا تعلق کسی حد تک افلاکی اجسام، چاروں، ایمپیڈو کلیزی عناصر اور مختلف متضاد فیثا غورثی اسامیوں کی ایک منظم مطابقت سے ہے۔ تاہم اس کے عمل کا زیادہ تر انحصار سیاروں، بروجی علامات اور Decansوغیرہ کے خود ساختہ روابط پر ہے۔ نیز اس میں آدمی کے رویہ کے متعین کرنے کے نفسیاتی عوامل کام کرتے ہیں۔
مادی اجسام میں نظر آنے والی خصوصیات و صفات اور پودوں، حیوانوں، جمادات، مچھلیوں وغیرہ کی منتخب اقسام کو کام میں لایا جاتا ہے۔ پہلے حرانیوں نے اور پھر ابومعشر نے یہ کوشش کی کہ وہ ان خود ساختہ روابط کو جو علم نجوم میں افلاکی اور زیر قمری دنیائوں کے درمیان مانے جاتے ہیں، سائنسی بنیاد فراہم کرکے معتبر بنائیں۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے ارسطو کی طبیعیات کی ایک مخصوص توجیہہ کرکے پورے علم نجوم کو نئی شکل دی۔ اس توجیہہ کی رو سے ادنیٰ کروں پر اعلیٰ کروں کے اثرات ان ہی کی حرکت تک محدود نہیں بلکہ زمینی اجسام میں سے ہر ایک جسم کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ حرکت تک محدود نہیں بلکہ زمینی اجسام میں سے ہر ایک جسم کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ مخصوص افلاکی اجسام ان کو متحرک کر سیں۔ اسی طرح ہر آسمانی جسم کے اندر اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ مخصوص زمینی اجسام کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یہ اثر پذیری تفصیلات کی متقاضی ہے، لیکن یہاں مختصر آیہی کہا جا سکتا ہے کہ ابو معشر کی کتاب '' المدغل الکبیر‘‘ میں اس نئے نظریہ کی ترقی یافتہ شکل نے پہلے سے معروف نجوم کے اعتقادات کوتقویت دی۔