غزہ: دنیا کی سب سے بڑی انسانی جیل
گزشتہ برس 26 جنوری کو اسرائیلی فورس نے ویسٹ بنک کے علاقے پر چھاپہ مار کر 9فلسطینیوں کو شہید کر دیا تھا، جن میں اسلامی جہاد کے علاوہ عام شہری بھی شامل تھے۔ اس واقعہ کے جواب میں فلسطینی عسکریت پسندوں نے فلسطینی علاقوں پر دو راکٹ فائر کئے جس میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ اسی سال 7 اکتوبر کو فلسطین کی طرف سے اسرائیلی علاقوں پر اچانک حملہ کر دیا گیا۔ اسرائیلی آبادیوں پر راکٹ فائر کئے گئے۔ جس کے جواب میں اسرائیلی افواج نے غزہ پر جوابی حملہ کیا۔ جس کے نتیجے میں اب تک ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ زخمی اور بے گھر افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
غزہ دنیا میں انسانی تاریخ کی سب سے بڑی جیل سمجھی جاتی ہے کیونکہ 41 کلو میٹر لمبا اور تقریباً 12 کلومیٹر چوڑا، 365 سکوائر کلومیٹر پر مشتمل علاقے غزہ کے تین اطراف اسرائیل کی طرف سے کنکریٹ کی بلند دیوار کا حصار بنایا گیا ہے جبکہ ایک طرف کھلا سمندر ہے۔ غزہ کے اردگر کنکریٹ کی بنی دیوار کو سکیورٹی کے حوالے سے دنیا کی سب سے محفوظ ترین حصار سمجھا جا تا ہے۔ اس دیوار کی سکیورٹی کیلئے نصب کئے گئے آلات اتنے حساس ہیں کہ زمین پر چیونٹی کے رینگنے سے بھی حرکت میں آجاتے ہیں۔ اس وقت غزہ کی آبادی تقریباً 24 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔
1948 ء میں عرب اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی جنگ میںغزہ کا علاقہ بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کیلئے پناہ گاہ بن گیا۔ 1948ء میں یہ علاقہ مصر کے زیر انتظام تھا۔اسرائیل نے مصر کے زیر انتظام غزہ کی پٹی کے خلاف4 جنگیں لڑیں، 1948ء کی فلسطین جنگ، 1949-1956ء کے سرحدی حملے، سویز بحران کے دوران غزہ پر پہلا قبضہ اور 1967ء میں غزہ پر قبضے کے بعد اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان ایک بڑا تنازع شروع ہواجس میں 523 فلسطینی شہید ہوئے۔ 1993ء کے اوسلو معاہدے کے بعد اس خطے میں کچھ عرصہ امن رہا ۔ لیکن 2000 ء میں یہ خطہ ایک مرتبہ پھر میدان جنگ بن گیا اور 2005ء تک 3 ہزار کے قریب فلسطینیوں کو شہید ہوچکے تھے۔ 2005ء میں اسرائیل نے جنگ بندی کرتے ہوئے غزہ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ 2006 ء میں غزہ میں ہونے والے انتخابات میں حماس نے کامیابی حاصل کی اور غزہ کا کنٹرول سنبھال لیا۔
جب غزہ کے علاقے میں حماس نے کنٹرول سنبھالا تو اسرائیل نے غزہ کی پٹی کی زمینی، ہوائی اور سمندری ناکہ بندی کر دی اور اسے ''اوپن ایئر جیل‘‘ میں تبدیل کر دیا۔ اسرائیل کے اس اقدام کی دنیا بھر میں شدید مذمت کی گئی، جبکہ اسرائیل نے اپنے اس اقدام کی یہ توجیہی پیش کی کہ فلسطینیوں کے راکٹ حملوں کو روکنے کیلئے اپنے دفاع میں یہ اقدام ضروری تھا جبکہ حماس نے اسرائیل کی اس حرکت کو اعلان جنگ سمجھا۔ 2008ء 2009 ء میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں ایک ہزار سے زیادہ شہادتیں ہوئیں اور گھروں، سکولوں اور ہسپتالوں کی وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی۔ 2012ء کے ایک اسرائیلی آپریشن میں بھی 100 سے زائد افراد شہید ہوئے۔
2014ء میں، اسرائیل نے ایک بڑی جنگ کا آغاز کرتے ہوئے غزہ پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 73 اسرائیلی فوجی جہنم واصل جبکہ 2,251 فلسطینی جن میں زیادہ تر معصوم شہری شامل تھے شہید ہوگئے۔ اس حملے کے نتیجے میں شدید تباہی ہوئی، جس سے غزہ شہر میں 25 فیصد اور بیت حنون میں 70 شہری آباد ی کو نقصان پہنچا۔ 2014ء کے بعد 2018 ء اور 2019 ء میں ہونے والی جھڑپیں شامل تھیں۔ 2021ء میں اسرائیل کی طرف سے کی جانے والی جارحیت میں 256 فلسطینی شہید اور 15 اسرائیلی ہلاک ہوئے۔
15 اپریل2021ء کو حماس کی طرف سے جنوبی اسرائیل پر راکٹ فائر کیے جانے کے بعد اسرائیلی فوج نے غزہ میں فوجی علاقوں میں حملے کیے ۔حماس نے اسرائیل سے 10 مئی شام 6 بجے تک مسجد اقصیٰ سے اپنی افواج کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ڈیڈ لائن گزرنے کے چند منٹ بعد، حماس نے غزہ سے اسرائیل پر 150 سے زیادہ راکٹ داغے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے اسی دن غزہ کی پٹی میں فضائی حملے شروع کر دیے۔
5 اگست 2022ء کو اسرائیل نے غزہ پر فضائی حملے شروع کیے ان حملوں سے 4 دن پہلے مغربی کنارے میں ایک سینئر فلسطینی اسلامی جہاد عسکریت پسند کو انتقامی کارروائی کے خدشے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔
اپریل 2023ء کی الاقصی جھڑپوں کے بعد، فلسطینی عسکریت پسند گروپوں نے غزہ کی پٹی اور لبنان سے اسرائیل پر راکٹ داغے۔
9 مئی 2023ء کو اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر فضائی حملوں کا ایک سلسلہ چلایا، جسے ''آپریشن شیلڈ ‘‘اور ''تیر‘‘ کہا جاتا ہے۔ فلسطینیوں نے اسرائیل کے خلاف راکٹ حملے شروع کیے اور یہ حملے 13 مئی 2023ء میںہونے والے جنگ بندی کے اعلان تک جاری رہے۔
7 اکتوبر 2023ء کو فلسطینی عسکریت پسند گروپوں، خاص طور پر حماس اور فلسطینی اسلامی جہاد نے، دوسرے گروپوں جیسے پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کے ساتھ، غزہ کی پٹی سے اسرائیل پر ایک بڑا حملہ کیا۔ جس میں راکٹ بیراج اور سرحد پار سے اسرائیلی کمیونٹیز اور فورسز پر گاڑیوں کے ذریعے کیے جانے والے حملے شامل تھے، جس سے بہت سے لوگ ہلاک ہوئے۔ اس کے جواب میں اسرائیل کی حکومت نے ہنگامی حالت اور جنگ کا اعلان کر دیا۔ اسرائیلی فوج نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے غزہ پر ایک وسیع فضائی بمباری کی مہم چلائی جس کے بعد حملہ کیا گیا۔
اس جنگ کو 2008 ء اور 2009ء کی غزہ جنگ کے بعد غزہ کا سب سے بڑا، سب سے تباہ کن اور مہلک ترین تنازعہ سمجھا جاتا ہے اور 1973ء کی یوم کپور جنگ کے بعد اسرائیل کی سب سے مہلک جنگ ہے۔