عقاب:پرندوں کا بادشاہ
![عقاب:پرندوں کا بادشاہ](https://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/27327_38067557.jpg)
اسپیشل فیچر
عقاب پرندوں میں سب سے بڑا شکاری پرندہ سمجھا جاتا ہے۔یہ ان چند پرندوں میں شامل ہے جنہیں قدرت نے ان گنت صفات سے مالا مال کر رکھا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ عقاب کو دنیا بھر میں پرندوں کا بادشاہ اور بادشاہوں کا (پسندیدہ ) کا پرندہ کہا جاتا ہے۔
آئیے!آج آپ کو پرندوں کے اس بادشاہ کے تین دلچسپ پہلوؤں بارے بتاتے ہیں۔
عقاب ایک روحانی پرندہ
''مااوچی کپوتا‘‘ امریکہ کی ریاست کولوراڈو کا ایک قدیم قبیلہ ہے۔جس کے روحانی سربراہ اور رابطہ کار ہینلے فراسٹ ہیں۔یہ قبیلہ ''ریڈ انڈین‘‘قبائل پر مشتمل ہے۔ ہینلے فراسٹ ان بہت سارے قبائلی عمائدین میں سے ایک ہیں جو اپنے قبیلے کی مذہبی رسومات کی ادائیگی میں پیش پیش رہتے ہیں۔''ما اوچی کپوتا‘‘ قبیلے کے لوگ صدیوں سے عقاب کو نہ صرف مقدس جانتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک عقاب کی روحانی اہمیت ایک مسلمہ حقیقت کے مترادف سمجھی جاتی ہے۔اس قبیلے کے ماننے والوں کا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ عقاب ایک مقدس پرندہ ہی نہیں بلکہ ایک عظیم روحانی طاقت کا مالک بھی ہے۔ہمارا پختہ یقین ہے کہ عقاب چونکہ بلندیوں تک پرواز کر سکتا ہے اس لئے ہماری دعائیں جنت تک پہنچانے کی یہ پوری پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ بہت دور تک دیکھنے کی قوت کا حامل پرندہ ہے جبکہ اس کے پر اور پنکھ اس پرندے کو کہیں بھی لے جا سکتے ہیں جہاں یہ جانا چاہے۔
''ما اوچی‘‘ قبیلے کے روحانی سربراہ ہینلے فراسٹ کا کہنا ہے کہ عقاب کے پر (پنکھ ) بابرکت ہوتے ہیں اسی لئے قدرت نے ان کے اندر بیماروں کیلئے شفا رکھی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس کی ہڈیوں سے ایک مخصوص قسم کی سیٹی بنائی جاتی ہے جو مختلف مذہبی رسومات میں استعمال ہوتی ہے۔
عقاب کی اہمیت امریکہ کے کچھ مخصوص قبائل ہی میں نہیں بلکہ عقاب کو امریکہ کے قومی پرندے کا درجہ بھی حاصل ہے۔ امریکہ میں اس پرندے کی بھلا اس سے بڑھ کر اہمیت اور کیا ہوگی کہ یہ امریکہ کی آزادی کی علامت کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ اس کی شبیہ نہ صرف امریکی فوج کے جھنڈوں پر موجود ہے بلکہ امریکی کرنسی ڈالر پر بھی اس پرندے کی تصویر کو نمایاں کیا گیا ہے۔
یہ حقیقت شاید بہت کم لوگوں کے علم میں ہوگی کہ امریکہ میں لوگوں کیلئے عقاب زندہ یا مردہ حالت میں رکھنا یا اسے تکلیف پہنچانا غیر قانونی عمل گردانا جاتا ہے۔ چنانچہ اس جانور کی بقاء کیلئے امریکہ میں 1940ء سے ''بالڈ اینڈ گولڈن ایگل پروٹیکشن ایکٹ‘‘ کے نفاذکے بعد کسی عقاب کے جسم سے علیحدہ ہو جانے والا پر یا پنکھ کو اٹھانا بھی خلاف قانون ہے (سوائے چند مخصوص مقامات کے جہاں اس قانون میں نرمی ہے)۔
یہاں امریکی حکومت کیلئے اس قانون کے نفاذ پر سختی سے عمل کرانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی تھا کیونکہ بیشتر امریکی ریاستوں میں صدیوں سے آباد مقامی امریکیوں بالخصوص الاسکا کے باسیوں کیلئے عقاب ایک مقدس اور روحانی پرندے کا درجہ رکھتا ہے۔ جبکہ بیشتر قبائل کی مذہبی اور روحانی تقاریب اور رسومات کی ادائیگی عقاب کے پر اور اس کے جسم کے مختلف حصوں کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی۔ اس مسئلہ کے حل کیلئے امریکی حکومت نے 1970ء میں ''یو ایس فش اینڈ وائلڈ لائف سروس‘‘ کے زیر نگرانی ''نیشنل ایگل ریپوزیٹری‘‘ نامی ایک ادارہ قائم کیا تھا جس کا کام ملک بھر سے روزانہ کی بنیاد پر تیس سے چالیس مردہ عقاب اکٹھے کر کے ضروری چھان بین کے بعد ملک کے 573 وفاقی مراکز میں بالحاظ طلب تقسیم کرنا ہوتا ہے۔ یہاں یہ امر باعث اطمینان ہے کہ 1994ء میں اس ادارے کی فعالیت میں اس وقت اور اضافہ ہو گیا جب اس وقت کے صدر بل کلنٹن نے ایک میمورنڈم کی منظوری دی جس کے تحت تمام مرے ہوئے عقابوں کو مذکورہ مرکز میں پہنچانا قانوناً لازمی قرار دے دیا گیا تھا۔
عقابوں کی منصفانہ تقسیم کیلئے مذکورہ ادارے کی جانب سے مقامی قبائلیوں سے درخواستیں طلب کی جاتی ہیں جس میں درخواست گزار کا وفاق سے بحیثیت منظور شدہ قبیلے کا رکن ہونا ضروری ہونے کے ساتھ ساتھ 18 سال عمر سے زائد ہونا بنیادی شرط ہے۔ مذکورہ ادارے کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ انہیں اس مقصد کیلئے ہر ماہ پانچ سو کے لگ بھگ درخواستیں وصول ہوتی ہیں۔ جس کا مقصد مقامی امریکی قبائلیوں کی مذہبی رسومات کی تکمیل میں مدد فراہم کرنا ہوتا ہے۔ ادارے کے رکن نے مزید بتایا کہ ہر رکن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ پورا عقاب یا اس کا کوئی مخصوص حصہ کسی بھی مخصوص عمر اور قسم کے ساتھ طلب کر سکتا ہے۔
پاسپورٹ ہولڈر عقاب
عقابوں کی غیر معمولی اہمیت کا ذکر چھڑا ہے تو آپ کے ساتھ عقابوں کی ایک دلچسپ خبر شئیر کرتے چلیں۔آ ج سے لگ بھگ سات سال قبل عقابوں بارے سوشل میڈیا پر ایک دلچسپ اور عجیب و غریب تصویر وائرل ہوئی تھی جس میں 80 کے قریب عقابوں کو ایک طیارے کی اکانومی کلاس میں درمیان کی نشستوں پر بیٹھا دکھایا گیاتھا۔جہاز کی کھڑکیوں والی چند سیٹوں پر عربی لباس پہنے چند خدمت گار بھی نظر آرہے تھے۔تصویر بھیجنے والے نے بغیر کسی وضاحت کے صرف اتنا لکھا تھا کہ اسے یہ تصویر ایک ہوائی جہاز کے کیپٹن کے ایک دوست نے بھجوائی ہے۔
جہاں تک جانوروں کے پبلک طیاروں میں سفر کرنے کا معاملہ ہے تو کچھ ہوائی کمپنیاں مسافروں کے ساتھ ساتھ جانوروں خصوصاً پالتو پرندوں کو سفر کرنے کی اجازت دیتی ہیں مگر اس کیلئے خصوصی جنگلے یا پنجرے بنے ہوتے ہیں جو مسافروں سے الگ تھلگ جگہ پر رکھے جاتے ہیں۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ بعض ہوائی کمپنیاں محدود حد تک مسافروں کے کیبن میں پرندوں کو بٹھانے کی اجازت دیتی ہیں، جن میں قطر ائیر لائنز بھی شامل ہے۔ اسی طرح اتحاد ایئر لائنز عقاب کو ضروری دستا ویزات کے ساتھ مسافر کیبن میں دبئی سے پاکستان تک بیٹھنے کی اجازت دیتی ہے۔ جرمنی کی ایئر لائنز لوفتھینزا اور برطانوی ایئر لائنز برٹش ایئر ویز بھی چند شرائط کے ساتھ عقابوں کو مسافر کیبن میں بیٹھنے کی اجازت دیتی ہیں۔
ہوائی جہازوں میں سفر کرنے والے عقابوں کو بیشتر ممالک خصوصی پاسپورٹ جاری کرتے ہیں۔ خلیجی ممالک کیلئے پاکستان کے میدان بہترین شکار گاہوں کا درجہ رکھتے ہیں اس لئے زیادہ تر پاسپورٹ عقابوں کو ہر سال خلیجی ممالک کی حکومتیں جن میں دبئی سرفہرست ہے، جاری کرتے ہیں۔
ٹریکر لگے عقاب
سائبیریا کسی دور میں عقابوں کا پسندیدہ علاقہ ہوا کرتا تھا لیکن جب روس اور وسطی ایشیائی ممالک میں کچھ وجوہات کی وجہ سے عقاب کی نسل معدومیت کے خطرے سے دو چار ہونے لگی تو روس کے جنگلی حیات کے تحفظ کے ادارے '' وائیلڈ اینیمل ری ہیب سینٹر ‘‘ نے سائبیریا کے '' مِن‘‘نامی ایک عقاب کا تحقیق کیلئے انتخاب کیا۔جس کے جسم پر ٹرانسمیٹر لگا کر اسے آزاد کر دیا گیا تاکہ اس ٹرانسمیٹر کی مدد سے بذریعہ ایس ایم ایس اس خصوصی ٹیم کو یہ معلوم ہوتا رہے کہ یہ پرندہ اس وقت کہاں پہنچا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ٹیم کوسیٹلائٹ کے ذریعے یہ بھی پتہ چلتا رہے کہ آیا یہ پرندہ محو پرواز ہے یا کسی محفوظ مقام پر پہنچ چکا ہے یا خطرے کی حالت میں ہے۔
اس عقاب نے اپنے سفر کا آغاز جنوبی روس اور پھر قازقستان سے کیا تھا۔اس تحقیقاتی ٹیم کو اس وقت مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑ گیا جب قازقستان کے بعد یک دم '' مِن‘‘نے پیغام بھیجنا بند کر دئیے۔وجہ اس کی یہ تھی کہ یہ نیٹ ورک کی رینج سے باہر جا چکا تھا۔تحقیقاتی ٹیم کو اس وقت حیرت ہوئی جب ''مِن‘‘ ان کی توقعات کے برعکس ایران کی حدود میں داخل ہوا تو اس کے ٹرانسمیٹر کا رابطہ نیٹ ورک کے ساتھ بحال ہوا اور یوں رکے ہوئے پیغامات دھڑا دھڑ انہیں موصول ہونا شروع ہو گئے۔
اس تحقیقاتی ٹیم کو ایک مشکل صورت حال کا اس وقت سامنا کرنا پڑا جب مالی مشکلات کے سبب عقابوں پر نصب ٹرانسمیٹرز کی وجہ سے ٹیم کو ڈیٹارومنگ چارجز کی مد میں بھاری رقم ادا کرنا پڑ گئی۔ کیونکہ قازقستان سے روس آنے والے ایک ایس ایم ایس کی قیمت پاکستانی کرنسی کے مطابق 36 روپے کے برابر تھی جبکہ یہی ایس ایم ایس ایران کے ذریعے آنے سے فی پیغام پاکستانی کرنسی کے ایک سو بیس روپوں کے برابر تھی۔
چنانچہ اپنے محدود وسائل کی وجہ سے اس تحقیقاتی ٹیم کو سوشل میڈیا پر ''عقاب کا موبائل ٹاپ اپ کیجئے‘‘کے نام سے ایک مہم کاآغاز کرنا پڑا جس کے نتیجے میں اس ٹیم نے وصول شدہ عطیات کی وجہ سے باآسانی موبائل کمپنی کا 1223 پاؤنڈ کا بل ادا کر دیا۔