عظیم مسلم سائنسدان ابن قتیبہ :ماہر لسانیات اور لغت نویس
![عظیم مسلم سائنسدان ابن قتیبہ :ماہر لسانیات اور لغت نویس](https://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/27362_47703914.jpg)
اسپیشل فیچر
ابن قتیبہ ماہر لسانیات اور لغت نویس زیادہ اور سائنس دان کم لگتا ہے۔ ادبی روایت میں اسے بغداد کے دبستان نحوی کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ در حقیقت وہ اپنے معاصرین ابو حنیفہ الدینوری اور الجاحظ کی طرح متداولہ علوم پر گہری نظر رکھتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس لغوی اور شاعرانہ مواد کو جسے بالخصوص کوفے کے نحویوں نے جمع کیا تھا اس انداز سے مرتب کرے کہ اس میں تمام تاریخی معلومات آ جائیں تو ایسی لغت ان تمام کاروباری لوگوں بالخصوص کاتب حضرات کی ضروریات کو بھی پورا کرے جو اس زمانے میں حکومتی معاملات میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کے آرزومند تھے۔
ابو محمد عبداللہ بن مسلم الدینوری الجبلی المعروف ابن قتیبہ828ء کو پیدا ہوئے اور بغداد میں 884ء یا 889ء میں انتقال کر گئے۔ ان کے آبائو اجداد مرو( جس کو اب بیرم علی کہتے ہیں) سے تعلق رکھتے تھے، جس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ وہ ایرانی یا ترکی النسل ہوں گے ، لیکن وہ اپنی تحریروں میں اکثر مقامات پر عربوں کے حق میں پرزور دلائل دیتے ہیں اور ایرانیوں پر ان کی فوقیت ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔
لسانیات اور تاریخ پر ان کی اہم کتابوں میں سے ''کتاب الانواع‘‘ نمایاں ہے، جو فلکیاتی تاریخ کے علم کے لحاظ سے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ قدیم عربی ماہرین لغت و لسانیات کے بہت سے رسائل اور مقالات میں سے ''کتاب الانواع‘‘ کو بلند مقام حاصل ہے۔ ایک اعتبار سے یہ اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے۔ ''انواع‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور یہ لفظ ''نوع‘‘ کی جمع ہے۔ لفظ ''نوع‘‘ خود ایک لفظ''ناء‘‘ کا اسم مصدر ہے۔ یہاں اس سے مراد کچھ ستاروں کے جھرمٹ میں سے ستاروں کا اور قمر منازل کا غروب ہونا ہے، جبکہ اس کے برعکس ایک دوسرے معنوں میں اس سے مراد شمس و نحوم کا طلوع ہونا بھی ہے۔ اس طریقے سے موسموں،اہم واقعات اور زراعتی سرگرمیوں کی تاریخیں معلوم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ طریقہ قبل از سائنسی دور میں بھی استعمال ہوتا تھا۔
''کتاب الانواع‘‘ جیسی کتابوں کو دو قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اہم ترین قسم ایسی کتابوں پر مشتمل ہے، جس میں فلکی اور موسمیاتی عوامل پر عربی زبان کا دو تمام علم اور معلومات جمع کی گئی ہیں جو قدیم ذرائع مثلاً لوک داستانوں، شاعری اور ادب میں موجود تھیں۔ اس میںایسی سائنسی کتابیں شامل نہیں جو ترجمے کے ذریعے دوسری تہذیبوں مثلاً ہندوستانی یا ایرانی ذرائع سے لی گئی تھیں۔ اس قسم کی کتابوں کے بیس سے زائد مصنفین گنوائے جاتے ہیں لیکن ان میں سے کسی کی بھی کتاب کا قلمی نسخہ اب موجود نہیں۔ البتہ ان میں سے چند ایک غیر اہم سے کتابوں کے کچھ حصے چھپی ہوئی حالت میں ملتے ہیں جو یہ ہیں۔
(1)کتاب الازمنہ، جو قطرب (821-22ء) کی لکھی ہوئی ہے اور اسے جزوی طور پررسالے Revue de laeademie de damab،جلد دوم حصہ اول، بابت جنوری 1922ء میں مرتب کرکے شائع کرایا گیا۔
(2)حکیم ابن ماسویہ (متوفی 857ء کی لکھی ہوئی ایک اور ''کتاب الازمنہ‘‘ جسے پال سباتھ نے اپنی کتاب Bulletin de institut d,egypt (جلد15بابت 1933ء ) میں شامل کیا۔ اس کا فرانسیسی ترجمہ جی ٹروپونے Arabioa(جلد 15، بابت1968ء صفحہ142-113) میں شائع کرایا۔
(3) المرزوقی ( متوفی 1030ء) کی ''کتاب الازمنہ والا کمنہ‘‘ جو 1914ء میں حیدر آباد دکن سے دو جلدوں میں شائع ہوئی۔
(4)تیرہویں صدی عیسوی کے ابن الاجدابی کی ''کتاب الازمنہ والانواع‘‘ جسے عزت حسین نے ''سلسلہ احیاء التراث القدیم‘‘ میں دمشق سے 1964ء میں شائع کرایا۔ عربی ذرائع سے تیار ہونے والی کتاب کا سہرا ابو حنیفہ الدینوری (متوفی 895ء) کے سر ہے۔ یہ اپنے وقت کا بہت بڑا تاریخ دان اور ماہر لسانیات تھا۔ بدقسمتی سے اس کی مکمل کتاب کہیں بھی نہیں ملتی، سوائے اقتباسات اور عبارات کے، جو لغت کی کچھ کتابوں مثلاً ابن سیدہ(متوفی 1066ء) کی کتاب ، مخصص‘‘(مطبوعہ قاہرہ،1901ء) میں اور المرزوقی کی ''کتاب الازمنہ والا مکنہ‘‘ میں پائے جاتے ہیں۔ موخر الذکر دونوں کتابیں اس لئے بھی اہم ہیں کہ یہ مکمل طور پر اپنی اصلی حالت میں شائع شدہ ملتی ہیں۔
نواع کے موضوع پر دوسری قسم کی کتابیں ایک کیلنڈر یا جنتری کی طرز پر لکھی گئی ہیں جن میں کسانوں اور چرواہوں کے لحاظ سے اہمیت رکھنے والے ایام کو ترتیب وار دیا گیا ہے۔ اس قسم کی ایک کتاب جو 961ء کیلئے تیار کی گئی تھی، قرن وسطیٰ کے لاطینی ترجمے کی شکل میں محفوظ ہے۔
چونکہ ابن قتیبہ، ابو حنیفہ الدینوری کا ہم عصر تھا جس کی کتاب کتاب''الانواع‘‘ آفاقی شہرت حاصل کر چکی تھی، اس لئے اس الزام کا فیصلہ کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے جو وقتاً فوقتاً ابن قتیبہ پر لگایا جاتا ہے کہ اس نے ابو حنیفہ کی کتاب میں سے اکثر یا کم و بیش اقتباسات لئے ہیں۔ مزید یہ کہ اگر انواع کی ان دوسری کتابوں جو لغت اور سائنس کے موضوع پر بکھری پڑی ہیں مثلاً الصوفی کی کتاب صورالکواکب‘‘ کے اقتباسات اور عبارات کا باہم تقابل کرا کے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ابن قتیبہ کی انواع اس قسم کی دوسری تمام کتابوں سے کسی بھی لحاظ سے مختلف نہیں۔ ابن قتیبہ کی یہ کتاب جس کے مخطوطات کا کسی بھی زبان میں کبھی ترجمہ نہیں ہوا، عربی زبان میں لکھی ہوئی ملتی ہے۔
تمام معلومات جو ابن قتیبہ فراہم کرتا ہے، کسی سائنسی تحقیق کا نتیجہ نہیں اور نہ ہی ان معلومات کو جمع کرنے کیلئے کوئی سائنسی طریقہ اختیار کیا گیا تھا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کتاب محض یہ بتاتی ہے کہ آٹھویں صدی عیسوی کے دوسرے نصف سے قبل کے عربوں کے پاس آسمان اور ستاروں اور ان سے متعلق مظاہر (فرضی یا حقیقی) کے بارے میں عوامی ادب کی صورت میں کیا کچھ موجود ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی کے پہلے نصف کے بعد عربوں کے ادب پر فلکیات اور علم نجوم پر دوسری زبانوںمیں لکھی ہوئی کتابوں کے ترجمے کے ذریعے سائنسی طریقہ کار کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے۔