رائٹ برادرز جنہوں نے بارہ سیکنڈ میں تاریخ کا رخ بدل دیا
![رائٹ برادرز جنہوں نے بارہ سیکنڈ میں تاریخ کا رخ بدل دیا](https://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/27363_87785041.jpg)
اسپیشل فیچر
1878ء میں ایک پادری جو کسی مذہبی کام کے سبب سفر کر رہا تھا اس نے اپنے دو لڑکوں کیلئے ایک مشینی کھلونا خرید لیا۔ جب وہ گھر واپس آیا تو اس کے لڑکے اسے ملنے کی خاطر بھاگے۔ لڑکوں کو دیکھ کر اس نے کہا ''بیٹو! میں تمہارے لئے ایک چیز لایا ہوں، لو اسے کیچ کرو‘‘ اور اس نے ایک چیز ان کی طرف پھینک دی مگر اس چیز نے لڑکوں کی سمت میں جانے کے بجائے ایک ناقابل یقین بات کی، وہ چھت کی سمت اڑنے لگی اور چند لمحے پھڑ پھڑا کر فرش پر گر پڑی۔ لڑکے حیرت سے پھٹی آنکھوں سے اسے پکڑنے کیلئے بھاگے۔
وہ ایک اڑنے والا مشینی کھلونا تھا جو بانس اور کاغذ کا بنا ہوا تھا۔ اس کھلونے نے ان لڑکوں میں پرواز کرنے کا ایک ایسا شوق پیدا کر دیا جو ایک ایسی اڑن مشین کی ایجاد کا سبب بنا جس نے ہم سب کی زندگیوں پر گہرا اثر کیا ہے۔ ہزاروں برس پہلے بارود کی ایجاد کے سوا کسی دوسری ایجاد نے انسانی معاشرت کو اس قدر تبدیل نہیں کیا۔ان لڑکوں کا نام ولبررائٹ اور اورول رائٹ تھا۔
وہ لڑکے اس اڑن کھلونے سے اتنی دیر تک کھیلتے رہے جب تک کہ وہ ٹوٹ نہ گیا۔ چونکہ ان کے پاس دوسرا کھلونا خریدنے کیلئے پیسے نہ تھے لہٰذا انہوں نے خود ہی اس قسم کا کھلونا بنا لیا۔ بعد میں انہوں نے پتنگیں۔ اس وقت سے رائٹ برادران کے دل میں اڑنے کی خواہش کروٹیں لینے لگی۔
ایک دن اخبار میں انہوں نے برلن کے ایک انجینئر اوٹولینن تھال کی خبر پڑھی جو پرواز کرنے کی کوشش میں ہلاک ہو گیا تھا۔ اس خبر نے انہیں بے حد متاثر کیا۔ یہ شخص یعنی تھال کئی برس سے اپنے دونوں شانوں سے بڑے بڑے پر باندھ کر ایک پہاڑی سے نیچے کی جانب اڑا کرتا تھا ۔یہ خبر ان بھائیوں کی زندگی میں کایا پلٹ ثابت ہوئی۔ کیونکہ لینن تھال نے ثابت کر دیا تھا کہ ایک عقاب کی طرح انسان ہوا کے دوش پر اڑ سکتا ہے۔ ولبر رائٹ اور اورول رائٹ کو ایک ایسا خیال سوجھ گیا تھا جو جلد ہی ان کی زندگی کی قوت متحرکہ بن گیا۔ انہوں نے واشنگٹن میں سمتھ سونٹن ادارے کو خط لکھا اور اس سے ان تمام مضامین کی فہرست منگوالی جو انسانی پرواز کے بارے میں لکھے گئے تھے‘‘۔چار برس کے مطالعے کے بعد انہوں نے دھات کا ایک پتنگ نما صندوق بنانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کبھی کوئی ایسی مشین بنانے کا خواب نہ دیکھا تھا جو زبان و مکان کے تصور اور دنیا کے جغرافیے میں انقلاب بپا کر دے گی۔ لیکن ان کی ایجاد نے ہو بہو یہی کچھ کیا کیونکہ ہوائی جہاز کے ذریعے اب ہم دنیا کے دوسرے کنارے تک فقط ساٹھ گھنٹوں میں پہنچ سکتے ہیں۔
کیا رائٹ برادران خود کو سائنس دان یا موجد تصور کرتے تھے؟ ہرگز نہیں۔ جس طرح دوسرے لوگ اپنے فالتو وقت کیلئے کوئی نہ کوئی مشغلہ اختیار کر لیتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے ہوا میں پرواز کرنے کامشغلہ اپنا رکھا تھا۔ چونکہ انہیں اپنی روزی بھی خود ہی کمانی تھی۔ لہٰذا انہوں نے ڈے ٹون (اوہیو) میں سائیکلوں کی فروخت اور مرمت کی ایک دکان کھول رکھی تھی۔ رات کے وقت دکان بند کرنے کے بعد وہ ہوا میں پرواز کرنے کے تجربے میں مصروف ہو جاتے۔
ان کے پہلے پتنگ نما صندوق پر تین پونڈ صرف ہوئے۔ اس کے اوپر دو بازو تھے جو ایک دوسرے کے اوپر تھے۔ اس کا کوئی جسم اور کوئی دم نہ تھی اور نہ ہی اس میں کسی قسم کا انجن تھا۔رائٹ برادران نے اس پتنگ نما صندوق میں اڑنے کی کوشش کی ۔ انہیں موسمیات کے دفتر سے پتہ چل گیا کہ شمالی کیلی فورنیا میں کل ڈیول ہل جگہ اڑنے کیلئے بہترین ثابت ہوگی۔ وہاں پر وقت سمندر کی سمت سے تیز ہوا چلتی رہتی ہے اور ساحل کی ریت بھی بہت نرم ہے۔ پہاڑی پر سے جب وہ اپنے پتنگ نما صندوق میں بیٹھ کر نیچے آئے تو انہیں کوئی حادثہ پیش نہ آیامگر وہ چند سکنڈ سے زیادہ ہوا میں نہ ٹھہر سکے۔ اگلے برس انہوں نے پہلے کی نسبت بہتر اور بڑا صندوق بنایا۔ اس مرتبہ بھی نتائج کچھ حوصلہ افزا نہ تھے۔
ممکن ہے آج ہوائی جہاز ایجاد نہ ہوا ہوتا اگر ایک انجینئر ان کی حوصلہ افزائی نہ کرتا۔ اس انجینئر کا نام اکٹیوچنیوٹ تھا اور اس نے اڑن مشینوں میں ترقی نامی ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ اس کتاب نے اسے ہوائی پرواز پر ایک اتھارٹی بنا دیا تھا۔ رائٹ برادران کی پرواز کے وقت وہ بھی وہاں موجود تھا۔ انہوں نے دوری کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے اور وہ دنیا کے دو کامیاب ترین پرواز کرنے والے تھے۔
انہوں نے لکڑی کا اٹھارہ انچ لمبا ایک صندوق لیا اور اس کا منہ دو طرف سے کھول دیا اور اس کے ایک سرے پر ہوا پیدا کرنے کیلئے ایک مشینی پنکھا لگا دیا۔ اس کے صندوق کے منہ پر شیشہ چسپاں کر دیا۔ تاکہ وہ اندر جھانک کر یہ معلوم کر سکے کہ ہوا میں اس چھوٹے سے ہوائی جہاز کے مختلف سائز کے پروں پر کیا اثر کرتی ہے۔ یہ بات اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ وہ دنیا کی پہلی ہوائی سرنگ بنا رہا ہے اور سائیکل بنانے والا ہر شخص کبھی یہ تصور بھی نہ کر سکتا تھا کہ ہوا کے دبائو کے متعلق نامور سائنسدانوں کے جمع کئے ہوئے اعداد و شمار اور نقشوں کو وہ غلط ثابت کر دے گا۔ آرویل رائٹ نے ان ہوائی سرنگوں سے جو علم حاصل کیا اس کی عدم موجودگی میں نہ تو رائٹ برادران اور نہ ہی دنیا کا کوئی دوسرا شخص ہوائی جہاز بنا کر اڑا سکتا۔
رائٹ برادران نے اپنے آخری پتنگ نما صندوق میں بیٹھ کر سینکڑوں کامیاب پروازیں کیں لیکن انہیں اپنے اس اڑن صندوق کیلئے ہر جگہ مناسب ہوا نہ ملتی تھی۔ عموماً ہوا یا تو ہلکی یا پھر زیادہ تیز اور تھپیڑے دار ہوتی۔ آخر تنگ آکر انہوں نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس نے پرواز کے متعلق انسانی جدوجہد کی تاریخ میں انقلاب پیدا کردیا۔ وہ یہ فیصلہ تھا انہوں نے اپنی ہوا بنانے کا فیصلہ کیا کس طرح؟ انہوں نے اپنے جہاز میں پٹرول سے چلنے والا انجن نصب کرنے اور برقی اتاروں کے ذریعے اسے جہاز کے پنکھوں کے ساتھ جوڑنے سے چونکہ کوئی مینوفیکچرز اتنے ہلکے وزن کے انجن نہ بناتاتھا لہٰذا انہوں نے خود ہی رات کے وقفے میں اپنی دکان کے اندر ایسا انجن تیار کیا اس ساری مشینیں اور انجن پر اس کا خرچ 14پونڈ سے کم آیا۔
دس بج کر پینتیس منٹ پر آرویل رائٹ پیٹ کے بل رینگ کر اپنے گرجتے ہوئے طیارے میں سوار ہو گیا پھر اس نے سوئچ آن کر دیا۔ عجیب و غریب مشین کے دہانے میں سے باہر کی سمت شعلے لپکنے لگے۔ ناممکن بات ممکنات میں داخل ہو گئی تھی۔ ہوا سے بھاری مشین واقعی ہوا میں اڑنے لگی اور اس نے 130فٹ کا فاصلہ طے کیا۔ انسانی تاریخ میں وہ نہایت اہم اور پرمعنی واقعہ تھا۔ اس کے باوجود آرویل رائٹ نے تسلیم کیا ہے کہ اس واقعہ نے اس کے جذبات میں کسی قسم کی ہلچل نہ پیدا کی تھی وہ جانتا تھا کہ یہ عجیب و غریب چیز پرواز کرے گیاور ایسا ہو گیا۔
آرویل اور ولبررائٹ کی پہلی پرواز فقط دس سیکنڈ کی تھی لیکن وہ بارہ سیکنڈ آج بھی انسانی تاریخ میں گونج رہے ہیں۔ آخر صدیوں پرانا خواب حقیقت میں بدل گیا تھا۔ آخر انسان زمین کی زنجیریں توڑ کر ستاروں کی طرف پرواز کرنے لگا تھا۔
رائٹ برادران نے اپنے آخری پتنگ نما صندوق میں بیٹھ کر سینکڑوں کامیاب پروازیں کیں لیکن انہیں اپنے اس اڑن صندوق کے لئے ہر جگہ مناسب ہوا نہ ملتی تھی۔ عموماً ہوا یا تو ہلکی یا پھر زیادہ تیز اور تھپیڑے دار ہوتی۔ آخر تنگ آکر انہوں نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس نے پرواز کے متعلق انسانی جدوجہد کی تاریخ میں انقلاب پیدا کردیا۔ وہ یہ فیصلہ تھا انہوں نے اپنی ہوا بنانے کا فیصلہ کیا کس طرح؟ انہوں نے اپنے جہاز میں پٹرول سے چلنے والا انجن نصب کرنے اور برقی اتاروں کے ذریعے اسے جہاز کے پنکھوں کے ساتھ جوڑنے سے چونکہ کوئی مینوفیکچرز اتنے ہلکے وزن کے انجن نہ بناتاتھا لہٰذا انہوں نے خود ہی رات کے وقفے میں اپنی دکان کے اندر ایسا انجن تیار کیا اس ساری مشینیں اور انجن پر اس کا خرچ 14پونڈ سے کم آیا۔
دس بج کر پینتیس منٹ پر آرویل رائٹ پیٹ کے بل رینگ کر اپنے گرجتے ہوئے طیارے میں سوار ہو گیا پھر اس نے سوئچ آن کر دیا۔ عجیب و غریب مشین کے دہانے میں سے باہر کی سمت شعلے لپکنے لگے۔ ناممکن بات ممکنات میں داخل ہو گئی تھی۔ ہوا سے بھاری مشین واقعی ہوا میں اڑنے لگی اور اس نے 130فٹ کا فاصلہ طے کیا۔ انسانی تاریخ میں وہ نہایت اہم اور پرمعنی واقعہ تھا۔ اس کے باوجود آرویل رائٹ نے تسلیم کیا ہے کہ اس واقعہ نے اس کے جذبات میں کسی قسم کی ہلچل نہ پیدا کی تھی وہ جانتا تھا کہ یہ عجیب و غریب چیز پرواز کرے گیاور ایسا ہو گیا۔
آرویل اور ولبررائٹ کی پہلی پرواز فقط دس سیکنڈ کی تھی لیکن وہ بارہ سکنڈ آج بھی انسانی تاریخ میں گونج رہے ہیں۔ آخر صدیوں پرانا خواب حقیقت میں بدل گیا تھا۔ آخر انسان زمین کی زنجیریں توڑ کر ستاروں کی طرف پرواز کرنے لگا تھا۔