رائٹ برادرز جنہوں نے بارہ سیکنڈ میں تاریخ کا رخ بدل دیا

رائٹ برادرز جنہوں نے بارہ سیکنڈ میں تاریخ کا رخ بدل دیا

اسپیشل فیچر

تحریر : محمد سلمان


1878ء میں ایک پادری جو کسی مذہبی کام کے سبب سفر کر رہا تھا اس نے اپنے دو لڑکوں کیلئے ایک مشینی کھلونا خرید لیا۔ جب وہ گھر واپس آیا تو اس کے لڑکے اسے ملنے کی خاطر بھاگے۔ لڑکوں کو دیکھ کر اس نے کہا ''بیٹو! میں تمہارے لئے ایک چیز لایا ہوں، لو اسے کیچ کرو‘‘ اور اس نے ایک چیز ان کی طرف پھینک دی مگر اس چیز نے لڑکوں کی سمت میں جانے کے بجائے ایک ناقابل یقین بات کی، وہ چھت کی سمت اڑنے لگی اور چند لمحے پھڑ پھڑا کر فرش پر گر پڑی۔ لڑکے حیرت سے پھٹی آنکھوں سے اسے پکڑنے کیلئے بھاگے۔
وہ ایک اڑنے والا مشینی کھلونا تھا جو بانس اور کاغذ کا بنا ہوا تھا۔ اس کھلونے نے ان لڑکوں میں پرواز کرنے کا ایک ایسا شوق پیدا کر دیا جو ایک ایسی اڑن مشین کی ایجاد کا سبب بنا جس نے ہم سب کی زندگیوں پر گہرا اثر کیا ہے۔ ہزاروں برس پہلے بارود کی ایجاد کے سوا کسی دوسری ایجاد نے انسانی معاشرت کو اس قدر تبدیل نہیں کیا۔ان لڑکوں کا نام ولبررائٹ اور اورول رائٹ تھا۔
وہ لڑکے اس اڑن کھلونے سے اتنی دیر تک کھیلتے رہے جب تک کہ وہ ٹوٹ نہ گیا۔ چونکہ ان کے پاس دوسرا کھلونا خریدنے کیلئے پیسے نہ تھے لہٰذا انہوں نے خود ہی اس قسم کا کھلونا بنا لیا۔ بعد میں انہوں نے پتنگیں۔ اس وقت سے رائٹ برادران کے دل میں اڑنے کی خواہش کروٹیں لینے لگی۔
ایک دن اخبار میں انہوں نے برلن کے ایک انجینئر اوٹولینن تھال کی خبر پڑھی جو پرواز کرنے کی کوشش میں ہلاک ہو گیا تھا۔ اس خبر نے انہیں بے حد متاثر کیا۔ یہ شخص یعنی تھال کئی برس سے اپنے دونوں شانوں سے بڑے بڑے پر باندھ کر ایک پہاڑی سے نیچے کی جانب اڑا کرتا تھا ۔یہ خبر ان بھائیوں کی زندگی میں کایا پلٹ ثابت ہوئی۔ کیونکہ لینن تھال نے ثابت کر دیا تھا کہ ایک عقاب کی طرح انسان ہوا کے دوش پر اڑ سکتا ہے۔ ولبر رائٹ اور اورول رائٹ کو ایک ایسا خیال سوجھ گیا تھا جو جلد ہی ان کی زندگی کی قوت متحرکہ بن گیا۔ انہوں نے واشنگٹن میں سمتھ سونٹن ادارے کو خط لکھا اور اس سے ان تمام مضامین کی فہرست منگوالی جو انسانی پرواز کے بارے میں لکھے گئے تھے‘‘۔چار برس کے مطالعے کے بعد انہوں نے دھات کا ایک پتنگ نما صندوق بنانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کبھی کوئی ایسی مشین بنانے کا خواب نہ دیکھا تھا جو زبان و مکان کے تصور اور دنیا کے جغرافیے میں انقلاب بپا کر دے گی۔ لیکن ان کی ایجاد نے ہو بہو یہی کچھ کیا کیونکہ ہوائی جہاز کے ذریعے اب ہم دنیا کے دوسرے کنارے تک فقط ساٹھ گھنٹوں میں پہنچ سکتے ہیں۔
کیا رائٹ برادران خود کو سائنس دان یا موجد تصور کرتے تھے؟ ہرگز نہیں۔ جس طرح دوسرے لوگ اپنے فالتو وقت کیلئے کوئی نہ کوئی مشغلہ اختیار کر لیتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے ہوا میں پرواز کرنے کامشغلہ اپنا رکھا تھا۔ چونکہ انہیں اپنی روزی بھی خود ہی کمانی تھی۔ لہٰذا انہوں نے ڈے ٹون (اوہیو) میں سائیکلوں کی فروخت اور مرمت کی ایک دکان کھول رکھی تھی۔ رات کے وقت دکان بند کرنے کے بعد وہ ہوا میں پرواز کرنے کے تجربے میں مصروف ہو جاتے۔
ان کے پہلے پتنگ نما صندوق پر تین پونڈ صرف ہوئے۔ اس کے اوپر دو بازو تھے جو ایک دوسرے کے اوپر تھے۔ اس کا کوئی جسم اور کوئی دم نہ تھی اور نہ ہی اس میں کسی قسم کا انجن تھا۔رائٹ برادران نے اس پتنگ نما صندوق میں اڑنے کی کوشش کی ۔ انہیں موسمیات کے دفتر سے پتہ چل گیا کہ شمالی کیلی فورنیا میں کل ڈیول ہل جگہ اڑنے کیلئے بہترین ثابت ہوگی۔ وہاں پر وقت سمندر کی سمت سے تیز ہوا چلتی رہتی ہے اور ساحل کی ریت بھی بہت نرم ہے۔ پہاڑی پر سے جب وہ اپنے پتنگ نما صندوق میں بیٹھ کر نیچے آئے تو انہیں کوئی حادثہ پیش نہ آیامگر وہ چند سکنڈ سے زیادہ ہوا میں نہ ٹھہر سکے۔ اگلے برس انہوں نے پہلے کی نسبت بہتر اور بڑا صندوق بنایا۔ اس مرتبہ بھی نتائج کچھ حوصلہ افزا نہ تھے۔
ممکن ہے آج ہوائی جہاز ایجاد نہ ہوا ہوتا اگر ایک انجینئر ان کی حوصلہ افزائی نہ کرتا۔ اس انجینئر کا نام اکٹیوچنیوٹ تھا اور اس نے اڑن مشینوں میں ترقی نامی ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ اس کتاب نے اسے ہوائی پرواز پر ایک اتھارٹی بنا دیا تھا۔ رائٹ برادران کی پرواز کے وقت وہ بھی وہاں موجود تھا۔ انہوں نے دوری کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے اور وہ دنیا کے دو کامیاب ترین پرواز کرنے والے تھے۔
انہوں نے لکڑی کا اٹھارہ انچ لمبا ایک صندوق لیا اور اس کا منہ دو طرف سے کھول دیا اور اس کے ایک سرے پر ہوا پیدا کرنے کیلئے ایک مشینی پنکھا لگا دیا۔ اس کے صندوق کے منہ پر شیشہ چسپاں کر دیا۔ تاکہ وہ اندر جھانک کر یہ معلوم کر سکے کہ ہوا میں اس چھوٹے سے ہوائی جہاز کے مختلف سائز کے پروں پر کیا اثر کرتی ہے۔ یہ بات اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ وہ دنیا کی پہلی ہوائی سرنگ بنا رہا ہے اور سائیکل بنانے والا ہر شخص کبھی یہ تصور بھی نہ کر سکتا تھا کہ ہوا کے دبائو کے متعلق نامور سائنسدانوں کے جمع کئے ہوئے اعداد و شمار اور نقشوں کو وہ غلط ثابت کر دے گا۔ آرویل رائٹ نے ان ہوائی سرنگوں سے جو علم حاصل کیا اس کی عدم موجودگی میں نہ تو رائٹ برادران اور نہ ہی دنیا کا کوئی دوسرا شخص ہوائی جہاز بنا کر اڑا سکتا۔
رائٹ برادران نے اپنے آخری پتنگ نما صندوق میں بیٹھ کر سینکڑوں کامیاب پروازیں کیں لیکن انہیں اپنے اس اڑن صندوق کیلئے ہر جگہ مناسب ہوا نہ ملتی تھی۔ عموماً ہوا یا تو ہلکی یا پھر زیادہ تیز اور تھپیڑے دار ہوتی۔ آخر تنگ آکر انہوں نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس نے پرواز کے متعلق انسانی جدوجہد کی تاریخ میں انقلاب پیدا کردیا۔ وہ یہ فیصلہ تھا انہوں نے اپنی ہوا بنانے کا فیصلہ کیا کس طرح؟ انہوں نے اپنے جہاز میں پٹرول سے چلنے والا انجن نصب کرنے اور برقی اتاروں کے ذریعے اسے جہاز کے پنکھوں کے ساتھ جوڑنے سے چونکہ کوئی مینوفیکچرز اتنے ہلکے وزن کے انجن نہ بناتاتھا لہٰذا انہوں نے خود ہی رات کے وقفے میں اپنی دکان کے اندر ایسا انجن تیار کیا اس ساری مشینیں اور انجن پر اس کا خرچ 14پونڈ سے کم آیا۔
دس بج کر پینتیس منٹ پر آرویل رائٹ پیٹ کے بل رینگ کر اپنے گرجتے ہوئے طیارے میں سوار ہو گیا پھر اس نے سوئچ آن کر دیا۔ عجیب و غریب مشین کے دہانے میں سے باہر کی سمت شعلے لپکنے لگے۔ ناممکن بات ممکنات میں داخل ہو گئی تھی۔ ہوا سے بھاری مشین واقعی ہوا میں اڑنے لگی اور اس نے 130فٹ کا فاصلہ طے کیا۔ انسانی تاریخ میں وہ نہایت اہم اور پرمعنی واقعہ تھا۔ اس کے باوجود آرویل رائٹ نے تسلیم کیا ہے کہ اس واقعہ نے اس کے جذبات میں کسی قسم کی ہلچل نہ پیدا کی تھی وہ جانتا تھا کہ یہ عجیب و غریب چیز پرواز کرے گیاور ایسا ہو گیا۔
آرویل اور ولبررائٹ کی پہلی پرواز فقط دس سیکنڈ کی تھی لیکن وہ بارہ سیکنڈ آج بھی انسانی تاریخ میں گونج رہے ہیں۔ آخر صدیوں پرانا خواب حقیقت میں بدل گیا تھا۔ آخر انسان زمین کی زنجیریں توڑ کر ستاروں کی طرف پرواز کرنے لگا تھا۔
رائٹ برادران نے اپنے آخری پتنگ نما صندوق میں بیٹھ کر سینکڑوں کامیاب پروازیں کیں لیکن انہیں اپنے اس اڑن صندوق کے لئے ہر جگہ مناسب ہوا نہ ملتی تھی۔ عموماً ہوا یا تو ہلکی یا پھر زیادہ تیز اور تھپیڑے دار ہوتی۔ آخر تنگ آکر انہوں نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس نے پرواز کے متعلق انسانی جدوجہد کی تاریخ میں انقلاب پیدا کردیا۔ وہ یہ فیصلہ تھا انہوں نے اپنی ہوا بنانے کا فیصلہ کیا کس طرح؟ انہوں نے اپنے جہاز میں پٹرول سے چلنے والا انجن نصب کرنے اور برقی اتاروں کے ذریعے اسے جہاز کے پنکھوں کے ساتھ جوڑنے سے چونکہ کوئی مینوفیکچرز اتنے ہلکے وزن کے انجن نہ بناتاتھا لہٰذا انہوں نے خود ہی رات کے وقفے میں اپنی دکان کے اندر ایسا انجن تیار کیا اس ساری مشینیں اور انجن پر اس کا خرچ 14پونڈ سے کم آیا۔
دس بج کر پینتیس منٹ پر آرویل رائٹ پیٹ کے بل رینگ کر اپنے گرجتے ہوئے طیارے میں سوار ہو گیا پھر اس نے سوئچ آن کر دیا۔ عجیب و غریب مشین کے دہانے میں سے باہر کی سمت شعلے لپکنے لگے۔ ناممکن بات ممکنات میں داخل ہو گئی تھی۔ ہوا سے بھاری مشین واقعی ہوا میں اڑنے لگی اور اس نے 130فٹ کا فاصلہ طے کیا۔ انسانی تاریخ میں وہ نہایت اہم اور پرمعنی واقعہ تھا۔ اس کے باوجود آرویل رائٹ نے تسلیم کیا ہے کہ اس واقعہ نے اس کے جذبات میں کسی قسم کی ہلچل نہ پیدا کی تھی وہ جانتا تھا کہ یہ عجیب و غریب چیز پرواز کرے گیاور ایسا ہو گیا۔
آرویل اور ولبررائٹ کی پہلی پرواز فقط دس سیکنڈ کی تھی لیکن وہ بارہ سکنڈ آج بھی انسانی تاریخ میں گونج رہے ہیں۔ آخر صدیوں پرانا خواب حقیقت میں بدل گیا تھا۔ آخر انسان زمین کی زنجیریں توڑ کر ستاروں کی طرف پرواز کرنے لگا تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
میٹا کا نیا جنریٹیو اے آئی ماڈل

میٹا کا نیا جنریٹیو اے آئی ماڈل

مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ایک انقلابی قدمموجودہ صدی کو اگر ''مصنوعی ذہانت‘‘کی صدی قرار دیا جائے تو یہ مبالغہ نہ ہوگا۔ دنیا بھر کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں جیسے گوگل، مائیکروسافٹ، اوپن اے آئی اور ایمازون، گزشتہ کئی برسوں سے اس میدان میں بھرپور سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ اب اس دوڑ میں میٹا (Meta) نے بھی ایک بڑا قدم اٹھایا ہے اور حال ہی میں کمپنی نے ایک نیا جنریٹیو آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI) ماڈل جاری کیا ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ ماڈل ''حقیقی دنیا کو سمجھنے کی صلاحیت‘‘ رکھتا ہے۔یہ محض ایک نیا سافٹ ویئر نہیں بلکہ ایک ایسا نظام ہے جو زبان، تصویر، ویڈیو اور انسانی رویوں کو ایک جامع انداز میں سمجھنے اور اس پر ردعمل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس مضمون میں ہم میٹا کے اس ماڈل کی خصوصیات، ساخت، ممکنہ فوائد، استعمال اور چیلنجز کا تفصیل سے جائزہ لیں گے۔'' جنریٹیو اے آئی‘‘ کیا ہے؟سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ''جنریٹیو اے آئی‘‘ (Generative AI)کیا ہوتا ہے؟ یہ ایسی مصنوعی ذہانت ہوتی ہے جو نئی معلومات یا مواد تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ ماڈلز صرف موجودہ ڈیٹا کو پڑھ کر فیصلے نہیں کرتے بلکہ وہ خود سے نیا مواد تخلیق کر سکتے ہیں، جیسے کہ خودکار تحریر یا مضمون نویسی، تصاویر اور آرٹ ورک بنانا، موسیقی ترتیب دینا، ویڈیو یا اینی میشنز کی تخلیق، چیٹ یا مکالمہ کرنا (مثلاً چیٹ بوٹس)۔اوپن اے آئی کا ماڈل ''جی پی ٹی 4‘‘(GPT-4) یا گوگل کا Gemini اسی طرز کی ٹیکنالوجی کی مثالیں ہیں۔ اب میٹا نے بھی اپنی خاص شناخت کے ساتھ میدان میں قدم رکھا ہے۔میٹا کا ماڈل: منفرد پہلومیٹا کے اس نئے اے آئی ماڈل کی سب سے اہم اور منفرد خوبی اس کی ''حقیقی دنیا کی تفہیم‘‘ ہے۔ کمپنی کے مطابق یہ ماڈل صرف الفاظ کا تجزیہ نہیں کرتا بلکہ یہ سیاق و سباق، انسانی رویہ، تصویری مناظر، آوازوں حتیٰ کہ حرکات و سکنات کو بھی سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اسے ''ملٹی ماڈل‘‘ بھی کہا جا رہا ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ مختلف ذرائع (متن، تصویر، آڈیو، ویڈیو) سے معلومات لے کر ایک جامع فہم پیدا کرتا ہے۔ مثلاً اگر کسی ویڈیو میں ایک شخص کسی مخصوص جذباتی لہجے میں بات کر رہا ہو، تو یہ ماڈل صرف الفاظ ہی نہیں بلکہ اس کے لہجے، چہرے کے تاثرات اور پس منظر کے حالات کو بھی مدنظر رکھتا ہے۔تربیت اور ڈیٹامیٹا نے اس ماڈل کو لاکھوں گھنٹوں پر مشتمل آڈیو ویژول ڈیٹا، اربوں الفاظ پر مبنی ٹیکسٹ ڈیٹا اور لاکھوں تصاویر کے ذریعے تربیت دی ہے۔ اس ماڈل کی خاص بات یہ ہے کہ اسے مشاہداتی ماحول میں تربیت دی گئی ہے، یعنی یہ صرف ڈیٹا کو حفظ نہیں کرتا بلکہ اسے ''دیکھنے، سننے اور سمجھنے‘‘ کی مشق دی گئی ہے۔ اس ماڈل کی تربیت میں مختلف انسانی سرگرمیوں، روزمرہ کے مشاہدات، طبی صورتحال، تعلیمی مواد، سائنسی ڈیٹا اور معاشرتی مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ممکنہ استعمالمیٹا کے اس اے آئی ماڈل کا استعمال نہایت وسیع ہے، چند اہم شعبے درج ذیل ہیں۔ تعلیم : اساتذہ کیلئے خودکار تدریسی مواد تیار کیا جا سکتا ہے۔ طلباء کو ان کی ذہنی سطح اور دلچسپی کے مطابق سبق دیا جا سکتا ہے۔ صوتی اور بصری مواد کی مدد سے سیکھنے کا عمل مزید مؤثر ہو سکتا ہے۔ صحت کا شعبہ: ڈاکٹروں کو مریض کے مرض کا اندازہ لگانے میں معاونت، ایکسرے اور ایم آر آئی اسکین کی خودکار تشریح، ادویات کی تجاویز اور مریض کے سوالات کے فوری جوابات جیسی سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں۔ذرائع ابلاغ : اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں خودکار خبریں لکھنے، ویڈیوز کی تحریری خلاصہ بندی اور تجزیاتی رپورٹس کی تخلیق میں اس ماڈل سے مدد لی جا سکتی ہے۔ ورچوئل رئیلٹی اور گیمنگ :ایسا مصنوعی کردار تخلیق کیا جا سکتا ہے جو نہ صرف بات کرے بلکہ انسانی رویے کو محسوس کر کے جواب بھی دے۔ گیمز میں زیادہ فطری اور جذباتی کردار متعارف کرائے جا سکتے ہیں۔ ترجمہ اور زبان دانی : مختلف زبانوں کے بیچ درست اور معنوی ترجمہ ممکن ہو گا۔ علاقائی محاوروں، لہجوں اور ثقافتی انداز کو بہتر سمجھ کر ترجمہ کیا جا سکتا ہے۔ماہرین کی آرا : ماہرین کا کہنا ہے کہ میٹا کا نیا ماڈل مصنوعی ذہانت کے میدان میں ایک نئی نسل کی شروعات ہے۔ ڈاکٹر ارمغان سلیم، جنہیں مصنوعی ذہانت میں عالمی سطح پر تحقیق کا تجربہ ہے، کہتے ہیں: ''یہ ماڈل نہ صرف مشین کی ذہانت کو انسان کے قریب لاتا ہے بلکہ اسے انسانی معاشرت میں ضم کرنے کی بنیاد بھی رکھتا ہے‘‘۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ''ایسی ٹیکنالوجی کے ساتھ اخلاقی، سماجی اور قانونی پہلوؤں پر سنجیدہ توجہ دینا ضروری ہے۔ بصورت دیگر یہ طاقت نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے‘‘۔خدشات اور چیلنجزجہاں یہ ٹیکنالوجی بے پناہ فوائد رکھتی ہے، وہیں اس کے کچھ سنجیدہ چیلنجز بھی ہیں۔ڈیپ فیک مواد: جعلی ویڈیوز، تصاویر یا آوازیں بنا کر گمراہ کن پروپیگنڈا پھیلایا جا سکتا ہے۔پرائیویسی کا مسئلہ: اگر یہ ماڈل مشاہداتی ڈیٹا سے تربیت پاتا ہے تو اس میں ذاتی معلومات شامل ہو سکتی ہیں۔روزگار کا خاتمہ: اگر انسانی کام اے آئی کرے تو لاکھوں افراد بے روزگار ہو سکتے ہیں۔سماجی تفریق: اگر یہ ٹیکنالوجی صرف چند طاقتور اداروں کے ہاتھ میں ہو تو غریب یا پسماندہ معاشروں کا استحصال بڑھ سکتا ہے۔حکومت اور پالیسی سازوں کی ذمہ داریضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتیں، تعلیمی ادارے اور پالیسی ساز ادارے اس ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کے منفی اثرات سے بچاؤ کیلئے قوانین، اخلاقی ضابطے اور تربیتی پروگرام متعارف کروائیں۔ ورنہ یہ ٹیکنالوجی ایک آفت بھی بن سکتی ہے۔نتیجہمیٹا کا نیا جنریٹیو اے آئی ماڈل مصنوعی ذہانت کے میدان میں ایک تاریخی قدم ہے۔ یہ صرف ایک نیا سافٹ ویئر نہیں بلکہ مستقبل کی شکل بدلنے والا ایک انقلابی آلہ ہے۔ اگر اسے دانشمندی سے استعمال کیا جائے تو یہ تعلیم، صحت، میڈیا اور دیگر شعبوں میں ایک مثبت انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ تاہم اگر اس کی نگرانی اور قانون سازی نہ کی گئی، تو یہ معاشرتی توازن کو بگاڑنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اس ٹیکنالوجی کو صرف حیرت انگیز ایجادات کے طور پر نہ دیکھیں، بلکہ اس کی فکری، اخلاقی، اور سماجی اثرات پر بھی سنجیدگی سے غور کریں۔ 

ایک لاکھ 40ہزار سال پرانا سمندر کی تہہ سے شہر دریافت

ایک لاکھ 40ہزار سال پرانا سمندر کی تہہ سے شہر دریافت

دنیا بھر میں ماہرین آثار قدیمہ اور سائنسدانوں کیلئے حیرت اور تجسس کا باعث بننے والی ایک غیر معمولی دریافت سامنے آئی ہے۔جو انسان کی ابتدا کی کہانی کو از سرِ نو لکھ سکتی ہے۔ بین الاقوامی محققین کی ایک ٹیم نے انڈونیشیا کے قریب سمندر کی گہرائیوں میں ایک ایسا شہر دریافت کیا ہے جس کی عمر تقریباً ایک لاکھ 40 ہزار سال بتائی جا رہی ہے۔ یہ شہر، جو جدید انسانی تاریخ سے بھی کہیں زیادہ قدیم ہے، سمندر کی سطح سے سینکڑوں میٹر نیچے واقع ہے۔یہ انکشاف جدید سونار ٹیکنالوجی اور زیر آب تحقیقاتی آلات کے ذریعے کیا گیا۔ سائنسدان بحرِ اوقیانوس کے ایک نسبتاً غیر دریافت شدہ حصے میں سمندری فرش کا معائنہ کر رہے تھے جب انہوں نے ایک منظم ڈھانچے کی نشاندہی کی۔ قریب جا کر جب مزید تحقیق کی گئی تو واضح ہوا کہ یہ کسی قدرتی چٹان یا تہہ کا حصہ نہیں بلکہ کسی قدیم انسانی تہذیب کا شہر ہے، جس میں گلیاں، عمارتوں کے آثار، اور ممکنہ عبادت گاہیں بھی شامل ہیں۔ہومو ایریکٹس (Homo Erectus) کی کھوپڑی جو انسان کے قدیم آباؤ اجداد میں سے ایک ہے۔ یہ کھوپڑی مادورا آبنائے (Madura Strait) میں جاوا اور مادورا جزیروں کے درمیان مٹی اور ریت کی تہوں کے نیچے محفوظ تھی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر دنیا کی پہلی مادی شہادت ہے۔ کھوپڑی کے ساتھ ساتھ محققین کو 6ہزار جانوروں کی ہڈیاں بھی ملی ہیں جو 36 اقسام سے تعلق رکھتی ہیں، جن میں کوموڈو ڈریگن، بھینس، ہرن اور ہاتھی شامل ہیں۔ان میں سے کچھ ہڈیوں پر جان بوجھ کر کاٹے جانے کے نشانات تھے، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ ابتدائی انسان ترقی یافتہ شکار کی حکمت عملی اپنا رہے تھے۔یہ دریافتیں قدیم انسانی زندگی اور اب گمشدہ ہوچکی سنڈا لینڈ کی زمینوں کے بارے میں نایاب بصیرت فراہم کرتی ہیں۔ یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ابتدائی انسان ماحولیاتی تبدیلیوں کے جواب میں کس طرح کے رویے اور مطابقت پیدا کرتے تھے۔یہ فوسلز سب سے پہلے 2011ء میں سمندری ریت نکالنے والے مزدوروں کو ملے تھے۔ ماہرین نے حال ہی میں ان کی عمر اور نسل کا تعین کیا ہے، جو قدیم بشریات (paleoanthropology) کے شعبے میں ایک اہم پیش رفت ہے۔یہ دور اس خطے میں قدیم انسانی نسلوں کی جسمانی ساخت کی وسیع تنوع اور ان کی نقل و حرکت سے عبارت ہے۔ لیڈن یونیورسٹی (نیدرلینڈز) کے ماہر آثارِ قدیمہ ہیروڈبرغیوس (Harold Berghuis) جنہوں نے اس تحقیق کی قیادت کی نے کہا کہ تقریباً سات سے 14ہزارسال قبل برفانی گلیشیئرز کے پگھلنے سے سمندر کی سطح میں 120 میٹر سے زیادہ اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں سنڈا لینڈ کے نشیبی میدان زیر آب آ گئے۔اگر تحقیق سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ شہر واقعی ایک لاکھ 40ہزار سال پرانا ہے، تو اس کا مطلب ہوگا کہ انسانوں نے تہذیب یافتہ بستیوں کی بنیاد لاکھوں سال پہلے ہی رکھ دی تھی جو کہ اب تک کے تاریخی نظریات سے بالکل مختلف ہے۔ماہرین کیا کہتے ہیں؟آثارِ قدیمہ کے ماہرین اس دریافت کو انسانی تاریخ کا ایک سنگِ میل قرار دے رہے ہیں۔ اگر تحقیق سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ شہر واقعی ایک لاکھ 40ہزار سال پرانا ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ انسانوں نے تہذیب یافتہ بستیوں کی بنیاد لاکھوں سال پہلے ہی رکھ دی تھی جو کہ اب تک کے تاریخی نظریات سے بالکل مختلف ہے۔ڈاکٹر ایلینا میکفرسن جو اس تحقیقی ٹیم کی رکن ہیں کا کہنا ہے کہ ہمیں جو ڈھانچے ملے ہیں، وہ صرف پتھروں کا ڈھیر نہیں بلکہ باقاعدہ منصوبہ بندی سے بنائے گئے آثار ہیں۔ اگر یہ واقعی انسانوں کا بنایا ہوا ہے تو ہمیں اپنی تاریخ ازسرِنو لکھنی پڑے گی۔سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ شہر کسی بڑی قدرتی آفت جیسے زلزلے، سونامی یا زمین کے ٹیکٹونک پلیٹس کی تبدیلی کے نتیجے میں سمندر برد ہو گیا ہوگا۔ کچھ نظریات کے مطابق، ممکن ہے کہ یہ شہر اسی نوعیت کی کوئی ''افسانوی بستی‘‘ ہو جسے زمانہ قدیم میں ''اٹلانٹس‘‘ جیسے قصے کہانیوں میں بیان کیا گیا تھا۔ممکنہ وجوہاتسائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ شہر کسی بڑی قدرتی آفت جیسے زلزلے، سونامی یا زمین کے ٹیکٹونک پلیٹس کی تبدیلی کے نتیجے میں سمندر برد ہو گیا ہوگا۔ کچھ نظریات کے مطابق، ممکن ہے کہ یہ شہر اسی نوعیت کی کوئی ''افسانوی بستی‘‘ ہو جسے زمانہ قدیم میں اٹلانٹس جیسے قصے کہانیوں میں بیان کیا گیا تھا۔اگلے مراحلماہرین اب اس مقام سے مزید نمونے جمع کر رہے ہیں تاکہ کاربن ڈیٹنگ اور دیگر سائنسی تجزیات کے ذریعے اس شہر کی اصل عمر اور تہذیبی حیثیت کا تعین کیا جا سکے۔ اگر یہ نتائج تصدیق شدہ نکلتے ہیں تو نہ صرف انسانی تاریخ کا نقشہ بدل سکتا ہے، بلکہ اس دریافت سے ہماری سائنسی، مذہبی اور تہذیبی سوچ پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

خون عطیہ کرنے کا عالمی دنہر سال 14جون کوخون عطیہ کرنے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ جس کا مقصد خون کی محفوظ منتقلی کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے ساتھ ان افراد کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جو اپنا خون دوسروں کی زندگی بچانے کیلئے عطیہ کرتے ہیں۔دراصل یہ دن کارل لینڈسٹائنر کی یاد میں منایا جاتا ہے جس نے خون کے گروپ دریافت کرنے کے ساتھ اس تھیوری کی بنیاد رکھی تھی کہ ایک جیسے بلڈ گروپ آپس میں ملائے جا سکتے ہیں۔ کارل کی اس تھیوری کی بنا پر ایک ہی گروپ کے خون کو ملانے کا کامیاب تجربہ 1907ء میں نیویارک میں کیا گیا۔برطانیہ میں بدترین آتشزدگی14 جون 2017ء کو ویسٹ لندن میں واقع 24منزلہ رہائشی عمارت گریفل ٹاور میں آگ بھڑک اٹھی۔اس خوفناک حادثے میں 72افراد ہلاک ،70زخمی جبکہ223افراد اپنی جان بچانے میں کامیاب رہے۔ یہ 1988ء کے پائپر الفا آئل پلیٹ فارم کی تباہی کے بعد برطانیہ میں سب سے مہلک آتشزدگی تھی جبکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ میں لگنے والی سب سے بدترین رہائشی آگ تھی۔ تحقیقات میں معلوم ہوا کہ آگ چوتھی منزل پر موجود فریج میں خرابی کی وجہ سے لگی۔آگ تقریباً60گھنٹے تک لگی رہی، لندن فائر بریگیڈ کے 250 سے زیادہ فائر فائٹرز اور 70 فائر انجن آگ پر قابو پانے کی کوششوں میں شامل تھے۔امریکہ کا ''یوم پرچم‘‘ریاستہائے متحدہ امریکہ میں 14 جون کو ''یوم پرچم‘‘ منایا جاتا ہے۔ یہ دن 14 جون 1777ء کو دوسری کانٹی نینٹل کانگریس کی قرارداد کے ذریعے ریاست ہائے متحدہ کے جھنڈے کو اپنانے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ بہت سی ریاستوں میں کافی عرصے تک یہ دن نہیں منایا جاتا تھا لیکن جیسے جیسے امریکہ کی ریاستوں میں پرچم کو اپنا یا جاتا رہا اس کے ساتھ ساتھ یہ دن بھی وہاں منایا جانے لگا۔ویسے تو تمام اقوام اپنے جھنڈے سے عقیدت رکھتی ہیں لیکن امریکہ رہائشی یوم آزادی کے علاوہ عام حالات میں بھی اپنے گھر کے باہر جھنڈا لگا کر رکھتے ہیں۔ 

تاشقند چار سو بازار

تاشقند چار سو بازار

چار سو ُبازار نہ صرف ازبکستان بلکہ پورے سنٹرل ایشیا میں ایک قدیم اور سب سے بڑا بازار ہے۔یہ بازار تاشقند شہر کی مرکزی شارع البیرونی کے کنارے تاریخی مدرسہ ککلداش اور مشہور خوبصورت ہوٹل چار سو کے قریب واقع ہے۔یہ بازار ایک صدی سے بھی زیادہ پرانا ہے۔اس بازار کے گنبد کا قطر 1148 فٹ ہے جو درمیان میں بغیر کسی ستون کے کھڑا ہے۔اتنے بڑے قطر کا گنبد سارے وسطی ایشیاء میں اور کہیں نظر نہیں آتا۔ گنبد کے اوپر ہلکے فیروزی رنگ کی چھوٹی چھوٹی ٹائیلوں سے خوبصورت بیل بوٹے بنائے گئے ہیں۔اس خوبصورت گلکاری کو دیکھ کر انجینئرز اور کاریگروں کی اعلیٰ مہارت کا فن عروج پر نظر آتا ہے۔یہ بازار تین منزلہ ہے جبکہ ایک تہہ خانہ بھی موجود ہے۔پہلی منزل کے سارے فلور پر دائروں کی شکل میں کاؤنٹر بنائے گئے ہیںجو کہ ماربل کے پتھر سے تیار کیے گئے ہیں۔ اس منزل میں تازہ سبزیاں، فروٹ، گوشت، دودھ، دہی،پنیر اور ان سے بنی ہوئی دوسری اشیاء دستیاب ہیں۔گرم گرم تازہ نان، شہد اور گرم مصالحے بھی اسی فلور پر فروخت ہوتے ہیں۔اوپر کی منزل پر ہرطرح کا ڈرائی فروٹ جن میں کشمش،خشک خوبانی، بادام، اخروٹ، پستہ ڈھیروں کی شکل میں گاہکوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔چار سُو بازار شہر کے وسطی حصہ میں واقع ہے۔ یہاں پر بس،ٹرام،میٹرو اور ٹیکسی کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے لیکن ان میں تاشقند میٹرو باکفایت، آرام دہ اور کم وقت لینے والا بہترین ذریعہ ہے۔ شہر کے کسی بھی حصے سے آپ میٹرو میں سوار ہو جائیں دس پندرہ منٹ بعد آپ چار سُو میٹرو سٹیشن پر ہوں گے جوکہ زیر زمین ہے۔جب آپ میٹرو سٹیشن سے باہر آئیں گے تو چارسُو بازار آپ کے سامنے ہوگا۔بڑے میدان کی ایک طرف ازبک بازیگر اپنے شاندار کرتبوں سے حاضرین کو محظوظ کر رہے ہوں گے۔اس بازار کے اندر اور باہر کم وبیش ایک ہزار دکانیں موجود ہیں۔ فرنیچر، لباس، قالین، بچوں کے جُھولے،دلہا دلہن کے عروسی لباس بھی دستیاب ہیں۔سوونیئر سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے چار سُو بازار بہترین جگہ ہے۔چائے خانے بھی موجود ہیں۔ غرضیکہ چار سُو بازار اس علاقے کے آئینہ کی طرح ہے جہاں ایک ہی جگہ آپ کو شہر کی ثقافت بھرپور انداز میں نظر آتی ہے۔اگر آپ کسی مشرقی بازار کو حقیقی رنگ میں دیکھنا چاہتے ہوں تو چار سُوبازار آپ کا صحیح انتخاب ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

بازنطین فوج کی شکستپیلی کانون کی جنگ، جسے لاطینی زبان میں ''پیلی کانم‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کا آغاز10 جون 1329ء کو ہوا۔ بازنطینی لشکر کی قیادت اینڈرونکس سوئم جبکہ عثمانی فوج کی قیادت اورہان اوّل کر رہے تھے۔اس جنگ میں شروع سے ہی عثمانی افواج کا پلڑا بھاری رہا اور بازنطینی افواج کو عثمانی دستے کے ہاتھوں بہت بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ عثمانی افواج نے اناطولیہ کے کئی شہروں کا محاصرہ کر لیا اور جنگ کے اختتام پر ان شہروں پر اپنا کنٹرول قائم کرنے میں بھی کامیاب رہے۔اس جنگ کے بعد بازنطینی افواج نے اپنے علاقے عثمانی فوج کے قبضے سے چھڑوانے کی بالکل کوشش نہیں کی۔ سبلات کی جنگسبلات کی جنگ 10 جون 1619ء کو 30 سالہ جنگ کے بوہیمیا دور میں شروع ہوئی۔ یہ جنگ رومن کیتھولک امپیریل فوج اور پروٹسٹنٹ افواج کے درمیان لڑی گئی۔ رومن کتیھولک افواج کی سربراہی چارلس بوناوینچر ڈی لونگووال کر رہے تھے جبکہ ارنسٹ وان مینسفیلڈ پروٹسٹنٹ فوج کی قیادت کر رہے تھے۔کیتھولک افواج کی جانب سے بوکوائے کا محاصرہ کرنے کی کوشش کی لیکن پروٹسٹنٹ افواج نے انہیں بڈجووائس کے تقریباً25کلومیٹر شمال مغرب کے چھوٹے سے گاؤں کے قریب روک لیا اور انہیں جنگ کے میدان میں آنے پر مجبور کر دیا۔ آکسفورڈ اور کیمبرج کی بوٹ ریسبوٹ ریس کیمبرج یونیورسٹی بوٹ کلب اور آکسفورڈ یونیورسٹی بوٹ کلب کے درمیان روئنگ ریس کا ایک سالانہ کھیل ہوتا ہے۔ اسے یونیورسٹی بوٹ ریس اور آکسفورڈ اور کیمبرج بوٹ ریس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔مردوں اور عورتوں کے الگ الگ مقابلے ہوتے ہیں، ساتھ ہی ریزرو عملے کیلئے بھی مقابلے رکھے جاتے ہیں۔ مردوں کا پہلا مقابلہ10جون 1829ء میں منعقد ہوا تھا اور 1856ء سے ہر سال منعقد ہوتے رہے ہے۔ سوائے پہلی اور دوسری عالمی جنگوں اور 2020ء میںCovid-19 وبائی مرض کے دوران۔ خواتین کا پہلا ایونٹ 1927ء میں ہوا تھا اور ریس 1964ء سے ہر سال منعقد کی جارہی ہے۔  

نوم پنہ کمبوڈیا کا دل دھڑکتا شہر

نوم پنہ کمبوڈیا کا دل دھڑکتا شہر

جنوب مشرقی ایشیا کے قلب میں واقع نوم پنہ نہ صرف کمبوڈیا کا دارالحکومت ہے بلکہ یہ ملک کی سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی زندگی کا مرکز بھی ہے۔ میکانگ اور ٹونلے سپ جیسی عظیم ندیوں کے کنارے آباد یہ شہر ایک جانب اپنے شاندار تاریخی ورثے کی یاد دلاتا ہے، تو دوسری جانب تیزرفتار شہری ترقی اور جدید طرزِ زندگی کی تصویر بھی پیش کرتا ہے۔ نوم پنہ وہ مقام ہے جہاں بدھ مت کے قدیم مندروں کی گھنٹیاں، فرانسیسی نوآبادیاتی عمارتوں کی شان و شوکت اور جدید فلک بوس عمارتوں کی چمک ایک ساتھ سانس لیتی ہیں۔ یہ شہر نہ صرف کمبوڈیا کی تاریخ کا امین ہے بلکہ ایک ایسے مستقبل کی امید بھی ہے جہاں روایت اور ترقی ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوں۔نوم پنہ کا قیام 15ویں صدی میں ہوا تھا، جب یہ خمر سلطنت کے زوال کے بعد دارالحکومت بنایا گیا۔ شہر کا نام ''نوم دا پین‘‘ (پین پہاڑی) پر تعمیر شدہ ایک بدھ مندر سے ماخوذ ہے، جو آج بھی ''وات نوم‘‘ کے نام سے ایک اہم زیارت گاہ ہے۔ نو آبادیاتی دور میں فرانسیسی اثرات نے شہر کی ساخت اور فن تعمیر پر گہرے نقوش چھوڑے، جو آج بھی فرانسیسی عمارتوں اور وسیع شاہراہوں میں نظر آتے ہیں۔نوم پنہ کمبوڈیا ملک کے جنوبی حصے میں دریائے میکونگ اور Tonle Sab کے سنگم پر واقع ہے۔یہ ایک اہم بندرگاہ ہے۔یہ شہر 1970 کی دہائیوں میں جنگ و جدل کے دوران بری طرح تباہ و برباد ہوگیا تھااور اس کی آبادی میں بھی خاصی حد تک کمی واقع ہوگئی تھی لیکن 1980ء کی دہائی میں اس کی دوبارہ تعمیر کا آغاز کیا گیا۔یہ شہر روایتی طور پر میکونگ وادی کیلئے تجارتی شہر تھا۔ چونکہ یہاں ذرائع آمد و رفت کی تمام سہولتیں میسر تھیں۔ مال کی برآمدگی جنوبی چین کے سمندری راستے کے ذریعے اس کا نکاس میکونگ ڈیلٹا کے ذریعے جنوبی چائنا کے سمندری راستے سے ویت نام تک ہوتا ہے، ان کی بڑی مصنوعات میں ٹیکسٹائلز، کھانے پینے کی اشیاء اور بیوریجز شامل ہیں۔اس شہر میں فرانسیسیوں کی قابل قدر نو آبادکاری ہوتے ہوئے بھی یہ ایشیا کا دلکش شہر تصور کیا جاتا ہے۔نوم پنہ ثقافتی اور تعلیمی انسٹی ٹیوٹ کا گہوارہ تھا مگر یہاں کے بیشتر ادارے 1975ء میں بند کردئیے گئے جن میں Khmer تہذیب و تمدن اور آرٹ کا اعلیٰ نمونہ گوتم بدھ میوزیم انسٹیٹیوٹ تھا۔ قومی عجائب گھر جو چھٹی صدی کی نوادرات سے مزین تھا اس کی اہمیت کو بھی نقصان پہنچا، اعلیٰ تعلیم کیلئے نوم پنہ یونیورسٹیاں جو 1960ء سے موجود تھیں وہ بھی متاثر ہوئیں۔1954ء میں بڈھسٹ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا اور فائن آرٹس یونیورسٹی 1965ء میں قائم ہوئی۔ علاوہ ازیں سائنسی بنیادوں پر زرعی یونیورسٹی بھی 1965ء میں ہی قائم کی گئی۔یہاں کی دلکشی اور دلچسپی کیلئے گوتم بدھ کے مندر (Temples) اور سابقہ حکمرانوں کے محل ہیں جو قابل دید ہیں۔ Khmers قوم سے غالباً 14 ویں صدی کے آخر میں پہلی آباد کاری کا سلسلہ شروع ہوا اور 1434ء میں ان لوگوں نے Angkor Thumکو اپنا گڑھ بنالیا۔نوم پنہ بدمعاش لوگوں کی آماجگاہ تھا۔ یعنی اس کا کوئی پرسان حال نہ تھا اور 1867ء میں کمبوڈیا کا دارالحکومت بننے سے پہلے کئی مرتبہ انہیں کے زیرتسلط رہا۔ 1970ء کی دہائی میں کمبوڈیا کی جنگ و جدل میں شہر میں سماجی سطح پر انقلاب آیا اور اس وقت تقریباً دو ملین شہریوں نے زرعی ترقی کیلئے کام کیے۔ لہٰذا 1980ء میں یہ شہر دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو گیا اور کچھ تہذیبی انسٹیٹیوٹ اور تعلیمی سینٹر دوبارہ کھول دیے گئے۔نوم پنہ آج ایک جدید اور متحرک شہر بنتا جا رہا ہے۔ شاندار عمارتیں، شاپنگ مالز، ہوٹل اور کیفے، اس کی تیز رفتار ترقی کی گواہی دیتے ہیں۔ تاہم، تیز شہری ترقی کے ساتھ ساتھ ٹریفک کا بڑھتا ہوا دباؤ، ماحولیاتی مسائل اور شہری منصوبہ بندی کی کمزوریاں بھی سامنے آ رہی ہیں۔شہر میں سیاحوں کیلئے کئی پرکشش مقامات موجود ہیں، جن میں شاہی محل، نیشنل میوزیم، چیونگ ایک قتل گاہ (Killing Fields)، اور تل سلینگ میوزیم خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ مقامات کمبوڈیا کی شاندار تاریخ اور خونی ماضی دونوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ روایتی رقص، کھمر موسیقی اور مقامی کھانوں سے بھرپور بازار سیاحوں کیلئے کشش کا باعث بنتے ہیں۔نوم پنہ صرف ایک دارالحکومت نہیں، بلکہ یہ کمبوڈیا کی روح کا عکاس ہے۔ یہاں ماضی کی گونج اور حال کی تپش ایک ساتھ محسوس کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ شہر کو کئی مسائل کا سامنا ہے، مگر اس کی توانائی، ثقافت اور عوام کی مہمان نوازی اسے جنوب مشرقی ایشیا کے نمایاں شہروں میں شامل کرتی ہے۔