کشمیر میں منایا جانے والا مشہورتہوار شہشرترائو
![کشمیر میں منایا جانے والا مشہورتہوار شہشرترائو](https://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/27365_47737916.jpg)
اسپیشل فیچر
دنیا بھر میں علاقائی رسم و رواج اور ثقافت ایک خاص مقام رکھتے ہے۔ دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے اپنی روایات اور رسم و رواج کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ گزرنے وقت کے ساتھ یہ رسومات تہواروں کادرجہ حاصل کرچکی ہیں اور کئی صدیوں سے نسل در نسل ان تہواروں کو بدلتے وقت کے ساتھ منایا جاتا آ رہا ہے۔
دور قدیم سے دور جدید تک منائے جانے والے یہ تہوار اپنی بنیادی اساس کو قائم رکھے ہوئے مگر وقت میں جدت آنے کے ساتھ ساتھ ان کے طریقہ کار میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ اسی طرح پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی وادی نیلم میں دہائیوں سے سردیوں کے اختتام اور بہار کے شروع ہونے پر جوتے پھینکنے کی رسم ایک تہوار کے طورپر منائی جاتی ہے۔ اس تہوار کو مقامی زبان میں شہشر ترائو تہوار کہا جاتا ہے۔ یہ تہوار مارچ کے دوسرے ہفتے میں منایا جاتا ہے۔ اس تہوار کا مقصد گائوں کے لوگوں کی جانب سے سردیوں کی مشکلات سے نکلنے اور بہار میں آنے کی خوشی میں منانا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں موسم سرما کسی آفت سے کم نہیں ہوتاخاص طور ان علاقوں میں جہاں برف باری ہوتی ہے۔ اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ اس تہور کو منانے والوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے لیکن اب بھی کشمیر کے بہت سے علاقوں میں یہ تہوار منایا جاتا ہے۔
شہشر تراؤ تہوار کے آغاز میں گاؤں کے لڑکے اکٹھے ہو کر ایک رسی کے ساتھ کچھ پرانے جوتے باندھتے ہیں، ان جوتوں کو لے کر وہ ہر گھر میں جاتے ہیں اور گھر کے سامنے جا کر یہ نعرے لگاتے ہیں۔
''شہشر شہشر تراؤ آ، نئی بھاند آؤو آ‘‘ یعنی ''سردیاں بھاگ گئیں، بہار آ گئی‘‘
گھر میں موجود خواتین یا مرد باہر آ کر ان سے پوچھتے ہیں تو یہ لڑکے پھول دے کر موسم بہار کی آمد کی خبر سناتے ہیں۔ جس کے بعد گھر والے ایک پرانا جوتا ان کے پاس موجود جوتوں کے ساتھ باندھ کر سردی کی مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرتے ہیں اور بہار کی آمد کی خوشی میں کھانے کی اشیا مثلاً چاول، چینی، گھی، مصالحہ اور چائے کی پتی وغیرہ ان کو دیتے ہیں۔ جس کے بعد یہ نوجوان نعرے لگاتے ہوئے اگلے گھر کا رخ کرتے ہیں اور یہ سلسلہ گاؤں کے آخری گھر تک جاری رہتا ہے۔
گاؤں کے گھروں سے سامان دیتے ہوئے خواتین یہ بات ضرور یاد کرواتی ہیں کہ اس شہشر کو کسی خشک جگہ رکھنا ہے کیونکہ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ اگر شہشر کو کسی ایسی جگہ پھینک دیا جہاں بارش ہو یا اس کو پانی لگ گیا تو بہار میں بھی بارشوں کا سلسلہ نہیں رکے گا، لیکن اگر یہ جوتے کسی خشک جگہ رکھے جائیں گے تو موسم بہار میں بارشیں کم ہوں گی اور موسم خوشگوار رہے گا۔ گاؤں میں ایک ایسی جگہ شہشر رکھنے کیلئے مخصوص ہوتی ہے جہاں بارش کا پانی نہ داخل ہو سکے۔ گاؤں سے جمع ہونے والے جوتوں کو شہشر مورا میں رکھا جاتا ہے اور شہشر مورا میں جوتے پھینکنے کے بعد لوگ خوشی مناتے ہیں کہ ہم نے سردیوں کا بھگا دیا ہے، اب بہار میں آسانیاں ہیں۔
اس تہوار میں حصہ لینے والے والے لوگ جب تمام گاؤں کے گھروں میں گھوم رہے ہوتے ہیں تو اگر کسی گھر سے اشیا یا نقدی نہ ملے تو پھر سب مل کر اس کو بدعا دینے کیلئے نعرہ لگاتے ہیں '' نیلا تاگہ پیلا پٹ، جیڑا کج نا دیوے اس دا جہگا پٹ‘‘ یعنی ''کچھ نہ دینے والے کا ککھ بھی نہ رہے‘‘۔لیکن یہ سب کچھ تفریح کیلئے کیا جاتا ہے، کوئی بھی شخص اس پر ناراضگی کا اظہار نہیں کرتا بلکہ پورا گاؤں اس تہوار میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔
جوتے پھینک کر واپس آنے کے بعد سارا سامان اکٹھا کرکے اس کو پکانے کے کام شروع ہوجاتا ہے جبکہ شہشر میں حصہ لینے والے نوجوانوں کے درمیان دوڑ کا مقابلہ ہوتا ہے، اس دوڑ میں پہلے نمبر پر آنے والے کو شہشر کا باپ اور آخری آنے والے کو شہشر کی ماں بنا دیا جاتا ہے۔ جس کے بعد ان نوجوانوں کو پورا سال شہشر کی ماں اور شہشر کا باپ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔
کچھ لوگ اس تہوار کی مخالفت کرتے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ یہ ایک ہندوانہ تہوار ہے، اس کو منانا گناہ ہے، لہٰذا اس کو ختم ہونا چاہیے، لیکن مقامی لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ تہوار ہمارے باپ دادا مناتے رہے ہیں، یہ ایک خوشی کا تہوار ہے اور اس سے مذہب کو کوئی خطرہ نہ ہے۔وادی کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم جوتے پھینک کر سردی کو بھگاتے ہیں اور پھول دے کر بہار کو خوش آمدید کہتے ہیں۔