خبردار! دنیا ’’مائیکرو پلاسٹک ‘‘ کے نشانے پر
![خبردار! دنیا ’’مائیکرو پلاسٹک ‘‘ کے نشانے پر](https://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/27366_26169103.jpg)
اسپیشل فیچر
آج سے لگ بھگ 120 سال قبل عالمی سائنسدانوں نے پلاسٹک کی ایجاد کے اعلان کے دوران اسے انسانی زندگیوں کیلئے ''رحمت‘‘ قرار دیتے وقت شاید یہ سوچا بھی نہ ہو گا کہ ایک دن اپنے اس دعویٰ کی نفی کرتے ہوئے انہیں چیخ چیخ کر دنیا کو اس کے استعمال سے مکمل طور پر اجتناب برتنے کی تلقین کرنا پڑے گی۔ ماہرین پلاسٹک کے استعمال کو اب برملا زہر قاتل قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جدید تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پلاسٹک کا استعمال انسانی آنتوں، پھیپھڑوں، جگر اور دماغ کے خلیات میں زہریلے پن کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ یہ پینے کے پانی کی آلودگی کا باعث بھی بن رہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ سمندری مخلوق، جنگلی مخلوق اور حیاتیاتی تنوع کیلئے بھی نقصان کا باعث بن رہا ہے۔
جہاں تک پلاسٹک کے استعمال کا تعلق ہے ویسے تو انسان ہزاروں سالوں سے اسے استعمال کرتا آرہا ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ گئے زمانوں میں اس کا استعمال انتہائی محدود ہوا کرتا تھا اور تب پلاسٹک کی ہیئت آج سے یکسر مختلف تھی۔ اس کی بنیادی شکل ''شلیک‘‘ کی صورت میں ہوا کرتی تھی جو بنیادی طور پر ''لیک‘‘ کیڑوں کی ٹپکتی رال سے بنتی تھی۔ پلاسٹک کی جدید شکل بیسویں صدی کی ایجاد ہے جو 1907ء میں مصنوعی طریقے سے ایجاد کیا گیا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق آج سے پچاس سال پہلے کے مقابلے میں پلاسٹک کا استعمال کئی گنا بڑھ چکا ہے جس کا مطلب ہے کہ آج بین الاقوامی سمندروں، دریاؤں، پہاڑوں اور ندی نالوں سمیت ہمارے ارد گرد کے ماحول میں پلاسٹک کی موجودگی خطرناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی سمندروں میں ہر سال 9 ملین ٹن سے زائد پلاسٹک کچرے کی صورت میں سمندروں کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔
یہاں اصل المیہ یہ ہے کہ پھلوں، سبزیوں اور دیگر اشیاء کی طرح پلاسٹک وقت کے ساتھ گل سڑ کر زمین اور فطرت کا حصہ نہیں بنتا بلکہ اس کی مادی ہیئت صدیوں تک بھی قائم رہ سکتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم بھی ہو جاتا ہے اور یہی ٹکڑے بعد میں زمینی اور سمندری علاقوں میں پھیل جانے کے ساتھ ساتھ فضا میں بھی پہنچ جاتے ہیں جو کسی نہ کسی طریقے سے انسانی خوراک تک بھی رسائی کر لیتے ہیں۔ اب سائنسدانوں نے متنبہ کیا ہے کہ کرہ ارض پر ہوا اور پانی میں مائیکرو پلاسٹک کی بڑھتی ہوئی مقدار انسانی زندگیوں کیلئے خطرے کی وہ گھنٹی ہے جسے اگر سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو ناقابل تلافی نقصان سے ہمیں کوئی نہ بچا سکے گا۔
مائیکرو پلاسٹک اور نینو پلاسٹک ہیں کیا؟
مائیکرو پلاسٹک بنیادی طور پر انتہائی چھوٹے سائز کے وہ ٹکڑے ہیں جو پلاسٹک سے بنی اشیاء کو تلف کرنے کے دوران ہوا میں یا بعد ازاں پانی یا مٹی میں شامل جاتے ہیں۔ پلاسٹک کے یہ چھوٹے چھوٹے ذرات انتہائی زہریلے کیمیکل پر مشتمل ہوتے ہیں جو سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہو کر اندرونی نظام کو متاثر کرتے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق میں سائنس دانوں کو پتہ چلا ہے کہ ان پلاسٹک ذرات کا سائز پانچ ملی میٹر تک نوٹ کیا گیا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے ذرات جنہیں ''مائیکرو پلاسٹک‘‘ کا نام دیا گیا ہے کرہ ارض میں چاروں طرف سرایت کر چکے ہیں۔ وہ بحرمنجمد شمالی کی سمندری برف میں ہیں۔ سمندر کی گہری کھائیوں میں رہنے والے سمندری جانوروں کی آنتوں کے ساتھ ساتھ پینے کے پانی میں رچ بس چکے ہیں۔پلاسٹک کے یہ ذرات ہمارے ماحول میں موجود ہر شے میں شامل ہو چکے ہیں۔ اور تو اور یہ ہماری روزمرہ غذا میں بھی سرایت کر چکے ہیں۔
ماہرین ایک عرصہ سے اس خدشے کا اظہار کرتے آ رہے ہیں کہ دنیا مائیکرو پلاسٹک کے پھیلاؤ سے پریشان ہے جبکہ ہمیں احساس ہی نہیں کہ مائیکرو پلاسٹک سے کہیں زیادہ خطرہ انسانوں کو ''نینو پلاسٹک‘‘ سے ہے۔
نینو پلاسٹک بنیادی طور پر پلاسٹک کے بادی النظر میں نظر نہ آنے والے وہ چھوٹے ٹکڑے ہوتے ہیں جو خوردبین کے ذریعے ہی دیکھے جا سکتے ہیں۔نینو پلاسٹک ذرات عام طور پر ایک مائیکرو میٹر تک ہو سکتے ہیں۔ نینو پلاسٹک اس لئے بھی خطرناک اور مضر ہیں کہ وہ مائیکرو پلاسٹک کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے پھیلتے ہیں اور یہ وہاں تک پہنچ جاتے ہیں جہاں مائیکرو پلاسٹک ذرات نہیں پہنچ پاتے۔
ساؤتھمپٹن یونیورسٹی کے ماحولیاتی سائنس کے پروفیسر میلکم ہڈسن کہتے ہیں ''نینو پلاسٹک ذرات انتہائی چھوٹے چھوٹے ٹائم بموں کی طرح خطرناک ہیں جو دوران خون اور دیگر نظاموں کے ذریعے جسم کے مختلف اعضاء تک پہنچ کر وہاں جمع ہو سکتے ہیں‘‘۔
مائیکرو پلاسٹک صحت کیلئے کتنا نقصاندہ؟
ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پلاسٹک کی تیاری کے دوران شامل کیمیکل، انسانی جسم کے اینڈو کرائن سسٹم اور ہارمونز کو متاثر کر سکتے ہیں جو انسانی نشوؤنما کو منظم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ پلاسٹک میں پائے جانے والے کیمیکلز، کینسر، دل کی بیماریوں اور جنین کی نشوؤنما کے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ محققین کے مطابق مائیکرو پلاسٹک کی زیادتی انسانی خلیوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
''ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ انٹرنیشنل‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں عالمی برادری کو متنبہ کرتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ جدید دور میں انسان نے اپنے طرز زندگی کو جس طرح ڈھال رکھا ہے، اسے اس امر کا قطعی احساس نہیں ہے کہ وہ ہر روز ایک معقول مقدار میں پلاسٹک کھا پی رہے ہیں۔ یوں قطرہ قطرہ دریا کے مصداق اگر روزانہ کے حساب سے استعمال کئے جانے والے پلاسٹک کو جمع کیا جائے تو ایک عام آدمی کی زندگی میں اس کے جسم میں جمع ہونے والے پلاسٹک کا فی کس اوسط وزن 20 کلوگرام بنتا ہے۔ جو متعدد بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔
اب سے کچھ عرصہ پہلے یونیورسٹی آف ہل اور یل یارک میڈیکل سکول کے محققین کو ایک تحقیق کے دوران پھیپھڑوں کے نچلے حصے میں مائیکرو پلاسٹک کے ذرات ملے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ انسانی جسم کے اس عضو میں مائیکرو پلاسٹک کے شواہد سامنے آئے ہیں۔ اس تحقیق کے 13 نمونوں میں سے 11میں 39 مائیکرو پلاسٹک کے ذرات پائے گئے ہیں۔
اب کرنا کیا ہو گا؟
دنیا بھر میںپلاسٹک کے استعمال کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اب تو یورپی یونین نے بھی اس کا استعمال محدود کرنے کیلئے باقاعدہ طور پر ایک منصوبہ متعارف کرایا ہے۔ جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ صرف کمپنیوں کو ہی نہیں بلکہ صارفین کو بھی اس مسئلہ کے حل کیلئے ہنگامی بنیادوں پر آگے آنا ہو گا۔یورپی یونین نے اس نئے ضابطے کے تحت پلاسٹک کے کریئر بیگ کو مرحلہ وار 80فیصد تک کم کرنے کی تجویز رکھی ہے۔ پلاسٹک کے تھیلوں کی بجائے کپڑے اور کاغذ کے بار بار استعمال ہونے والے تھیلوں کی حوصلہ افزائی کی تجویز رکھی گئی ہے۔
پلاسٹک کے ایک بار استعمال ہونے والے شاپر عام طور پر سو فیصد کیمیائی مادے پولیتھین سے بنے ہوتے ہیں جسے معدنی تیل سے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ بیگ ماحول کیلئے یوں ضرر رساں ہیں کہ یہ چار سو سے پانچ سو سال تک بمشکل تلف ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کی جگہ کئی بار استعمال ہونے والے بیگوں کو رواج دینا ہو گا کیونکہ یہ بیگ ماحول دوست ہوتے ہیں۔دنیا بھر میں یورپی یونین کی ان تجاویز کو سراہا گیا جس کے تناظر میں دنیا بھر کی ماحول دوست تنظیموں نے بھی عالمی برادری سے پلاسٹک کے استعمال میں احتیاط برتنے کی اپیل کی ہے۔