زیر زمین شہر کی دریافت
زمانہ آدم سے لے کرانسان نے ترقی کی بہت سے منازل طے کرتے ہوئے طویل اور کٹھن سفر جاری رکھا ہوا ہے۔ پتھروں کے زمانے سے اپنی حفاظت کیلئے نت نئے طریقے اپنائے۔ شروع میں پہاڑوں پر قدرتی غاروں کو اپنا مسکن بنایا، پھر گزرتے وقت کے ساتھ قبیلوں کی صورت میں آبادیاں آباد کیںاور رہنے کیلئے چاردیواری اور چھتوں کا استعمال شروع کیا۔ جنگلوں اور غاروں سے نکل کر شہروںکو آباد کیا ۔موجودہ دور میں انسان نے قدیم دور کے بارے میں انسانوں کے رہن سہن اور تہذیبوں کے بارے میں دریافت کرناشروع کیا تووادی سندھ طاس جیسی سب سے قدیم اور منظم آبادیوں کو دریافت کیا گیا۔ جس سے پرانے لوگوں کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل کی گئیں اور انسانوں کے ترقی کی جانب سفر کو جانچنے میں مدد ملی۔ اسی طرح ترکی کے علاقوں میں بھی زمانہ قدیم کے آثار موجود ہیں جہاں پر ایک سو مربع میل کے علاقے میں 200 کے قریب زیر زمین دیہات دریافت کئے گئے ہیں ۔
زمانہ قدیم میںموجودہ ترکی کے صوبہ نیو سیچہرکے علاقے کیپا ڈوشیاں پر ہٹی ، فارسی ، سکندر اعظم ، روم ، بازنطینی سلطنت، سلطنت عثمانیہ اور ترکوں نے حکومت کی۔ 1963ء میں صوبہ نیوسیچہر میں ایک شخص نے اپنے گھر کی تزئین و آرائش کا کام شروع کیا اس نے اپنے تہہ خانے میں ایک دیوار گرا دی۔ دیوار کی دوسری جانب اسے ایک پراسرار کمرہ ملا۔ اس نے کھدائی جاری رکھی اور ایک سرنگ دیکھی مزید کھدائی کرنے سے معلوم ہوا کہ زیر زمین ایک شہر موجود ہے۔
انجینئرنگ کے اس شاہکار کے 8 درجے تھے ۔ ان منزلوں پر رہنے والے باشندوں کو تہہ خانوں، ذخیرہ کرنے کی جگہوں، چیپلوں، ایک اسکول، ایک اسٹڈی روم اور دیگر ڈھانچے بھی ملے۔تمام منزلیں سرنگوں کے ایک وسیع نیٹ ورک سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ زیر زمین شہر ایک پناہ گاہ کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ آپ باہر سے تعمیر نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ اس کی گہرائی تقریباً 279 فٹ ہے۔ یہ کمپلیکس اتنا بڑا تھا کہ تقریباً 20 ہزار لوگوں کے علاوہ ان کے مویشیوں اور خوراک کی فراہمی کو پناہ دی جا سکتی تھی۔
اس زیر زمین شہر میں تازہ ہوا کیلئے بھی بہترین انتظام کیا گیا تھا۔زیر زمین رہنے والے لوگ ہوا کیلئے بنائے گئے وینٹیلیشن کو کنویں سے پانی نکالنے کے بھی استعمال کرتے تھے یہ کنواں سطح زمین پر رہنے والے دیہاتیوں اور زیر زمین شہر میں چھپے لوگوں کو بھی پانی فراہم کرتا تھازیر زمین شہر کو تحفظ کیلئے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ سرنگوں کو اندر سے بڑے گول رولنگ پتھر کے دروازوں بنائے گئے تھے۔ گزرگاہیں انتہائی تنگ تھیں تاکہ حملہ آوروں کو اندر داخل ہونے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے۔
2014ء میں ترکی کی ہاؤسنگ ڈویلپمنٹ ایڈمنسٹریشن (ٹوکیو) کی طرف سے کئے گئے شہری تبدیلی کے منصوبے کے دوران سیکڑوں عمارتوں کو مسمار کردیا گیایہ عمارتیں نیواشائر قلعے اور اس کے آپس پاس واقع تھیں۔ جب نئی عمارتوں کی تعمیر کیلئے زمین میں کھدائی شروع کی گئی تو ایک بڑے زیر زمین شہر کو دریافت کیاگیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ شہر آج سے 5 ہزار سال پرانا ہے،بتایا جاتا ہے کہ یہ دنیامیں آج تک ہونے والے آثار قدیمہ کی سب سے بڑی تلاش سمجھی جا رہی ہے۔ اس زیر زمین شہر کے 600 کے قریب داخلی راستے ہیں اور سرنگوں کے ذریعے شہر کو آپس میں ملایا گیا ہے۔
اس زیر زمین شہر میں مویشیوں کے اصطبل، کنویں ، پانی کے ٹینک ، کھانا پکانا کیلئے کچن ، بڑے ہال کمرے ، باتھ روم اور مقبرے بھی موجود ہیں۔زیر زمین شہر کی تعمیر میں ہوا اور روشنی کیلئے بھی خاص انتظام کیا گیا تھا۔ ماہرین کے خیال کے مطابق اس زیر زمین شہر میں 20 ہزار سے زائد افراد کے رہنے کے انتظامات کئے گئے تھے۔
تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ برسوں کے دوران، 9 قدیم شہر ایک دوسرے کے اوپر بنائے گئے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ یورپ اور ایشیا کے درمیان واقع تھا، اس لیے یہ ایک خوشحال تجارتی اور ثقافتی مرکز بن گیا۔ اس اسٹریٹجک پوزیشن نے ٹرائے کو پوری تاریخ میں پرکشش بنا دیا۔ ٹروجن تنازعہ کے بعد، شہر کو 1100 - 700 قبل مسیح کے درمیان چھوڑ دیا گیا تھا، پھر یونانی آباد کاروں نے اس علاقے کو دوبارہ دریافت کیا، اور سکندر اعظم نے وہاں حکومت کی۔ رومیوں نے پھر شہر پر حملہ کر دیا۔
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس جگہ پر خطے میں کسی بھی کھدائی شدہ مایا بستیوں سے زیادہ تعمیرات دریافت کی گئی ہے۔ 1000ء کے بعد وہاں کی مایا تہذیب کو زوال کا سامنا کرنا پڑا۔شہر کی باقیات میں آرکیٹیکچرل کمپلیکس اور مجسمہ سازی کی یادگاریں، دفاعی نظام، کانیں، پانی کے انتظام کی خصوصیات، بڑے پیمانے پر مندر کے اہرام اور محلات شامل ہیں۔