یادرفتگاں:ناصر کاظمی : ہر عہد کا شاعر

یادرفتگاں:ناصر کاظمی : ہر عہد کا شاعر

اسپیشل فیچر

تحریر : محمد ارشد لئیق


ناصر کاظمی اردو زبان کے ایک اہم شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں عشق، محبت، درد، رنج اور انسانیت کے جذبات کو خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ وہ اپنی غزلوں کیلئے مشہور ہیں، لیکن ان کی نظمیں بھی بہت خوبصورت اور معنی خیز ہیں۔
ناصر کاظمی ایک ہفت پہلو شخصیت کے مالک تھے۔ انہیں عام طور پر غزل کا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے اور یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے لیکن لوگوں کا ماننا یہ ہے کہ وہ صرف غزل کے ہی شاعر نہیں بلکہ دیگر اصناف سخن پر بھی انہیں دسترس حاصل تھی۔ ان کی غزلیں ان کے عصر کا آئینہ ہیں، تقسیم اور ہجرت کا نوحہ ہیں اور معصوم و مقدس عشقیہ جذبات و خیالات کی ترجمان بھی ہیں۔ ان کی نظمیں جہاں ایک طرف ان کی فن کاری اور زبان دانی کی دلیل ہیں وہیں ان کے ایک سچے محب وطن ہونے کا ثبوت بھی ہیں۔ ناصر کاظمی کا منظوم ڈرامہ ''سر کی چھایا‘‘ اس میدان میں ان کے ہنر کا لوہا منوانے کیلئے کافی ہے۔ ان کی نعتیں، سلام اور رباعیات ان کے مذہبی عقائد کے ترجمان ہیں اور ان کی فکری بلند پروازی کا بین ثبوت بھی، ناصر نے نثر نگاری میں بھی کمال کر دیا ہے۔ ان کی ترجمہ نگاری انگریزی اور اردو زبان پر ان کی دسترس کو ظاہر کرتی ہے۔
ناصر کاظمی کی کلیات کا مطالعہ کریں اور ان کی تمام تر ادبی خدمات کا جائزہ لیں تو وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی حق تلفی کی گئی ہے۔ انہوں نے جس نازک دور میں غزل کے سر پر دست شفقت رکھا وہ انتہائی نازک دور تھا۔ انہوں نے ناصرف غزل کا دفاع کیا بلکہ اس کی آبیاری بھی کی اور نوک پلک بھی سنواری۔ ناصر نے غزل کو کچھ اس انداز سے پیش کیا کہ وہ لوگوں کو اپنے دلوں کی آواز معلوم ہوئی۔
ناصر کاظمی کی نظمیں ان کی حب الوطنی کی مرہون منت ہیں۔ ہندوپاک کی 17روزہ جنگ کے دوران انہوں نے اپنے وطن کے تئیں اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کرنے کیلئے اور اپنے ملک کے محافظوں کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے روز ایک ترانہ کہا۔ ترانوں کے علاوہ ان کی دیگر نظموں میں بھی حب الوطنی کا عنصر غالب ہے۔ ناصر بھلے ہی کامیاب نظم نگار نہ کہلائے جا سکتے ہوں لیکن ان کی نظموں کا نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔
ان کا منظوم ڈرامہ ''سر کی چھایا‘‘ ان کے ایک کامیاب ڈرامہ نگار ہونے کی دلیل ہے۔چوں کہ تقسیم اور ہجرت ناصر کے ادب کا مرکزی خیال ہیں اس لئے ان کے منظوم ڈرامے میں بھی ان عناصر کا کارفرمائی واضح دیکھی جا سکتی ہے۔
ناصر نے بارگاہ نبی آخری الزماںﷺ میں نعتیں بھی کہی ہیںاور حضرت حسینؓ اور ان کے اہل خانہ نیز جملہ اصحاب کی خدمت میں سلام بھی پیش کیا ہے۔ نعت وسلام کے معاملے میں بڑا محتاط رویہ اختیار کیا ہے۔
ناصر کاظمی کی نثر انتہائی عمدہ ہے۔ وہ جتنے بڑے شاعر ہیں اتنے بڑے نثر نگار بھی ہیں۔ان کی نثر یوں تو خالص ادبی نوعیت کی ہے لیکن تقسیم اور ہجرت کے اثرات یہاں بھی نمایاں ہیں۔ پاکستان کو درپیش مسائل پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ وہ اپنے ملک کے داخلی، سیاسی اور خارجی مسائل پر توجہ دیتے ہیں۔انہوں نے ناصرف اپنے ملک کے مسائل کو اپنی نثر کا موضوع بنایا ہے بلکہ ان مسائل کا حل بھی پیش کیا ہے۔ ان کی نثر میں کہیں خاکہ نگاری کا رنگ ہے، کہیں انشائیہ نگاری کا، کہیں منظر نگاری کا تو کہیں سفر نامے کا۔ ان کی نثر کے مطالعے کے بعد کوئی بھی ان کے ایک باکمال نثر نگار ہونے سے انکار نہیں کر سکتا۔ ناصر کاظمی کی ترجمہ نگاری بھی قابل توجہ ہے۔ ان کے ترجموں سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ اردوکے علاوہ انگریزی زبان پر بھی دسترس رکھتے تھے۔
ناصر کاظمی کا اصل نام سید ناصر رضا کاظمی تھا۔وہ 8دسمبر1925ء کو انبالہ (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے انبالہ اور شملہ میں ابتدائی تعلیم مکمل کی، پھر اسلامیہ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔1945ء میں وہ واپس انبالہ چلے گئے، تاہم کچھ عرصہ بعد پھر پاکستان چلے آئے۔ ناصرکاظمی صاحب طرز شاعر ہونے کے ساتھ ایک اعلیٰ پائے کے مدیر بھی تھے۔ انہوں نے ''اوراق نو‘‘ میں ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیا اور پھر''ہمایوں‘‘ کے ایڈیٹر ان چیف ہو گئے۔ بعد ازاں ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گئے۔ ناصر کاظمی نے 1940ء میں شعر کہنے شروع کیے۔ آغاز میں وہ اختر شیرانی سے متاثر تھے اور ان کے اُسلوب میں رومانی نظمیں لکھنا شروع کیں۔ اس کے بعد وہ غزل کی طرف آئے، جو بعد میں ان کا اصل میدان ٹھہری۔ انہوں نے کئی شعری مجموعے تخلیق کئے، جن میں ''برگ نے، دیوان، پہلی بارش، نشاط خواب، کے علاوہ''سُر کی چھایا‘‘ (منظوم ڈراما کتھا)، ''خشک چشمے کے کنارے‘‘(نثر، مضامین، ریڈیو فیچرز، اداریے) اور ''ناصر کاظمی کی ڈائری‘‘ شامل ہیں۔
ان کی شاعری کا اہم ترین وصف سادہ اور سلیس زبان کا استعمال ہے۔ ان کی شاعری میں ہمیں درد، اُداسی اور مایوسی کے ساتھ خوشی، جذباتی محبت اور پھر کمال کی رجائیت بھی ملتی ہے۔آخر میں قارئین کیلئے ان کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تیری یاد تھی اب یاد آیا
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو
خوشی کا چاند شام ہی سے جھلملا کے رہ گیا
سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
اور بال بنائوں کس کیلئے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا
اب باہر جائوں کس کیلئے
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر

ترے وصال کی امید اشک بن کے بہہ گئی

کس طرح سے کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر

وقت اچھا بھی آئے گا ناصر

نئے کپڑے بدل کر جائوں کہاں

دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی

دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی

دل تو میرا اُداس ہے ناصر

اس حقیقت سے کیا کوئی انکار کر سکتا ہے کہ انسان کا دل ویران ہو، تو اسے ہر طرف ویرانی ہی نظر آتی ہے۔ ہر شاعر کے پاس زندگی کے مختلف رنگ ہوتے ہیں، جنہیں وہ وقفے وقفے سے اشعار کی شکل میں ڈھالتا رہتا ہے۔ 2 مارچ 1972ء کو ہمارا یہ شاعر عالم جاوداں کو سدھار گیا اور اپنے لاتعداد مداحین کو بھی اداس کرگیا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
وبائی امراض بطور جنگی ہتھیار !

وبائی امراض بطور جنگی ہتھیار !

انسان اور وبائی امراض کا ساتھ قدیمی ہے۔ماہرین ارضیات اور سائنسدانوں کا خیال ہے کہ جب انسان نے مل جل کر رہنے کو رواج دیا اور انسانی آبادیوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ انسانی سرگرمیوں میں اضافہ شروع ہوا تو اسے امراض سے پالا پڑا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ وبائی امراض نے بھی انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہو گا ، لیکن تب انسان کی سوچ محدود ہونے کے سبب وہ اسے بھی ایک عام بیماری سمجھتا رہا ہو گا۔ آج سے کچھ عرصہ قبل ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ڈی این اے کے ذریعے ملنے والی معلومات سے جو شواہد سامنے آئے ہیں ان کے مطابق انسان کا وبائی امراض سے سب سے پہلا سامنا جنوبی افریقہ کے جنگلات سے شروع ہونے والی ایک وبا سے لگ بھگ 73000 قبل مسیح میں ہوا تھا۔ اس تحقیق میں یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکا کہ اس وبا نے کتنی انسانی جانوں کو نشانہ بنایا ہوگا ۔ تاہم معلوم انسانی تاریخ کا یہ پہلا موقع تھا جب 1200 قبل مسیح میں افریقہ ہی سے شروع ہونے والی ایک اور وبا نے مصر سے لے کر بابل تک بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیا تھا۔ اس دور میں مصر دنیا بھر میں بہت بڑے تجارتی مرکز کی شہرت رکھتا تھا اور چونکہ اس دور میں زیادہ تر لوگ تجارت کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک تھے ، جس کی وجہ سے اس وبا نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ بابل کی قدیم اکادی سلطنت کی اکادو زبان میں اس وبائی بیماری کو ''کسارو متانو ‘‘ کا نام دیا گیا تھا جس کے لفظی معنی ''بے بس کر دینا ‘‘ تھے۔ لیکن بعد میں اس بیماری کو باقاعدہ طور پر ''مستحظ ‘‘ کا نام دیا گیا۔ مستحظ کے لفظی معنی ایک ایسی بیماری کے ہیں جو ایک شخص سے دوسرے کو اپنی گرفت میں جکڑ لے۔ اس وبا کی تصدیق اس دور کے ملنے والے ان خطوط سے بھی ہوتی ہے جو اُس دور کے وزراء اور مشیروں نے اپنے بادشاہوں کو لکھے تھے۔ ان خطوط میں ایک خط 1170 قبل مسیح میں ماری سلطنت ( موجودہ شام کا علاقہ ) کے ایک وزیر نے اپنے بادشاہ زمری لم کو لکھا تھا جس میں یہ درخواست کی گئی تھی کہ چونکہ ایک وبا جو ایک شخص سے دوسرے شخص کے ذریعے منتقل ہو جاتی ہے ، پورے خطے میں پھیل چکی ہے لہٰذا سلطنت کے لوگوں کو خبردار کرنے کے احکامات جاری کئے جائیں کہ وہ حتی الامکان سفر سے گریز کریں۔ مورخین کچھ اور خطوط کا حوالہ بھی دیتے ہیں جن میں اس وبا کے ثبوت ملتے ہیں اور سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ آج سے ہزاروں سال قبل بھی وہاں کے لوگوں کو اس امر کا ادراک ہو چکا تھا کہ یہ ایک متعدی مرض ہے جو ایک شخص کے دوسرے شخص کو چھونے سے یا میل جول کے ذریعے پھیلتا ہے ،جس سے بچاؤکا واحد طریقہ ایک دوسرے سے الگ رہنے اور متاثرہ شخص یا اشخاص سے عدم میل ملاپ ہی میں پوشیدہ ہے۔کیا کوئی شخص یہ تصور کر سکتا ہے کہ آج کے مشرق وسطیٰ کہلانے والے علاقے کو آج سے لگ بھگ تین ہزار سال پہلے ایک وبائی آفت نے نیست و نابود کر کے رکھ دیا تھا۔ان میں موجودہ دور کے شمالی اور جنوبی عراق ، مصر، ترکی اور قبرص شامل تھے۔ یہ ریاستیں یا تو مکمل طور پر تباہ ہو گئی تھیں یا ایک عرصے تک ویران اور سنسان کھنڈروں کا نقشہ پیش کرتی رہی تھیں۔ اس تباہی کے پس پردہ اگرچہ طویل جنگ ، قحط اور کچھ دیگر عوامل تو تھے ہی لیکن ان سب سے نمایاں ایک ایسی عالمی وبا تھی جو اس دور کے لوگوں کے لئے نئی ، غیر متوقع اور اچانک تھی۔ تبھی تو وہاں کے لوگ ایک عرصہ تک اسے ''عذاب الٰہی‘‘ کے نام سے پکارتے رہے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب مصر اور ہیٹی(Hittite) دو بڑی طاقتیں ہوا کرتی تھیں اور دونوں اکثر ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہتی تھیں۔ واضح رہے کہ اس دور میں مصر کی سرحدیں موجودہ دور کے جدید جنوبی فلسطین تک پھیلی ہوئی تھیں جبکہ ہیٹی نامی سلطنت کی سرحدیں آج کل کے ترکی سے شمالی فلسطین کو چھوتی تھیں۔یہ 1325 قبل مسیح کے آس پاس کا دور تھا جب ہیٹی مصر کے ایک شہر عمقا (موجودہ فلسطین کا علاقہ) پر حملہ آور ہوا ۔ اتفاق سے عمقا کا جڑواں شہر جبیل اس وقت ایک وبا کی زد میں آیا ہوا تھا اور جبیل سے ملحقہ عمقا بھی اس وبا سے متاثر ہو چکا تھا۔ عمقا سے کچھ مصری فوجیوں کو ہیٹی کی افواج یرغمال بنا کر اپنے ساتھ ہیٹی کے دارلحکومت ہٹوسا لے گئیں جو اتفاق سے اس وبائی مرض میں مبتلا ہو چکے تھے؛چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے اس وبا نے نہ صرف ہٹوسا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا بلکہ اس کے مشرق میں واقع اگریت سلطنت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔مورخین کہتے ہیں ہٹوسا سمیت ہیٹی کے بیشتر علاقے ہی نہیں بلکہ مصر اور اوغاریت ریاست کے بھی بیشتر علاقوں میں دو عشروں تک اس وبا نے تباہی پھیلائے رکھی جس کے بارے مورخین کا کہنا ہے کہ دوعشروں پر محیط اس وبا سے پورے علاقے کی نصف سے زائد آبادی کا نام و نشان تک مٹ گیا تھا ۔ یہاں تک کہ ہیٹی کے دو بادشاہ سپیلو لیوما اور ارنوواندا کی ہلاکت بھی بالترتیب 1322 اور 1323 قبل مسیح میں اسی وبا سے ہوئی تھی۔ہیٹی کے مغرب میں ارزاوا نامی ایک ریاست تھی جس کے دارالحکومت کا نام اپسا تھا، جس کے ہیٹی سے اختلافات ایک عرصہ سے چلے آرہے تھے؛ چنانچہ ہیٹی کو کمزور دیکھتے ہوئے ارزاوا نے ہیٹی پر حملہ کردیا۔ہیٹی چونکہ مصر کے ساتھ تصادم سے یہ جان چکا تھا کہ خطے کے طول و عرض میں پھیلی اس وبا کو بطور ہتھیار استعمال کر کے ارزاوا سے بدلہ لیا جا سکتا ہے؛ چنانچہ ہیٹی نے روایتی طرز پر ارزاوا پر حملہ آور ہونے کی بجائے وبا سے متاثرہ خچر اور کچھ دوسرے جانوروں کو ارزاوا کی سرحد کے اس پار دھکیلنا شروع کر دیا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس وبا نے پوری ریاست ارزاوا کو اپنے پنجوں میں جکڑ لیا۔ ہیٹی سلطنت کی دستاویزات سے بھی اس وبا کو دشمن کے خلاف استعمال ہونے کے اس انوکھے جنگی ہتھیار کی تصدیق ہو جاتی ہے۔

 انقلابی ٹیکنالوجی اب گویائی سے محروم افراد بھی بول سکیں گے

انقلابی ٹیکنالوجی اب گویائی سے محروم افراد بھی بول سکیں گے

گویائی اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے جس کے ذریعے انسان اپنے خیالات، جذبات اور ضروریات کا اظہار کرتا ہے لیکن دنیا بھر میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جو پیدائشی طور پر یا کسی حادثے، بیماری یا چوٹ کے باعث گویائی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کے لیے دوسروں سے رابطہ قائم کرنا ایک مشکل عمل ہوتا ہے، جس سے نہ صرف ان کی ذاتی زندگی متاثر ہوتی ہے بلکہ تعلیمی، پیشہ ورانہ اور معاشرتی میدان میں بھی وہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔تاہم حالیہ برسوں میں ٹیکنالوجی نے اس مسئلے کا ایک ایسا انقلابی حل پیش کیا ہے جو نہ صرف گویائی سے محروم افراد کی زندگی بدل دے گا بلکہ انسانی فلاح و بہبود کے شعبے میں ایک نئی راہ بھی کھولے گا۔ یہ جدید ٹیکنالوجی ''آواز کی تخلیق‘‘ (Speech synthesis) اور''دماغی سگنلز سے رابطہ‘‘ (Brain-Computer Interface) کے امتزاج سے وجود میں آئی ہے۔اس نئی ٹیکنالوجی میں ایک خصوصی چپ یا سینسر انسانی دماغ میں نصب کیا جاتا ہے جو دماغ کے اُس حصے سے جڑا ہوتا ہے جہاں بولنے کے سگنلز پیدا ہوتے ہیں۔ جب کوئی شخص بولنے کا ارادہ کرتا ہے تو اگرچہ وہ آواز پیدا نہیں کر سکتا، لیکن دماغ میں وہ سگنلز ضرور پیدا ہوتے ہیں جو بولنے کے عمل سے جڑے ہوتے ہیں۔ یہ سینسر اُن سگنلز کو شناخت کرتا ہے، کمپیوٹر پر منتقل کرتا ہے اور پھر مصنوعی ذہانت (AI) پر مبنی سسٹم ان سگنلز کو سمجھ کر انہیں آواز میں ڈھالتا ہے۔اس نظام کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ صرف کسی بھی عام آواز نہیں پیدا کرتا بلکہ مریض کی اپنی سابقہ آواز کے نمونوں کو استعمال کرکے اُسی لہجے، اْسی انداز اور اُسی لب و لہجے میں گفتگو کو ممکن بناتا ہے۔ اس کے لیے مریض کی پرانی ریکارڈنگز، ویڈیوز، یا کسی رشتہ دار کی آواز کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔2023 میں امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان فرانسسکو کے سائنسدانوں نے ایسے دو مختلف مریضوں پر کامیاب تجربات کیے تھے جو گویائی سے مکمل محروم تھے۔ ان کے دماغی سگنلز کو استعمال کرتے ہوئے نہ صرف الفاظ کی ادائیگی ممکن ہوئی بلکہ چہرے کے تاثرات کو بھی ڈیجیٹل انداز میں ظاہر کیا گیا تاکہ مریض کی بات کو جذبات کے ساتھ پیش کیا جا سکے۔یہ ٹیکنالوجی نہ صرف گویائی سے محروم افراد کو بولنے کی صلاحیت دے رہی ہے بلکہ ان کی خود اعتمادی، ذہنی صحت اور معاشرتی تعلقات کو بھی بہتر بنا رہی ہے۔ ایسے افراد جو پہلے اپنے جذبات کا اظہار تحریری یا اشاروں کے ذریعے کرتے تھے، اب براہ راست گفتگو کر سکتے ہیں، جس سے ان کی معاشرتی قبولیت میں اضافہ ہوتا ہے۔اگرچہ یہ ٹیکنالوجی ابھی ترقی یافتہ ممالک میں آزمائی جا رہی ہے لیکن مستقبل قریب میں یہ ترقی پذیر ممالک میں بھی متعارف کروائی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے حکومت، نجی شعبہ، طبی ادارے اور فلاحی تنظیمیں مل کر ایک جامع پالیسی بنا سکتی ہیں تاکہ معذور افراد کو یہ سہولت فراہم کی جا سکے۔

عظیم مسلم سائنسدان ابو القاسم عمار موصلی

عظیم مسلم سائنسدان ابو القاسم عمار موصلی

عمار موصلی امراضِ چشم میں مرض موتیا بند کا ماہر تھا۔ اس نے موتیا بند کے سلسلے میں تحقیق کی اور اس کا علاج آپریشن کے ذریعے دریافت کیا۔ مرض موتیا بند تکلیف دہ مرض ہے اور انسان آنکھیں رکھتے ہوئے مجبور ہو جاتا ہے۔ عمار موصلی نے موتیا بند کے آپریشن کئے۔موصلی نے اس فن پر ایک کتاب بھی مرتب کی جس میں اس مرض پر اچھی بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کا نام ''علاج العین‘‘ ہے۔ اس کا ترجمہ یورپ میں ہوا اور 1905ء میں جرمنی سے یہ ترجمہ شائع بھی ہوا۔ابتدائی زندگیابو القاسم عمار موصلی سائنسدان، طبیب حاذق اور امراض چشم کا نامور ماہر تھا۔ اس کے ابتدائی حالات کا کچھ علم نہیں ہو سکا البتہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ طبیب الحاکم 996ء کے عہد میں پیدا ہوا اور اس کے بیٹے کے عہد میں اس نے کام کیا۔ علمی خدمات اور کارنامےہمار موصلی کو علم طب سے خاصی دلچسپی تھی۔ اس نے آنکھ اور اس کے امراض سے متعلق گہری تحقیق کی اور اس کام میں پوری زندگی گزاری دی۔ موصلی نے امراض چشم کے علاج کے سلسلے میں ایک نیا طریقہ اختیار کیا جو بہت کامیاب رہا۔ یہ طریقہ آپریشن کا تھا۔ آنکھوں کے بعض امراض میں آپریشن کے ذریعہ علاج کا طریقہ بہت کامیاب اور اطمینان بخش ثابت ہوا، موصلی آنکھوں کا پہلا سرجن تھا۔امراض چشم میں موتیا بند عام مرض ہے جس میں آنکھوں کی پتلی پر ایک باریک سا پردہ آ جاتا ہے۔ موتیا بند کے لئے آپریشن کا طریقہ اسی مشہور ماہر امراض چشم کا ایجاد کردہ ہے۔ موصلی نے سرکاری ہسپتال میں بے شمار مریضوں کی آنکھوں کا آپریشن کیا۔عمار موصلی نے آپریشن کے لئے ایک خاص قسم کا آلہ ایجاد کیا تھا۔ اس نے آپریشن کے اصول اور قاعدے مرتب کئے، احتیاط اور علاج کا طریقہ بتایا، حفظ ماتقدم کے اصول بیان کئے اور اپنی یہ تمام باتیں اور تجربے قلم بند کر لئے۔ موصلی نے اپنی اس ڈائری کو کتاب کی صورت میں مرتب کرکے اس کا نام علاج العین رکھا۔ُُ''علاج العین‘‘ امراض چشم اور علاج و احتیاط کے بارے میں مکمل اور جامع کتاب ہے۔ یہ کتاب یورپ میں بہت مقبول ہوئی اور اس کا ترجمہ یورپ میں ہوا اور جرمنی میں 1905ء میں اس کا ترجمہ بڑے اہتمام سے شائع کیا گیا۔

توازن کھانے میں، سکون زندگی میں

توازن کھانے میں، سکون زندگی میں

جدید دور کی تیز رفتار زندگی، بے شمار ذمے داریاں، سوشل میڈیا کا دباؤ اور خوبصورتی کے غیر حقیقی معیارات انسان کو ایک ایسی دوڑ میں دھکیل چکے ہیں جس میں جسمانی وزن کم کرنا اکثر ذہنی سکون کھوئے بغیر نہیں ہوتا۔ صحت مند طرزِ زندگی اختیار کرنا بلاشبہ ایک مثبت عمل ہے مگر جب یہ کوشش توازن سے ہٹ کر صرف جسمانی شکل و صورت کی تبدیلی تک محدود ہو جائے تو یہ ہماری ذہنی اور جذباتی صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ آج کی سائنسی تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ خوراک کی مقدار میں کمی، بالخصوص بغیر سائنسی یا طبی رہنمائی کے، نہ صرف ہمارے جسم کو بلکہ ہمارے دماغ اور جذباتی توازن کو بھی متاثر کرتی ہے۔خوراک میں بے ترتیبی اور ذہنی دباؤ: سائنسی تحقیق کیا کہتی ہے؟امریکا کے نیشنل ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن سروے (NHANES) کے تحت 28 ہزار سے زائد افراد پر کی جانے والی تحقیق جو حال ہی میں جرنل BMJ Nutritionمیں شائع ہوئی، اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ غذا میں غیر ضروری یا اچانک کمی ذہنی صحت کو شدید متاثر کر سکتی ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ روزانہ کی کیلوریز میں غیر فطری کمی مردوں اور زیادہ وزن رکھنے والے افراد کے لیے ڈپریشن اور ذہنی بے چینی کے امکانات کو بڑھا دیتی ہے۔محققین نے واضح کیا ہے کہ صرف کیلوریز کی مقدار نہیں بلکہ خوراک کا معیار بھی یکساں اہم ہے۔ وہ افراد جو الٹرا پراسیسڈغذا، ریفائن کاربوہائیڈریٹس، پراسیس گوشت اور فاسٹ فوڈز کا زیادہ استعمال کرتے ہیں ان میں ڈپریشن کا خطرہ کہیں زیادہ ہوتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ جب ہم خوراک کی مقدار کم کرتے ہیں یا صرف ''ڈائٹنگ‘‘ کے نام پر کسی مخصوص غذا تک خود کو محدود کر لیتے ہیں تو جسم کو وہ بنیادی غذائی اجزا، جیسے پروٹین، آئرن، اومیگا 3، وٹامن بی12، زنک، اور فولک ایسڈ نہیں مل پاتے جو دماغی کارکردگی کے لیے نہایت ضروری ہوتے ہیں۔ نتیجتاً نیند کی کمی، توجہ میں خلل، جسمانی تھکن، بے چینی اور آخرکار ڈپریشن جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔ڈپریشن محض جذباتی کیفیت نہیں بلکہ ایک مکمل دماغی اور جسمانی مرض ہے۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق یہ بیماری نہ صرف اداسی، مایوسی اور کم ہمتی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے بلکہ نیند کی خرابی، بھوک میں تبدیلی، توانائی میں کمی، اور بعض اوقات جسمانی درد و تکلیف کی صورت میں بھی سامنے آتی ہے۔اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو ہر شعبہ زندگی میں توازن، اعتدال اور میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:ترجمہ: کھاؤ، پیو اور اسراف نہ کرو، بے شک وہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الاعراف: 31) نبی کریم ﷺ کی خوراک سے متعلق تعلیمات بھی نہایت معتدل تھیں۔ آپ ﷺ فرماتے:آدمی نے پیٹ سے زیادہ برا برتن کوئی نہیں بھرا۔ آدمی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ چند لقمے کھا لے جو اس کی کمر سیدھی رکھیں، اور اگر زیادہ کھانا ہی ہو تو ایک تہائی کھانے کے لیے، ایک تہائی پانی کے لیے اور ایک تہائی سانس کے لیے رکھے۔ (ترمذی) دین اسلام کی یہ تعلیمات ہمیں نہ صرف جسمانی صحت، اعتدال، توازن بلکہ ذہنی و روحانی سکون کا راستہ دکھاتی ہیں۔آج سوشل میڈیا اور شوبز کی دنیا نے خوبصورتی کا جو معیار قائم کیا ہے، اس کی تقلید میں نوجوان نسل غذا ترک کر کے صرف 'سلم‘ نظر آنے کی کوشش میں ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہو رہی ہے۔ ہر تیسرا نوجوان کم کھانے کو کامیابی اور ڈائٹنگ کو 'فیشن‘ سمجھتا ہے۔ نتیجہ؟ غذائی قلت، وٹامن کی قلت، انزائٹی، نیند کے مسائل اور بالآخر ڈپریشن۔دنیا بھر میں ہونے والی مختلف تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ افراد جو میڈیٹرینین ڈائٹ (زیتون کا تیل، مچھلی، سبزیاں، گری دار میوے) کا استعمال کرتے ہیں ان میں ڈپریشن کے امکانات 35 فیصد کم ہوتے ہیں۔ یورپی غذائی نیٹ ورک کے مطابق جن ممالک میں پراسیسڈ فوڈز کا زیادہ استعمال ہوتا ہے وہاں ڈپریشن کی شرح میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق متوازن غذا دماغی صحت کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنی دوا یا سائیکوتھراپی۔ڈپریشن سے بچنے کے لیے اعتدال، متوازن غذا، جسمانی سرگرمی، نیند کی پابندی اور روحانی سکون بنیادی اجزا ہیں۔ نماز، تلاوتِ قرآن، ذکر اور دعا روحانی سکون کے ایسے خزانے ہیں جنہیں سائنس اب ''Mindfulness‘‘ اور'' Spiritual Healing‘‘ کے نام سے قبول کر چکی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ خوراک کو جسمانی ضرورت سے بڑھ کر اعتدال کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے نفسیاتی و روحانی توازن کا ذریعہ سمجھا جائے۔ اعتدال کے ساتھ کھانا کھانے کو ایک عبادت کے جذبے سے کھائیں، اپنے جسم کو اللہ کی امانت جان کر اس کے ساتھ حسنِ سلوک کریں۔ سادگی، میانہ روی، شکر گزاری اور تسلیم و رضا جیسے اسلامی اصول ذہنی دباؤ کے خلاف مضبوط قلعہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ 

حکایت سعدیؒ :مستحق لوگوں کی امداد

حکایت سعدیؒ :مستحق لوگوں کی امداد

حضرت سعدیؒ بیان کرتے ہیں کہ میرے چند دوست ہر لحاظ سے نیک اور قابل تھے۔ یہ بات نہ تھی کہ وہ ظاہر میں کچھ نظر آتے اور اندر سے ان کی حالت کچھ اور ہوتی؛ چنانچہ ان کی اس خوبی کی وجہ سے ایک نیک دل امیر نے ان کا وظیفہ مقرر کر دیا تھا۔ وہ روزی حاصل کرنے کے جھگڑوں سے بچے ہوئے تھے اور نہایت آرام اور عزت کی زندگی گزار رہے تھے۔قسمت کی خرابی سے پھر کچھ ایسا ہوا کہ ان میں سے ایک کوئی ایسی لغزش کر بیٹھا جس کی وجہ سے وہ امیر اُن کی طرف سے بد ظن ہو گیا۔ ان کے نیک اور شریف ہونے کا گمان اس کے دل سے جاتا رہا اور اس نے ان کا وظیفہ بند کر دیا۔مجھے یہ حالات معلوم ہوئے تو میں نے یہ بات ضروری سمجھی کہ امیر کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے ان دوستوں کی صفائی پیش کروں اور ان کا وظیفہ جاری کرا دوں؛ چنانچہ میں ایک دن امیر کے درِ دولت پر پہنچ گیا لیکن دربان مجھے نہ جانتا تھا۔ اس نے دروازے ہی سے لوٹا دیا۔دربان سے جھگڑنا بے سود تھا۔ اگر ایسے لوگ جن کی ظاہر ی حالت سے شان و شوکت ظاہر نہ ہوتی ہو، امرا کے دروازوں پر جائیں تو دربان اور کتے ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں لیکن حسن اتفاق سے ایک شخص نے مجھے پہچان لیا اور وہ مجھے امیر کے دیوان خانے میں لے گیا۔امیر نے مجھے دیکھا تو خوشی ظاہر کی اور عزت کی جگہ بیٹھنے کو کہا۔ لیکن میں معمولی آدمیوں کی صف میں بیٹھ گیا اور اس کی عنایتوں کا شکریہ ادا کر کے اپنے دوستوں کے وظیفے کا ذکر چھیڑا۔ اس گفتگو میں جب میں نے یہ کہا کہ اللہ پاک ہی رزاق حقیقی ہے کہ وہ اپنے نافرمان بندوں کا رزق بھی بند نہیں کرتا تو امیر کا دل پسیج گیا اور اس نے نہ صرف ان کا وظیفہ جاری کر دیا بلکہ پچھلے جتنے دنوں کا وظیفہ انھیں نہیں ملا تھا وہ بھی ادا کرنے کا حکم دے دیا۔ میں نے اس عالی ظرف کی بخشش کا شکر یہ ادا کیا۔ کعبے میں ہوتی ہیں ہر ایک کی مرادیں پوریلوگ یوں اس کی زیارت کے لیے جاتے ہیںدرگزر کر کہ نہیں تیرے تحمل سے بعیدبے ثمر پیڑ پہ پتھر کہاں برساتے ہیںحضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں امرا کو ان کے صحیح مرتبے و منصب اور ذمے داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے اور نہایت مؤثر انداز میں یہ بات بتائی ہے کہ مستحق لوگوں کی امداد ایک ایسا فرض ہے کہ امرا کو یہ فرض بہرحال پورا کرنا چاہیے۔ نیز یہ کہ امداد اس شرط کے ساتھ نہیں ہونی چاہیے کہ امداد لینے والا شخص ضرور ولی اللہ ہو، یعنی اس سے کسی قسم کی لغزش صادر ہی نہ ہو۔ اس سلسلے میں سنت اللہ ان کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ خداوند ذوالجلال اپنے باغیوں اور نافرمانوں کو بھی برابر روزی پہنچاتا ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

عالمی اولمپک کمیٹی کا قیام23 جون 1894ء کو پیرس میں عالمی اولمپک کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔ یہ ایک غیر منافع بخش، غیر سرکاری تنظیم ہے جس کا ہیڈ کوارٹر لوزان، سوئٹزرلینڈ میں واقع ہے۔ یہ تنظیم 100 فعال اراکین، 32 اعزازی اراکین اور ایک معزز رکن پر مشتمل ہے۔ یہ جدید اولمپک کا مقتدر ادارہ ہے جو ہر چوتھے سال سردیوں اور گرمیوں میں منعقد ہوتے ہیں۔ آئی او سی کی جانب سے پہلے گرمائی اولمپکس 1896ء میں یونان میں منعقد ہوئے تھے جبکہ پہلے سرمائی اولمپکس 1924ء میں فرانس میں منعقد ہوئے تھے۔بھارتی تاریخ کا مہلک ترین فضائی حادثہایئر انڈیا کی فلائٹ 182 ایک مسافر پرواز تھی جو مونٹریال سے بھارت جا رہی تھی۔ 23 جون 1985ء کو بم کے دھماکے کے نتیجے میں یہ طیارہ بحر اوقیانوس پر تباہ ہو گیا۔ طیارے کی باقیات آئرلینڈ کے ساحل سے تقریباً 190 کلومیٹر دور سمندر میں گریں۔جہاز میں سوار تمام 329 افراد ہلاک ہو گئے، ان میں 268 کینیڈین شہری، 27 برطانوی شہری اور 24 بھارتی شہری شامل تھے۔یہ کینیڈا کی تاریخ کا بدترین دہشت گرد حملہ تھا اور ہوا بازی کی تاریخ کا ایک انتہائی مہلک واقعہ بھی۔جنگ پلاسی : نواب سراج الدولہ کو شکستپلاسی کی جنگ 23 جون 1757ء کو بنگال کے نواب اور اس کے فرانسیسی اتحادیوں کے خلاف رابرٹ کلائیو کی قیادت میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی فیصلہ کن فتح تھی۔ اس جنگ میں تین ہزار انگریز سپاہیوں نے نواب سراج الدولہ کے 50 ہزار سپاہیوں کو شکست دی۔ یہ فتح نواب سراج الدولہ کے کمانڈر انچیف میر جعفر کی غداری کا نتیجہ تھی۔اس جنگ نے 1772ء میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کو بنگال پر کنٹرول حاصل کرنے میں مدد کی۔ اگلے سو سالوں میں انہوں نے برما سمیت برصغیر کے بیشتر علاقوں پر اپنا کنٹرول قائم کیا۔کرسٹوفر نے ٹائپ رائٹر کو پیٹنٹ کروایا1868ء میں آج کے روز ٹائپ رائٹر کے موجد کرسٹوفر لیتھم شولر نے اس ایجاد کو اپنے نام کروایا۔کرسٹوفر لیتھم شولز (14 فروری 1819ء - 17 فروری، 1890ء) ایک امریکی موجد تھا ، جس نے ''QWERTY‘‘ کی بورڈ بھی ایجاد کیا۔وہ اخبار کے پبلشر اور ایک سیاستدان بھی تھے۔مختلف کی بورڈ والے ٹائپ رائٹرز 1714ء کے اوائل میں ہینری مل نے ایجاد کیے تھے اور 1800ء کی دہائی میں مختلف شکلوں میں دوبارہ ایجاد کیے گئے ۔ شولز کے ٹائپ رائٹر پچھلے ماڈلز میں بہتری لائے۔