کھیوڑہ،ایک عجوبہ
![کھیوڑہ،ایک عجوبہ](https://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/27386_41312298.jpg)
اسپیشل فیچر
پاکستان کا شمار دنیا کے ان خوش قسمت ممالک میں ہوتا ہے جنہیں قدرت کی بے شمار نعمتیں نصیب ہوئیں۔ انہی میں سے ایک نعمت کھیوڑہ ہے، اسے عجوبہ روزگار بھی کہا جاتا ہے۔ کھیوڑہ میں دنیا کی سب سے بڑی نمک کی کانیں ہیں۔ یہ کانیں ضلع جہلم کی تحصیل پنڈ دادنخان میں واقع ہیں۔ لاہور سے موٹر وے کے ذریعے جائیں تو یہ سفر 260 کلومیٹر ہے۔ کلر کہار انٹر چینج کا راستہ طے کرتے وقت تین گھنٹے لگتے ہیں، جہاں سے ایک چھوٹی سڑک آپ کو دنیا کی سب سے بڑی نمک کی کان تک پہنچانے میں معاون بنتی ہے۔ ان کانوں میں تقریباً 220 ملین ٹن نمک محفوظ ہے۔کھیوڑہ کی لمبائی 300 کلومیٹر (186 میل)، چوڑائی 8تا 30 کلو میٹر اور اونچائی 2200 فٹ ہے۔
کھیوڑہ میں نمک کی دریافت 326 قبل مسیح میں اس وقت ہوئی جب دریائے جہلم کے کنارے سکندر اعظم اور راجہ پورس کی فوجوں کے مابین جنگ لڑی گئی۔ سکندر اعظم کے فوجیوں کے گھوڑے اس علاقے میں چرنے کے دوران پتھروں کو چاٹتے پائے گئے جس کے بعد فوجیوں کے ذہن میں اس کی وجہ معلوم کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ جب ان چٹانوں کو چکھا گیا تو یہاں پر نمک کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔ تب سے اب تک یہاں سے نمک حاصل کیا جا رہا ہے۔ یہ دنیا میں نمک کا اہم ترین اور بڑا ذخیرہ ہے۔
اس وقت کھیوڑہ کی کانوں میں 17 منزلوں سے نمک نکالا جا رہا ہے۔ سائنسی اصولوں کے مطابق کان سے پچاس فیصد نمک نکال کر پچاس فیصد بطور ستون چھوڑ دیا جاتا ہے جو کہ کان کی مضبوطی کو قائم رکھتا ہے۔ اب حالات یہ ہیں کہ کھدائی کے بعد 17 سرنگیں یہاں پر موجود ہیں۔ گراؤنڈ لیول جہاں پر سیاح جاتے ہیں، اس چٹان کی چھٹی منزل ہے جس کے اوپر پانچ منزلیں اور اس کے نیچے گیارہ منزلیں موجود ہیں۔ گراؤنڈ لیول دراصل وہ جگہ ہے جہاں سے کان کنی کا آغاز کیا گیا تھا اور جہاں پر اب پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن نے لوگوں کی آمد و رفت کا بندوبست کر رکھا ہے۔
سرنگ کے آغاز پر بنائے جانے والے راستے کے اوپر جہاں کھیوڑہ سالٹ مائن تحریر ہے وہاں پر 1916ء کا سال تحریر کیا گیا ہے۔ سرنگ کے اندر جانے کیلئے الیکٹرک ٹرام استعمال کی جاتی ہے۔ اس سرنگ کے اندر جگہ جگہ بلب لگا کر روشنی کی گئی ہے۔ سرنگ کے آغاز پر ہی جہاں ٹرام پہلے سٹاپ پر رکتی ہے اسے بانو بازار لاہور کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ سرنگ کے اندر موجود کئی جگہوں کو پاکستان کے مشہور شہروں، بازاروں اور عمارتوں سے منسوب کیا گیا ہے۔ ان میں لاہور کا مال روڈ اور راولپنڈی کا چاندنی چوک شامل ہیں۔
سرنگ کے اندر بادشاہی مسجد، شملہ پہاڑی اور شیش محل بھی بنائے گئے ہیں۔ ایک اسمبلی ہال بھی سرنگ کے اندر موجود ہے جو کہ 240 فٹ اونچا 200 فٹ لمبا اور 50 فٹ چوڑا ہے۔ اس ہال میں کئی ہزار لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ سرنگ کے اندر ہی ایک ہسپتال بھی بنایا گیا جہاں پر دمے کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ ان کمروں کے بنانے کیلئے جو اینٹیں استعمال کی گئی ہیں وہ اسی نمک کی بنی ہوئی ہیں جن سے روشنی کا گزر ہوتا ہے تو مختلف رنگ دلکش انداز میں نظر آتے ہیں۔ مسجد جسے بادشاہی مسجد کا نام دیا گیا ہے، کے میناروں میں سوراخ کر کے ان کے اندر بلب لگائے گئے ہیں جن کے جلنے سے نمک کے خوبصورت رنگ دکھائی دیتے ہیں۔
جہاں سے بھی نمک نکالا گیا ہے وہاں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ پہاڑ کی مضبوطی متاثر نہ ہو۔ اس لیے ہر منزل پر کمرے کے اوپر کمرہ اور ستون کے اوپر ستون رکھا گیا۔ یہیں پر موجود ایک کمرے کے بارے میں گائیڈ حضرات کہتے ہیں کہ اگر لوگ یہاں پر پتھر پھینک کر کوئی منت مانیں تو پوری ہوتی ہے۔ ان کمروں میں موجود پانی اس قدر شفاف ہے کہ اگر ان میں پتھر پھینکا جائے تو وہ تہہ تک جاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ پہاڑ کے اندر شیش محل کے قریب ہی 30 فٹ لمبا ایک تنگ پل بھی موجود ہے۔ جسے پل صراط کا نام دیا گیا ہے جسے کسی ستون کے سہارے کے بغیر بنایا گیا ہے۔ پل صراط کو عبور کر کے اندر جائیں تو مینار پاکستان اور علامہ اقبال کی تصویر بنی ہوئی ہے۔
سرنگ کے اندر تازہ ہوا کے اندر آنے کیلئے خاص انتظام ہے۔ اس کیلئے 2500 فٹ لمبا ایک راستہ بنایا گیا ہے جو پہاڑی کی چوٹی تک نکلتا ہے۔ جہاں سے تازہ ہوا کا گزر پہاڑ کے اندر آئے ہوئے سیاحوں کیلئے آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ اگر اس جگہ کی مناسب دیکھ بھال کی جائے تو پاکستان یہاں سے کثیر زر مبادلہ سیاحت کے ذریعے کما سکتا ہے۔ اس طرف وزارتِ سیاحت کے حکام کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔