پرندے جو معدوم ہو رہے ہیں!
![پرندے جو معدوم ہو رہے ہیں!](https://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/27387_95082331.jpg)
اسپیشل فیچر
پرندوں کو عام طور پر ہماری زمین کی صحت کا پیمانہ بھی کہا جاتا ہے۔یہ ماحولیاتی نظام کے ''انجینئر‘‘ ہوتے ہیں جو پودوں کی افزائش کیلئے بیج پھیلاتے ہیں، زیرگی کرتے ہیں اور مردہ جانداروں کو کھا کر ماحول کو صاف رکھتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ چرند پرند ہمارے ماحول کا حسن بھی ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ اس خوبصورت اور انسان دوست مخلوق کی فلاح اور بقا کیلئے بحیثیت اشرف المخلوقات ہم نے کیا کیا؟ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ اس معصوم، بے زبان اور بے ضرر مخلوق کوسب سے زیادہ خطرہ ہم انسانوں اور ہمارے رویوں سے ہے۔
اقوام متحدہ کی سال گزشتہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ چرند پرند اور ہماری زمین خطرے کی حالت میں ہے۔ آٹھ میں سے ایک پرندے کی نسل کو معدومیت کا خطرہ لاحق ہے اور دنیا بھر میں پرندوں کے حوالے سے صورت حال دن بدن بگڑتی جا رہی ہے۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ہجرتی آبی پرندوں کی متعدد انواع کو سب سے زیادہ خطرے کا سامنا ہے۔ انہیں سب سے زیادہ خطرہ شمالی کرہ میں موسم گرما کے نسل کشی کے مقامات اور جنوب میں خوراک کے حصول کی جگہوں کے مابین سالانہ دو طرفہ ہجرتوں کے دوران ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ ہی کی ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ حیاتیاتی تنوع کا نقصان اس وقت دنیا کو درپیش سب سے بڑے ماحولیاتی مسائل میں سے ایک ہے۔ اسی رپورٹ میں 2019ء کے بین الحکومتی سائنسی پالیسی پلیٹ فارم (آئی پی بی ای ایس ) کے ایک عالمی سروے کا حوالہ بھی دیا گیا تھا جس کے تحت عالمی برادری کو متنبہ کیا گیا تھا کہ انسان حیاتیاتی تنوع کو تیزی سے کھورہا ہے۔ اگر اس نے اپنے رویوں میں نظر ثانی نہ کی تو مستقبل قریب میں جانداروں کی دس لاکھ انواع کو معدومیت کے خطرے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ اسی رپورٹ میں ایسا ہی ایک انکشاف جنگلی جانوروں کی ہجرتی انواع کے تحفظ کے حوالے سے بھی کیا گیا تھا۔ جس میں اس خدشہ کا اظہار کیا گیا تھا کہ جانوروں کی 73 فیصد انواع ایسی ہیں جو ماحولیاتی تبدیلیوں اور دیگر وجوہات کے باعث معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔
چرند پرند ہجرت کیوں کرتے ہیں ؟
جہاں تک چرند پرند کی ہجرت کا تعلق ہے تو یہ بات طے ہے کہ انسانی ہجرت اور چرند پرند کی ہجرت کے اسباب کسی نہ کسی حد تک ملتے جلتے ہیں، جن میں خوراک کی دستیابی اور موسمیاتی تبدیلیاں سرفہرست ہیں۔ تاریخی حوالوں سے انسانی ہجرت کے شواہد تو زمانہ قدیم کے انسان کے غاروں سے نکل کر میدانی علاقوں کارخ کرنے کے ساتھ ہی سامنے آ گئے تھے جبکہ پرندوں کی ہجرت کا,سب سے پہلا ذکر 3000سال قبل ارسطو کے دور سے ملتا ہے۔ پرندوں کی موسمیاتی ہجرت کی باقاعدہ دستاویزاتی شروعات کا ثبوت 1749ء میں فن لینڈ کے ایک ماہر ماحولیات جوہانس لیچے کے حوالے سے ملتا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ آخر پرندے ہجرت کیوں کرتے ہیں؟
ایک خطے سے دوسرے خطے کی جانب پرندوں کی اڑان ہزاروں سالوں سے جاری ہے۔ ہزاروں میل کا یہ سفر اب ان کی جین میں شامل ہو چکا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی نئی نسل جب پرواز کا آغاز کرتی ہے تو وہ بھٹکے بغیر اسی مقام پر پہنچ جاتی ہے جہاں ان کے آبائواجداد آیا کرتے تھے۔ عمومی طور پر اس ہجرت کی دو وجوہات ہیں ایک تو تلاش رزق اور دوسرا برفانی علاقوں سے سردی کے موسموں میں یہ پرندے میدانی علاقوں کا رخ کرتے ہیں اور جب موسم بدلنا شروع ہوتا ہے تو یہ واپس برفانی علاقوں کی طرف جانا شروع ہو جاتے ہیں۔
جب تک پرندوں کی ہجرت پر کی گئی وسیع تحقیق کے نتائج سامنے نہیں آئے تھے، اس وقت تک یہ تصور رائج تھا کہ پرندے زیادہ تر اپنی نسل کی بقا کیلئے ہجرت کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہجرت کا مقصد حصول خوراک، ساتھی کی تلاش اور شکاریوں سے بچاؤ بھی ان کی ترجیحات میں شامل ہوتا تھا۔ جدید تحقیق میں یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ شہروں میں بڑھتی آبادی سے پرندے تیزی سے اپنی رہائشیں کھوتے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف گلوبل وارمنگ کے باعث موسمیاتی تبدیلی بھی انہیں ہجرت پر مجبور کر دیتی ہے۔
اگرچہ عمومی طور پر صرف پرندوں کی نقل مکانی کو ہی ہجرت سے تعبیر کیا جاتا تھا لیکن بہت سارے جانور بھی ایسے ہیں جو پرندوں کی مانند ہجرت کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر افریقہ کا ایک جانور ولڈر بیسٹ، خشک موسموں کے دوران تازہ گھاس کے حصول کیلئے ایک عرصے سے ایک گروہ کی شکل میں ہجرت کرتا آ رہا۔
اسی طرح آبی مخلوق ہمپ بیک کے بارے بھی پتہ چلا ہے کہ سردیوں کے موسم میں یہ اپنی افزائش کیلئے گرم پانیوں کا رخ کرتی ہے۔ اسی طرح بہت سارے دیگر جانور جن میں پہاڑی ریچھ، ہرن، چیتا وغیرہ بھی موسمیاتی تبدیلیوں اور خوراک کی تلاش کے سلسلے میں مسلسل ہجرت کرتے رہتے ہیں۔
زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟
جن بزرگوں نے پچھلا دور دیکھا ہے وہ اکثر کہتے سنے گئے ہیں کہ گئے زمانوں میں علی الصبح لوگوں کی آنکھ ہی پرندوں کی سریلی آواز اور چہچہاہٹ سے کھلا کرتی تھی لیکن کہاں گئے وہ انسان دوست پرندے؟ انہیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟ ماہرین ماحولیات اس کا جواب شہری علاقوں میں آبادی کے بے ہنگم اضافے کو قرار دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کی 55 فیصد سے زائد آبادی شہروں میں رہتی ہے اور جس تیزی سے اس میں اضافہ ہو رہا ہے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ 2050ء تک دنیا بھر کی 70فیصد آبادی شہروں میں منتقل ہو چکی ہو گی۔
وقت گزرتا گیا اور ہمارے ارد گرد بلند اور بالا عمارتوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ میدان اور کھیت کنکریٹ کے جنگلوں میں بدلتے چلے گئے، ہری بھری جھاڑیاں اور پیڑ ختم ہوتے چلے گئے اور یوں چڑیوں کی سُریلی آوازیں شہروں سے رخصت ہوئی چلی گئیں۔ چڑیا، مینا، بلبل، ہُد ہُد ایک ایک کر کے شہروں سے مہاجرت پر مجبور ہو گئیں۔
پرندے تیزی سے معدومیت
کی طرف کیوں؟
ایک حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال اربوں پرندے شہروں کی بلند و بالا عمارتوں سے، ان کی کھڑکیوں کے شفاف اور چمکدار شیشوں سے ٹکرا کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔کیونکہ مہاجر پرندے رات کے وقت عموماً ستاروں کی مدد سے اپنے راستے کی نشاندہی کرتے ہیں، لیکن ان عمارتوں کی مصنوعی روشنیاں انہیں اپنی راہ سے بھٹکا دیتی ہیں کیونکہ انہیں یوں لگتا ہے کہ وہ کسی ستارے کی روشنی کی جانب محو پرواز ہیں۔ جس کے باعث یہ اکثر عمارتوں کے شیشوں سے ٹکرا کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
اسی طرح پرندوں کی ایک کثیر تعداد بجلی سپلائی کی بڑی تاروں، بڑے بڑے اونچے کھمبوں اور ٹاورز سے ٹکرا کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ شکار کی انسانی ہوس سے بھی دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں کروڑوں پرندے ہلاک ہو رہے ہیں، جن میں تیزی سے معدوم ہوتے پرندوں کی نسلیں بھی شامل ہیں۔
لمبی اور اونچی اڑان والے پرندے
پرندوں کی ہجرت کا ذکر چھڑا ہے تو آپ کو یہ دلچسپ تحقیق بتاتے چلیں، جس کے مطابق سب سے لمبی اڑان کا ریکارڈ ''آرکیٹک ٹرن‘‘ نامی پرندے کے پاس ہے جو ہر سال سردیوں میں قطب شمالی سے قطب جنوبی تک مسلسل 35 ہزار کلومیٹر کا دو طرفہ سفر کرتا ہے۔ یہ راستے میں موریطانیہ، گھانا اور جنوبی افریقہ اور کچھ دیگر ممالک میں مختصر قیام بھی کرتا ہے۔اگر بات مسلسل طویل سفر کی کی جائے تو پرندوں میں یہ ریکارڈ ''مرغ باراں‘‘ نامی پرندے کے پاس ہے جس نے الا سکا سے نیوزی لینڈ تک 12200کلومیٹر سفر بلا رکے متواتر دس دن میں طے کیا تھا۔