عظیم مسلم جغرافیہ دان:ابن خرداذبہ
![عظیم مسلم جغرافیہ دان:ابن خرداذبہ](https://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/27462_31735253.jpg)
اسپیشل فیچر
ابوالقاسم عبید اللہ بن عبداللہ ابن خرداذبہ 820ء کے قریب پیدا ہوئے مگر ان کا سن وفات متعین نہیں ہے۔ یہی کہا جاتا ہے کہ ان کا انتقال 912ء کے لگ بھگ ہوا۔ ابن خرداذبہ کا نام جغرافیہ، تاریخ اور موسیقی کے موضوعات کے حوالے سے جانا پہچانا جاتا ہے۔
ابن خرداذبہ ایرانی النسل تھے۔ ان کے دادا شروع میں مجوسی تھے لیکن بعد میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ ان کا والد طبرستان کے گورنر تھے۔ ابن خرداذبہ الجبل (میڈیا) میں ڈاک اور خبر رسانی کے محکمے کے ناظم(صاحب البریدو الخبر) کے اہم عہدے پر فائز تھے لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انہوں نے یہ عہدہ کب اور کیسے حاصل کیا۔ اس کے بعد سامرہ میں انہوں نے خلیفہ المعتمد سے گہری دوستی گانٹھ لی۔ انہوں نے تاریخ، سلسلہ، نصاب، جغرافیہ، موسیقی اور باورچی گیری جیسے موضوعات پر بہت کچھ لکھا ہے۔ اس سے نہ صرف ان کی علمیت اور فضیلت کا پتہ چلتا ہے کہ کیسے انہوں نے اس قدر مختلف موضوعات پر اتنا مواد تحریر کر دیا بلکہ یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ وہ اپنے وقت کی سماجی و ثقافتی زندگی سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ عربی میں سوانحی کتابیات سے ان کی کم از کم نو کتابوں کا تو پتہ چلتا ہے۔ الندیم نے ان کے یہ نام بتائے ہیں:
(1):کتاب ادب السماع (اس میں موسیقی سننے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے آداب بتائے گئے ہیں)۔
(2):کتاب جمرۃ الانساب الفرس والنواقل(ایرانیوں کے نسب ناموں سے متعلق۔
(3):کتاب المسالک و الممالک( مختلف ملکوں اور سلطنتوں کے جغرافیائی حالات۔ یہی کتاب ابن خرداذبہ کی شہرت کا باعث ہے۔ اس کتاب کے موجودہ متن اور اس کے استفادہ کے بارے میں اصحاب علم میں اختلاف پایا جاتا ہے)۔
(4):کتاب الطبیخ ( اس میں مختلف کھانے تیار کرنے کی تراکیب دی گئی ہیں)۔
(5)کتاب اللہود الملاہی ( اس کتاب کے واحد قلمی نسخے کو آئی اے خلیفے نے مرتب کرکے بیروت سے 1964ء میں شائع کرایا تھا۔ غالباً یہی وہ کتاب ہے جس کا ذکر المعری نے اپنے ''رسالتہ الغفران‘‘ میں اور ''طبقات المنغین‘‘ کے تحت ذکر کیا ہے)۔
(6):کتاب الانواء(ساکن سیاروں کے ظاہر ہونے کے بارے میں۔
ابن خرداذبہ کی وجہ شہرت صرف ایک ہی موضوع کے حوالے سے ہے اور وہ ہے جغرافیہ اور مختلف ممالک کے متعلق اہم جغرافیائی معلومات جغرافیے کے موضوع پر اس کی اہم تالیف ''کتاب المسالک والممالک‘‘ اس وقت جس حالت میں موجود ہے، وہ غالباً اصل کتاب کی تلخیص ہے۔ اس کتاب کے مرتب ڈخوج (De goeje)کے مطابق اصل کتاب 846-47ء میں تیار ہو گئی تھی لیکن ابن خرداذبہ اس میں مزید اضافے کرتا رہا اور ان اضافوں کے بعد حتمی مسودہ 885-86ء میں تیار ہو گیا۔ یہ کتاب نہ صرف عباسی دور کی اسلامی سلطنت کا احاطہ کرتی ہے بلکہ اس میں غیر اسلامی دنیا کے علاقائی جغرافیے پر بھی بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کا زیادہ حصہ ''الربع المعمورہ‘‘(زمین کا آباد حصہ) کے رسل و رسائل اور سفری تفصیلات کیلئے وقف کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابن خرداذبہ نے احسن طریقے سے ان مفید معلومات کو سائنسی طور پر پیش کیا ہے۔اس کام میں ابن خرداذبہ نے خلافت عباسیہ کے مختلف علاقوں کے نقشوں کے علاوہ برہم پترا، جزیرہ انڈمان، جزیرہ نما ملائیشیا اور جاوا تک کے جنوبی ایشیائی ساحل کی زمین، لوگوں اور ثقافت کی تفصیل بھی شامل ہے۔ ان کے کام میںجاپان کا حوالہ بھی ملتا ہے، جبکہ وہ مشرق میں وائکنگ(Viking) کی تجارت کو ریکارڈ کرنے والے اولین مسلمان مصنفین میں سے ایک تھے: روس کہلانے والے تاجر بحیرہ اسود اور بحیرہ کیسپین میں تجارت کرتے تھے اور اپنا سامان اونٹ کے ذریعے بغداد تک لے جاتے تھے۔ابن خردادبہ نے واضح طور پر دو مرتبہ الواق وَق کا تذکرہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ چین کے مشرق میں وَق وَق کی سرزمینیں ہیں جو اس قدر سونے سے مالا مال ہیں کہ وہاں کے باشندے اپنے کتوں کے لیے زنجیریں اور بندروں کے لیے اس دھات سے گریبان بناتے ہیں۔ وہ سونے سے بنے ہوئے چوغے تیار کرتے ہیں۔ بہترین آبنوس کی لکڑی وہاں پائی جاتی ہے، اور وق وق سے سونا اور آبنوس برآمد کیا جاتا ہے۔ جغرافیے کی اس قدیم کتاب کے بنیادی مآخذ میں اسی موضوع سے متعلق قدیم ایرانی کتب کے علاوہ حکومتی دستاویزات نیز عرب سیاحوں، سوداگروں اور جہاز رانوں کے مستند حالات و مشاہدات سے بھی استفادہ کیا ہے۔ موضوعاتی مواد کی ترتیب و تدوین، علاقوں، ضلعوں اور تحصیلوں کیلئے فارسی اصطلاحات کا استعمال اور ان کے فارسی ناموں کے استعمال سے ابن خرداذبہ پر ایرانی اثرات کا واضح طور پر پتہ چلتا ہے۔
ابن خرداذبہ دوسرے علاقوں کی نسبت عراق کو ایک مرکزی حیثیت دیتا ہے اور اپنے سفری کوائف بیان کرنے کے لئے بغداد کو نقطہ آغاز قرار دیتا ہے۔ وہ اپنے حالات سفر السواد نام کے شہر سے شروع کرتا ہے۔ اس شہر کو ایران کے قدیم فرمانروا ایران شہر کا دل سمجھتے تھے۔ بغداد سے نکلنے والے بری اور بحری راستے چاروں سمتوں میں بکھر جاتے ہیں۔ مشرق کی جانب یہ بری راستے وسطی ایشیا تک پہنچتے ہیں اور سمندری راستے ہندوستان اور چین تک جاتے ہیں۔ مغرب کی سمت یہ راستے شمالی افریقہ اور سپین تک، شمال میں آذربائیجان اور قفقاز تکاور جنوب میں ان راستوں سے جنوبی عرب تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
ابن خرداذبہ نے اپنی کتاب میں مختلف علاقوں سے متعلق جو معتبر معلومات فراہم کی ہیں، ان سے بعد کے جغرافیہ دانوں اور سیاحوں نے بھی بھرپور استفادہ کیا ہے اور اسے اپنی بنیادی مآخذ میں جگہ دی ہے۔