عظیم مسلم جغرافیہ دان:ابن خرداذبہ

عظیم مسلم جغرافیہ دان:ابن خرداذبہ

اسپیشل فیچر

تحریر : اسد بخاری


ابوالقاسم عبید اللہ بن عبداللہ ابن خرداذبہ 820ء کے قریب پیدا ہوئے مگر ان کا سن وفات متعین نہیں ہے۔ یہی کہا جاتا ہے کہ ان کا انتقال 912ء کے لگ بھگ ہوا۔ ابن خرداذبہ کا نام جغرافیہ، تاریخ اور موسیقی کے موضوعات کے حوالے سے جانا پہچانا جاتا ہے۔
ابن خرداذبہ ایرانی النسل تھے۔ ان کے دادا شروع میں مجوسی تھے لیکن بعد میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ ان کا والد طبرستان کے گورنر تھے۔ ابن خرداذبہ الجبل (میڈیا) میں ڈاک اور خبر رسانی کے محکمے کے ناظم(صاحب البریدو الخبر) کے اہم عہدے پر فائز تھے لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انہوں نے یہ عہدہ کب اور کیسے حاصل کیا۔ اس کے بعد سامرہ میں انہوں نے خلیفہ المعتمد سے گہری دوستی گانٹھ لی۔ انہوں نے تاریخ، سلسلہ، نصاب، جغرافیہ، موسیقی اور باورچی گیری جیسے موضوعات پر بہت کچھ لکھا ہے۔ اس سے نہ صرف ان کی علمیت اور فضیلت کا پتہ چلتا ہے کہ کیسے انہوں نے اس قدر مختلف موضوعات پر اتنا مواد تحریر کر دیا بلکہ یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ وہ اپنے وقت کی سماجی و ثقافتی زندگی سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ عربی میں سوانحی کتابیات سے ان کی کم از کم نو کتابوں کا تو پتہ چلتا ہے۔ الندیم نے ان کے یہ نام بتائے ہیں:
(1):کتاب ادب السماع (اس میں موسیقی سننے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے آداب بتائے گئے ہیں)۔
(2):کتاب جمرۃ الانساب الفرس والنواقل(ایرانیوں کے نسب ناموں سے متعلق۔
(3):کتاب المسالک و الممالک( مختلف ملکوں اور سلطنتوں کے جغرافیائی حالات۔ یہی کتاب ابن خرداذبہ کی شہرت کا باعث ہے۔ اس کتاب کے موجودہ متن اور اس کے استفادہ کے بارے میں اصحاب علم میں اختلاف پایا جاتا ہے)۔
(4):کتاب الطبیخ ( اس میں مختلف کھانے تیار کرنے کی تراکیب دی گئی ہیں)۔
(5)کتاب اللہود الملاہی ( اس کتاب کے واحد قلمی نسخے کو آئی اے خلیفے نے مرتب کرکے بیروت سے 1964ء میں شائع کرایا تھا۔ غالباً یہی وہ کتاب ہے جس کا ذکر المعری نے اپنے ''رسالتہ الغفران‘‘ میں اور ''طبقات المنغین‘‘ کے تحت ذکر کیا ہے)۔
(6):کتاب الانواء(ساکن سیاروں کے ظاہر ہونے کے بارے میں۔
ابن خرداذبہ کی وجہ شہرت صرف ایک ہی موضوع کے حوالے سے ہے اور وہ ہے جغرافیہ اور مختلف ممالک کے متعلق اہم جغرافیائی معلومات جغرافیے کے موضوع پر اس کی اہم تالیف ''کتاب المسالک والممالک‘‘ اس وقت جس حالت میں موجود ہے، وہ غالباً اصل کتاب کی تلخیص ہے۔ اس کتاب کے مرتب ڈخوج (De goeje)کے مطابق اصل کتاب 846-47ء میں تیار ہو گئی تھی لیکن ابن خرداذبہ اس میں مزید اضافے کرتا رہا اور ان اضافوں کے بعد حتمی مسودہ 885-86ء میں تیار ہو گیا۔ یہ کتاب نہ صرف عباسی دور کی اسلامی سلطنت کا احاطہ کرتی ہے بلکہ اس میں غیر اسلامی دنیا کے علاقائی جغرافیے پر بھی بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کا زیادہ حصہ ''الربع المعمورہ‘‘(زمین کا آباد حصہ) کے رسل و رسائل اور سفری تفصیلات کیلئے وقف کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابن خرداذبہ نے احسن طریقے سے ان مفید معلومات کو سائنسی طور پر پیش کیا ہے۔اس کام میں ابن خرداذبہ نے خلافت عباسیہ کے مختلف علاقوں کے نقشوں کے علاوہ برہم پترا، جزیرہ انڈمان، جزیرہ نما ملائیشیا اور جاوا تک کے جنوبی ایشیائی ساحل کی زمین، لوگوں اور ثقافت کی تفصیل بھی شامل ہے۔ ان کے کام میںجاپان کا حوالہ بھی ملتا ہے، جبکہ وہ مشرق میں وائکنگ(Viking) کی تجارت کو ریکارڈ کرنے والے اولین مسلمان مصنفین میں سے ایک تھے: روس کہلانے والے تاجر بحیرہ اسود اور بحیرہ کیسپین میں تجارت کرتے تھے اور اپنا سامان اونٹ کے ذریعے بغداد تک لے جاتے تھے۔ابن خردادبہ نے واضح طور پر دو مرتبہ الواق وَق کا تذکرہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ چین کے مشرق میں وَق وَق کی سرزمینیں ہیں جو اس قدر سونے سے مالا مال ہیں کہ وہاں کے باشندے اپنے کتوں کے لیے زنجیریں اور بندروں کے لیے اس دھات سے گریبان بناتے ہیں۔ وہ سونے سے بنے ہوئے چوغے تیار کرتے ہیں۔ بہترین آبنوس کی لکڑی وہاں پائی جاتی ہے، اور وق وق سے سونا اور آبنوس برآمد کیا جاتا ہے۔ جغرافیے کی اس قدیم کتاب کے بنیادی مآخذ میں اسی موضوع سے متعلق قدیم ایرانی کتب کے علاوہ حکومتی دستاویزات نیز عرب سیاحوں، سوداگروں اور جہاز رانوں کے مستند حالات و مشاہدات سے بھی استفادہ کیا ہے۔ موضوعاتی مواد کی ترتیب و تدوین، علاقوں، ضلعوں اور تحصیلوں کیلئے فارسی اصطلاحات کا استعمال اور ان کے فارسی ناموں کے استعمال سے ابن خرداذبہ پر ایرانی اثرات کا واضح طور پر پتہ چلتا ہے۔
ابن خرداذبہ دوسرے علاقوں کی نسبت عراق کو ایک مرکزی حیثیت دیتا ہے اور اپنے سفری کوائف بیان کرنے کے لئے بغداد کو نقطہ آغاز قرار دیتا ہے۔ وہ اپنے حالات سفر السواد نام کے شہر سے شروع کرتا ہے۔ اس شہر کو ایران کے قدیم فرمانروا ایران شہر کا دل سمجھتے تھے۔ بغداد سے نکلنے والے بری اور بحری راستے چاروں سمتوں میں بکھر جاتے ہیں۔ مشرق کی جانب یہ بری راستے وسطی ایشیا تک پہنچتے ہیں اور سمندری راستے ہندوستان اور چین تک جاتے ہیں۔ مغرب کی سمت یہ راستے شمالی افریقہ اور سپین تک، شمال میں آذربائیجان اور قفقاز تکاور جنوب میں ان راستوں سے جنوبی عرب تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
ابن خرداذبہ نے اپنی کتاب میں مختلف علاقوں سے متعلق جو معتبر معلومات فراہم کی ہیں، ان سے بعد کے جغرافیہ دانوں اور سیاحوں نے بھی بھرپور استفادہ کیا ہے اور اسے اپنی بنیادی مآخذ میں جگہ دی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
دلچسپ اور عجیب درخت

دلچسپ اور عجیب درخت

انسانوں اور درختوں کا چولی دامن کا ساتھ صدیوں پر محیط ہے۔ درخت انسان کے وفادار ساتھی ہیں لیکن انسان عمومی طور پر درختوں کا ''قاتل‘‘ بھی سمجھا جاتا ہے۔ درختوں کا انسانوں پر کیا یہ کم احسان ہے کہ یہ انسان کو آکسیجن کے علاوہ ایندھن، گھر کی تزئین و آرائش اور روزمرہ ضروریات کی اشیاء مہیا کرتے ہیں، ادویات کا ماخذ بھی یہی درخت ہی ہیں، انسانوں کو پھل اور جانوروں کی غذائی ضروریات پوری کرنا اور انسانی تاریخ کی عظیم ایجاد کاغذ کا منبہ بھی تو یہی ہیں۔ یہ فہرست انتہائی طویل ہے جس کا احاطہ ممکن نہیں۔ ماہرین کہتے ہیں درخت بھی انسانوں کی طرح رفتہ رفتہ بڑھتے ہیں، جوان ہوتے ہیں، بوڑھے ہوتے ہیں اور پھر طبعی عمر پوری کر کے مردہ ہو جاتے ہیں۔ پرانے دور کے بزرگ کہا کرتے تھے، درخت بھی انسانوں کی طرح حساس ہوتے ہیں، خوش اور پریشان بھی ہوتے ہیں۔ بعض بزرگوں سے یہ بھی کہتے سنا تھا کہ اگر آپ پھل دار درختوں کی ضرورت سے زیادہ کٹائی کریں تو یہ ناراض بھی ہو جاتے ہیں اور اگلے سال پھل کم دیتے ہیں۔آج آپ کو دنیا میں پھیلے درختوں کے بارے کچھ دلچسپ باتیں بتاتے ہیں۔ جنرل شرمن ٹریکیلی فورنیا کے نیشنل پارک میں صنوبر کے سب سے پرانے اور بلند درختوں کی بھر مار ہے۔ نیشنل پارک کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ دنیا کا صنوبر کا سب سے بڑا جنگل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صنوبر کا درخت 3ہزارسال تک زندہ رہ سکتا ہے۔ ''جنرل شرمن‘‘نامی ایک درخت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ اس وقت دنیا کا سب سے بلند اور پرانا درخت ہے جس کی عمر 2200سال سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ اس کی بلندی 83.3 میٹر جبکہ وزن 42 لاکھ پونڈ بتایا جاتا ہے (مینار پاکستان کی بلندی 60 میٹر ہے)۔ اس درخت کانام 1879ء میں امریکی خانہ جنگی کے ہیرو امریکی جنرل شرمن کے نام پر رکھا گیا تھا۔ میجر اوک انگلینڈ کی ایک کاونٹی ناٹنگھم شائر کے ''شرووڈ‘‘ جنگل میں ایک درخت جو ایک ہزار سال پرانا ہے اور اس کی وجۂ شہرت معروف کردار رابن ہڈ ہے کیونکہ یہ درخت رابن ہڈ اور اس کے دوستوں کا مسکن ہوا کرتا تھا جہاں یہ سب دوست جمع ہو کر فراغت کے لمحات گزارا کرتے تھے۔اس درخت کا نام 18 ویں صدی کے معروف برطانوی فوج کے میجر ہیمین سے منسوب ہے۔ میجر ہیمین کی جہاں برطانوی فوج کیلئے خدمات ہیں وہیں انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کی شرووڈ جنگل بارے متعدد تصانیف بھی شہرت اختیار کر چکی ہیں۔منفرد وضع قطع کا یہ درخت 28 ٹن وزنی جبکہ اس کے تنے کا گھیرائو 33 فٹ بتایا جاتا ہے۔ اس درخت کے نام کو ''میجر ہیمین ٹری‘‘ کی شناخت دی گئی جو بگڑتے بگڑتے اب ''میجر اوک‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پڑ دادا ٹرینباتات کی دنیا میں اب تک '' میتھوسیلہ‘‘ نامی درخت کو دنیا کا قدیم ترین درخت مانا جاتا ہے لیکن جنوبی چلی کے ایک جنگل میں'' فٹز رویا کپریسو ئڈیز‘‘ (Fitzroya Cupressoides )نامی درخت دریافت ہوا ہے جسے ماہرین پانچ ہزار سال سے زیادہ پرانا بتاتے ہیں۔ اس لئے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ عنقریب دنیا کے سب سے پرانے درخت کا اعزاز اپنے نام کر لے گا۔ پیٹا گونین صنوبر نسل کا یہ درخت چونکہ اس جنگل کا سب سے پرانا درخت ہے اس لئے یہ پڑدادا ٹری (گرینڈ فادر ٹری) کے نام سے شہرت رکھتا ہے۔ اس درخت کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے اینیبل ہنریکیز نامی فاریسٹ وارڈن نے 1972ء میں دریافت کیا تھا لیکن اس نے ایک عرصہ تک اس کی شناخت خفیہ رکھی کیونکہ بقول ان کی بیٹی نینسی کے انہیں پتہ تھا کہ یہ بہت قیمتی ہے۔ حسن اتفاق دیکھئے اس دریافت کے سولہ سال بعد اینیبل کی موت گھڑ سواری کے دوران اسی درخت کے سامنے دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی تھی۔ سات بہنوں کا درختامریکہ میں قدیم ، بلند و بالا اور منفرد درختوں کا پتہ رکھنے اور ان کا ریکارڈ جمع کرنے والی ایک تنظیم کے مطابق امریکی ریاست لوئیسیانا میں شاہ بلوط کا ایک درخت جو ایک شخص کے فارم میں اس کی ذاتی ملکیت ہے اور اس کے آبائو اجداد کے زمانے سے چلا آرہا ہے۔ اس درخت کے مالک نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ درخت 1500 سالہ قدیم ہے۔اس نے یہ بھی بتایا کہ اس کے خاندان کے بزرگوں نے اس درخت کانام اپنے ایک دوست کارول ہنری ڈوبی کے نام پر رکھا تھا جو سات بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ بگڑتے بگڑتے یہ نام ''سیون سسٹرز اوک‘‘ (سات بہنوں کا درخت) ہو گیا اور اب لوگ اسے اسی نام سے جانتے ہیں۔شجر حیات بحرین کے صحرا میں ایک پہاڑی مقام ''جبل دوخان‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جو بے آب و گیاہ علاقہ ہونے کی وجہ سے بیاباں صحرا کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ دوخان سے دو کلومیٹر شمال کی جانب چاروں طرف صحرائی ریت سے گھرا ایک سرسبز اور شاداب واحد درخت دور سے نظر آتا ہے جس کے بارے مقامی افراد کا کہنا ہے کہ یہ ایک سو سال پرانا درخت ہے۔یہ درخت لوگوں کیلئے ایک معمہ یوں بنا ہوا ہے کہ حیرت انگیز طور پر یہاں دور دور تک پانی کے کوئی آثار نہیں ہیں ، چنانچہ اسی وجہ سے اسے ''شجر حیات ‘‘کانام دیا گیا ہے۔ ڈرائیو تھرو ٹریز کیلیفورنیا کے ''کوسٹ ریڈ ووڈ پارک‘‘ میں چار منفرد درخت سارا سال سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑے درخت کی اونچائی 315 فٹ ہے۔ اس کے تنے کے درمیان 1930ء میں 6 فٹ چوڑا اور 9 فٹ اونچا ایک شگاف کیا گیا تھا اور اس شگاف کے درمیان ایک سڑک تعمیر کی گئی تھی۔ جس پر چھوٹی کاریں باآسانی آ جا سکتی ہیں۔باقی تین درخت جو اس سے قدرے چھوٹے ہیں ان کے درمیان میں کئے گئے شگاف میں سے بھی کاروں کی آمدورفت جاری رہتی ہے۔اس خصوصیت کے باعث ان درختوں کو ''ڈرائیو تھرو ٹریز‘‘ کانام دیا گیا ہے۔ منفرد اور حیرت انگیز درخت٭...سکندر اعظم نے جب ہندوستان پر حملہ کیا تو ہندوستان میں ''بڑ‘‘کا ایک ایسا قدیم درخت تھا جس کے نیچے سکندراعظم کی فوج کے سات ہزار سپاہیوں نے پڑاو ڈالا تھا۔ ٭...جزائر غرب الہند میں ایک ایسا درخت پایا جاتا ہے جس کے تنے کا چھلکا اتار کر لوگ اسے ڈبل روٹی کی جگہ کھاتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر اس کا ذائقہ اور تاثیر ڈبل روٹی ہی کی طرح ہوتی ہے۔٭...انڈونیشیا میں ایک ایسا درخت پایا جاتا ہے جو سات سے آٹھ فٹ اونچا ہے۔ اس کی منفرد خوبی قدرت نے یہ رکھی ہے کہ وہ رات کے وقت چمکتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی روشنی میںباآسانی لکھا پڑھا بھی جا سکتا ہے۔ دور سے یہ ایک روشن مینار کی طرح نظر آتا ہے۔ ٭...جزائر غرب الہند میں پام کا ایک ایسا درخت پایا جاتا ہے جس کے پتے دنیا کے کسی بھی درخت سے زیادہ لمبے ہیں۔اس کے ایک پتے کی اوسط لمبائی 65 فٹ تک بتائی جاتی ہے۔٭...آسٹریلیا میں ایک ایسا عجیب وغریب درخت پایا جاتا ہے جس کا تنا بوتل کی شکل کا ہے۔ اس بوتل نما تنے سے ہر وقت پانی رستا رہتا ہے جسے لوگ پانی کی جگہ استعمال کرتے ہیں۔مقامی افراد نے اسے '' واٹر ٹری‘‘کا نام دیا ہوا ہے۔ ٭...ہالینڈ میں مولسری کے ایک ایسے انوکھے درخت بارے بتایا جاتا ہے جسے قدرت نے بڑھنے کے بعداس کی شکل اسے لگانے والے شخص جیکوبس ورن نامی شخص کی شکل سے مشابہ شکل عطا کر دی ہے۔٭...افریقہ میں ایک قدیم درخت کو ''ڈریگنز بلڈ ٹری‘‘ یا ''اژدھا کے خون والا درخت‘‘ کہا جاتا ہے ۔اس درخت کو جب کاٹا جائے تو اس کی لکڑی سے گہرے سرخ خون جیسا مواد بہنا شروع ہو جاتا ہے۔

فائر وال کیا ہے، کیسے کام کرتا ہے؟

فائر وال کیا ہے، کیسے کام کرتا ہے؟

چین میں حکومتی پالیسی کی وجہ سے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا استعمال باقی دنیا کی طرح آسان اور آزاد نہیں ہے۔ 90ء کی دہائی میں جب چین میں انٹرنیٹ عام ہوا تو اس وقت حزب اختلاف میں موجود ڈیموکریٹک پارٹی نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے کیلئے انٹرنیٹ کا استعمال کیا۔ جس کی بنا پر حکومت کو تنقید و منفی پروپیگنڈا کا سامنا کرنا پڑا اور اس وقت حکومت نے اس کا توڑ نکالنے کیلئے سر جوڑ لیے۔ اب اس کا انتظام کرنے کیلئے کمیونسٹ حکومت نے اس انفارمیشن کے بہاؤ کو کنٹرول کرنا تھا جس کیلئے ٹیکنالوجی ایکسپرٹ بیٹھے اور انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیوں نے اس کا حل انٹرنیٹ ٹریفک کے بہاؤ پر کچھ فلٹر انسٹال کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ پہلی نسل کے فائر وال تھے۔ فائر وال اصل میں ایک ایسا سافٹ ویئر ہوتا ہے جو کسی بھی نیٹ ورک پر آنے والی اور اس سے باہر جانے والی ٹریفک کو فراہم کیے گئے رولز کے حساب سے بلاک کرتا ہے یا ترسیل کی اجازت دیتا ہے۔ چین میں 1998ء سے 2006 ء تک وہ پہلا مرحلہ تھا جب ملک میں انٹرنیٹ پر فائروال انسٹال کیا گیا اور 2013ء تک دوسرا مرحلہ تکمیل کو پہنچا۔ یہ فائروال کوئی سادہ یاعام طور پر استعمال ہونے والا فائروال نہیں ہے بلکہ اس میں جو ایک چیز سب سے اہم استعمال کی جاتی ہے وہ''ڈیپ پیکٹ انسپیکشن‘‘(Deep packet inspection) ہے۔پیکٹ کیا ہے؟انٹرنیٹ پر انفارمیشن کا تبادلہ پیکٹس کی صورت میں ہوتا ہے جس میں دو چیزیں ہوتی ہیں، ایک ''پیکٹ ہیڈر‘‘(Packet Header) اور دوسرا''پیکٹ پیلوڈ‘‘(Packet Payload) پہلے میں بھیجنے والے اور موصول کرنے والے کا ایڈریس، پروٹوکول، پورٹ اور سکیورٹی انفارمیشن ہوتی ہے جبکہ پے لوڈ پیکٹ میں اصل میسج یا بھیجی گئی معلومات ہوتی ہیں۔ عام طور پر فلٹر یا فائروال میں پیکٹ کا صرف ہیڈر چیک کیا جاتا ہے اور اس پر ٹریفک رولز کے حساب سے عمل کیا جاتا ہے اس کو Shallow packet inspection )کہا جاتا ہے۔ میسج کے اندر کیا ہے وہ چیک نہیں کیا جاتا لیکن DPI کی صورت میں پیکٹ کا اصل میسج بھی چیک کیا جاتا ہے۔یہ ایک الگ بحث ہے کہ یہ انسپکشن صارفین کی پرائیویسی کا خیال نہیں کرتی۔ڈیپ پیکٹ انسپیکشن کیلئے انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیوں(ISPs) کے آلات میں مخصوص سافٹ وئیر اور ہارڈوئیر انسٹال کیے جاتے ہیں۔ DPIکا مقصد انٹرنیٹ ٹریفک کی جانچ کرکے کوالٹی کو بہتر بناناہے۔چند دن پہلے یورپی یونین نے ایک بل پیش کیا ہے جس میں Child abuse کے متعلق مواد کو سکین کرنے کیلئے ایک ایسا سسٹم متعارف کروایا جائے گا۔ آپ نے Encryptionکے بارے بھی سنا ہوگا مثلاً وٹس ایپ End-to-end encryption کا استعمال کرکے چیٹ کرنے والوں کے درمیان معلومات کو ایسے انکوڈ کرتا ہے کہ ان دونوں کے سوا کوئی اس کو پڑھ نہیں سکتا۔ابھی تک وٹس ایپ کی اس انکرپشن کو محفوظ مانا جاتا ہے کیونکہ امریکی تحقیقاتی ایجنسی ایف بی آئی کئی بار وٹس ایپ کی کمپنی میٹا کو عدالت کے ذریعے درخواست کرچکی ہے کہ اس کو معلومات تک رسائی دی جائے لیکن وٹس ایپ نے انکار کیا ہے۔ایسی محفوظ ایپلی کیشنز کا حل یہ نکالا جاتا ہے کہ ان پر پابندی لگا دی جائے اور اس کی جگہ ایسی ایپ لانچ کی جائے جس کی نگرانی آسان ہو، جیسا کہ چین میں ہے۔ اس قسم کی انسپکشن سے کسی بھی ملک میں انٹرنیٹ پر چلتے ٹرینڈز، مخصوص ایپلی کیشن اور ویب سائٹ تک رسائی کو بلاک کیا جا سکتا ہے۔ کوئی بھی حکومت یا ادارہ اپنے ملک میں اپنے شہریوں کی انٹرنیٹ سرگرمیوں پر نظر رکھ سکتا ہے۔ اس مقصد کیلئے مخصوص الفاظ سے مخصوص ویب سائٹس تک رسائی اور سوشل میڈیا پر چلتے ٹرینڈ کو روک کر اور ایپلی کیشن کو سست بنا کر عوام کو ایک حصار میں بند کیا جاتا ہے۔کیا فائروال سے بچناممکن ہے ؟ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں وی پی این کا استعمال ٹویٹر کی بندش کے بعد بڑھ گیا ہے۔ جب کوئی وی پی این استعمال کرتا ہے تو اس کی ساری ٹریفک وی پی این سرور کی طرف جاتی ہے۔ وی پی این خود سے بھی انٹرنیٹ کو سست بناتے ہیں۔ ہمارے جیسے ملک میں واٹس ایپ یا دوسری سوشل میڈیا ایپس کو لمبے عرصے تک بند رکھنا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ وہ کمپنی لاکھوں کروڑوں صارفین سے محروم ہو جاتی ہے۔ اگر ان سب باتوں کا خلاصہ پیش کروں توپاکستان میں انسٹال ہونے والے فائروال کا مقصد ملک میں انٹرنیٹ پر شیئر کیے جانے والے مواد کو فلٹر کرنا ہے۔ سوشل میڈیا پر حکومت اور اداروں کے خلاف مواد کو روکنا ہے نیز ملکی سلامتی کے پیش نظر ریاست مخالف پروپیگنڈا کی روک تھام اور ایسی تمام ویب سائٹس اور ایپلی کیشنز کو بلاک کرنا جو کسی خاص نظریہ کو یا ملکی مفاد کے منافی مواد کے پھیلاؤ کا باعث بنیں۔وقاص ریاض قائد اعظم یونیورسٹی میں فزکس کے طالب علم ہیں، سائنسی امور پر ان کے مضامین اخبارات اور ویب سائٹس پر شائع ہوتے ہیں  

آج کا دن

آج کا دن

انسولین کی ایجاد 27 جولائی 1921ء ٹورنٹو یونیورسٹی کے بائیو کیمیا دان فریڈریک بینٹنگ اور ان کے ساتھیوں نے انسولین دریافت کی۔ فریڈریک بینٹنگ ہڈیوں کے سرجن تھے اور انہوں نے یہ دریافت ایک کتے کے لبلبے پر تجربات کے بعد کی۔جس میں پروفیسر میک لیوڈ (Macleod) اورچارلس نے ان کی معاونت کی۔27 جولائی 1921ء کو انسولین کی دریافت سے پہلے ذیابیطس ایک مہلک بیماری تھی، یہ جسے ہو جاتی وہ فقط چند برسوں کا مہمان ثابت ہوتا۔جیٹ انجن سے لیس طیارے کی پہلی اڑان 27 جولائی 1949ء کو دنیا کے پہلے جیٹ انجن سے لیس مسافر بردار طیارے نے اپنی پہلی کامیاب پرواز کی۔''ڈی ہیولینڈ ڈی ایچ 106‘‘ دنیا کا پہلا کمرشل جیٹ ہوائی جہاز ہے۔اس میں چار ڈی ہیولینڈ گھوسٹ ٹربو جیٹ انجن نصب تھے۔ اس کے مسافر کیبن پرسکون اور آرام دہ تھے ۔اس نے اپنی پہلی تجارتی پرواز مئی 1952ء میں بھری ۔جنیوا کنونشنجنگی قیدیوں سے متعلق جنیوا کنونشن پر 27 جولائی 1929 ء کو جنیوا میں دستخط ہوئے ۔ اس کا سرکاری نام جنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے کنونشن تھا جبکہ یہ 19 جون 1931ء کو نافذ ہوا۔اس کنونشن میں دوسری عالمی جنگ کے قیدیوں کے ساتھ سلوک کا احاطہ کیا گیا۔جنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک سے متعلق دفعات 1899ء اور 1907ء کے ہیگ کے ضوابط میں موجود تھیں۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اس میں کئی خامیوں کے ساتھ درستگی کا بھی انکشاف کیا گیا۔ائیر شو حادثہ27جولائی2015ء کو یوکرین میں ہونے والے فضائی شو میں ایک حادثہ پیش آیا۔یہ شو یوکرین کی فضائیہ کے زیر اہتمام کروایا گیا تھا۔ اس میں ایک جہاز اپنی محارت دکھاتا ہوا ائیر فیلڈ کے قریب گر کر تباہ ہو گیا۔اس حادثے میں 77افراد جان بحق جبکہ543کے قریب زخمی ہوئے۔ 100افراد کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔یہ حادثہ دنیا میں کسی بھی ائیر شو کے دوران ہونے والے حادثات میں سب سے بھیانک تصور کیا جاتا ہے۔اس ائیر شو کو دیکھنے کیلئے 10ہزار افراد موجود تھے۔ سی زیروک قتل عام27جولائی 1997ء کو الجزائر میں لاربا کے جنوب میں سی زیروک محلے میں ایک قتل عام کیا گیا جسے زیروک قتل عام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس میں تقریباً 50لوگ مارے گئے۔ 1997ء میں الجزائر خانہ جنگی کے عروج پر تھا۔دو بڑے گوریلا گروہ حکومت سے لڑائی میں مصروف تھے۔اس حملے سے قبل گاؤں کی بجلی کو منقطع کر دیا گیا اور آرمی بیرکس کے قریب حملہ کیا گیا۔ اس حملے کو الجزائر کی خانہ جنگی کے دوران کئے جانے والے حملوں میں سب سے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ 

کامیاب افراد میں کیا خوبیاں ہوتی ہیں!

کامیاب افراد میں کیا خوبیاں ہوتی ہیں!

کامیابی کیلئے خود کو متحرک کرنا دراصل اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی شدید خواہش کا نتیجہ ہے۔ نپولین بل نے اپنی معروف کتاب Think and Grow Richمیں لکھا ہے: '' انسانی دماغ جو کچھ سوچ سکتا ہے، جس پر یقین رکھتا ہے وہ حاصل کر سکتا ہے۔‘‘شدید خواہش اس مقصد کے حصول کا افتتاحی عمل ہے جس کیلئے آپ نے قدم بڑھایا ہے، جس طرح تھوڑی سی آگ سے حرارت حاصل نہیں کی جا سکتی اسی طرح کمزور خواہش سے بڑے نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔ کامیاب افراد جانتے ہیں کہ زندگی میں وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان کے سامنے زندگی کا مقصد جتنا واضح ہوتا ہے اتنی ہی شدید اس مقصد کو حاصل کرنے کی لگن بھی ہوتی ہے۔کمٹمنٹدیانت اور دانائی دو ایسے ستون ہیں جن پر ذمہ داری اور کمٹمنٹ کی تعمیر ہوتی ہے۔ مکمل ذمہ داری اٹھائے بغیر کوئی مقصد اپنی تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ زندگی کیسے بھی حالات سے گزر رہی ہو کامیاب افراد اپنی کمٹمنٹ کبھی نہیں بھولتے۔احساسِ ذمہ داریبہترین کردار کے لوگ ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ وہ خود فیصلہ کرتے ہیں اور اپنی زندگی کی منزل خود متعین کرتے ہیں۔ ذمہ داریوں کو قبول کرنا کبھی کبھار رسک لینے کے مترادف ہو تا ہے اور ایسا کرنا زندگی میں مشکلات کاباعث بھی بن سکتا ہے۔ بعض اوقات حالات غیر مطمئن بھی ہو جاتے ہیں۔ جب ذمہ داری قبول کی جاتی ہے تو نپے تُلے انداز میں خطرے بھی مول لینے پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت ذمہ داریاں قبول نہیں کرتی۔ وہ اپنے کمفرٹ زون میں رہنا پسند کرتے ہیں اور ایک غیر فعال زندگی گزارتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ بجائے چیزوں کو خود بنانے کے خود بخود سب کچھ ہو جانے کے انتظار میں ساری عمر گنوا دیتے ہیں۔ ذمہ داری لینا دراصل آنکھیں کھلی رکھنے کا نام ہے ،جہاں ایک ایک چیز ایک ایک حرکت پر نظر رکھنی پڑتی ہے تاکہ مناسب اور صحیح قدم اٹھایا جا سکے۔ ذمہ دار افراد دنیا سے توقعات نہیں رکھتے بلکہ وہ اپنی ضروریات کی ذمہ داری خود اٹھاتے اور پوری کرتے ہیں۔سخت محنتکامیابی کبھی بھی حادثاتی طور پر حاصل نہیں ہوتی۔ اس کیلئے بہت سی تیاری، ذہانت و محنت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ہر شخص جیتنا چاہتا ہے لیکن کتنے لوگ ہیں جو حقیقت میں اس جیت کیلئے محنت ، کوشش، وقت اور ہمت صرف کرتے ہیں؟ کامیابی کا سفر قربانی اور نظم و ضبط مانگتا ہے، جہاں سخت محنت کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ محنت کے بغیر کوئی بھی کام سرانجام نہیں دیا جا سکتا۔ کامیاب لوگ یہ نہیں کہتے کہ ہم تھوڑا کام کریں گے بلکہ وہ یہ پوچھتے ہیں کہ کتنا زیادہ کام کرنا ہے؟ جیتنے والوں کو جیتنے کیلئے بہت مدت تک محنت کرنی پڑتی ہے۔ اعلیٰ کارکردگی قسمت سے حاصل نہیں ہوتی یہ شدید محنت اور مشق کا نتیجہ ہوتی ہے اور ہمیں بہترین بنا دیتی ہے۔ بہترین خیالات اس وقت تک بے کار ہیں جب تک ان پر عمل نہ کیا جائے، محنت نہ کی جائے۔ انسان جتنی زیادہ محنت کرتا ہے اتنا اچھا محسوس کرتا ہے اور جتنا اچھا محسوس کرتا ہے اتنی ہی زیادہ محنت کرتا ہے۔بہترین کردارکردار دراصل کسی بھی انسان کی اقدار، یقین اور شخصیت کا نچوڑ ہوتا ہے۔ یہ ہمارے رویے اور حرکات و سکنات سے منعکس ہوتا ہے۔ اس کی حفاظت دنیا کے سب سے قیمتی لعل و جوہر سے بھی زیادہ کرنی پڑتی ہے۔ کامیابی کے راستے پر ثابت قدمی سے چلنے اور خود کو بچانے کیلئے خود ارادی اور کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ کامیابی کی راہ میں اہلیت اور کردار کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ جہاں اہلیت کامیابی تک پہنچاتی ہے وہاں کردار اس کامیابی کو برقرار رکھتا ہے۔مثبت یقینمثبت سوچ اور مثبت یقین میں بہت فرق ہے۔ مثبت یقین، مثبت سوچ سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔ مثبت یقین، مثبت سوچ کو پروان چڑھانے کی وجہ مہیا کرتا ہے۔ مثبت یقین اپنی ذات پر کامل یقین اور بھروسہ کا نام ہے۔ یہ ایک با اعتماد رویہ ہوتا ہے۔ مثبت رویہ بغیر کوشش کے بالکل ایسا ہے جیسے آپ کا ایک من پسند خواب یا خواہش جس کو مکمل کرنے کیلئے ابھی تک آپ نے کوئی اقدام نہیں کیا۔ اس خواب کو پورا کرنے کیلئے آپ کو مثبت یقین کی ضرورت ہوتی ہے۔مستقل مزاجی کی طاقتکامیابی کا سفر آسان نہیں ہے۔ اس میں بہت مشکلات بھی ہیں لیکن کامیاب افراد میں ان تمام مشکلات کا سامنا کرنے اور حل کرنے کی ہمت اور اہلیت ہوتی ہے۔ ثابت قدمی کا مطلب کمٹمنٹ اور ارادہ ہے جہاں صبرو تحمل اور برداشت سے کام لینا پڑتا ہے۔ مستقل مزاجی اور کمٹمنٹ آپ کا فیصلہ ہے۔ ایک ایتھلیٹ صرف چند منٹوں کی ریس جیتنے کیلئے سال ہا سال مشق کرتا ہے۔مستقل مزاجی آپ کی کمٹمنٹ ہے اس کام کو پورا کرنے کی جو آپ نے شروع کیا ہے جب ہم تھک جاتے ہیں تو کام سے دستبردار ہو جانا بہت اچھا لگتا ہے لیکن کامیاب افراد برداشت کرتے ہیں اور اپنے کام میں ثابت قدم رہتے ہیں۔ ثابت قدمی کسی خاص مقصد سے جنم لیتی ہے۔ بے مقصد زندگی بے معنی ہو جاتی ہے کیونکہ جس شخص کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں تو نہ ہی اس کے اندر اس کو پورا کرنے کی خواہش اور لگن ہو گی اور نہ ہی وہ اپنی زندگی کو بھرپور طور پر انجوئے کر سکے گا۔اپنی کارکردگی پر فخراپنی کارکردگی پر خود کو شاباش دینا بھی خوشی کا ایک حصہ ہے کیونکہ سخت محنت، سچی لگن، ایمانداری اور مستقل مزاجی ہی کی وجہ سے آج آپ کو کوئی مخصوص کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ کام خواہ کوئی بھی ہو جب وہ بہترین انداز میں کیا گیا ہو تو اس کو سراہا جانا لازمی ہے۔ جیتنے والے کوئی مختلف کام نہیں کرتے بلکہ وہ تو مختلف انداز سے کام کرتے ہیں۔ 

ہیپا ٹائٹس سی ٹیسٹ کٹ کی منظوری

ہیپا ٹائٹس سی ٹیسٹ کٹ کی منظوری

عالمی ادارہ صحت (WHO) نے لوگوں کو ہیپا ٹائٹس سی وائرس کا خود ٹیسٹ کرنے کے لیے تیار کردہ کِٹ کے استعمال کی منظوری دے دی ہے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ اس طرح بیماری کی تشخیص میں کافی مدد ملے گی ۔WHO میں ایچ آئی وی، ہیپا ٹائٹس اور ایس ٹی آئی پروگراموں کے شعبے کی ڈائریکٹر ڈاکٹر میگ ڈورتھی کے مطابق اس ٹیسٹ کٹ سے ایچ سی وی کی جانچ اور علاج کی جانب اہم پیش رفت ہو سکتی ہے اور اس سے کئی جانیں بچائی جاسکیں گی۔بقول ان کے '' بیماری کی تشخیص اور علاج یقینی بنانے سے بالآخر ایچ سی وی کے خاتمے کے عالمگیر ہدف کو حاصل کرنے کا محفوظ و موثر راستہ میسر آیا ہے‘‘۔ڈاکٹر ڈورتھی کا کہنا ہے کہ وائرس سے پھیلنے والے ہیپاٹائٹس سے روزانہ 3500 اموات ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں، ہیپا ٹائٹس سی میں مبتلا پانچ کروڑ لوگوں میں سے 36 فیصد میں ہی اس بیماری کی تشخیص ہو پاتی ہے۔ 2022ء کے اختتام تک ان میں سے صرف 20 فیصد لوگوں کو علاج معالجہ میسر آیا تھا۔ہیپا ٹائٹس سی جگر کو متاثر کرتا ہے اور شدید و طویل بیماری کا سبب بن سکتا ہے جس سے جان بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔یہ بیماری متاثرہ خون کے ذریعے پھیلتی ہے اور استعمال شدہ سوئیاں ‘ سرنجیں اور استرے اس کا بڑا ذریعہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ جانچ کے بغیر خون کی منتقلی بھی اس بیماری کی ایک سے دوسرے فرد کو منتقلی کا باعث بن سکتی ہے۔ WHO کے مطابق اس وقت دنیا میں تقریباً پانچ کروڑ افراد شدید نوعیت کے ہیپا ٹائٹس سی میں مبتلا ہیں اور ہر سال اس بیماری کے تقریباً 10 لاکھ نئے مریض سامنے آتے ہیں۔ 2022 میں اس بیماری سے تقریباً 242,000 لوگوں کی اموات ہوئی تھیں جن میں بیشتر تعداد جگر کے بنیادی کینسر میں مبتلا تھی۔ WHOنے 2021 ء میں اس ٹیسٹ کی سفارش کی تھی تاکہ بیماری کی جانچ سے متعلق موجودہ خدمات کو مزید موثر بنایا جا سکے۔ یہ فیصلہ ایسی واضح شہادتوں کی بنیاد پر کیا گیا کہ اس سے بیماری کی جانچ اور تشخیص سے متعلق خدمات تک رسائی اور ان کے حصول میں بہتری آئے گی۔ خاص طور پر اس سے ایسے لوگوں کو فائدہ پہنچے گا جو وائرس کا ٹیسٹ نہیں کرواتے۔WHO میں شعبہ ضوابط و منظوری کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ایچ سی وی ٹیسٹ کٹ کی دستیابی سے کم اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک کو محفوظ اور سستے انفرادی ٹیسٹ کی سہولت میسر آئے گی جو کہ اس بیماری میں مبتلا 90 فیصد لوگوں کی نشاندہی کا ہدف حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔وائرل ہیپاٹائٹس عالمی سطح پر اموات کی آٹھویں سب سے بڑی وجہ ہے اور 2015 میں ایک اندازے کے مطابق13 لاکھ سے زیادہ اموات کا ذمہ دار تھا۔ عالمی سطح پر تقریباً 25 کروڑ افراد ہیپاٹائٹس بی اور سات کروڑ ہیپاٹائٹس سی سے دائمی طور پر متاثر ہیں۔ اس شرح سے2015 اور 2030 کے درمیان ایک اندازے کے مطابق دو کروڑ اموات واقع ہوں گی۔ اس بیماری کے 80 فیصد مریض پاکستان اور مصر میں ہیں۔ پاکستان میں تقریباً ایک کروڑ سے زائد افراد ہیپاٹائٹس بی یا سی میں مبتلا ہیں اور ہر سال تقریباً ڈیڑھ لاکھ نئے کیسز سامنے آتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی 4.3 فیصدسے 11.5فیصد تک آبادی ہیپا ٹائتس سے متاثر ہے۔ اس طرح پاکستان ہیپاٹائٹس سی کے انفیکشن کے لیے دنیا میں دوسرے نمبر پر آتا ہے اور ہر 20 میں سے ایک پاکستانی اس مرض سے متاثر ہے۔اس بیماری کو خاموش قاتل کہا جاتا ہے کیونکہ بہت سے مریض پیچیدگیاں پیدا ہونے سے پہلے اس سے معاملے میں لاعلم ہوتے ہیں۔  

آج کا دن

آج کا دن

معاہدہ لوزان لوزان کا معاہدہ 1922-23ء کی لوزان کانفرنس کے دوران طے پایا اور 24 جولائی 1923ء کو پالیس ڈی رومین، لوزان، سوئٹزرلینڈ میں اس پر دستخط کیے گئے۔ اس معاہدے نے سلطنت عثمانیہ اور اتحادی فرانسیسی جمہوریہ، برطانوی سلطنت، سلطنت اٹلی، سلطنت جاپان، سلطنت یونان اور سلطنت رومانیہ کے درمیان پہلی جنگِ عظیم کے آغاز کے بعد سے موجود تنازعات کو باضابطہ طور پر طے کیا۔ معاہدے کا اصل متن فرانسیسی زبان میں ہے۔ یہ سیوریس کے ناکام اور غیر توثیق شدہ معاہدے کے بعد امن کی دوسری کوشش کا نتیجہ تھا۔ جس کا مقصد عثمانی زمینوں کو تقسیم کرنا تھا۔ اپالو 11 کی واپسی1969ء میں آج کے روز چاند کے کامیاب مشن سے واپسی پر اپالو 11 بحفاظت اوقیانوس میں اتارا گیا۔ اپالو 11 مشن16 جولائی 1969 کو فلوریڈا کے کینیڈی سپیس سنٹر سے Saturn V راکٹ کے ذریعے تین خلا بازوں کو لے کر چاندکے لیے روانہ ہوا۔ یہ تینوں خلاباز نیل آرم سٹرانگ، مائیکل کولنز، ایڈون ایلڈرن اپالو 11 کے تاریخ ساز مشن کے ذریعے چاند تک پہنچے۔یہ پورا مشن 8 دن جاری رہا اور 24 جولائی کو یہ امریکی خلائی جہاز ریاست ہوائی میں ہوائی میں بحر اوقیانوس میں بحفاظت زمین پر واپس اترآیا۔ماچو پچو کی دریافت 1911ء میں امریکی ایکسپلورر ہیرام بنگھم نے پیرو میں ایک مہم کے دوران ماچو پچو، انکاس کا کھویا ہوا شہر دریافت کیا۔ ماچو پچو ایک قدیم انکا قلعہ ہے جو اینڈیز پہاڑوں میں بلندی پر واقع ہے۔اس سائٹ کے قابل ذکر تحفظ اور شاندار فن تعمیر نے اسے دنیا کے سب سے مشہور آثار قدیمہ میں سے ایک بنا دیا ہے۔ ہیرام بنگھم کی اس دریافت نے انکا تہذیب کی طرف بین الاقوامی توجہ دلائی اور ان کی ثقافت اور کامیابیوں کے بارے میں لوگوں کی سمجھ بوجھ کو نمایاں طور پر آگے بڑھایا۔ائیر الجیریا حادثہ24جولائی 2014ء کو ائیر الجیریا کا جہاز گوسی مالی کے قریب گر کر تباہ ہو گیا۔اڑان بھرنے کے تقریباً50منٹ بعد جہاز کا رابطہ کنٹرول ٹاور سے منقطع ہو گیا۔ جہاز میں موجود تمام مسافر ہلاک ہو گئے۔ فرانسیسی بیورو آف انکوائری اینڈ اینالیسس فار سول ایوی ایشن سیفٹی نے مالی کے حکام کی مدد کرتے ہوئے اپریل 2016ء میں ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی جس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ جب طیارہ آٹو پائلٹ پر سفر کر رہا تھا انجنوں پر برف پڑنے کی وجہ سے دباؤ میں کمی واقع ہوئی۔ اس حادثے کا ذمہ دار عملے کو بھی قرار دیا گیا جن کی لاپرواہی کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔