اٹلانٹا سیاہ فاموں کا صاف ترین شہر

اٹلانٹا سیاہ فاموں کا صاف ترین شہر

اسپیشل فیچر

تحریر : فقیر اللہ خاں


دنیا میں جہاں کہیں شہری حقوق کی بحالی کیلئے جدوجہد کا ذکر چھڑے گا تو وہاں مارٹن لوتھرکنگ کا ذکر ضرور آئے گا اور جب مارٹن لوتھرکنگ کا ذکر آئے گا تو وہاں اٹلانٹا شہر کا ذکر ضرور آئے گا۔ امریکہ میں شہری حقوق کی بحالی کیلئے تحریک کا آغاز اٹلانٹا کی گلیوں اور بازاروں سے ہوا اور اس تحریک کے ہر اوّل دستے کا روح رواں ایک سیاہ فام سٹوڈنٹ لیڈر مارٹن لوتھر کنگ تھا۔ مارٹن لوتھر کنگ کی جائے پیدائش اٹلانٹا ہے۔ جہاں سے مارٹن لوتھر کنگ نے امریکہ میں بسنے والے سیاہ فاموں کے حقوق منوانے کیلئے ایک بہت بڑی تحریک کا آغاز کیا۔ اس تحریک کے جیالوں نے وہ مقاصد حاصل کر لیے جس کی خاطر انہوں نے قربانیاں دیں جن میں تحریک کے سالار اعلیٰ مارٹن لوتھر کنگ کی جان کی قربانی بھی شامل ہے۔
اٹلانٹا امریکی ریاست جارجیا کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت ہے۔ یہ واحد شہر ہے جو امریکہ میں دریائے مس سس پسی کے مشرق میں واقع سب سے بلند شہر ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی 1010فٹ ہے۔ا س کا رقبہ 133مربع میل ہے۔ امریکہ کے ٹاپ ٹین شہروں میں اٹلانٹا کا نواں نمبر ہے۔ اس کے علاوہ اٹلانٹا امریکہ کا صاف ستھرا شہر ہے، حالانکہ راقم نے دیکھا کہ نیویارک شہر کے اکثر علاقے جہاں پر سیاہ فام کی اکثریت آباد ہے۔ گندے ترین علاقے شمار کئے جاتے ہیں، اس کے باوجود اٹلانٹا میں جہاں ایک کثیر تعداد سیاہ فام کی آباد ہے، اسے صاف ترین شہر کہا جاتا ہے۔
اٹلانٹا کا شہر سیاہ فام آبادی کے لحاظ سے امریکہ کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ اٹلانٹا کی سوا چار لاکھ کی آبادی میں 54فیصدسیاہ فام لوگ رہ رہے ہیں جبکہ سفید فام 38فیصد، ہسپانوی5فیصد اور ایشیائی 3فیصد ہیں۔ اٹلانٹا امریکہ کا ایک کلچرل فنی اور اقتصادی لحاظ سے بہت بڑا مرکز ہے۔ تعلیم کے علاوہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ایک اہم شہر بھی ہے۔ معاشی لحاظ سے اٹلانٹا امریکی شہروں کی رینکنگ میں چھٹے اور دنیا کے شہروں کی رینکنگ میں پندرھویں نمبر پر ہے۔ اس شہر کی ترقی کا اندازہ اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ 1892ء میں اس شہر میں فلک بوس عمارتیں تعمیر ہونا شروع ہو چکی تھیں۔ 1966ء کے سمر اولمپکس کی میزبانی کا موقع بھی اٹلانٹا کو مل چکا ہے۔
اٹلانٹا کیسے آباد ہوا؟
انیسویں صدی کے وسط میں جب امریکہ کے جنوب مشرق اور مغربی علاقہ میں ریلوے کا جال بچھایا جانے لگا تو اس وقت کسی ایسے مقام کی ضرورت محسوس ہوئی جو چاروں اطراف کے شہروں کو آپس میں ملانے کا کام دے۔ تب ماہرین کی نظر انتخاب اٹلانٹا کی موجودہ جگہ پر پڑی۔ پھر اس جگہ کو ریل کے ایک جنکشن کے طور پر بسایا گیا اور اس شہر میں امریکہ کی قومی ریلوے کے علاوہ روڈ ٹرانسپورٹ کی کمپنی گرے ہائونڈ کے بہت بڑے اسٹیشن قائم ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک بلکہ دنیا کی ٹاپ کلاس ایئر لائن ڈیلٹا ایئر لائن کا ہیڈ کوارٹر بھی اٹلانٹا ہی میں ہے۔ اس وقت اٹلانٹا شہر کا امریکہ کے دوسرے اہم شہروں سے درمیانی فاصلہ کچھ اس طرح ہے۔جنوب میں ریاست فلوریڈا کے شہر میامی کا فاصلہ 661میل ،واشنگٹن ڈی سی کا 636میل،نیویارک کا 869 میل، لاس اینجلس کا 2237میل، ریاست ٹیکساس کے شہرہیوسٹن کا 800میل ہے۔
ملک کی اہم شاہرائیں ''آئی 20‘‘، ' 'آئی 75‘‘ اور ''آئی 85‘‘ اٹلانٹا سے ہو کر گزرتی ہیں۔ ان شاہرائوں کا رابطہ ملک کے ہر کونے تک ہے۔ 1906ء میں اٹلانٹا میں جو سب سے پہلے 17 منزلہ فلک بوس عمارت تعمیر ہوئی وہ کوکا کولا کمپنی کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ امریکہ کے مالیاتی اداروں اور اہم بنکوں کے بڑے بڑے دفاتر بھی اٹلانٹا میں موجود ہیں جو نہ صرف اٹلانٹا بلکہ امریکہ کی معیشت میں نہایت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
جب 1837ء میں اٹلانٹا کا ریلوے ٹرمینل کے طور پر انتخاب عمل میں آیا تو اس کو ایک طرح کے ریلوے ٹائون کے طور پر ترقی دی جانے لگی اس کے ارد گرد ریلوے ٹائون کا نام اس وقت جارجیا کے گورنر کی بیٹی مارتھا لمپکن (Martha Lumpkin) کے نام پر ''مارتھاولے‘‘ (Martha Ville)رکھا گیا۔ لیکن 1847ء میں ''مارتھاولے‘‘ کا نام بدل کر موجودہ نام اٹلانٹا رکھ دیا گیا۔ شاید مارتھا ولے کا نام شہریوں کے دل میں پذیرائی حاصل نہ کر پایا اور اس وقت جارجیا کا گورنر بھی بدل چکا ہو گا۔ اس لئے شہر کی انتظامیہ نے بحر اٹلانٹک کی مناسبت سے نیا نام اٹلانٹا تجویز کیا ہو۔ اٹلانٹا کو 1847ء میں شہر کا درجہ دیا گیا اور 1868ء میں اسے ریاست جارجیا کا دارالخلافہ بنا دیا گیا۔
اٹلانٹا شہر کے نمایاں پہلو
ملک کی سیاہ فام آبادی والا تیسرا بڑا شہر ہے،اٹلانٹا میں54فیصدسیاہ فام مقیم ہیں۔ اقتصادی لحاظ سے اٹلانٹا امریکہ کا چھٹا اور دنیا کا پندرھواں بڑا شہر ہے۔ عالمی سطح پر شہرت پانے والا مشروب،کوکا کولا سب سے پہلے اٹلانٹا ہی میں متعارف کروایا گیا۔1996ء کے عالمی اولمپک مقابلوں کا میزبان بھی اٹلانٹا کا شہر ہی تھا۔ممتاز ٹیلی ویژن چینل''سی این این‘‘اور موسم کے حوالے سے مشہور Weater Channel کی نشریات کی ابتدا بھی اٹلانٹا سے ہوئیں۔ امریکہ کے جنوب مشرق کا سب سے بڑا ہوٹل Marriott Marquisبھی اٹلانٹا ہی میں ہے۔ اس ہوٹل کے 1674 کمرے ہیں۔ اٹلانٹا میں درخت اتنے زیادہ ہیں کہ فضا سے سوائے فلک بوس عمارتوں کے سبزہ کی وجہ سے شہر ڈھکا ہوا رہتا ہے۔ اس لئے اٹلانٹا کو ''گرینسٹ سٹی ان یو ایس اے ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ ٹورازم کے حوالہ سے اٹلانٹا امریکہ کا ساتواں بڑا شہر ہے۔ اٹلانٹا کا ورلڈ کانگریس سینٹر دنیا کا دوسرا بڑا کنونشن سینٹر ہے۔ سپورٹس کی چار بڑی ٹیمیں بیس بال، فٹ بال، باسکٹ بال اور ہاکی کا مرکزی شہر اٹلانٹا ہی ہے۔
آب و ہوا
اٹلانٹا کی آب و ہوا گرم مرطوب ہے۔ گرمیوں کے موسم میں یہاں کا درجہ حرارت 31سینٹی گریڈ سے 38سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے اور سردیوں میں 3/4سینٹی گریڈ سے کم از کم منفی7سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے۔ برف بھی دو تین انچ تک پڑ جاتی ہے۔ بارش کی سالانہ اوسط 50انچ ہے۔ اٹلانٹا میں مارچ1993ء میں ایک زبردست طوفان آیا وہ طوفان اتنا شدید تھا کہ اسے '' ''The Storm of the centuary‘‘کہا جاتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
NEW RESEARCH خبردار!دھاتی بوتل خطرہ جان

NEW RESEARCH خبردار!دھاتی بوتل خطرہ جان

سالہا سال تک ایک ہی دھاتی واٹر بوتل استعمال مت کریںحالیہ برسوں میں دھاتی واٹر بوتلوں کے استعمال میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ موسم گرما میں یہ ٹھنڈا پانی اور مشروبات رکھنے کیلئے استعمال کی جاتی ہیں تو موسم سرما میں چائے اور کافی ان میں رکھی جاتی ہے۔ ان واٹر بوتلوں کی مقبولیت میں اضافہ کی ویسے تو بہت سی وجوہات ہیں مگر طبی طور پر پلاسٹک کی بوتلوں سے مائیکرو پلاسٹک کے ذرات کے جسم میں داخل ہونے کے خدشات نے صارفین کو متبادل تلاش کرنے پر مجبور کیا ہے۔موجودہ دور میں آپ کے دفتر کی میز پر یا آپ کے جم بیگ کے اندرایک دھاتی واٹر بوتل ضرور پائی جاتی ہے۔ لیکن ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ لوگوں کو سالہا سال تک ایک ہی دھاتی واٹر بوتل استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ اس سے جان لیوا ''ہیوی میٹل پوائزننگ‘‘ (Heavy Metal Poisning)کا خطرہ ہوتا ہے۔ماہرین کی طرف سے یہ انتباہ ایک افسوسناک واقعے کے بعد سامنے آیا ہے، جب تائیوان کا ایک شخص زہریلی دھات کے اثرات کے باعث نمونیا (یعنی پھیپھڑوں کی ایک مہلک بیماری) سے جاں بحق ہوگیا۔ میڈیا کے مطابق اس نامعلوم شخص کو تقریباً ایک سال سے مختلف طبی مسائل کا سامنا تھا، اور خون کے ٹیسٹ میں سیسے (lead) سے زہریلے پن کی تصدیق ہوئی۔جب ڈاکٹرز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ خون میں زہریلے مادے کی مقدار کیوں زیادہ ہو گئی ہے تو پتہ چلا کہ وہ شخص پچھلے دس سال سے ایک ہی دھاتی واٹر بوتل استعمال کر رہا تھا۔جب ڈاکٹروں نے اس بوتل کا معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس کی اندرونی تہہ خراب ہو چکی تھی اور اس پر زنگ کے آثار بھی موجود تھے۔ وہ شخص اسی تھرمس میں چائے، کافی اور سافٹ ڈرنکس سب کچھ رکھتا تھا۔ ڈاکٹروں کا ماننا ہے کہ اس کی کولڈرنکس کو اس بوتل میں رکھنے کی عادت نے اس زہریلی دھات (سیسے)کو اس کے جسم کے اندر پہنچایا جس سے اس کی صحت کو بری طرح متاثر ہوئی۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اس شخص کو سادہ پانی کے علاوہ کاربونیٹڈ ڈرنکس (کولڈڈرنکس)بھی اسی بوتل میں پینے کی عادت تھی، جس کی وجہ سے زہریلی دھات کی جسم میں مقدار خطرناک حد تک بڑھ گئی۔ معالجین کے مطابق ممکن ہے کہ یہ بوتل طویل عرصے تک استعمال میں رہی ہو اور خاص طور پر جب اس میں کاربونیٹڈ مشروبات رکھے گئے ہوں تو اس سے زہریلے مادے پیدا ہوئے ہوں جو جسم میں داخل ہو گئے ہوں‘‘۔اگرچہ ڈاکٹرز اس بات کا تعین نہیں کر سکے کہ بوتل سے سیسہ کب خارج ہونا شروع ہوا، لیکن ان کا کہنا ہے کہ جب مریض نے طبی مدد حاصل کی، تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ڈاکٹروں کی تمام تر کوششوں کے باوجود، وہ شخص نمونیا سے جانبر نہ ہو سکا۔ پھیپھڑوں میں ہونے والی سوزش کی مہلک بیماری کی تشخیص کے ایک سال کے اندر ہی اس کی موت واقع ہو گئی۔ہیوی میٹل پوائزننگ''ہیوی میٹل پوائزننگ‘‘ اس وقت ہوتی ہے جب سیسہ، پارہ یا آرسینک جیسی زہریلی دھاتیں جسم میں خطرناک حد تک جمع ہو جاتی ہیں۔ ہیوی میٹل پوائزننگ کی وجہ سے جسم کے اہم اعضاء کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔کوئی انسان ''ہیوی میٹل پوائزننگ‘‘کا شکار اس وقت ہوتا ہے جب وہمسلسل دھاتوں کے زیر اثر رہے۔مخصوص اقسام کی مچھلی کا ضرورت سے زیادہ استعمال اور ماحولیاتی آلودگی اس کے ہونے کے اہم سبب ہیں۔ سیسے (lead) کے ذرات دماغی نشوؤنما کو متاثر کر سکتے ہیں، جب کہ دیگر دھاتیں جان لیوا خون کے لوتھڑے پیدا کر سکتی ہیں اور بعض اقسام کے کینسر کے خطرات کو بھی بڑھا سکتی ہیں۔سیسے سے زہریلے پن کی علامات میں پیٹ میں درد، کپکپی، پانی کی کمی، تھکاوٹ، متلی، اور ہاتھوں یا پیروں میں سن یا جھنجھناہٹ کا احساس شامل ہے۔پلاسٹک کی بوتلوں اور مائیکروپلاسٹکس کے درمیان ممکنہ تعلق کے انکشاف کے بعد دھاتی واٹر بوتلوں کی مقبولیت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔رواں سال کے اوائل میں کینیڈا کے محققین نے انکشاف کیا تھا کہ اگر کوئی شخص پلاسٹک کی بوتلوں کے بجائے فلٹر شدہ نلکے کا پانی پینا شروع کر دے تو اس کی سالانہ مائیکروپلاسٹکس کی مقدار میں 90 فیصد کمی آ سکتی ہے۔ایک دوسری تحقیق میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ بعض انسانی دماغوں میں 7 گرام تک پلاسٹک پایا گیا ہے۔یہ ذرات پلاسٹک کی اشیاء کے ٹوٹنے اور بکھرنے سے پیدا ہوتے ہیں، جو خوراک، پانی حتیٰ کہ ہوا کے ذریعے بھی انسانی جسم میں داخل ہو سکتے ہیں۔اگرچہ مائیکروپلاسٹکس کے انسانی صحت پر طویل مدتی اثرات اب تک پوری طرح واضح نہیں ہو سکے، لیکن ماہرین میں اس بارے میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے، کیونکہ اب ان سے مکمل بچاؤ تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔عالمی ادارہ صحت (WHO)کی رپورٹعالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق ہر سال تقریباً 10 لاکھ افراد سیسے کے زہریلے اثرات کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔لاکھوں دیگر افراد جن میں ایک بڑی تعداد بچوں کی بھی ہے روزانہ کی بنیاد پر اس زہریلی دھات سے متاثر ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ زندگی بھر صحت کے مختلف مسائل کا شکار رہتے ہیں۔ ان مسائل میں خون کی کمی (anaemia)، بلند فشار خون (High Blood Pressure) اور تولیدی مسائل شامل ہیں۔ طبی ماہرین کا مشورہ طبی ماہرین نے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ!٭...تمام لوگ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کی دھاتی بوتل اعلیٰ معیار کے فوڈ گریڈ میٹریل سے بنی ہو، جیسے کہ سٹین لیس اسٹیل۔٭... انہیں باقاعدگی سے صاف بھی کیا جائے۔٭...ماہرین نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ دھاتی بوتلوں کو تیزابی یا کاربونیٹڈ مشروبات جیسے فروٹ جوس یا کولڈرنکس کیلئے استعمال نہ کیا جائے ۔٭...ایسی بوتلوں کو دو سے تین سال مسلسل استعمال کرنے کے بعد ضائع کر دینا چاہیے۔ 

میٹا کا ویڈیو شیئرنگ فلسفہ بدل گیا

میٹا کا ویڈیو شیئرنگ فلسفہ بدل گیا

ٹیکنالوجی کی دنیا میں وقت کے ساتھ ساتھ بڑی تیزی کے ساتھ جدت آ رہی ہے،آئے روز آنے والی تبدیلیاں اور متعارف کرائے جانے والے نت نئے فیچرز نہ صرف ان کے استعمال کے انداز بدل دیتے ہیں بلکہ مستقبل کی سمت کا بھی تعین کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک تبدیلی حال ہی میں اس وقت سامنے آئی ہے جب معروف سوشل میڈیا کمپنی ''میٹا‘‘ نے اعلان کیا کہ اب فیس بک پر اپلوڈ کی جانے والی تمام ویڈیوز خود بخود ''ریلز‘‘ کی صورت میں شائع ہوں گی۔ اس اقدام کا مقصد بلا لحاظ ویڈیو کی قسم،مختصر، طویل یا لائیوفوراً ریلز کے زمرے میں شامل کرنا ہے تاکہ صارفین کیلئے ویڈیو کا تجربہ اور تخلیق آسان اور یکساں ہو جائے۔ اس سے پہلے سے موجود ویڈیوز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، صرف نئے اپ لوڈز اس تبدیلی کے زمرے میں آئیں گی۔ اس اقدام کو ماہرین، فیس بک کے ویڈیو پلیٹ فارم کے سب سے بڑے انقلابی قدم سے تعبیر کر رہے ہیں۔میٹا نے اپنے ایک اعلامیے میں اپنی اس بڑی تبدیلی کی تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ صارفین چاہیں مختصر ویڈیو اپلوڈ کریں یا طویل، حتیٰ کہ لائیو اسٹریم ہی کیوں نہ ہووہ اب ریلز کے طور پر ہی پوسٹ ہوگی۔ اس کے ساتھ فیس بک کا موجودہ ویڈیو ٹیب بھی ریلز کے نام سے جانا جائے گا، جس سے صارفین کو تمام ویڈیو مواد ایک ہی جگہ پر آسانی سے دستیاب ہو گا۔تبدیلی کی وجوہات مقاصد و خدشاتیہ اقدام میٹا کے سی ای او مارک زکربرگ کے فیس بک کو '' مزید کلچرل اور پُراثر‘‘ پلیٹ فارم بنانے کے ویژن کا حصہ ہے۔ یہ فیصلہ دراصل میٹا کی اس پالیسی کا تسلسل ہے جس کے تحت وہ اپنے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، با لخصوص انسٹاگرام اور فیس بک پر ویڈیو مواد کو مرکزی حیثیت دینا چاہتا ہے۔ چونکہ ریلز انسٹاگرام پر کامیابی کا سبب بنیں، اب کمپنی اسی فارمیٹ کو فیس بک پر بھی پوری طرح لاگو کر کے ویڈیو تجربے کو یکساں اور مربوط بنانا چاہتی ہے۔ اس تبدیلی کے ذریعے صارفین کیلئے ویڈیو بنانامزید آسان ہوجائے گا۔انسٹاگرام ریلز کی کامیابی کو فیس بک پر بھی منتقل کیا جائے گا،میٹا شارٹ ویڈیو (جیسا کہ ٹِک ٹاک وغیرہ) کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کو پورا کرے گا۔تاہم، کچھ خدشات موجود ہیں، اگرچہ صارفین سابق زمرے میں ہی رہیں گے لیکن انہیں نیا ماحول قبول کرنے اور نئی تبدیلیوں کو سمجھنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ماہرین کا تجزیہڈیجیٹل میڈیا کے ماہرین کے مطابق یہ تبدیلی صارفین کے رویّوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔ آج کے دور میں لوگ مختصر اور دلچسپ مواد دیکھنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ ٹِک ٹاک اور یوٹیوب شارٹس کی مقبولیت نے میٹا کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنے پلیٹ فارم کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرے۔میٹا کی یہ تبدیلی فیس بک کے ویڈیوز کے مستقبل کی سمت کا تعین کرتی ہے۔ اگرچہ ہر نئی تبدیلی وقت کے ساتھ قبول کی جاتی ہے، مگر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ فیس بک ''ریلز‘‘ کا فروغ نوجوانوں، کاروباری اداروں اور تخلیق کاروں کیلئے پہلے سے زیادہ پرکشش بنائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صارفین اس نئی دنیا کو کس گرمجوشی سے خوش آمدید کہتے ہیں۔اہم نکات اور خصوصیات90 سیکنڈ کی حد کا خاتمہاب ریلز کے دورانئے پر کوئی پابندی نہیں رہے گی۔ صارفین طویل دورانیے کی ویڈیوز بھی ریلز میں شامل کر سکیں گے۔نیا تخلیقی تجربہمیٹا نے صارفین کو ویڈیوز کے ایڈیٹنگ کیلئے جدید ٹولز فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ ہر ویڈیو زیادہ متاثر کن اور جاذبِ نظر ہو۔آڈیئنس سیٹنگہر ویڈیو اپلوڈ کے وقت صارف سے اس کی آڈیئنس کا تعین دوبارہ پوچھا جائے گا، جس سے صارف کو مزید کنٹرول حاصل ہوگا۔مرحلہ وار نفاذیہ تبدیلیاں آنے والے مہینوں میں دنیا بھر کے صارفین اور فیس بک پیجز پر بتدریج لاگو کی جائیں گی۔ صارفین کو ملنے والے فوائد٭...ویڈیو اپلوڈ کا عمل منفرد اور سادہ ہو گیا ہے،ایک ہی انٹرفیس میں تخلیق، ایڈٹ اور پبلش ممکن ہے۔٭...ویڈیوز کی لمبائی کی آزادی اور نئے ٹولز تخلیق کاروں کیلئے نئے مواقع پیدا کریں گے۔چاہیں ویڈیو پانچ منٹ ہو یا بیس، اب اسے ریلز میں آسانی سے شیئر کیا جا سکے گا۔٭...ایک ہی فارمیٹ میں تمام ویڈیوز دیکھنا اور شیئر کرنا آسان ہوگا۔٭...کاروباری ادارے اور برانڈز اپنی ویڈیو کو زیادہ مؤثر طریقے سے چلانے کے قابل ہوں گے۔٭...آپ کا سامع مکمل طور پر ویڈیو اپلوڈ کے وقت آپ کے قابو میں ہوگا۔٭... ویڈیوز، ریلز اور لائیوز کا تجربہ اب ایک ہی مربوط صفحے پر ہوگا۔   

آج کا دن

آج کا دن

امریکی آئین کی توثیقامریکہ نے 1776ء میں آزادی حاصل کی، ابتدائی طور پر وہ ''آرٹیکل آف کنفیڈریشن‘‘ کے تحت ایک کمزور وفاقی ڈھانچے پر قائم تھا، جس میں مرکزی حکومت کے پاس محدود اختیارات تھے۔مرکزی حکومت کے پاس محصولات جمع کرنے کا اختیار نہیں تھا،قانون سازی اور فیصلوں میں ریاستوں کے درمیان اختلاف تھا،دفاع، تجارت اور کرنسی کے مسائل تھے۔ان چیلنجز کے باعث 1787ء میں ایک مضبوط وفاقی آئین تیار کیا گیا۔21 جون 1788ء کو نیو ہیمپشائر نویں ریاست بنی جس نے اس نئے آئین کی توثیق کی۔آئین کی منظوری کیلئے کم از کم 9 ریاستوں کی توثیق ضروری تھی ۔نیو ہیمپشائر کی توثیق کے بعد یہ شرط پوری ہو گئی اور امریکی آئین باضابطہ طور پر نافذ ہو گیا۔اٹلی کا فرانس پر حملہ21جون1940 ء کو اٹلی نے دوسری عالمی جنگ کے دوران فرانس پر حملہ کیا جو کامیاب نہ ہو سکا۔اس جنگ کو ''الپس کی جنگ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔یہ دوسری عالمی جنگ کے دوران اٹلی کی پہلی بڑی لڑائی تھی اور فرانس کیلئے یہ آخری بڑی لڑائی ثابت ہوئی۔جنگ میں اٹلی کی شمولیت کی وجہ سے اس کا دائرہ کار اور وسیع ہو گیا۔اٹلی کا مقصد فرانس کا تسلط ختم کرنا اور ان علاقوں کو واپس حاصل کرنا تھا جن پر اٹلی کی حکمرانی تھی۔اٹلی کا یہ حملہ کامیاب نہ ہوسکا لیکن دوسری عالمی جنگ پر اس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے ۔ بہت سے ایسے علاقے جو جنگ کی زد میں نہیں تھے وہ بھی جنگ میں شامل ہو گئے اور کئی نئے محاذ کھول دیئے گئے۔کینیڈا کی پہلی خاتون وزیراعظم 21جون 1957ء میں کینیڈا کی سیاستدان کو ایلن لوکس فیئرکلو نے پہلی خاتون وزیر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔یہ کینیڈا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تھا کہ کسی خاتون کو کابینہ میں شامل کیا گیا تھا۔ایلن لوکس 1950ء سے 1963ء تک کینیڈا کے ہاؤس آف کامنز کی رکن رہیں۔ ایلن28جنوری 1905ء کو پیدا ہوئیں،پیشے کے اعتبار سے ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھیں اور ایک اکاؤنٹنگ فرم بھی چلا رہی تھیں۔ایلن نے ممبر پارلیمنٹ کی حیثیت سے اپنے انتخاب سے قبل کینیڈا کی گرل گائیڈز کی ایگزیکٹو رکن کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔پلانک روڈ کی جنگ21جون 1864ء کو پیٹرزبرگ ورجینیا کے قریب ایک لڑائی لڑی گئی۔یہ امریکی خانہ جنگی کے دوران محدود پیمانے پر لڑی جانے والی جنگ تھی۔یہ پیٹرز برگ کے محاصرے کے دوران شروع ہونے والی لڑائیوں میں سے تھی جس کا مقصدیونین افواج کے محاصرے کو بڑھانا اور پیٹرز برگ کو سپلائی پہنچانے والی ریلوے لائنوں کو کاٹنا تھا۔پوٹومیک کی یونین فوج کی دو انفنٹری کورز نے ریل روڈ کو توڑنے کی کوشش بھی کی لیکن شمالی ورجینیا کی تھرڈ کور کی کنفیڈریٹ فوج نے حملہ کر کے انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا لیکن یونین فوج نے محاصرے کے دباؤ کو بڑھاتے ہوئے اپنے قلعوں کو مغرب تک پھیلانا شروع کر دیا۔ 

یادرفتگاں: ناظم پانی پتی

یادرفتگاں: ناظم پانی پتی

نغمہ نگاری کے میدان میں جن کا طوطی بولتا تھاناظم پانی پتی برصغیر کی فلمی صنعت کی ایک معروف شخصیت تھے ، جنہوں نے پہلے ہندوستان اور بعدازاں پاکستان کی فلمی صنعت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ 1948ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''مجبور‘‘میں شامل گیت ''دل میرا توڑا مجھے کہیں کا نہ چھوڑا،تیرے پیار نے‘‘ شاید کبھی آپ کی سماعتوں سے ٹکرایا ہو ، یہ گیت نغمہ نگار اور کہانی نویس ناظم پانی پتی نے لکھا تھا۔اس گیت کی موسیقی موسیقار اعظم ماسٹر غلام حیدر نے ترتیب دی تھی جو اس وقت بمبئی کی فلم انڈسٹری پر چھائے ہوئے تھے۔ وہ موسیقی میں تجربے کرنے کے بہت شائق تھے اور نئی آوازوں کے متلاشی رہتے تھے۔ فلمی ادارے کے میوزک روم میں ماسٹر صاحب کے ساتھ نذیر اجمری اور یونٹ سے تعلق رکھنے والے دیگر لوگ بھی بیٹھے تھے۔ ماسٹر صاحب کے سامنے ہارمونیم پڑا تھا۔ سامنے کرسی پر ایک دھان پان سی لڑکی بیٹھی تھی۔بائیں طرف نغمہ نگار ناظم پانی پتی براجمان تھا۔ ماسٹر غلام حیدر نے مسکرا کر ناظم سے کہا کہ یہ لڑکی آپ کے گیت سے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز کرے گی اور اس کا نام لتا ہے،لتا منگیشکر۔ نذیر اجمری نے ''مجبور‘‘کی ایک سچویشن ناظم پانی پتی کو سمجھائی۔ انہوں نے اس سچویشن پر ایک دو مکھڑے کہے جن میں سے یہ مکھڑا پسند کر لیا گیا ''دل میرا توڑا مجھے کہیں کا نہ چھوڑا، تیرے پیار نے‘‘۔ جب گیت کی ریکارڈنگ شروع ہوئی تو سب لوگ جھوم رہے تھے۔ اس گیت نے جہاں لتا کو شہرت کی بلندی پر پہنچا دیا وہاں ناظم پانی پتی کو بھی صف اوّل کے گیت نگاروں میں شامل کر دیا ۔ اس دور کے نامور اداکار اور فلمساز سہراب مودی نے اپنی اگلی فلم ''شیش محل‘‘کیلئے ناظم صاحب کو تمام گیت لکھنے کیلئے بک کر لیا۔جس گیت نے ناظم صاحب کو فلم بینوں سے بھرپور انداز میں متعارف کرایا وہ محمد رفیع کا گایا ہوا تھا، اس کے بول تھے:جگ والا میلہ یار تھوڑی دیر داہنسدیا ں رات لنگے پتا نیئں سویر دا یہ گیت پنجابی فلم ''لچھی‘‘کیلئے لکھا گیا تھا۔ جس سے ناظم صاحب کو اتنی مقبولیت ملی کہ فلمی دنیا میں ان کا طوطی بولنے لگا۔ناظم پانی پتی نے اپنے بڑے بھائی ولی جوگرامو فون کمپنیوں کیلئے گیت لکھا کرتے تھے کی دیکھا دیکھی گراموفون کمپنیوں کیلئے گیت لکھنے شروع کر دئیے۔ ان کمپنیوں کے موسیقار ماسٹر غلام حیدر ، ماسٹر جھنڈے خاں ، بھائی لال محمد ، ماسٹر عنایت حسین اور جی اے چشتی تھے۔ لاہور میں بننے والی پنجابی فلم ''یملا جٹ‘‘ جو بے حد مقبول ہوئی۔ اس کے بعد لاہور ہی میں خزانچی ، منگتی، خاندان، دلا بھٹی، زمیدار، پونجی، چوہدری اور داسی جیسی فلمیں بنیں۔ ان فلموں نے ہندوستان میں مسلمان فنکاروں کی دھوم مچا دی ۔ ناظم پانی پتی بطور گیت نگار ، سکرین پلے رائٹر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر ان تمام فلموں سے منسلک رہے۔نامور صحا فی سعید ملک نے ناظم پانی پتی کا ان کی زندگی میں ایک طویل انٹرویو لیا جو انگریزی روزنامے میں پانچ قسطوں میں چھپا تھا۔ اس میں ناظم صاحب نے انکشاف کیا تھا کہ میں بمبئی کے علاقے باندرہ میں رہتا تھا۔ گھر کے قریب ایک پارک تھا۔ وہاں میں کبھی کبھار اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرنے چلا جاتا تھا۔ وہاں بدر الدین نام کا ایک نوجوان مجھ سے بڑی عقیدت اور ادب کے ساتھ پیش آتا ، مجھے سگریٹ لا کر دیتا ، کبھی کبھی سر کی مالش بھی کیا کرتا تھا۔ بدر الدین اس زمانے کے مشہور اداکاروں کی کامیاب نقل اتارا کرتا تھا ۔ ایک روز اس نے مجھ سے فلم میں کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، میں اسے مقامی سٹوڈیو میں لے گیا جہاں فلم ''بازی‘‘کیلئے جیل سے قیدیوں کا جیل سے فرار کا منظر فلمایا جا رہا تھا ۔ڈائریکٹر نے میری سفارش پر بدر الدین کو ایک شرابی کا رول دے دیا ۔ اس نے یہ رول اس خوبی سے ادا کیا کہ سب حیران رہ گئے ۔ اس دن سے وہ فلمی دنیا میں جانی واکر کے نام سے مشہور ہو گیا ۔نامور ڈانسر ہیلن کو بھی ناظم صاحب نے اپنے بھائی کی فلموں سے متعارف کرایا۔ بمبئی میں نام کمانے کے بعد 1952ء میں وہ اپنے بڑے بھائی ولی صاحب کے ساتھ لاہور آگئے اور ان کی تیار کردہ فلموں ''گڈی گڈا‘‘،''سوہنی کمیارن‘‘ اور ''مٹی دیاں مورتاں‘‘ کے ساتھ ساتھ دیگر فلموں کیلئے بھی گیت لکھے ۔ بالخصوص ان کی لکھی فلم ''لخت جگر‘‘کی لوری''چندا کی نگری سے آجا ری نندیا‘‘ پاکستان کی مقبول ترین لوریوں میں شمار ہوتی ہے۔ انہوں نے شباب کیرا نوی کی فلم ''آئینہ‘‘ اور ''انسانیت‘‘کیلئے بھی گیت لکھے ۔ ایس ایم یوسف کی فلم''سہیلی‘‘اور رضا میر کی فلم ''بیٹی‘‘ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور کہانی نویس تھے۔پاکستان میں ٹیلی ویژن کے آنے پر موسیقی کے پروگرام ''جھنکار‘‘کیلئے انہوں نے متعدد گیت لکھے۔ 1966ء میں ریڈیو پاکستان سے جب کمرشل پروگرام اور اشتہارات شروع ہوئے تو وہ اشتہاری کمپنیوں سے بطور کاپی رائٹر منسلک ہو گئے اورکئی یادگار سلوگن لکھے جن میں ''ہم تو جانے سیدھی بات، صابن ہو تو سات سو سات‘‘ اور''اٹھ میرے بیلیا پاڈان تیرے کول اے‘‘ شامل ہیں ۔ناظم پانی پتی کے قریبی دوستوں میں موسیقار خیام، نصیر انور، گلوکار سلیم رضا، اداکار ساقی، بھارتی فلمساز و ہدایتکار راجند بھاٹیہ، گلوکار جی ایم درانی ، سید شوکت حسین رضوی ، آغا جی اے گل ، رضا میر اور سعاد ت حسن منٹو شامل تھے ۔ یاد رہے کہ منٹو کو ان کی وفات پر ناظم صاحب نے ہی غسل دیا اور کفنانے کا فریضہ ادا کیا۔ناظم پانی پتی نے زندگی کے آخری سال خاموشی اور گمنامی میں گزارے۔ عمرہ ادا کیا اور واپسی پر یہ شعر موزوں کیا:پڑا رہ مدینے کی گلیوں میں ناظم تو جنت میں جا کر بھلا کیا کرے گا وفات (18 جون 1998ء) سے چند روز قبل ناظم انہوں نے میری ڈائری پر اپنے ہاتھ سے یہ بند لکھا جو ان کی زندگی کی آخری تحریر اور تخلیق ثابت ہوئی :چراغ کا تیل ختم ہو چکا ہے زندگی کا کھیل ختم ہو چکا ہے سانس ہو رہے ہیں آزاد عرصہ جیل ختم ہو چکا ہے   

طلبہ گرمیوں کی چھٹیوں میں کیا سیکھیں؟

طلبہ گرمیوں کی چھٹیوں میں کیا سیکھیں؟

آئی ٹی کی وہ مہارتیں جو وقت کی ضرورت ہیں گرمیوں کی چھٹیاں طالب علموں کے لیے ایک نہایت خوشگوار وقت ہوتی ہیں۔ سکول، کالج یا یونیورسٹی کے معمولات سے وقتی آزادی ملتی ہے اور زندگی میں ایک غیر رسمی، آزاد اور ہلکا پھلکا وقفہ آ جاتا ہے۔ لیکن یہ تعطیلات صرف آرام، تفریح یا سیر و تفریح تک محدود نہ رہیں تو بہتر ہے۔ضروری ہے کہ انہیں اپنی شخصیت، مہارت اور مستقبل کو سنوارنے کے لیے استعمال کیا جا ئے۔ موجودہ دور میں جہاں ٹیکنالوجی ہر شعبہ زندگی میں داخل ہو چکی ہے، وہاں آئی ٹی کے میدان میں مہارت حاصل کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکی ہے۔آئی ٹی نہ صرف تعلیمی ترقی میں مددگار ہے بلکہ یہ روزگار، فری لانسنگ، آن لائن کاروبار اورذاتی صلاحیت بڑھانے کے لیے بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں طلبہ اگر آئی ٹی کی مختلف مہارتیں سیکھنے کا ارادہ کر لیں تو چند ماہ میں وہ اپنے لیے نئی راہیں کھول سکتے ہیں۔آئیے دیکھتے ہیں کہ کن اہم شعبوں میں طلبہ گرمیوں کی چھٹیوں میں آئی ٹی کی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں:بنیادی کمپیوٹر کورسیہ سب سے پہلا اور ضروری قدم ہے، خاص طور پر ان طلبہ کے لیے جنہیں کمپیوٹر استعمال کرنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے یا جنہیں سکول میں یہ سہولت میسر نہیں۔بیسک کورس میں جو مہارتیں شامل ہیں ان میںMS Word، Excel اور PowerPoint کی سمجھ بوجھ اردو اور انگلش ٹائپنگ‘انٹرنیٹ براؤزنگ، ای میل استعمال، فائل مینجمنٹ‘گوگل ڈرائیو، گوگل ڈاکس، گوگل شیٹس وغیرہ شامل ہو سکتے ہیں۔یہ کورس چھٹی جماعت سے اوپر کے طلبہ کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے اور زیادہ تر ادارے یا یوٹیوب چینلز مفت یا معمولی فیس پر یہ سکھا رہے ہیں۔ گرافک ڈیزائننگ :گرافک ڈیزائننگ آج کل کی سب سے مقبول اور کم وقت میں سیکھی جاسکنے والی مہارت ہے۔ اگر کوئی طالب علم تخلیقی ذہن رکھتا ہے تو یہ اس کے لیے بہترین ہے۔اس میں طلبہ کو Photoshop اور Illustrator کی بنیادی تربیت اور Canva کے ذریعے سادہ پوسٹرز، لوگو اور سوشل میڈیا ڈیزائن بروشر، فلائر، بزنس کارڈز بناناتھمب نیل ڈیزائننگ اور یوٹیوب بینر تیار کرنا سیکھنے کی ضرورت ہے۔یہ مہارتیں کم وقت میں سیکھی جا سکتی ہیں اور فری لانسنگ کے لیے بھی مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔ ویب ڈویلپمنٹ :انٹرنیٹ کے اس دور میں ہر فرد، کمپنی یا ادارے کو ویب سائٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ویب سائٹ بنانا فائدہ من مہارت ہے جسے چھٹیوں میں سیکھ کر طلبہ مستقبل میں اپنی ویب سائٹ بنا سکتے ہیں یا دوسروں کے لیے پروجیکٹس تیار کر سکتے ہیں۔یہ سیکھنے کے لیےHTML، CSS، JavaScript کی بنیادی مہارت کی ضرورت ہے یا WordPress سے بغیر کوڈنگ کے ویب سائٹ بناناسیکھا جاسکتا ہے۔یہ کورس 14 سال یا اس سے بڑے طلبہ کے لیے موزوں ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ :یہ شعبہ ان طلبہ کے لیے بہترین ہے جو سوشل میڈیا، آن لائن بزنس یا کاروباری سوچ رکھتے ہیں۔ڈیجیٹل مارکیٹنگ سیکھنے کے لیے سوشل میڈیا مارکیٹنگ‘SEO (سرچ انجن آپٹیمائزیشن)‘ای میل مارکیٹنگ‘ Google Ads اور Analytics کا تعارف ضروری ہے۔ڈیجیٹل مارکیٹنگ سیکھنے والے طلبہ اپنی فیس بک پیج یا یوٹیوب چینل کو کامیابی سے چلا سکتے ہیں۔ ویڈیو ایڈیٹنگ اور یوٹیوبنگاگر کسی طالب علم کو ویڈیو بنانا یا بولنا پسند ہے تو وہ یوٹیوب چینل بنا کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو دوسروں تک پہنچا سکتا ہے۔ اس کے لیے ویڈیو ایڈیٹنگ سیکھنا لازمی ہے۔اس کے لیے CapCut، VN، Filmora یا Adobe Premiereجیسے سافٹ ویئر سیکھنے کی ضرورت ہے۔یہ مہارت چھوٹے اور بڑے دونوں طلبہ کے لیے کارآمد ہے۔ پروگرامنگ یا کوڈنگ سیکھنا ماہرین کہتے ہیں کہ مستقبل کی زبان ''کوڈنگ‘‘ ہے؛چنانچہ ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کو چھوٹی عمر سے کوڈنگ سکھائی جا رہی ہے۔اس کے لیے ابتدائی سطح کے لیےScratch ،اس کے بعدPython اورسادہ موبائل ایپس بنانے کے لیے MIT App Inventor سیکھنی چاہیے۔یہ وہ مہارت ہے جو آگے چل کر سوفٹ ویئر انجینئرنگ، ایپ ڈیویلپمنٹ یا گیم ڈیویلپمنٹ میں مددگار ہوگی۔اگر کوئی طالب علم اپنی سیکھی ہوئی مہارت کو آمدنی کے لیے استعمال کرنا چاہے تو فری لانسنگ ایک بہترین راستہ ہے۔اس کے لیے Fiverr، Upwork اور Freelancer پر پروفائل بنانا سیکھنا چاہیے۔یہ ان طلبہ کے لیے مفید ہے جو 16 سال یا اس سے بڑے ہوں۔ موبائل ایپ ڈیولپمنٹ :یہ موبائل ایپس کا دور ہے۔ ہر شخص کسی نہ کسی ایپ پر انحصار کرتا ہے۔ اگر کوئی طالب علم موبائل ایپس بنانے میں دلچسپی رکھتا ہے تو وہ چھٹیوں میں یہ مہارت حاصل کر سکتا ہے۔اس کیلئےMIT App Inventor، Thunkable اور Flutter (تھوڑا ایڈوانس لیول کا پروگرام) سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ سائبر سیکیورٹی کی بنیادی تربیت جو طلبہ کو آن لائن خود بھی محفوظ رہنے میں مدد دیتی ہے اور دوسروں کی رہنمائی کے لیے بھی، کارآمد ہے۔اس کیلئے آن لائن سیفٹی، پاس ورڈ مینجمنٹ فشنگ، وائرس اور سپائی ویئر سے بچاؤ اور Ethical hacking سیکھنا چاہیے۔ان مہارتوں کو سیکھنے کے لیے آن لائن بہت سے پلیٹ فارم دستیاب ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی ٹی کا شعبہ صرف تعلیم یا نوکری تک محدود نہیں رہا بلکہ اب ہر شخص کی روزمرہ زندگی، کاروبار اور اظہار کا اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ طالب علموں کے لیے گرمیوں کی چھٹیاں ایک شاندار موقع ہیں کہ وہ اس انقلابی دنیا میں قدم رکھیں۔ ایک سادہ سا کورس، چند گھنٹے کی محنت سے شروع کیا گیا یہ سفر ایک دن انہیں خود کفیل، قابلِ فخر اور کامیاب انسان بنا سکتا ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

امریکہ اور برطانیہ کے اتحادیوں کی جنگ18جون1812ء میں ریاستہائے متحدہ امریکہ اور اس کے مقامی اتحادیوں، برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کے درمیان ایک لڑائی ہوئی جسے ''1812ء کی جنگ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس میں اس وقت کی دو بڑی طاقتیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی تھیں۔اس لڑائی میں سپین نے بھی محدود پیمانے پر شرکت کی۔ ا س جنگ کا آغازاس وقت ہوا جب 18 جون 1812ء کوامریکہ نے برطانیہ کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ اس لڑائی کے بعد ایک معاہدہ بھی کیا گیا جس میں امن کی شرائط کو تسلیم کر لیا گیا۔آرگیو تنازع18جون1984ء برٹش سٹیل کارپوریشن کے کوکنگ پلانٹ میں ساؤتھ یارکشائرپولیس اور میٹروپولیٹن پو لیس سمیت دیگر پولیس فورسز کے اہلکاروں اور ملازمین کے درمیان ایک بہت بڑا تصادم ہوا۔یہ واقعہ برطانیہ کے کان کنوں کی ہڑتال کے دوران پیش آیا۔اس واقعہ کو برطانیہ کی سب سے زیادہ پر تشدد جھڑپوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس تصادم کو پولیس کی جانب سے اپنے دفاع کی کوشش دکھایا گیا جو انہوں نے اپنی جان بچانے کیلئے ملازمین کے خلاف ایکشن لیا۔ اوساکا میں شدید زلزلہ18 جون 2018ء کو جاپان کے معیاری وقت کے مطابق صبح 7 بجکر58منٹ پر، جاپان کے شمالی شہر اوساکا میں 5.5 شدت کا زلزلہ آیا۔ زلزلے کا مرکز تاکاٹسوکی کے قریب تھا اور اس کی گہرائی تقریباً 13 کلومیٹر تھی۔زلزلے کے جھٹکے اوساکا اور کیوٹو کے قریبی میٹروپولیٹن علاقوں میں شدت سے محسوس کیے گئے، جس سے ایک لاکھ 70 ہزار گھروں اور عمارتوں میں بجلی اور گیس کی سروس عارضی طور پر متاثر ہوئی۔ اس زلزلے میںچار افراد ہلاک، 15 شدید زخمی اور 419 افراد کو معمولی چوٹیں آئیں۔پہلی امریکی عورت خلا میں1983ء میں آج کے روز سیلی رائیڈ (Sally Ride)ناسا کی خلائی شٹل ''چیلنجر‘‘ کے ذریعے خلا میں جانے والی پہلی امریکی خاتون بنیں۔ ان کا یہ کارنامہ خواتین کیلئے خلائی تحقیق کے دروازے کھولنے والا ثابت ہوا۔سیلی رائیڈ کا خلا میں جانا نہ صرف امریکی خلائی تاریخ کا اہم لمحہ تھا بلکہ یہ دنیا بھر کی خواتین کیلئے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک علامتی کامیابی کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ 1978ء کے پہلے گروپ کی 6 خواتین میں شامل تھیں جنہیں خلا بازوں کی تربیت دی گئی۔