چراغ حسن( حسرت )پونچھ ، آزاد کشمیر میں 1904ء میں پیدا ہوئے ۔شعر و شاعری کا ذوق وراثت میں پایا ۔ فارسی کی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان پونچھ سے پاس کیا، فارسی اور اردو کے علاوہ انگریزی بھی بے تکلفی سے لکھتے تھے ۔چراغ حسن حسرت کی عملی زندگی کا آغاز سکول میں تدریس سے ہوا۔ طبیعت اکتائی تو کلکتہ جا کر اخبار نویسی شروع کردی اور '' عصرِ جدید‘‘، '' نئی دنیا‘‘، ''جمہور‘‘ اور '' استقلال‘‘ کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ کچھ عرصہ مولانا ابوالکلام آزاد کے اخبار'' پیغام‘‘ میں بھی کام کیا۔ مولانا ظفر علی خاں کلکتہ گئے تو انہیں لاہور لے آئے ، یوں حسرت زمیندار کے ادارۂ تحریر سے منسلک ہو گئے۔ مولانا ظفر علی خاں کی غیر حاضری میں حسرت ہی اداریہ اور فکاہات لکھتے تھے لیکن ان لوگوں کے سوا جنہیں انہوں نے خود بتایا کسی کواس کا علم اور احساس نہ ہو سکا۔ اس کے بعد ''انصاف‘‘، ''احرار‘‘، ''احسان‘‘ اور ''شہباز‘‘ کے ادارہ ہائے تحریر میں بھی کام کیا۔''شیرازہ‘‘ کے نام سے ایک علمی و ادبی رسالہ بھی جاری کیا۔ حکومتِ پنجاب کے ہفتہ وار'' پنچایت‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ یہاں سے فوجی اخبار کا رخ کیا اور فوج میں کپتانی کے عہدے پر فائز ہوئے۔نثر نویسی میں حسرت کو کمال حاصل تھا۔ الفاظ کی نشست، تراکیب کی بندش اور محاورہ کا برتاؤ حسرت پر ختم تھا۔ زبان نہایت شگفتہ، صاف اور اندازِ بیان میں غضب کی روانی۔حسرت کی تحریر میں تکلف نہیں تھا۔ ''سرگزشت سلام‘‘ ان کی بلند پایہ تصنیف ہے۔اس کے علاوہ سند باد جہازی کے نام سے '' جدیدجغرافیہ پنجاب‘‘ ،''کیلے کا چھلکا‘‘ اور '' دو ڈاکٹر‘‘ لکھ کر علمی دنیا سے خراج تحسین حاصل کیا۔ مزاح نگاری میں ان کا مذاق نہایت ہی سلجھا ہوا تھا۔ طنز کرتے ہوئے بھی حسرت نے لطافت کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ ان کی تصنیف'' مردم دیدہ‘‘ بھی بے حد مقبول ہوئی ۔جدید جغرافیہ پنجاب‘‘ ایک ایسا شہ پارہ ہے جو طنزیات اور مطایبات میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اس پائے کی تحریریں اردو میں شاذ ہی لکھی گئی ہیں۔ مجازات کے استعمال سے حقیقت حال کا بیان اس ندرت اور شادابی و تازگی سے کسی نے کم ہی کیا ہے۔''آفتاب‘‘ (1926ء) اور ''شیرازہ‘‘ (1936ء) حسرت کی ادبی فتح مندیوں اور رجحان سازیوں کے دو روشن مینار ہیں۔ آج بھی لکھنے والے ان سے کسب فیض کرتے ہیں۔ ''آفتاب‘‘ مشرقی ہندوستان کا اکیلا ماہانہ ادبی رسالہ تھا جس نے آفتاب آمد دلیل آفتاب کے قول کو ادبی دنیا میں سچ کر دکھایا جبکہ ''شیرازہ‘‘ نے اپنی ہفت روزہ اشاعتوں سے ایک زمانے کو متاثر کیا۔ احمد ندیم قاسمی نے اپنی پہلی کتاب ''کیسر کیاری‘‘ میں لکھا تھا: ''چراغ حسن حسرت نے ''شیرازہ‘‘ جاری کیا اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے امائوس کی رات میں بدر منیر اچھل پڑا ہو‘‘۔حسرت ایک آزاد منش انسان تھے۔ دوست اور دشمن کے سامنے بے باکی اور بے تکلفی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ۔ ان کے کلام کا معتدبہ حصہ سیاسی ہے۔ شعرو شاعری میں آپ کی طبیعت غزل کی طرف زیادہ مائل رہی۔ ان کے کلام کی ،خصوصیت زبان کی سادگی اور خیالات کی شوخی اور رنگینی اور لطافت ہے۔یارب غم ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتاجو ہاتھ جگر پر ہے وہ دست دعا ہوتا.........اک عشق کا غم آفت اور اس پہ یہ دل آفتیا غم نہ دیا ہوتا یا دل نہ دیا ہوتا.........ناکام تمنا دل اس سوچ میں رہتا ہےیوں ہوتا تو کیا ہوتا یوں ہوتا تو کیا ہوتا.........امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتیوعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا.........غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نےکچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتاحسرت کی شخصیت کی بات کی جائے تو انہیں مولانا کہنے کی بھی چند وجوہات تھیں۔ عام طور پہ جو شخص اپنے علم و فضل کی وجہ سے لائق عزت و تکریم ہوتا اسے مولانا کہا جاتا تھا۔ مولانا کیلئے عالم دین اور عربی زبان سے واقف ہونا ضروری تھا۔ گویا مولانا علما کا لقب تھا۔ہمارے ہاں ادب و سیاست میں '' مولانا‘‘ کا لفظ کب آیا؟ بے ریش اصحاب کے نام کے ساتھ مولانا کا سابقہ کیوں رائج ہوا اور مولانا چراغ حسن حسرت خود کیوں اور کیسے مولانا تھے؟ اور اس لفظ کے ساتھ ان کا سلوک کیا تھا؟ اس پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔تحریک خلافت(1920،1921ء) نے مسلمانوں پر جو غیر معمولی اثرات مرتب کئے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے سینکڑوں گریجویٹس نے علما کی طرز کی داڑھیاں رکھ لیں۔ کوٹ پتلون کو خیر باد کہہ دیا، کھدر کی شیروانی اور مولانا محمد علی کے انداز کا پائجامہ پہننا شروع کردیا۔ ان نوجوانوں کے انداز و اطوار کو دیکھ کر ان کو مولانا کہا جانے لگا۔ ماہر القادری لکھتے ہیں: '' خلافت اور کانگریس کی تحریکیں جب دور آغاز میں زوروں پر تھیں اس وقت مولانا کا لقب بہت ارزاں ہو گیا تھا۔ ‘‘مولانا چراغ حسن حسرت نہ تو سیاست سے تعلق رکھنے والے مولانا تھے، جیسے مولانا ظفر علی خاں، مولانا حسرت موہانی، مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی وغیرہ۔چراغ حسن حسرت کی نثر کے بارے میں شورش کاشمیری لکھتے ہیں ''وہ نثر کی ہر صنف پر قادر تھے، سیرت بھی لکھی، افسانے بھی تحریر کیے، تاریخ پر بھی قلم اٹھایا۔ بچّوں کا نصاب بھی لکھا۔‘‘۔ 26جون 1955 کو اردو صحافت اور ادب کا یہ چراغ گل ہو گیا اور لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔