ٹاور آف لندن: برطانیہ کی جیتی جاگتی تاریخ
![ٹاور آف لندن: برطانیہ کی جیتی جاگتی تاریخ](https://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/27642_60104503.jpg)
اسپیشل فیچر
ٹاور آف لندن وسطی لندن میں دریائے ٹیمز کے شمالی کنارے پر ایک خوبصورت چار منزلہ تاریخی عمارت ہے۔ اسے لندن کے فاتح ولیم نے 1078ء میں تعمیر کروایا تھا۔ برطانیہ کی تاریخ شاہد ہے کہ یہ عمارت بعد میں آنے والے بادشاہوں کی تاج پوشی، عقوبت خانہ، مقتل گاہ، قید خانہ اور اسلحہ خانہ کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ یہ سب کچھ اس ٹاور آف لندن جیسی عظیم عمارت کی چھتوں کے سایہ تلے ہوتا رہا۔ باغیوں کو قید کر کے ان کے سر کچلے جاتے تھے۔ ملکائوں، بادشاہوں اور شہزادوں کو اسی عمارت میں تختہ دار پر چڑھایا جاتا تھا۔ اس وجہ سے یہ عمارت ایک آسیبی قلعہ کے نام سے جانی جاتی ہے۔
شاہ ہنری ہفتم اور اس کی دو بیویوں کو اسی قلعہ میں پھانسی دی گئی۔ ایک بیوی کا نام کیتھرین اور دوسری کا نام لیڈی جین گرے تھا،پھانسی کے وقت اس کی عمر صرف 16سال تھی۔ گیارہویں صدی سے لے کر بعد تک قیدیوں، باغیوں اور پھانسی پانے والوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ اس لئے اس عمارت کو خونی ٹاور بھی کہا جاتا ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران 12جاسوسوں کو اسی عمارت میں پھانسی دی گئی۔
اس عمارت کی حفاظت پر مامور سکیورٹی کے عملہ نے کئی بار یہاں روحوں کو روتے، چنگھاڑتے اور بھاگتے بھی دیکھا ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ آج جبکہ ترقی یافتہ انسان جس نے چاند کو تسخیر کرنے کے بعد کائنات کے دوسرے سیاروں پر بھی کمندیں ڈال دی ہیں، بھوت پریت جیسی مافوق الفطرت چیزوں پر اندھا یقین رکھتا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں 13کے ہندسے کو منحوس تصور کیا جاتا ہے۔ کسی بھی فلک بوس عمارت پر ہم اور آپ تیرہویں منزل نہیں دیکھ پائیں گے۔ غرضیکہ یہ عظیم الشان اور پرشکوہ عمارت کئی لرزہ خیز داستانوں اور بربریت سے بھرپور مناظر کی شاہد ہے۔ اسی ضمن میں کوؤںکا ذکر آگے آئے گا۔
ٹاور آف لندن موجودہ بادشاہ چارلس سوم کی سرکاری رہائش گاہ بھی ہے، ٹاور آف لندن کو رائل پیلس بھی کہا جاتا ہے۔1988ء میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے ٹاور آف لندن کو عالمی ورثہ کی فہرست میں شامل کیا۔ ٹاور آف لندن کا کل رقبہ 12ایکڑ اور اس چار منزلہ عمارت کی اونچائی 89فٹ ہے۔ اس قلعہ نما محل کی چاروں اطراف دیواریں کنکریٹ سے تعمیر کی گئی ہیں۔ دریائے ٹیمز پر مشہور پل لندن برج بھی اسی ٹاور کی مناسبت سے قریب ہی واقع ہے۔
یہ ٹاور آف لندن کئی عمارتوں کا کمپلیکس ہے۔ اس میں دو میوزیم بھی موجود ہیں، جن میں ماضی کے بادشاہوں کے تاج، ہیرے جواہرات اور ملکائوں کے گلے کے ہار رکھے ہوئے ہیں۔ کسی زمانہ میں یہ عمارت ٹکسال کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ ایک چڑیا گھر بھی تھا جس میں بادشاہوں نے شیر اور مگرمچھ بھی رکھے ہوئے تھے۔ شاہوں کے شوق نرالے، والی بات اس عمارت کے مکینوں پر صادق آتی تھی۔ اس خوبصورت عمارت کو دیکھنے کیلئے ہر سال 30لاکھ سے زائد لوگ آتے ہیں۔
سیانے کوّے
صدیوں سے یہ قلعہ نما محل کوئوں کا بھی گھر ہے۔ بادشاہ چارلس دوم (1685ء۔1630ء) نے ایک دفعہ حکم دیا کہ ان کووّں کو اس محل سے نکال دیا جائے۔ اس کو نجومیوں نے بتایا کہ اگر ان کوئوں کو یہاں سے نکال دیا جائے تو قلعہ میں نقصان ہوگا۔ تاج برطانیہ کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اور اس کے علاوہ مملکت مہلک وباء کی لپیٹ میں بھی آ سکتی ہے۔ بادشاہ نے اپنا حکم واپس لے لیا اور ساتھ یہ حکم دیا کہ صرف چھ کووّے اس محل میں موجود رہیں اور باقی کو تلف کر دیا جائے۔ اس وقت سے چھ کووّے محل میں ہمیشہ موجود رہتے ہیں ان کے نام یہ ہیں،(1)جوبلی، (2) ہیرس، (3)گرپ، (4)راکی، (5)پوپی اور (6)ایرینہ۔ان کوئوں کو بسکٹ، گوشت اور انڈے روزانہ خوراک میں دیئے جاتے ہیں۔ ان کووّں کے پر بھی اتنے کاٹ دیئے جاتے ہیں کہ کہیں یہ راہ فرار اختیار نہ کر لیں۔ بھلا وہ کووّے پاگل ہیں کہ جن کو اتنی اعلیٰ خوراک اور رہائش سرکاری طور پر میسر ہو وہ کہیں بھاگ جائیں، ایسا ناممکن ہے۔
ٹاور آف لندن میں ہر شام 9:53پر ایک فوجی تقریب میں محل کی چابیاں دوسرے گارڈز کو سونپی جاتی ہیں اور یہ تقریب صدیوں سے منعقد ہوتی چلی آ رہی ہے۔ یہ تقریب دنیا میں سب سے پرانی فوجی تقریب سمجھی جاتی ہے۔ محل کا پہرہ دینے والے سپاہیوں کیلئے لازم ہے کہ انہوں نے کم از کم 22 سال تک ملک کی آرمی میں خدمات انجام دی ہوں۔ ہر وارڈن کی یونیفارم کی مالیت7ہزارپائونڈ کے برابر ہے، کیونکہ یہ یونیفارم سونے کی تاروں سے تیار کی جاتی ہے۔
ٹاور آف لندن ایک قلعہ نما محل ہے، یہ قلعہ کیا ہے، برطانیہ کی جیتی جاگتی تاریخ ہے۔ اس کے درو دیوار پر ظلم کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ یقین نہیں آتا کہ دنیا کے لئے ایک مثالی ملک اور تہذیب و تمدن کے علم بردار شہر میں یہ سب کچھ ہوتا رہا لیکن اس میں چنداں حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ دنیا میں جہاں جہاں شہنشاہیت کی وراثت کا ذکر آئے گا،قتل و خون اور رنج و الم کی داستانیں رقم ہوںگی، ایسا ہوتا آیا ہے۔ تاج و تخت اچھالے جائیں تو دریائے ٹیمز ہو، گنگا جمنا راوی ہو یا فرات ان کے پانیوں میں خون کی سرخی نظر آتی رہے گی، رہتی دنیا تک۔