یادرفتگاں: سنتوش کمار
![یادرفتگاں: سنتوش کمار](https://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/27644_55545455.jpg)
اسپیشل فیچر
لاثانی رومانوی ہیرونے پاکستان فلم انڈسٹری کی آبیاری میں نمایاں کردار ادا کیا
اداکار مصطفی قریشی نے ایک بار کہا تھا کہ لفظ ''ہیرو‘‘ بنا ہی سنتوش کمار کیلئے ہے۔ ان کی اس بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا، واقعی سنتوش کمار ایک لاثانی رومانوی ہیرو تھے، جنہوں نے پاکستانی فلمی صنعت کی آبیاری میں نمایاں کردار ادا کیا۔ پاکستان کے ابتدائی دور میں وہ، سدھیر کے بعد دوسرے مقبول ترین فلمی ہیرو تھے۔
سنتوش کمار پاکستانی فلمی صنعت کے ایک انتہائی باوقار اور پرکشش شخصیت کے حامل اداکار تھے۔اس دور کی متعدد یادگار فلموں میں کردارنگاری کرنے والے سنتوش کمار 25دسمبر1925ء کو لاہور میں پیدا ہوئے،اصل نام سید موسیٰ رضا تھا۔ انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد سے گریجویشن کی۔ ان کی پہلی فلم ''آہنسا‘‘ 1947ء میں ریلیز ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد ان کی پہلی فلم ''بیلی‘‘تھی جو 1950ء میں سینما گھروں کی زینت بنی۔ پاکستان کی پہلی سلور جوبلی فلم '' دو آنسو‘‘ کے ہیرو بھی سنتوش کمار تھے، جس کے ہدایتکار انور کمال پاشا تھے ۔ سنتوش نے انور کمال پاشا کی متعدد فلموں میں کام کیا۔ اس جوڑی کی فلمیں ''قاتل‘‘ اور ''سرفروش‘‘ سپر ہٹ ثابت ہوئیں۔
وہ فطری اداکاری کرتے تھے اور انہوں نے کبھی اوور ایکٹنگ کا سہارا نہیں لیا۔ گانوں کی عکسبندی میں بھی ان کا کوئی جواب نہیں تھا۔ سنتوش کمار اپنے دور کے سپر سٹار تھے۔ انہوں نے زیادہ تر صبیحہ خانم کے ساتھ کام کیا جن کے ساتھ انہوں نے شادی بھی کی۔ صبیحہ اور سنتوش کی جوڑی اس زمانے میں مشہور ترین جوڑی تھی۔ جب کبھی پاکستانی فلمی صنعت کا کوئی وفد بیرون ملک جاتا تو سنتوش کو لازمی طور پر ساتھ بھیجا جاتا کیونکہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔
سنتوش کمار نے بطور پروڈیوسر ایک فلم ''شام ڈھلے‘‘بھی بنائی مگر وہ اس میدان میں کامیابی نہ سمیٹ سکے ۔ ڈبلیوزیڈ احمد کی یادگار فلم ''وعدہ‘‘ میں سنتوش کمار نے لا جواب اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ خاص طور پر اس کے گانوں کی پکچرائزیشن میں انہوں نے حیران کن صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس فلم کا ایک گیت ''تیری رسوائیوں سے ڈرتا ہوں، جب ترے شہر سے گزرتا ہوں‘‘تو آج تک اپنی شہرت برقرار رکھے ہوئے ہے۔یہ گیت گلو کار شرافت حسین کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ سنتوش کمار کو ''وعدہ‘‘ میں بہترین اداکاری کرنے پر پہلا نگار ایوارڈ دیا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے جن فلموں میں بھی کام کیا وہ اپنی بے مثال اداکاری کے نقوش چھوڑتے گئے۔ ''سرفروش‘‘ میں ان کے بولے گئے مکالمے ''چوری میرا پیشہ ہے، نماز میرا فرض ہے‘‘نے بہت شہرت حاصل کی۔ اداکارہ شمی کے ساتھ ان کی پنجابی فلم ''شمی‘‘ بھی کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔اس فلم کیلئے عنایت حسین بھٹی کے گائے ہوئے ایک گیت ''نی سو ہے جوڑے والیے ‘‘کو لازوال شہرت حاصل ہوئی۔
سنتوش کمار کی ایک اور یادگار فلم ''عشق لیلیٰ‘‘ تھی جس کے ہدایتکار منشی دل تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے مقابلے میں جو فلم ریلیز ہوئی اس کا نام تھا ''لیلیٰ مجنوں‘‘۔ دونوں فلموں کا موضوع ایک ہی تھا اب یہ فیصلہ شائقین نے کرنا تھا کہ وہ کس فلم کو قبولیت کی سند عطا کرتے ہیں۔ لوگوں نے ''عشق لیلیٰ‘‘ کے حق میں فیصلہ دیا اور اس فلم میں سنتوش کمار کی اداکاری کو سو میںسے سو نمبر دیئے۔ سنتوش کمار نے مجنوں کا کردار ادا کیا تھا جبکہ صبیحہ خانم لیلیٰ کے روپ میں جلوہ گر ہوئی تھیں۔ ''عشق لیلیٰ‘‘ کے گیتوں نے بھی ہر طرف دھوم مچا دی تھی۔ خاص طور پر یہ گانا ''پریشاں رات ساری ہے، ستارو تم تو سو جائو‘‘ اقبال بانو نے جس خوبصورتی سے گایا، اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس فلم میں عنایت حسین بھٹی نے بھی ایک اعلیٰ درجے کا گیت گایا تھا جسے سنتوش کمار پر پکچرائز کیا گیا تھا۔ اس گیت کے بول تھے ''جگر چھلنی ہے دل گھبرا رہا ہے‘‘ محبت کا جنازہ جا رہا ہے‘‘۔ ان کی ایک اور فلم ''انتظار‘‘ کا ذکر نہ کرنا صریحاً نا انصافی ہوگی۔ اس فلم میں ان کی ہیروئن میڈم نور جہاں تھیں۔ میڈم نور جہاں نے جتنے اعلیٰ درجے کے گیت اس فلم میں گائے ان کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے۔ سنتوش کمار نے اس فلم میں ڈبل رول ادا کیا تھا اور اپنی خداداد صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا جس پر تمام فلمی پنڈت ان پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے لگے۔
سنتوش کمار نے 1965ء میں ریلیز ہونے والی پاکستان کی پہلی رنگین فلم ''نائیلہ‘‘ میں بھی شاندار اداکاری کی۔ ان کی سنجیدہ اور جذباتی اداکاری نے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا۔ انہوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کی فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کی دیگر مشہور فلموں میں ''چن وے، شہری بابو، نذرانہ، حمیدہ، سات لاکھ، مکھڑا، ناجی، موسیقار، گھونگھٹ، دامن، چنگاری، انجمن، پاک دامن اور مس ہپی‘‘ شامل ہیں۔
کریکٹر ایکٹر کی حیثیت سے بھی انہوں نے اپنے فن کا سکہ جمایا۔ ان کے بھائی عشرت عباس المعروف درپن بھی فلمی ہیرو تھے۔ ایک بھائی ایس سلیمان پاکستانی فلمی صنعت کے مشہور ہدایتکار تھے۔ جنہوں نے بے شمار کامیاب فلمیں بنائیں۔ ایک اور بھائی منصور بھی فلموں میں اداکاری کرتے رہے۔ 11 جون 1982ء کو جب سنتوش کمار عالم جاوداں کو سدھار گئے تو پوری پاکستانی فلمی صنعت غم کے سمندر میں ڈوب گئی۔ سنتوش کمار کا نام پاکستانی فلمی صنعت کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔