دہشت گرد اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی لسٹ آف شیم
![دہشت گرد اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی لسٹ آف شیم](https://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/27645_77356882.jpg)
اسپیشل فیچر
غزہ کی وزارت صحت نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ سات اکتوبر 2023ء سے جاری اسرائیلی جارحیت اور ہٹ دھرمی کے باعث کم از کم 36731 فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں (بدقسمتی سے یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے ) جس میں کثیر تعداد میں عورتوں کے ساتھ ساتھ 15ہزار 500 بچے بھی شامل ہیں۔اسرائیل کے سمندری ، زمینی اور فضائی حملوں میں اب تک 85ہزار530 فلسطینی زخمی ہو چکے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق شمالی غزہ میں قحط کی وجہ سے مسلسل بچے ہلاک ہو رہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق گزشتہ ہفتے غزہ میں کم از کم پانچ میں سے چار بچے 72 گھنٹوں میں پورا ایک دن خوراک کے بغیر رہے ہیں۔فلسطینی حکومت کے ایک بیان کے مطابق کم از کم 32 افراد جن میں زیادہ تعداد بچوں کی تھی اس جاری جنگ کے آغاز میں خوراک کی عدم دستیابی کے باعث جاں بحق ہو چکے ہیں۔
اگرچہ نہتے فلسطینیوں پراسرائیلی مظالم کی کارروائیاں ایک عرصے سے جاری ہیں جس کے تناظر میں گزشتہ 15 سالوں سے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم '' ہیومن رائٹس واچ‘‘سمیت متعدد عالمی تنظیمیں اقوام متحدہ پر دبائو ڈالتی آ رہی ہیں کہ اسرائیل کی اس علاقائی دہشتگردی کو فی الفور روکا جائے اور اسے '' لسٹ آف شیم‘‘ میں بھی شامل کرے۔ حسب معمول اقوام متحدہ جو امریکی آشیرباد کا شکار ہے دنیا بھر کی امن پسند تنظیموں کی اپیلوں کو نظر انداز کرتا رہا ہے جس کی وجہ سے اسرائیلی مظالم اور دیدہ دلیری کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی ہے۔لیکن اب پچھلے چند سالوں سے عالمی برادری کے مسلسل دباو نے جب اقوام متحدہ کی غیرت کو جھنجھوڑا تو 2022ء میں اقوام متحدہ کو مجبوراً اسرائیل کو یہ تنبیہ جاری کرنا پڑی کہ اگر اس نے انسانی حقوق بالخصوص بچوں کے حقوق کی پامالی کا سلسلہ بند نہ کیا تو اسے '' لسٹ آف شیم‘‘ کا حصہ بنا دیا جائے گا۔ امریکی سرپرستی کے نشے میں بدمست اسرائیل نے نہ تو عالمی انسانی تنظیموں کی تنبیہ کی پرواہ کی اور نہ ہی اقوام متحدہ کی۔
بالآخر اقوام متحدہ نے چند روز قبل بچوں کو خطرے سے دوچار کرنے والی ریاستوں اور مسلح تنظیموں کی عالمی فہرست میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی وجہ سے اسرائیل کو ''لسٹ آف شیم‘‘ میں شامل کر لیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اسرائیل کے نمائندہ برائے اقوام متحدہ گیلاد اردان کو باضابطہ طور پر اقوام متحدہ کے اس فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے حالانکہ اس لسٹ پر بحث اور اس کا اجراء ابھی زیر التوا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اور حماس دونوں بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کررہے ہیں اور اپنی اپنی جنگ میں بچوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
گزشتہ کئی ماہ سے اسرائیل غزہ میں شہریوں کی ہلاکتوں پر شدید بین الاقوامی تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ابھی چند ہفتے قبل اسرائیل کے ہوائی حملوں میں متعدد بے گناہ شہری بشمول بچوں کے جان کی بازی ہار گئے تھے۔ اس کارروائی کے فوری بعد اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر یہ جنگ جاری رہی تو غزہ میں دس لاکھ سے زائد فلسطینی اگلے ماہ کے وسط تک بھوک کی بلند ترین سطح کا سامنا کر سکتے ہیں۔یاد رہے کہ اس سے پہلے اقوام متحدہ شام، یمن ، داعش ، بوکو حرام ، افغانستان ، صومالیہ اور روس کو بھی اس فہرست میں شامل کر چکا ہے۔
قاعدے کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اس حوالے سے ہرسال سلامتی کونسل کو ایک فہرست بھیجتے ہیں اور پھر سلامتی کونسل کی ایک کمیٹی ان الزامات کا بنظر غائر جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ کرتی ہے کہ آیا ان الزامات کی روشنی میں متعلقہ ملک ، ممالک یا تنظیموں پر کارروائی کا جواز بنتا ہے کہ نہیں۔
سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممبران ہیں جن میں سے ایک امریکہ بھی ہے جو اپنے دیرینہ اتحادی ملک اسرائیل کے خلاف کارروائی سے گریز کرتا ہے۔اسی طرح روس بھی اسی سلامتی کونسل کا ایک مستقل ممبر ہے۔جب گزشتہ سال اقوام متحدہ نے روسی افواج کو یوکرین میں بچوں کو قتل کرنے، سکولوں اور ہسپتالوں پر حملوں کے الزام میں اس کا نام '' لسٹ آف شیم‘‘ میں ڈالا تو سلامتی کونسل اس پر کوئی کارروائی نہ کر سکی تھی۔ گزشتہ سال اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ کے دیباچے میں لکھا تھا کہ یہ فہرست بچوں کے قتل اور معذوری، عصمت دری اور بچوں کے خلاف ہونے والے جنسی تشدد کی دیگر اقسام، سکولوں ، سپتالوں اور عام شہریوں پر حملے کے دو فریقوں پر مشتمل ہے ۔
اس سال کی فہرست مرتب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ایک ترجمان سٹیفن دوجارک نے ایک بیان میں کہا کہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر گیلاد اردان کو فون پر مطلع کر دیا گیا ہے کہ اسرائیل کا نام لسٹ آف شیم میں شامل کیا گیا ہے جبکہ حماس اور فلسطینی اسلامی جہاد گروپوں کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جا رہا ہے۔
لسٹ میں شامل ممالک کا ردعمل
اسرائیل نے اس اعلان کے بعد انتہائی غصے کے ساتھ اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے نمائندہ گیلاد اردان نے اقوام متحدہ کے متعلقہ سربراہ کو ڈانٹ ڈپٹ کی ایک ویڈیو بھیجی اور اسے ''ایکس‘‘پر پوسٹ بھی کر دیا۔ گیلاد نے اپنے بیان میں لکھا ''حماس سکولوں اور ہسپتالوں کا استعمال مزید جاری رکھے گا کیونکہ سیکرٹری جنرل کے اس شرمناک فیصلے ( لسٹ آف شیم ) سے حماس کو صرف زندہ رہنے اور جنگ کو بڑھانے اور مصائب کو بڑھانے کی امید ملے گی۔ جواباً اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے کہا ''یہ کال ان ممالک کیلئے تھی جو رپورٹ کے ضمیمہ پر نئے درج ہوئے ہیں‘‘۔ ''ایکس ‘‘ پر اس ریکارڈنگ کی جزوی ریلیز حیران کن اور ناقابل قبول ہے اور واضح طور پر میں نے اپنے 24 سالوں میں اس تنظیم کی خدمت کرتے ہوئے کبھی اس طرح کا عمل نہیں دیکھا ‘‘۔
اس لسٹ میں شمولیت پر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن یاہو کا رد عمل اس طرح تھا ، ''اقوام متحدہ نے خود کو آج تاریخ کی بلیک لسٹ میں ڈال دیا ہے‘‘۔ اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر نے کہا '' اسرائیل کو لسٹ آف شیم ‘‘ میں شامل کرنے سے ہمارے ہزاروں بچے تو واپس نہیں آ سکتے جو کئی دہائیوں میں اسرائیل کے ہاتھوں مارے گئے تھے تاہم یہ ایک درست سمت میں اہم قدم ہے۔
لسٹ آف شیم ہے کیا ؟
'' لسٹ آف شیم‘‘ کی اصطلاح بہت سارے لوگوں کیلئے شاید نئی ہو اس لئے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس اصطلاح کا مقصد کیا ہے؟۔ لفظی طور پر تو اس فہرست بارے یہی کہا جا سکتا ہے کہ اقوام عالم کی نظروں کے سامنے عالمی انسانی حقوق اور قوانین کی سرعام بے حرمتی کرنے والے ممالک کو '' شرم دلانے والی فہرست ‘‘۔ یا ''کالے کرتوتوں والی فہرست ‘‘۔ لیکن اقوام متحدہ کی طرف سے متعارف کردہ یہ فہرست صرف بچوں پر ڈھائے گئے مظالم اور ان کو حاصل تمام بنیادی حقوق کی پامالی کا احاطہ کرتی ہے۔
بنیادی طور پر اقوام متحدہ کے امن بحال کرنے والے ادارے سارا سال دنیا بھر میں جاری جنگوں ، کشیدگی اور جاری تخریبی کارروائیوں میں بچوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خصوصی نظر رکھے ہوتے ہیں۔بچوں کیخلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی صورت میں وہ متعلقہ ملک یا تنظیم کو بار بار تنبیہ کرتے ہیں اور باز نہ آنے کی صورت میں سال کے اختتام پر ان کا نام ''لسٹ آف شیم ‘‘ نامی فہرست میں ڈال دیتے ہیں۔