بغداد ، اپنے دور کا کیا خوبصورت شہر ہوا کرتا تھا۔ دنیا کا سب سے بڑا شہر۔ علوم و فنون اور علم وادب کاایسا گہوارہ کہ تاریخ دان ٹرٹیئس چینڈلر کے بقول ''775ء سے لے کر 932ء تک بغداد آبادی کے لحاظ سے دنیا کاسب سے بڑا شہر تھا جبکہ دس لاکھ آبادی تک پہنچنے والا بھی یہ دنیا کا پہلا شہر تھا‘‘۔ دریائے دجلہ کے دونوں کناروں پر آباد بغداد شہر کی بنیاد ، خلیفہ مستعصم با للہ کے جد ابو جعفر بن المنصور نے 762ء میں بغداد نامی ایک چھوٹے سے قصبے کے قریب رکھی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چند عشروں میں ایک چھوٹی سی بستی ، بستے بستے '' بغداد‘‘ نامی دنیاکے ایک عظیم ترین شہر میں بدل گئی۔ اس باکمال شہر کے چارسو ایسے چرچے ہوئے کہ برصغیر سے لے کر مصر تک کے اہل علم ، شاعر ، فلسفی، علماء و فضلاء، سائنس دانوں اور مفکروں نے بغداد کا رخ کرنا شروع کیا۔ یہ وہ دور تھا جب چین میں کاغذ ایجاد ہو چکا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہاں سے علم و دانش کی شمعیں روشن ہوتی چلی گئیں۔یہاں کے ''دارالترجمہ بیت الحکمہ‘‘ میں دنیا کی بیشتر زبانوں میں دھڑا دھڑ کتابوں کے ترجمے ہونے لگے۔ پھر یہی کتابیں صدیوں بعد یورپ سمیت آج کے ترقی یافتہ ممالک میں پہنچیں تو وہاں ترقی کی راہیں کھلتی چلی گئیں۔بغداد کے علم و دانش کے مرکز ہونے کا اس سے بڑا ثبوت بھلا کیا ہو گا کہ جدید کیمسٹری کے بانی جابر بن حسان، مشہور فلسفی الکندی اور الرازی، الجبرا کابانی الخوارزمی ، مشہور مفکر الغزالی ، عظیم فارسی شاعر شیخ سعدی، مشہور تاریخ دان طبری، عظیم عربی شاعر ابو نواس اور معروف مذہبی رہنما امام ابو حنیفہ ، امام احمد بن جنبل اور امام ابو یوسف سمیت لاتعداد نابغۂ روزگار شخصیات کا تعلق اسی سرزمین سے تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ تجارتی لحاظ سے بھی یہ دنیا کی تجارت کا مرکز بن گیا جہاں چین ، مشرقی افریقہ، ہندوستان اور دنیا کے کونے کونے سے تجارتی سامان یہاں پہنچنے لگا۔ایک مورخ نے اپنی یاداشتوں میں بغداد کا ذکر انتہائی خوبصورت الفاظ میں کچھ اس طرح کیا ''دریائے دجلہ کے کنارے آباد بغداد، الف لیلیٰ کی شہرزاد کا شہر ، خلیفہ ہارون الرشید اور مامون الرشید کے قائم کردہ ''دارلترجمہ‘‘ کا شہر۔ یہ وہ شہر تھا جہاں مترجموں کو کتابیں تول کر سونا کے عوض دی جاتی تھیں۔ یہ شہر دلفریب مساجد ، وسیع کتب خانوں، عالی شان محلات، سرسبز باغات، پررونق بازاروں ، علم افروز مدارس اور حماموں کا شہر کہلاتا تھا‘‘۔ تو پھر اچانک آخر ایسا کیا ہوا کہ بغداد کے گلی کوچے خون سے نہلا دئیے گئے۔ پھر بغداد کے گلی کوچوں نے یہ دلخراش منظر بھی دیکھا جب پابند سلاسل خلیفہ بغداد مستعصم باللہ کو کئی دن بھوکا رکھنے کے بعد جب چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کے سامنے پیش کیا گیا تو اس کے سامنے کپڑے سے ڈھکا کھانے کا ایک ٹرے لایا گیا۔ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ کئی دن کے بھوکے خلیفہ نے جب بے تابی سے خوان کا کپڑا اٹھایا تو دیکھا کہ وہ ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا تھا ، ہلاکو نے ٹرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خلیفہ کو کہا ، کھاو۔مستعصم باللہ نے کہا، کیسے کھاؤں، یہ تو ہیرے جواہرات ہیں ؟۔اس پر ہلاکو نے ایک تاریخی جملہ کہا ''اگر تم اپنے سپاہیوں کے لئے تلواریں اور تیر بنا لیتے تو میں یہ دریا عبور کر کے یہاں تک نہ پہنچ پاتا‘‘۔ مستعصم نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا ، خدا کی یہی مرضی تھی۔ اس کے بعد ہلاکو نے خلیفہ مستعصم کو نمدوں میں لپیٹ کر اس کے اوپر سے گھوڑے دوڑا دئیے۔ پھر یہیں سے امن ، علم ودانش ، علماء و فضلاء اور علم کے پیاسوں کا تیزی سے ترقی کرتا یہ شہر خون کا ایسے پیاسا بنا کہ اسے 13 صدیاں پیچھے لا کھڑا کیا۔ آخر ایسا ہوا کیا ؟ تاریخ کا چھوٹے سے چھوٹا طالبعلم بھی اس حقیقت سے آشنا ہے کہ دنیا کی تاریخ میں منگول قوم اپنی سفاکی کی الگ ہی شناخت رکھتی تھی۔ یہ منگول ہی تھے جن کی سفاکی کے ہاتھوں عباسی سلطنت کا خاتمہ ہوا۔ چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بھی وہی کیا جو اس کے دادا کرتے رہے تھے۔ ہلاکو کو منگول سپاہیوں کی صلاحیتوں پر مکمل بھروسہ تھا۔یہ پچھلے چار عشروں سے اپنے آبائی وطن منگولیا سے نکل کر چار ہزار میل دور اپنی فتوحات میں اضافہ کرتا آ رہا تھا۔طاقت کے نشے میں بدمست ہلاکو خان کا اگلا ہدف اب سلطنت عثمانیہ تھی۔ بغداد داخل ہونے سے پہلے اس نے 37 ویں عثمانی خلیفہ مستعصم باللہ کو خط لکھا، ''لوہے کے سوئے کو مکے مارنے کی کوشش نہ کرو، سورج کو بجھی ہوئی موم بتی سمجھنے کی غلطی نہ کرو،بغداد کی دیواریں فوراً گرا دو، حکومت چھوڑ دو اور اپنے آپ کو ہمارے حوالے کر دو،اگر ہم نے بغدادپر چڑھائی کی تو تمہیں نہ تو گہری ترین پاتال میں پناہ ملے گی اور نہ ہی بلند ترین آسمان پر‘‘۔اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ ہلاکو کی افواج اپنے دور کے جدید ترین اوزاروں سے لیس ہی نہیں بلکہ جدید فوجی حکمت عملی میں مہارت بھی رکھتی تھی۔ ہلاکو جہاں اپنی جنگی تیاریوں اور اپنی فوج کی مہارت پر پر اعتماد تھا وہیں بغداد کے اس وقت کے 37ویں عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کو بھی یہ زعم تھا کہ مسلم دنیا کے بیشتر حصے پر چونکہ ان کا سکہ چلتا ہے اس لئے اس پر حملے کی خبر سن کر مراکش سے ایران تک سبھی مسلمان ان کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں گے۔ خلیفہ مستعصم نے ہلاکو کو جواب میں لکھا '' دس دن کی عارضی خوش قسمتی سے تم خود کو کائنات کا مالک سمجھ بیٹھے ہو۔یہ سوچے بغیر کہ مشرق سے مغرب تک اہل ایمان میری رعایا ہیں۔تمہاری سلامتی اسی میں ہے کہ تم واپس پلٹ جاو‘‘۔ جواباً ہلاکو نے 29 جنوری 1258ء کو بغداد کے محاصرے کا آغاز کیا۔ اس نے ایک ایک کرکے تمام اشرافیہ کو تلوار کا نشانہ بنایا اور یوں ہلاکو افواج باآسانی بغداد شہر کے اندر داخل ہوگئیں۔اس کے بعد اس نے جس بر رحمی اور سفاکی کا مظاہرہ کیا اس کو مورخ عبداللہ وصاف شیرازی نے ان الفاظ میں لکھا تھا ''ہلاکو خان کے سپاہی بھوکے گدھوں کی طرح بغداد شہر کے اندر داخل ہوئے بالکل ایسے جیسے بپھرے بھیڑیے، بھیڑوں کے ریوڑ پر ہلہ بول دیتے ہیں۔حرم کی عورتیں سرعام گلیوں میں گھسیٹیں گئیں اور ان میں سے ہر ایک تاتاریوں کا کھلونا بن کر رہ گئی‘‘۔تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ بغداد کی گلیوں میں قتل و غارت اور خون کی ایسی ہولی کھیلی گئی جس کی مثال تاریخ کی کتابوں میں کم کم ملتی ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ بغداد کی گلیاں خون کی ندی کا منظر پیش کر رہی تھیں اور حد نگاہ ہر طرف لاشوں کے انبار لگ چکے تھے۔ ایک جگہ لکھا ہے کہ چند دن کے اندر اندر ہر طرف اس سے اٹھنے والے تعفن کی وجہ سے ہلاکو خان کو شہر سے باہر خیمہ لگانے پر مجبور ہونا پڑا۔ اسی دوران شاہی محل کوبھی نذر آتش کر دیا گیا۔ یہ قتل عام کتنی جانوں کا نذرانہ لے گیا ؟ اس کا صحیح اندازہ لگانا تو مشکل ہے تاہم بیشتر مورخین کا ماننا ہے کہ اس سانحہ میں دو سے دس لاکھ تک لوگ تاتاریوں کی سفاکیت کا نشانہ بنے تھے۔ 10 فروری 1258ء کو 13 دن کھیلی گئی خون کی یہ ہولی بغداد شہر کی تباہی کی ایسی بنیاد رکھ گئی کہ 13 صدیوں بعد بھی بغداد اس کے اثر سے باہر نہیں نکل سکا۔