ہلسا مچھلی:بنگال کی جل پری
مچھلی قدرت کی انمول تخلیق ہے۔جہاں پانی کی فراوانی ہے مچھلیاں وہاں پائی جاتی ہیں۔ یہ جھیلوں ، چشموں ،تالابوں ،ندی نالوں، دریاوں اور سمندروں میں پائی جاتی ہیں۔یہ آبی مخلوق کی وہ منفرد قسم ہے جس کی اب تک 21 ہزار سے زائد اقسام دریافت ہو چکی ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق مچھلی صرف ایک خوراک ہی نہیں بلکہ کئی بیماریوں کا،علاج بھی ہے۔ مچھلی کو آبی حیات میں یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ اس کی بعض انواع کچھ مذاہب میں مقدس مانی جاتی ہیں، لیکن ہم جس مچھلی کا ذکر کرنے جا رہے ہیں وہ نہ صرف اپنے ذائقے کی وجہ سے ہر دلعزیز اور کچھ مذاہب میں مقدس ہے بلکہ وہ ثقافتی اعتبار سے بھی انتہائی اہم ہے۔
ہلسا نام کی یہ مچھلی ، بنگالی ثقافت کا ایک اہم جزو تصور ہوتی ہے۔ مذہبی رسومات ہوں ، شادی بیاہ کی تقریبات ہوں، خصوصی ضیافتیں ہوں ہلسا کی موجودگی کے بغیر نامکمل تصور ہوتی ہیں۔دراصل ہلسا اور بنگال کا ساتھ صدیوں پرانا ہے۔ وقت بدلا زمانے بدلے لیکن بنگال کی ثقافت سے ہلسا کو کوئی نہیں نکال سکا۔اسی لئے تو بنگالی فخر سے اسے '' بنگالی جل پری‘‘ کہتے ہیںاور کیوں نہ کہیں،بنگالی ثقافت میں ہلسا کی دعوت کو نہ صرف صلح کا پیغام تصور کیا جاتا ہے بلکہ اسے دوستی کو مضبوط بنانے اور ٹوٹے دلوں کو جوڑنے کا وسیلہ بھی مانا جاتا ہے۔بنگال میں اسے ساس سسر کی خوشنودی کا حصول بھی کہا جاتا ہے۔اور تو اور اسے شریک حیات کی خفگی دور کرنے کا وسیلہ اور مسرت کا سامان بھی کہا جاتا ہے۔
بنگال میں صدیوں پرانی ایک روایت سننے کو ملتی ہے کہ ، ہلسا کے بغیر بنگال کی سماجی اور معاشرتی زندگی پھیکی اور بے رونق ہوتی ہے اور اس سے بڑھ کر اس کی ثقافتی اور سماجی اہمیت بھلا اور کیا ہوگی کہ بنگال کے رسم و رواج کے مطابق دولہا کے گھر سے شادی کی رسومات کی ابتدا ہی سجی سجائی ہلسا مچھلی سے ہوتی ہے جسے ایک خوبصورت پلیٹ میں سجا کر دولہا سے ہاتھ لگوا کر دلہن کے گھر بھیجا جاتا ہے۔ بیشتر گھرانے لڑکے والوں کی طرف سے آئی اس مچھلی کو سالن کی شکل میں بطور خاص بنا کر نہ صرف خود کھاتے ہیں بلکہ اپنے قریبی اور خاص عزیز و اقارب کو بھی بھجواتے ہیں جو ایک طرح سے اس نئے رشتے کے بندھن کی اطلاع ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ رسم نو بیاہتا جوڑے کی نئی زندگی کی شروعات پر خیر سگالی کا ایک پیغام بھی ہوتا ہے۔ بنگالیوں کا یہ صدیوں پرانا عقیدہ ہے کہ یہ رسم نوبیاہتا جوڑوں کی زندگی میں خوشگوار تعلقات کی ضامن ہوتی ہے۔
ہلسا مچھلی بنگلہ دیش کی قومی مچھلی ہے۔ بنگالیوں کے مذہبی تہواروں میں بھی ہلسا کی ایک مسلمہ حیثیت ہے۔ہندوں کی رسم کالی پوجا ، سرسوتی پوجا اور لکشمی پوجا میں ہلسا کے بنے پکوان خصوصی طور پر نذرانے کے طور پر چڑھائے جاتے ہیں۔ان چڑھاوں کو خیرو برکت اور بھگوان کی خوشنودی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہلسا مچھلی صرف بنگلہ دیش ہی نہیں بلکہ ہندوستانی ریاست مغربی بنگال میں بھی '' درگاہ پوجا‘‘ کے دوران ہر سال اکتوبر میں دنیا بھر سے آئے لاکھوں عقیدت مندوں کی میزبانی کا حق ادا کرتی ہے۔
زمانہ قدیم میں تو مغربی اور مشرقی بنگالی نئے سال کا آغاز چاول اور تلی ہوئی ہلسا مچھلی سے کیا کرتے تھے ، لیکن اب یہ روایت بہت کم علاقوں میں نظر آتی ہے۔
ہلسا نہ صرف چاندی کی طرح چمکتی خوبصورت مچھلی ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ یہ ذائقہ دار اور لذیذ بھی ہے۔ بنگالی خواتین اسے بے شمار طریقوں سے بناتی ہیں۔درحقیقت ہلسا مچھلی بنگالیوں اور میانمار کے لوگوں کی بنیادی خوراک چلی آرہی ہے۔بنگالیوں کے بارے میں تو مشہور ہے کہ وہ مچھلی کا کوئی بھی حصہ ضائع نہیں کرتے۔وہ مچھلی کا سر تا دم ہر حصہ انتہائی رغبت سے کھاتے ہیں۔مچھلی ہی بنگالیوں کی روزانہ خوراک کا حصہ ہے۔مچھلی کا سالن جسے ''جھول‘‘کہتے ہیں چاول کے ساتھ ملا کر کھانا ، یہاں کی سب سے مقبول ڈش سمجھی جاتی ہے۔ایک اور بات کا یہاں بڑا چرچا ہے کہ مچھلی ،بالخصوص ہلسا کا دماغ کھانے سے انسانی دماغ مضبوط اور طاقت ور بنتا ہے۔
اگرچہ اس مچھلی کی پیداوار بین الاقوامی طلب کے مقابلے میں کافی کم ہے جس کی وجہ سے اس کی نسل کو غیر قانونی شکار کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔چونکہ یہ اپنے منفرد ذائقے کی بدولت دنیا بھر میں پسند کی جاتی ہے ،جس کی وجہ سے یہ عام مچھلیوں کے مقابلے میں مہنگی ہوتی ہے اور صرف امیروں کے دستر خواں تک ہی رسائی حاصل کر پاتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہلسا مچھلی کی فی کلو قیمت پاکستانی روپوں میں آٹھ ہزار روپے تک ہے۔
ہلسا مچھلی کا مرکزی ٹھکانہ خلیج بنگال کے ساتھ لگنے والے دریا ہیں۔ ان میں دریائے گنگا اور پدما سرفہرست ہیں جہاں بنگال کے مچھیرے ان کا بڑی بے رحمی سے شکار کرتے نظر آتے ہیں۔یہ سردیاں پانی کی تہہ میں گزارتی ہے اور موسم گرما کا بڑی بے چینی سے انتظار کرتی ہے ، سردیاں ختم ہوتے ہی یہ غولوں کی شکل میں خلیج بنگال کے دریاوں میں چارسو تیرتی نظر آتی ہے۔
بے آف بنگال لارج میرین ایکو سسٹم کے مطابق دنیا میں ہلسا مچھلی کی کل پیداوار کا 60 فیصد بنگلہ دیش ، 20 فیصد میانمار جب کہ اس کے علاوہ کچھ مقدار ہندوستان اور انتہائی قلیل مقدار پاکستان اور کچھ دیگر ممالک میں پکڑی جاتی ہے۔
ہلسا کی بقا کو لاحق خطرات
اگرچہ بنگلہ دیش میں مچھلی کے بے دریغ شکار پر کسی حد پابندی ہے ، لیکن میانمار جو بنگلہ دیش کے بعد ہلسا کی پیداوار میں دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اس کا شکار بلا تعطل سارا سال جاری رہتا ہے۔ ااس کی بڑی وجہ یہاں بڑی حد تک غربت کا ہونا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ خطرہ ہلسا کی بڑھتی ہوئی مانگ اور بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں۔ جس کی بڑی وجہ بڑے '' تجارتی ٹرالر‘‘ ہیں۔ ان ٹرالروں میں بڑے بڑے باریک جال لگے ہوتے ہیں جن کے سوراخوں کا سائز بمشکل 2.5 سینٹی میٹر تک ہوتا ہے جس میں چھوٹی سے چھوٹی مچھلیاں بھی پھنس جاتی ہیں۔
ہلسا کے معدوم ہو جانے کی ایک بڑی وجہ عالمی طور پر بڑھتی موسمیاتی تبدیلیاں اور پانی کی آلودگی بھی ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر اس آبی مخلوق کی بقا کو پلاسٹک کے کچرے سے خطرہ ہے جسے خوراک سمجھ کر کھا کر یہ موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔