ہلسا مچھلی:بنگال کی جل پری

ہلسا مچھلی:بنگال کی جل پری

اسپیشل فیچر

تحریر : خاورنیازی


مچھلی قدرت کی انمول تخلیق ہے۔جہاں پانی کی فراوانی ہے مچھلیاں وہاں پائی جاتی ہیں۔ یہ جھیلوں ، چشموں ،تالابوں ،ندی نالوں، دریاوں اور سمندروں میں پائی جاتی ہیں۔یہ آبی مخلوق کی وہ منفرد قسم ہے جس کی اب تک 21 ہزار سے زائد اقسام دریافت ہو چکی ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق مچھلی صرف ایک خوراک ہی نہیں بلکہ کئی بیماریوں کا،علاج بھی ہے۔ مچھلی کو آبی حیات میں یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ اس کی بعض انواع کچھ مذاہب میں مقدس مانی جاتی ہیں، لیکن ہم جس مچھلی کا ذکر کرنے جا رہے ہیں وہ نہ صرف اپنے ذائقے کی وجہ سے ہر دلعزیز اور کچھ مذاہب میں مقدس ہے بلکہ وہ ثقافتی اعتبار سے بھی انتہائی اہم ہے۔
ہلسا نام کی یہ مچھلی ، بنگالی ثقافت کا ایک اہم جزو تصور ہوتی ہے۔ مذہبی رسومات ہوں ، شادی بیاہ کی تقریبات ہوں، خصوصی ضیافتیں ہوں ہلسا کی موجودگی کے بغیر نامکمل تصور ہوتی ہیں۔دراصل ہلسا اور بنگال کا ساتھ صدیوں پرانا ہے۔ وقت بدلا زمانے بدلے لیکن بنگال کی ثقافت سے ہلسا کو کوئی نہیں نکال سکا۔اسی لئے تو بنگالی فخر سے اسے '' بنگالی جل پری‘‘ کہتے ہیںاور کیوں نہ کہیں،بنگالی ثقافت میں ہلسا کی دعوت کو نہ صرف صلح کا پیغام تصور کیا جاتا ہے بلکہ اسے دوستی کو مضبوط بنانے اور ٹوٹے دلوں کو جوڑنے کا وسیلہ بھی مانا جاتا ہے۔بنگال میں اسے ساس سسر کی خوشنودی کا حصول بھی کہا جاتا ہے۔اور تو اور اسے شریک حیات کی خفگی دور کرنے کا وسیلہ اور مسرت کا سامان بھی کہا جاتا ہے۔
بنگال میں صدیوں پرانی ایک روایت سننے کو ملتی ہے کہ ، ہلسا کے بغیر بنگال کی سماجی اور معاشرتی زندگی پھیکی اور بے رونق ہوتی ہے اور اس سے بڑھ کر اس کی ثقافتی اور سماجی اہمیت بھلا اور کیا ہوگی کہ بنگال کے رسم و رواج کے مطابق دولہا کے گھر سے شادی کی رسومات کی ابتدا ہی سجی سجائی ہلسا مچھلی سے ہوتی ہے جسے ایک خوبصورت پلیٹ میں سجا کر دولہا سے ہاتھ لگوا کر دلہن کے گھر بھیجا جاتا ہے۔ بیشتر گھرانے لڑکے والوں کی طرف سے آئی اس مچھلی کو سالن کی شکل میں بطور خاص بنا کر نہ صرف خود کھاتے ہیں بلکہ اپنے قریبی اور خاص عزیز و اقارب کو بھی بھجواتے ہیں جو ایک طرح سے اس نئے رشتے کے بندھن کی اطلاع ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ رسم نو بیاہتا جوڑے کی نئی زندگی کی شروعات پر خیر سگالی کا ایک پیغام بھی ہوتا ہے۔ بنگالیوں کا یہ صدیوں پرانا عقیدہ ہے کہ یہ رسم نوبیاہتا جوڑوں کی زندگی میں خوشگوار تعلقات کی ضامن ہوتی ہے۔
ہلسا مچھلی بنگلہ دیش کی قومی مچھلی ہے۔ بنگالیوں کے مذہبی تہواروں میں بھی ہلسا کی ایک مسلمہ حیثیت ہے۔ہندوں کی رسم کالی پوجا ، سرسوتی پوجا اور لکشمی پوجا میں ہلسا کے بنے پکوان خصوصی طور پر نذرانے کے طور پر چڑھائے جاتے ہیں۔ان چڑھاوں کو خیرو برکت اور بھگوان کی خوشنودی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہلسا مچھلی صرف بنگلہ دیش ہی نہیں بلکہ ہندوستانی ریاست مغربی بنگال میں بھی '' درگاہ پوجا‘‘ کے دوران ہر سال اکتوبر میں دنیا بھر سے آئے لاکھوں عقیدت مندوں کی میزبانی کا حق ادا کرتی ہے۔
زمانہ قدیم میں تو مغربی اور مشرقی بنگالی نئے سال کا آغاز چاول اور تلی ہوئی ہلسا مچھلی سے کیا کرتے تھے ، لیکن اب یہ روایت بہت کم علاقوں میں نظر آتی ہے۔
ہلسا نہ صرف چاندی کی طرح چمکتی خوبصورت مچھلی ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ یہ ذائقہ دار اور لذیذ بھی ہے۔ بنگالی خواتین اسے بے شمار طریقوں سے بناتی ہیں۔درحقیقت ہلسا مچھلی بنگالیوں اور میانمار کے لوگوں کی بنیادی خوراک چلی آرہی ہے۔بنگالیوں کے بارے میں تو مشہور ہے کہ وہ مچھلی کا کوئی بھی حصہ ضائع نہیں کرتے۔وہ مچھلی کا سر تا دم ہر حصہ انتہائی رغبت سے کھاتے ہیں۔مچھلی ہی بنگالیوں کی روزانہ خوراک کا حصہ ہے۔مچھلی کا سالن جسے ''جھول‘‘کہتے ہیں چاول کے ساتھ ملا کر کھانا ، یہاں کی سب سے مقبول ڈش سمجھی جاتی ہے۔ایک اور بات کا یہاں بڑا چرچا ہے کہ مچھلی ،بالخصوص ہلسا کا دماغ کھانے سے انسانی دماغ مضبوط اور طاقت ور بنتا ہے۔
اگرچہ اس مچھلی کی پیداوار بین الاقوامی طلب کے مقابلے میں کافی کم ہے جس کی وجہ سے اس کی نسل کو غیر قانونی شکار کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔چونکہ یہ اپنے منفرد ذائقے کی بدولت دنیا بھر میں پسند کی جاتی ہے ،جس کی وجہ سے یہ عام مچھلیوں کے مقابلے میں مہنگی ہوتی ہے اور صرف امیروں کے دستر خواں تک ہی رسائی حاصل کر پاتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہلسا مچھلی کی فی کلو قیمت پاکستانی روپوں میں آٹھ ہزار روپے تک ہے۔
ہلسا مچھلی کا مرکزی ٹھکانہ خلیج بنگال کے ساتھ لگنے والے دریا ہیں۔ ان میں دریائے گنگا اور پدما سرفہرست ہیں جہاں بنگال کے مچھیرے ان کا بڑی بے رحمی سے شکار کرتے نظر آتے ہیں۔یہ سردیاں پانی کی تہہ میں گزارتی ہے اور موسم گرما کا بڑی بے چینی سے انتظار کرتی ہے ، سردیاں ختم ہوتے ہی یہ غولوں کی شکل میں خلیج بنگال کے دریاوں میں چارسو تیرتی نظر آتی ہے۔
بے آف بنگال لارج میرین ایکو سسٹم کے مطابق دنیا میں ہلسا مچھلی کی کل پیداوار کا 60 فیصد بنگلہ دیش ، 20 فیصد میانمار جب کہ اس کے علاوہ کچھ مقدار ہندوستان اور انتہائی قلیل مقدار پاکستان اور کچھ دیگر ممالک میں پکڑی جاتی ہے۔
ہلسا کی بقا کو لاحق خطرات
اگرچہ بنگلہ دیش میں مچھلی کے بے دریغ شکار پر کسی حد پابندی ہے ، لیکن میانمار جو بنگلہ دیش کے بعد ہلسا کی پیداوار میں دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اس کا شکار بلا تعطل سارا سال جاری رہتا ہے۔ ااس کی بڑی وجہ یہاں بڑی حد تک غربت کا ہونا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ خطرہ ہلسا کی بڑھتی ہوئی مانگ اور بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں۔ جس کی بڑی وجہ بڑے '' تجارتی ٹرالر‘‘ ہیں۔ ان ٹرالروں میں بڑے بڑے باریک جال لگے ہوتے ہیں جن کے سوراخوں کا سائز بمشکل 2.5 سینٹی میٹر تک ہوتا ہے جس میں چھوٹی سے چھوٹی مچھلیاں بھی پھنس جاتی ہیں۔
ہلسا کے معدوم ہو جانے کی ایک بڑی وجہ عالمی طور پر بڑھتی موسمیاتی تبدیلیاں اور پانی کی آلودگی بھی ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر اس آبی مخلوق کی بقا کو پلاسٹک کے کچرے سے خطرہ ہے جسے خوراک سمجھ کر کھا کر یہ موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
وہ 13دن۔۔جنہوں نے بغداد کو 13صدیاں پیچھے لاکھڑا کیا

وہ 13دن۔۔جنہوں نے بغداد کو 13صدیاں پیچھے لاکھڑا کیا

بغداد ، اپنے دور کا کیا خوبصورت شہر ہوا کرتا تھا۔ دنیا کا سب سے بڑا شہر۔ علوم و فنون اور علم وادب کاایسا گہوارہ کہ تاریخ دان ٹرٹیئس چینڈلر کے بقول ''775ء سے لے کر 932ء تک بغداد آبادی کے لحاظ سے دنیا کاسب سے بڑا شہر تھا جبکہ دس لاکھ آبادی تک پہنچنے والا بھی یہ دنیا کا پہلا شہر تھا‘‘۔ دریائے دجلہ کے دونوں کناروں پر آباد بغداد شہر کی بنیاد ، خلیفہ مستعصم با للہ کے جد ابو جعفر بن المنصور نے 762ء میں بغداد نامی ایک چھوٹے سے قصبے کے قریب رکھی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چند عشروں میں ایک چھوٹی سی بستی ، بستے بستے '' بغداد‘‘ نامی دنیاکے ایک عظیم ترین شہر میں بدل گئی۔ اس باکمال شہر کے چارسو ایسے چرچے ہوئے کہ برصغیر سے لے کر مصر تک کے اہل علم ، شاعر ، فلسفی، علماء و فضلاء، سائنس دانوں اور مفکروں نے بغداد کا رخ کرنا شروع کیا۔ یہ وہ دور تھا جب چین میں کاغذ ایجاد ہو چکا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہاں سے علم و دانش کی شمعیں روشن ہوتی چلی گئیں۔یہاں کے ''دارالترجمہ بیت الحکمہ‘‘ میں دنیا کی بیشتر زبانوں میں دھڑا دھڑ کتابوں کے ترجمے ہونے لگے۔ پھر یہی کتابیں صدیوں بعد یورپ سمیت آج کے ترقی یافتہ ممالک میں پہنچیں تو وہاں ترقی کی راہیں کھلتی چلی گئیں۔بغداد کے علم و دانش کے مرکز ہونے کا اس سے بڑا ثبوت بھلا کیا ہو گا کہ جدید کیمسٹری کے بانی جابر بن حسان، مشہور فلسفی الکندی اور الرازی، الجبرا کابانی الخوارزمی ، مشہور مفکر الغزالی ، عظیم فارسی شاعر شیخ سعدی، مشہور تاریخ دان طبری، عظیم عربی شاعر ابو نواس اور معروف مذہبی رہنما امام ابو حنیفہ ، امام احمد بن جنبل اور امام ابو یوسف سمیت لاتعداد نابغۂ روزگار شخصیات کا تعلق اسی سرزمین سے تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ تجارتی لحاظ سے بھی یہ دنیا کی تجارت کا مرکز بن گیا جہاں چین ، مشرقی افریقہ، ہندوستان اور دنیا کے کونے کونے سے تجارتی سامان یہاں پہنچنے لگا۔ایک مورخ نے اپنی یاداشتوں میں بغداد کا ذکر انتہائی خوبصورت الفاظ میں کچھ اس طرح کیا ''دریائے دجلہ کے کنارے آباد بغداد، الف لیلیٰ کی شہرزاد کا شہر ، خلیفہ ہارون الرشید اور مامون الرشید کے قائم کردہ ''دارلترجمہ‘‘ کا شہر۔ یہ وہ شہر تھا جہاں مترجموں کو کتابیں تول کر سونا کے عوض دی جاتی تھیں۔ یہ شہر دلفریب مساجد ، وسیع کتب خانوں، عالی شان محلات، سرسبز باغات، پررونق بازاروں ، علم افروز مدارس اور حماموں کا شہر کہلاتا تھا‘‘۔ تو پھر اچانک آخر ایسا کیا ہوا کہ بغداد کے گلی کوچے خون سے نہلا دئیے گئے۔ پھر بغداد کے گلی کوچوں نے یہ دلخراش منظر بھی دیکھا جب پابند سلاسل خلیفہ بغداد مستعصم باللہ کو کئی دن بھوکا رکھنے کے بعد جب چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کے سامنے پیش کیا گیا تو اس کے سامنے کپڑے سے ڈھکا کھانے کا ایک ٹرے لایا گیا۔ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ کئی دن کے بھوکے خلیفہ نے جب بے تابی سے خوان کا کپڑا اٹھایا تو دیکھا کہ وہ ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا تھا ، ہلاکو نے ٹرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خلیفہ کو کہا ، کھاو۔مستعصم باللہ نے کہا، کیسے کھاؤں، یہ تو ہیرے جواہرات ہیں ؟۔اس پر ہلاکو نے ایک تاریخی جملہ کہا ''اگر تم اپنے سپاہیوں کے لئے تلواریں اور تیر بنا لیتے تو میں یہ دریا عبور کر کے یہاں تک نہ پہنچ پاتا‘‘۔ مستعصم نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا ، خدا کی یہی مرضی تھی۔ اس کے بعد ہلاکو نے خلیفہ مستعصم کو نمدوں میں لپیٹ کر اس کے اوپر سے گھوڑے دوڑا دئیے۔ پھر یہیں سے امن ، علم ودانش ، علماء و فضلاء اور علم کے پیاسوں کا تیزی سے ترقی کرتا یہ شہر خون کا ایسے پیاسا بنا کہ اسے 13 صدیاں پیچھے لا کھڑا کیا۔ آخر ایسا ہوا کیا ؟ تاریخ کا چھوٹے سے چھوٹا طالبعلم بھی اس حقیقت سے آشنا ہے کہ دنیا کی تاریخ میں منگول قوم اپنی سفاکی کی الگ ہی شناخت رکھتی تھی۔ یہ منگول ہی تھے جن کی سفاکی کے ہاتھوں عباسی سلطنت کا خاتمہ ہوا۔ چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بھی وہی کیا جو اس کے دادا کرتے رہے تھے۔ ہلاکو کو منگول سپاہیوں کی صلاحیتوں پر مکمل بھروسہ تھا۔یہ پچھلے چار عشروں سے اپنے آبائی وطن منگولیا سے نکل کر چار ہزار میل دور اپنی فتوحات میں اضافہ کرتا آ رہا تھا۔طاقت کے نشے میں بدمست ہلاکو خان کا اگلا ہدف اب سلطنت عثمانیہ تھی۔ بغداد داخل ہونے سے پہلے اس نے 37 ویں عثمانی خلیفہ مستعصم باللہ کو خط لکھا، ''لوہے کے سوئے کو مکے مارنے کی کوشش نہ کرو، سورج کو بجھی ہوئی موم بتی سمجھنے کی غلطی نہ کرو،بغداد کی دیواریں فوراً گرا دو، حکومت چھوڑ دو اور اپنے آپ کو ہمارے حوالے کر دو،اگر ہم نے بغدادپر چڑھائی کی تو تمہیں نہ تو گہری ترین پاتال میں پناہ ملے گی اور نہ ہی بلند ترین آسمان پر‘‘۔اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ ہلاکو کی افواج اپنے دور کے جدید ترین اوزاروں سے لیس ہی نہیں بلکہ جدید فوجی حکمت عملی میں مہارت بھی رکھتی تھی۔ ہلاکو جہاں اپنی جنگی تیاریوں اور اپنی فوج کی مہارت پر پر اعتماد تھا وہیں بغداد کے اس وقت کے 37ویں عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کو بھی یہ زعم تھا کہ مسلم دنیا کے بیشتر حصے پر چونکہ ان کا سکہ چلتا ہے اس لئے اس پر حملے کی خبر سن کر مراکش سے ایران تک سبھی مسلمان ان کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں گے۔ خلیفہ مستعصم نے ہلاکو کو جواب میں لکھا '' دس دن کی عارضی خوش قسمتی سے تم خود کو کائنات کا مالک سمجھ بیٹھے ہو۔یہ سوچے بغیر کہ مشرق سے مغرب تک اہل ایمان میری رعایا ہیں۔تمہاری سلامتی اسی میں ہے کہ تم واپس پلٹ جاو‘‘۔ جواباً ہلاکو نے 29 جنوری 1258ء کو بغداد کے محاصرے کا آغاز کیا۔ اس نے ایک ایک کرکے تمام اشرافیہ کو تلوار کا نشانہ بنایا اور یوں ہلاکو افواج باآسانی بغداد شہر کے اندر داخل ہوگئیں۔اس کے بعد اس نے جس بر رحمی اور سفاکی کا مظاہرہ کیا اس کو مورخ عبداللہ وصاف شیرازی نے ان الفاظ میں لکھا تھا ''ہلاکو خان کے سپاہی بھوکے گدھوں کی طرح بغداد شہر کے اندر داخل ہوئے بالکل ایسے جیسے بپھرے بھیڑیے، بھیڑوں کے ریوڑ پر ہلہ بول دیتے ہیں۔حرم کی عورتیں سرعام گلیوں میں گھسیٹیں گئیں اور ان میں سے ہر ایک تاتاریوں کا کھلونا بن کر رہ گئی‘‘۔تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ بغداد کی گلیوں میں قتل و غارت اور خون کی ایسی ہولی کھیلی گئی جس کی مثال تاریخ کی کتابوں میں کم کم ملتی ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ بغداد کی گلیاں خون کی ندی کا منظر پیش کر رہی تھیں اور حد نگاہ ہر طرف لاشوں کے انبار لگ چکے تھے۔ ایک جگہ لکھا ہے کہ چند دن کے اندر اندر ہر طرف اس سے اٹھنے والے تعفن کی وجہ سے ہلاکو خان کو شہر سے باہر خیمہ لگانے پر مجبور ہونا پڑا۔ اسی دوران شاہی محل کوبھی نذر آتش کر دیا گیا۔ یہ قتل عام کتنی جانوں کا نذرانہ لے گیا ؟ اس کا صحیح اندازہ لگانا تو مشکل ہے تاہم بیشتر مورخین کا ماننا ہے کہ اس سانحہ میں دو سے دس لاکھ تک لوگ تاتاریوں کی سفاکیت کا نشانہ بنے تھے۔ 10 فروری 1258ء کو 13 دن کھیلی گئی خون کی یہ ہولی بغداد شہر کی تباہی کی ایسی بنیاد رکھ گئی کہ 13 صدیوں بعد بھی بغداد اس کے اثر سے باہر نہیں نکل سکا۔

دنیا کی خوبصورت مساجد

دنیا کی خوبصورت مساجد

ارسول اللہ مسجد( آذربائیجان )رسول اللہ مسجدآذربائیجان کے دارالحکومت باکو کے ضلع قرہ داغ کی لوکبتن بستی میں2007ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ یہ مسجد بنیادی طور پر مزدوروں کیلئے بنائی گئی تھی۔ اس ہشت پہلو مسجد کا کوئی مینار نہیں ہے۔ دوسری منزل پر، مسجد کے گنبد والے حصے میں، 14 کھڑکیاں ہیں۔زاغان پاشا مسجد( ترکی )شمال مغربی ترکی کے صوبہ بالکیسیر کی یہ تاریخی مسجد، اس مقام پر تعمیر کی گئی ہے جہاں مصطفیٰ کمال اتاترک نے ترکی کی آزادی کے فوراً بعد1923ء میں اپنا مشہور''بالکیسیر خطبہ‘‘ دیا تھا۔1461ء میں ایک عثمانی فوجی کمانڈر اور البانیہ کے وزیر زاغان پاشا نے مسجد تعمیر کروائی تھی۔ 1897ء میں مسجد کا کچھ حصہ منہدم ہوگیا تھا جسے 1908ء میں اْس وقت کے گورنر عمر علی بے نے دوبارہ تعمیر کروایا تھا۔ روایتی عثمانی طرز تعمیر کا شاہکار مسجد کا ایک مرکزی گنبد ہے جو اطراف کے کئی چھوٹے گنبدوں سے گھرا ہوا ہے جبکہ صرف ایک مینار ہے۔صوفیہ مسجد( باشکورستان )جمہوریہ باشکورستان (یا باشقیرستان) کے ایک گائوں کانتیوکوفکا کی یہ خوبصورت مسجد اسی گائوں میں رہائش پزیر ایک شخص رفعت کانتیکوف کی مالی اعانت سے تعمیر کی گئی جو اُن کی والدہ ''صوفیہ‘‘ سے منسوب ہے۔ 22اگست 2008ء کو مسجد کا باقاعدہ افتتاح عمل میں آیا تھا جس میں اُس وقت کے باشکورستان کے وزیراعظم ریل سربایف، تاتارستان کے وزیر اعظم رستم منیخانوف سمیت دونوں علاقوں کے مفتیان ، مساجد کے سربراہان، ائمہ کرام نے شرکت کی تھی۔ یہ مسجد سنگ مرمر سے بنائی گئی ہے اور آرائش موزیق اور سونے سے کی گئی ہے۔ مسجد کے مینار پر کلمہ طیبہ کی نقاشی کی گئی ہے۔ ایک محقق کے مطابق ''صوفیہ‘‘ دْنیا کے ہندوستانی عجوبہ تاج محل کی یاد تازہ کرتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ تاج محل مرحومہ بیوی کی یاد میں محبت کی نشانی کے طور پر بنایا گیا تھا جبکہ یہ مسجد ایک ماں کے اعزاز میں اس کے شکرگزار بیٹے نے تعمیر کروائی ہے۔صوقلو محمد پاشا مسجد( ترکی)صوقلو محمد پاشا مسجد استنبول کے ضلع فاتح میں واقع سولہویں صدی کی عثمانی مسجد ہے۔اسے شاہی معمار میمار سنان نے ڈیزائن کیا تھا۔1571ء میں مسجد کا تعمیراتی کام شروع ہوکر 1571ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا تھا۔ مسجد کے اندرونی حصے کی زیبائش عمدہ معیار کے سرخ اور نیلے رنگوں کے ازنیق ٹائلوں کے ذریعے کی گئی ہے۔ ان کے درمیان خط ثلث میں آیات ِ قرآنی کی خوبصورت نقاشی بھی کی گئی ہے۔ مسجد کا صرف ایک مینار ہے جو شمال مشرقی کونے میں ہے۔ مسجد کے صحن میں وضو خانہ ہے جبکہ بیرونی حصے میں دکانیں بنائی گئی ہیں جن کی آمدنی سے مسجد کی دیکھ ریکھ کی جاتی ہے۔مسجد جامع ال اِمام ، ماجالِنگکا، انڈونیشیا زیرنظر مسجد انڈونیشیا کی صونے مغربی جاوا کے ضلع ماجالِنگکا مسجد جامع اَل اِمام ہے جس کی تعمیر تقریباً164 سال قبل ہوئی تھی۔ موجود دستاویز کے مطابق کیائی امام سیافری نے مسجد کی تعمیر کیلئے جگہ وقف کی تھی اور1888ء میں مقامی ذمے دار سلمان سلام کی سربراہی میں مسجد میں باقاعدہ نماز شروع ہوئی۔ ابتداء میں مسجد چھوٹی تھی،1930ء میں اس کی تزئین کاری کی گئی اور مصلیان کے لئے گنجائش نکالی گئی۔ اس کے بعد مختلف حکمرانوں کے عہد میں اس کی تزئین نو ہوتی رہی۔ ال امام مسجد ، ماجلنگکا کیلئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے جسے مقامی افراد اپنا قابل فخر ورثہ قرار دیتے ہیں۔ 

تاریخی حادثہ سان فرانسسکو جل اٹھا

تاریخی حادثہ سان فرانسسکو جل اٹھا

یہ 14اپریل 1906ء کا واقعہ ہے۔ صبح کے 5بج کر 14منٹ ہوئے تھے جب سان فرانسسکو کا شہر زلزلے کے خوفناک جھٹکوں سے لرز اٹھا۔ ماہرین بتاتے ہیں کسی بھی بڑے زلزلے سے چند روز پیشتر اس کی علامات اور نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں لیکن سان فرانسسکو کے اس زلزلے سے پیشتر ایسی کوئی چیز دیکھنے میں نہیں آئی۔ بعد کی تحقیقات کے مطابق اس قسم کے صرف دو واقعات کا علم ہوا۔ ابتدائی علاماتشہر کے جنوبی علاقے میں رہنے والے ایک سٹار نے 14اپریل کو پولیس میں رپورٹ درج کروائی کہ اس کے شو روم کی ایک کھڑکی کا شیشہ کسی اٹھائی گیر نے توڑ دیا ہے۔ پولیس کی تفتیش کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ کھڑکی ٹوٹنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ جس عمارت میں یہ دکان واقع تھی وہ عمارت غیر محسوس طور پر زمین میں دھنس رہی تھی۔ اس کے علاوہ شہر کے نشیبی علاقے میں آباد ایک محلے کے مکینوں نے یہ محسوس کیا کہ ان کے گھروں کے دروازے سہولت سے حرکت نہیں کر رہے ہیں۔ ان دو واقعات کے علاوہ سان فرانسسکو اور ارد گرد کے پورے علاقے میں کسی شخص نے کوئی غیر معمولی تبدیلی محسوس نہیں کی۔زلزلہ آیا تو بیشتر شہری اپنی خواب گاہوں میں خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ صرف وہ لوگ بستروں سے اٹھے تھے جنہیں بہت صبح جاگنے کی عادت تھی یا وہ لوگ جو علی الصبح ورزش وغیرہ کے شوقین تھے۔ کہیں کہیں اخبار اور دودھ بیچنے والے بھی نظر آ رہے تھے لیکن شہر کی آبادی کا بہت بڑا حصہ ابھی سو رہا تھا۔جب زمین لرز اٹھی!مشہور مصنفہ کیتھرائن ہیوم اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھتی ہیں: ''ایک خوفناک گونج کے ساتھ زمین پتے کی طرح لرزنے لگی تھی۔ ہمارے گھر کی ایک دیوار دھماکے کے ساتھ زمین بوس ہو گئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ گھر کے سارے افراد کس طرح خود بخود ایک کمرے میں اکٹھے ہو گئے تھے۔ دور کہیں سے ایک گونج دار آواز سنائی دے رہی تھی۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے سامنے دیوار پر ایک دراڑ نمودار ہوئی اور ہمارے قدموں تک پھیل گئی۔ ہم نے وہ کمرہ چھوڑا اور دوسرے کمرے کی طرف بھاگے لیکن اس کمرے کے فرش میں بھی ایک خوفناک گڑھا نظر آ رہا تھا۔ اب گھر کے تمام افراد نے باہر کا رخ کیا۔ گھر سے نکلتے وقت جس شخص کے ہاتھ میں جو چیز آئی تھی اس نے اٹھا لی لیکن حیرت کی بات تھی کہ کسی شخص نے بھی کوئی کار آمد چیز اٹھانے کی زحمت نہیں کی تھی۔ ایک عورت نے ہاتھ میں چابیوں کا گچھا پکڑا ہوا تھا۔ کسی نے تکیہ اٹھا رکھا تھا، کسی نے ٹائم پیس اور کسی نے برتن۔زلزلہ ناقابل فراموش کیسے بنا؟18اپریل 1906ء کو سان فرانسسکو میں آنے والا یہ زلزلہ بہت زیادہ شدت کا حامل نہیں تھا۔ اس سے پہلے مغربی کیلیفورنیا میں اس سے زیادہ طاقتور اور تباہ کن زلزلے آ چکے تھے لیکن وہ تمام واقعات لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو چکے ہیں۔ پھر اپریل1906ء کا زلزلہ کیوں ایک ناقابل فراموش واقعہ کی حیثیت اختیار کر گیا؟ اس کی وجہ وہ خوفناک آگ ہے جو زلزلے کے بعد سان فرانسسکو کے مختلف حصوں میں بھڑک اٹھی اور جس سے زبردست جانی و مالی نقصان ہوا۔ 18اپریل کو محسوس کئے جانے والے زلزلے کے جھٹکے صرف اڑھائی منٹ تک جاری رہے لیکن ان جھٹکوں کی وجہ سے جو آگ بھڑکی وہ پورے تین دن تک شہر میں تباہی پھیلاتی رہی۔ زلزلے کے صرف چند منٹ بعد شہر میں تقریباً پچیس جگہوں پر آگ بھڑک اٹھی۔ سان فرانسسکو ایک ترقی یافتہ صنعتی شہر تھا اور اس کی دیہی ترقی اس کے لئے وبال جان بن گئی۔ پورے شہر میں بجلی کے تار اور گیس پائپوں کا جال بچھا ہوا تھا۔ زلزلے کی وجہ سے تار ٹوٹ گئے اور گیس پائپ جگہ جگہ سے پھٹ گئے۔ شہر میں کئی جگہوں پر جلتے ہوئے چولہوں کے اُلٹنے اور آتش گیر کیمیکلز کے جار ٹوٹنے کے واقعات ہوئے۔ اس قسم کے واقعات نے آتشزدگی کی شدت میں مزید اضافہ کیا۔دوسرے روز یعنی 19اپریل کی صبح تک شہر کا نشیبی علاقہ پوری طرح آگ کی لپیٹ میں آ چکا تھا۔ ایک مکان کے بعد دوسرا مکان اور ایک محلے کے بعد دوسرا محلہ آگ کی زد میں آ رہا تھا اور سان فرانسسکو کے لاکھوں شہری بے چارگی سے کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔''سان فرانسسکو بلیٹن‘‘ کا ایک رپورٹر خلیج سان فرانسسکو میں ایک لانچ کے اوپر کھڑا تھا اور شہر پر ٹوٹنے والی قیامت کا منظر دیکھ رہا تھا۔ اس کا کہنا ہے ''اس سارے منظر کا سب سے ایذدہ پہلو یہ تھا کہ تمام شہر میں انتہا درجے کی بھاگ دوڑ کے باوجود انتہا درجے کی خاموشی چھائی ہوئی تھی، آسمان دھوئیں کے تاریک بادلوں کے پیچھے چھپا ہوا تھا اور شام یا صبح کا تعین کرنا دشوار تھا‘‘۔20اپریل تک شہر کا پانچ مربع میل گنجان آباد علاقہ جل کر بھسم ہو چکا تھا۔ 28 ہزار مکانات تباہ اور کم از کم پانچ سو افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ اس کے علاوہ ان گنت تھیڑ، ہوٹل، بینک، واقعہ کی یاد دلاتی رہتی ہے۔سینما ہال اور پھر اخباروں کے دفاتر جل چکے تھے۔ سرکاری دفاتر کا بیش قیمت ریکارڈ خاکستر ہو چکا تھا۔ پیدائش، موت اور شادی کے تمام ثبوت مٹ گئے تھے۔ حکومت کی نہایت خفیہ فائلوں کے پرزے دھوئیں کے دوش پر اڑتے پھر رہے تھے۔ اندرون شہر قیامت کا سماں تھا۔ مصیبت کے مارے لوگ فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر ڈیرے ڈالے بیٹھے تھے، سہمی ہوئی عورتیں اور بھوک سے روتے ہوئے بچے بے سرو سامانی کی حالت میں کھلے آسمان تلے پڑے تھے۔ ڈاکوئوں اور لٹیروں کے لئے یہ ایک سنہری موقع تھا۔ انہوں نے اس موقع سے بڑا فائدہ اٹھایا، شہر میں لوٹ مار شروع ہو گئی دونوں کے دوران چوری، ڈاکہ، عصمت دری اور اغوا کی بے شمار وارداتیں ہوئیں۔ قریب تھا کہ حالات مکمل طور پر قابو سے باہر ہو جاتے اور پورے شہر پر لٹیروں کا قبضہ ہو جاتا کہ شہر کے میئر سکمز نے ایک نہایت بروقت راست اقدام کیا اس نے فوری طور پر پچاس سرکردہ افراد کی ایک کمیٹی تشکیل دی اور اس کمیٹی کے ہنگامی اجلاس کے بعد ایک ہینڈ بل جاری کیا جس کا مضمون یہ تھا ''تمام فیڈرل دستوں باقاعدہ پولیس اور سپیشل پولیس افسران کو اس بات کا اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ جہاں کسی کو لوٹ مار یا اس نوعیت کے کسی دوسرے جرم میں ملوث پائیں فوراً گولی مار دیں‘‘ ۔اس حکم کے تحت 19اپریل کو 12افراد کو موقع پر گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔ اس کے علاوہ بیس افراد ایسے تھے جنہیں گرفتار کیا گیا اور اسی روز موت کی سزا دے دی گئی۔یہاں پر ایک دلخراش واقعہ کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ 19اپریل کو جن افراد کو گولی ماری گئی ان میں ایک بائیس سالہ نوجوان بھی شامل تھا۔ بعد کی تحقیقات سے پتا چلا کہ یہ نوجوان اپنے اہل خانہ کیلئے ایک خالی برتن حاصل کرنے کے واسطے ایک مسمار شدہ مکان میں داخل ہوا تھا کہ گشتی دستے کے ہاتھوں پکڑا گیا۔ اس کے گھر والے سامان خورونوش سامنے رکھے اس کا انتظار کرتے رہے اور اس کی لاش ایک گلی میں تڑپ تڑپ کر ٹھنڈی ہو گئی۔تباہی کی وجوہاتیہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سان فرانسسکو جب ایک ترقی یافتہ شہر تھا تو پھر اس شہر کو آگ سے محفوظ رکھنے کا ترقی یافتہ نظام کیوں موجود نہ تھا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ٭...شہر کو بچانے کے تمام امکانات زلزلے کے صرف28 سیکنڈ بعد ختم ہو چکے تھے۔ ٭...سان فرانسسکو کو پانی مہیا کرنے والے تمام ذرائع ناکارہ ہو چکے تھے۔٭... شہر کی تقریباً23ہزار پائپ لائنیں ٹوٹ پھوٹ گئی تھیں اور نلوں میں پانی کا دبائو صفر ہو کر رہ گیا تھا۔ ٭...سان فرانسسکو کیلئے اس وقت صرف اور صرف خلیج کا پانی دستیاب تھا اور اس کو پوری طرح استعمال کیا جا رہا تھا۔ فائر بریگیڈ کی لانچیں ساحل کے ساتھ ساتھ کھڑی تھیں اور آگ پر مسلسل پانی پھینک رہی تھیں۔ ٭... فائر بریگیڈ کے بے دست وپا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ محکمے کے چیف آفیسر ڈینس سلی دان زلزلے کے دوران ہلاک ہو چکے تھے۔ ان کا واقعہ یوں ہے کہ وہ اپنے بیڈ روم میں آرام سے سو رہے تھے اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوا اور مکان کا کچھ حصہ گر پڑا، وہ بھاگتے ہوئے دوسرے کمرے میں پہنچے۔ خواب گاہ کے اندر داخل ہوتے ہی وہ فرش میں نمودار ہونے والے ایک سوراخ کے اندر گر پڑے۔ یہ سوراخ عمارت میں تین منزل نیچے تک چلا گیا تھا۔ اتنی بلندی سے گرنے کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گئے۔چیف ڈینس کے ہلاک ہونے کے سبب فائر بریگیڈ کی مجموعی کارکردگی پر نہایت برا اثر پڑا اور محکمے کی استعداد کار کم ہو گئی۔ 

ٹھنڈ کا موسم تحفظ ضروری

ٹھنڈ کا موسم تحفظ ضروری

نزلہ، زکام، کھانسی اور فلو جیسی بیماریاں موسمِ سرما میںعام ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چکن سوپ، رس دار پھل، لہسن، پیاز، ادرک، مچھلی اور کالی مرچ کا کھانے میں استعمال مذکورہ بیماریوں سے بچنے کے لئے انتہائی مفید ہے۔ ماہرین کے مطابق موسم سرما میں ہونے والی بیماریوں سے بچنے کیلئے کچھ غذائیں ایسی ہیں جنہیں روزمرہ غذا میں شامل کرکے سردیوں میں ان بیماریوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ جن میں قابل ذکر چکن سوپ یا مرغی کا شوربہ ہے۔ یہ ویسے تو ہر موسم میں بہتر غذا ہے لیکن خاص سردی کے موسم میں اس کا استعمال زکام کے وائرس سے بچانے میں بڑی مدد کرتا ہے اور اگر اس میں اُبلی ہوئی سبزیاں (بروکلی، گوبھی، گاجر وغیرہ) بھی شامل کرلی جائیں یعنی سادہ چکن سوپ کی جگہ چکن ویجی ٹیبل سوپ پیا جائے تو اس کے مفید اثرات اور بھی نمایاں ہو جاتے ہیں۔ موسم ِ سرما کے پھل مسمی، نارنگی، کینو وغیرہ اینٹی آکسیڈنٹ خوبیوں سے بھر پور ہوتے ہیں اور ان میں شامل وٹامن سی سردی میں ہماری صحت کے لئے انتہائی مفید ہے لہٰذا ان پھلوں کو اپنی روزانہ کی خوراک کا حصہ بنائیں اور سٹرس فروٹس کے ساتھ ٹماٹر، سرخ مرچ، آلو اور شکرقندی کو بھی اپنی خوراک کا حصہ بنائیں۔ سبز پتوں والی سبزیاں سبز پتوں والی سبزیاں جیسے پالک، ساگ، اجوائن کے پتے اور ہری پیاز بھی سرد موسم کی ایسی سوغات ہیں جو ہمیں اندر سے مضبوط بناتی ہیں اور بیماریوں سے لڑنے کی قوت عطا کرتی ہیں۔ سردیوں میں جب مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے تو ایسے کھانے جن میں زنک کی مقدار زیادہ ہو ہمارے لئے انتہائی فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔ سردی کی آمد کے ساتھ ہی سرد موسم کی سبزیاں اور پھل بھی بازار میں ملنا شروع ہوجاتے ہیں، ان سبزیوں اور پھلوں کو اپنی خوراک کا حصہ بنائیں۔ مچھلیسردی کے موسم میں سی فوڈ یعنی مچھلی شوق سے کھائی جاتی ہیں۔ سردیوں میں مچھلی کھانے کے بے شمار فوائد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طبی ماہرین موسم سرما میں اس کے بھرپور استعمال کا مشورہ دیتے ہیں۔ مچھلی میں وافر مقدار میں سیلینیم پایا جاتا ہے جو مدافعتی نظام کو مضبوط کرکے موسم سرما کے دوران نزلہ زکام سے محفوظ رہنے میں مدد دیتا ہے۔ شہد میں شفا ہےشہد میں شفا ہے جس میں وٹامنز اور منرلز کے ساتھ بے شمار اینٹی آکسیڈنٹ خوبیاں شامل ہیں، جو آپ کے جسم میں موسمی بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرتی ہیں۔ خشک میوہ جات خشک میوہ جات سردی میں کسی اکسیر سے کم نہیں۔ ان کا استعمال صبح کے ناشتے میں کریں تاکہ یہ معدے پر بھاری نہ ہوں اور معدے کو ان کو ہضم کرنے میں آسانی ہو اور جسم سارا دن ان کی توانائی سے مستفید ہوسکے۔ دیسی گھی کا استعمال دیسی گھی سے متعلق عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ یہ چربی کی وجہ سے نقصاندہ ہے مگر بہت سی میڈیکل تحقیقات کے مطابق خالص دیسی گھی جسم سے بری چکنائی کا خاتمہ کرتا ہے۔ دیسی گھی کا ایک چمچہ روازنہ صبح کو اپنی خوراک کا حصہ بنائیں تاکہ سردی کی خشکی آپ کو متاثر نہ کرے۔ گڑ کا استعمالگڑ جہاں آپ کے نظام ہضم کو بہتر بناتا ہے، وہیں یہ جسم کی قوت مدافعت کو مضبوط بنانے میں بھی انتہائی مدد گار ہے۔ اس موسم میں قہوے اور میٹھے کھانے میں چینی کے بجائے گڑ استعمال کریں، خاص طور پر چائے میں ۔ کالی مرچ، اجوائن اور ہینگ ان تینوں چیزوں کو اپنی روزانہ کی خوراک میں شامل کریں۔ خاص طور پر اپنی چائے اور قہوے میں ان کا استعمال بڑھائیں تاکہ آپ کو ٹھنڈ نہ لگے۔ کالی مرچ، اجوائن اور ہینگ آپ کے جسم کے درجہ حرارت کو معتدل رکھتی ہیں۔ لہسن کا استعمال اپنی اینٹی بیکٹریا اور اینٹی وائرل خوبیوں کی وجہ سے لہسن سردی کی سب سے زبردست خوراک ہے، جو بے شمار خوبیوں کے ساتھ ساتھ سردی میں ہماری قوت مدافعت کو مضبوط بناتا ہے۔  

حکایت:فضول خرچ ہو جاتا ہے فقیر

حکایت:فضول خرچ ہو جاتا ہے فقیر

ایک بادشاہ کے بارے میں، میں نے سنا کہ بدمستی اور عیش و عشرت میں رات کو دن کئے تھا اور کہہ رہا تھا، دنیا میں ہمارے لئے اس وقت سے بہتر کوئی وقت نہیں کیونکہ نہ گناہ ثواب کا خیال ہے اور نہ ہی کسی قسم کا غم ہے۔ ایک درویش فقیر سردی میں باہر سویا ہوا تھا اس نے بادشاہ کو یوں جواب دیا'' اے بدبخت! اگر تیرے جیسا جہاں میں کوئی نہیں،ہم نے مانا تجھے کوئی غم نہیں تو کیا تجھے ہمارا غم بھی نہیں ؟‘‘بادشاہ کو فقیر کی ناصحانہ بات پسند آئی اور ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی کھڑکی سے نیچے لٹکائی اور کہا اے فقیر!دامن پھیلا اور یہ رقم لے لے۔فقیر نے کہامیرے پاس کپڑے ہی نہیں ہیں تو دامن کیسے پھیلاؤں۔ بادشاہ کو اور ترس آیا اورایک کپڑے کا جوڑا بھی ساتھ دے دیا۔ فقیر تھوڑے ہی دنوں میں ساراکچھ ختم کر کے پھر آدھمکا۔ آزاد منش لوگوں کے ہاتھ میں ما ل نہیں ٹھہر سکتا۔ نہ عاشق کے دل میں صبر ٹھہر سکتا ہے اور نہ ہی چھلنی میں پانی ٹھہر سکتا ہے۔لوگوں نے بادشاہ سے اس فقیر کی حالت بیان کی جبکہ بادشاہ اس سے بالکل لاپرواہ تھا چنانچہ بادشاہ ناراض ہوا اور غصہ میں اس نے منہ پھیر لیا۔ بادشاہ نے حکم دیا اس بے حیا فضول خرچ کو دھکے دے کر یہاں سے نکال دو جس نے اتنی خطیر رقم اتنی تھوڑی مدت میں ضائع کردی ہے کیونکہ بیت المال کا خزانہ غریبوں کا حق ہے نہ کہ شیطان کے بھائیوں کا۔ اس وجہ سے عقل مند لوگوں نے کہا ہے کہ بادشاہ کے رعب و دبدبہ سے بچنا چاہیے۔کیونکہ وہ اکثر حکومتی امور میں متوجہ رہتے ہیں اوررش کو پسند نہیں کرتے۔جو بے وقوف دن میں کافوری شمع جلاتا ہے عنقریب وقت آئے گا کہ اس کو دئیے میں رات کو جلانے کے لئے تیل بھی نہ ملے گا۔ایک رحمدل وزیر نے سفارش کی کہ بہتر ہے ان لوگوں کو گزارے موافق دے دیا جائے تاکہ فضول خرچی نہ کر سکیں۔ ان کو جھڑک دینا آپ کے شایان ِ شان نہیں ہے۔ ایک بار کسی پر مہربانی کرنا اور پھر اس کو ناامید کر دینا ہمت والے لوگوں کو زیب نہیں دیتا۔ لالچی کے لئے اپنا دروازہ نہ کھول اور اگر کھول دیا ہے تو پھر بند نہ کر۔ یہ کوئی نہیں دیکھے گا کہ ملک عرب کے پیاسے کھاری پانی پہ جمع ہوئے، جہاں میٹھے پانی کا چشمہ ہوگا وہ انسان اور چرند پرند جمع ہوں گے۔

کامیابی پختہ عزم میں پوشیدہ

کامیابی پختہ عزم میں پوشیدہ

ایک روز جلال الدین رومی ؒ اپنے شاگردوں کو ساتھ لے کر ایک کھیت میں پہنچے۔ یہ ان کے پڑھانے اور علم سکھانے کا انداز تھا۔ وہ زندہ مقالوں کے ذریعے اپنے شاگردوں کو بڑی سے بڑی بات آسانی سے سمجھا دیا کرتے تھے، اس لئے آج وہ اپنے شاگردوں کو لے کر ایک کھیت میں آئے تھے۔ ان کے شاگرد سوچ رہے تھے کہ آخر ایسا کونسا سبق ہے جو ہم مدرسے میں حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ اس کھیت میں ایک کسان بالکل کسی پاگل کی طرح زمین کھودنے میں مصروف تھا۔ دراصل وہ اپنے کھیت کیلئے ایک کنواں کھودنا چاہتا تھا مگر جب تھوڑی گہرائی تک زمین کھود کر پانی نہ نکلتا تو وہ اس جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ زمین کھودنے میں لگ جاتا۔ اس طرح اس کسان نے آٹھ جگہوں سے زمین کھود ڈالی مگر حاصل اسے کچھ بھی نہ ہوا ۔ مولانا جلال الدین رومیؒ نے اپنے شاگردوں سے پوچھا کیا تم کچھ سمجھ سکتے ہو؟ تھوڑے وقفے کے بعد اپنے شاگردوں کی جانب دیکھ کر دوبارہ گویا ہوئے ''اگر یہ آدمی اپنی پوری طاقت، قوت اور وقت صرف ایک ہی کنواں کھودنے میں صرف کرتا تو ابھی تک کافی گہرائی میں جا کر اسے اپنی محنت کا پھل مل چکا ہوتا۔ لیکن اس نے اس قدر محنت بھی کی اور حاصل حصول کچھ نہ ہوا جبکہ الٹا اس نے اپنا کھیت خود ہی اجاڑ دیا اور اسے مایوسی الگ ہوئی‘‘۔ پھر وہ اپنے شاگردوں کی جانب پلٹے اور کہا: ''کیا تم لوگ بھی اس کسان کی پیروی کرنا چاہو گے کہ کبھی ایک راستے پر کبھی دوسرے راستے پر؟ کبھی ایک کی مانو گے کبھی دوسرے کی؟ کبھی کسی کی بات سنو گے کبھی کسی کی؟ اس طرح شاید تم بہت علم تو حاصل کر لو گے مگر وہ سارا علم بے کار ہو گا کیونکہ وہ علم نہ تو تمہیں روشن خیال بنا پائے گا اورنہ ہی تمہیں بصیرت دے پائے گا‘‘۔ ایک چھوٹے سے عمل سے مولانا جلال الدین رومیؒ نے اپنے شاگردوں کو ایک بہت بڑا سبق دیا ہے۔ یہی حقیقت ہے کہ اگر واقعی آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو ایک جگہ اپنا ذہن اور اپنی توجہ مرکوز کرنا ہوگی جبھی آپ کامیابی کی بلندیوں کو چھو سکتے ہیں۔ہمیں اپنے آس پاس بے شمار ایسے لوگ دکھائی دیتے ہیں جن کے پاس بے شمار علم ہے لیکن وہ علم ان کی اپنی زندگی میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ اس کی یہی وجہ ہے کہ وہ بظاہر تو خود کو علامہ ظاہر کرتے ہیں لیکن اندر سے بالکل کھوکھلے ہوتے ہیں۔ اگر آپ اپنی زندگی کا ایک مقصد بنائیں گے تو اپنی تمام قوتیں اسی مقصد کو حاصل کرنے میں صرف کریں گے لیکن جب آپ کا مقصد ہی شفاف نہیں ہوگا تو آپ کی قوت، طاقت، ذہانت سب بکھر جائیں گی اور آپ کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔