بائیو فیول، کیا فوسل فیول کا متبادل بن سکتا ہے ؟
کسی بھی حیاتیاتی مادے سے بنائے گئے ایندھن کو '' بائیو ڈیزل‘‘ بائیو فیول یا حیاتیاتی ایندھن کہا جاتا ہے۔آسان الفاظ میں حیاتیاتی ایندھن کی مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ لکڑی ،حیاتیاتی ایندھن کی ابتدائی شکل تھی۔ جبکہ معدنی طور پر حاصل کئے گئے ایندھن ، جیسے تیل ، گیس اور کوئلے کو معدنی ایندھن یا " فوسل فیول " کہا جاتا ہے۔
بائیو فیول کیا ہے ؟
بائیو فیول ، فوسل فیول یعنی پٹرول اور اس سے متعلق توانائی کے دیگر ذرائع کا سب سے اہم متبادل ہے۔چقندر ، گندم ، مکئی ، جوار ، گنا اور جانوروں کی چربی وغیرہ بائیو فیول کے بڑے خام مال کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ توانائی کا یہ ذریعہ عام طور پر ڈیزل کے متبادل یا ڈیزل کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ عمومی طور پر نقل و حمل کے شعبوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی یہ مختلف گھریلو آلات میں استعمال ہوتا ہے۔
ایندھن کا یہ ذریعہ ماحول دوست اسلئے کہلاتا ہے کہ یہ گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔اسکے علاوہ زمین سے نکلنے والا ایندھن اب بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بائیو ایندھن کا استعمال اب رفتہ رفتہ دنیا بھر میں بڑھ رہا ہے۔بلکہ اب تو ہوائی جہازوں میں بھی بائیو فیول کے استعمال کا کامیاب تجربہ ہو چکا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ فوسل فیول کی حوصلہ شکنی بلکہ ممکنہ حد تک اس سے جان چھڑانے کی عالمی تحریک زور پکڑتی جارہی ہے۔
فوسل فیول سے جان
چھڑانا کیوں ضروری ؟
آخر اسکی وجہ کیا وجہ ہے ؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہمارے گھر کی بنیادی استعمال کی مشینری جو بجلی سے چلتی ہے اور وہ سواری جو ہمیں گھر سے کوسوں دور تک لے کر جاتی ہے اور وہ مکان اور بلند و بالا عمارتیں جہاں ہمارے دن کا بیشتر وقت گزرتا ہے وہ سب اسٹیل اور سیمنٹ بنانے کے اس صنعتی عمل ہی سے تو ہو گزرے ہیں ، جن میں تیل ، کوئلے اور گیس کے استعمال کا بنیادی کردار رہا ہوتا ہے۔ جبکہ یہی تین بنیادی عناصر جو فوسل فیول کہلاتے ہیں ہماری 80 فیصد توانائی کا بنیادی ماحصل ہیں۔ لیکن ان کے بڑھتے استعمال نے دنیا کے ماحولیاتی نظام کو یوں غیر مستحکم کر ڈالا ہے کہ فوسل فیول کے جلنے سے خارج ہونے والی گرین ہاوس گیسیں کرہ ارض کے درجہء حرارت میں اضافے کے ساتھ ساتھ شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بھی بن رہی ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ انفرادی کاوشوں سے قطع نظر گزشتہ کئی سالوں سے اب عالمی برادری ہر سال نومبر میں باقاعدگی سے کسی ایک ملک میں اس عزم کی تجدید کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوتی ہے کہ ، جس قدر جلد ممکن ہو فوسل فیول سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ رواں سال بھی نومبر میں یہ اجلاس ، جسے ''کوپ 29‘‘ کہا گیا تھا آذر بائیجان کے شہر باکو میں منعقد ہوا تھا۔ جس میں مشترکہ طور پر ایک مرتبہ پھر اس امر کا اعادہ کیا گیا ہے کہ ، 2035 تک ترقی پذیر ممالک کاربن کے اخراج کو کم کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات سے نمٹنے کیلئے 300ارب ڈالرز جمع کر کے موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بننے والے چیلنجز سے نمٹنے میں اپنا موثر کردار ادا کریں ۔ دوسری جانب دنیا بھر کے سائنس دان ''معاہدہ پیرس‘‘ پر عمل کی سست روی پر فکر مند ہیں ،جس کے مطابق عالمی برادری کو 2030ء تک فوسل فیول کے استعمال میں 43 فیصد تک کمی لانا ہے۔ جس سے کرہ ارض کے درجہ حرارت کے اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود رکھنے کے ہدف کے عمل کو یقینی بنانا ہے۔
فوسل فیول سے چھٹکارا
کس حد تک ممکن ؟
ایک کینیڈین سائنس دان ، واسلو سمیل کے بقول ''ہمارا معاشرہ فوسل فیول سے بنا ایک معاشرہ ہے‘‘۔فوسل فیول کا استعمال ہماری روزمرہ زندگی میں اس حد تک رچ بس گیا ہے کہ میرے خیال کے مطابق اس سے جلدی چھٹکارا ممکن نظر نہیں آتا ‘‘۔ اپنے اس نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے سمیل کہتے ہیں کہ جس ایندھن سے آپ چھٹکارا حاصل کرنے کا سوچ رہے ہیں اسی ایندھن سے سالانہ ایک ارب ٹن سٹیل ، چار ارب ٹن سیمنٹ اور چار ارب ٹن مائع ایندھن بنتا ہے۔ذرہ ایک لمحہ کے لئے چشم تصور سے سوچئے کہ یہ سب کچھ کس حد تک اور کیسے ممکن ہے ؟۔آپ کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا۔ ساتھ ہی یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ فوسل فیول ہماری زندگیوں میں داخل کیسے ہوا ؟
19ویں صدی میں کوئلے ،تیل اور گیس کے استعمال سے صنعتی انقلاب آیا تو معاشی پیداوار میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔تبدیلی کا عمل یہیں سے شروع ہوا جب گھوڑوں کی جگہ سٹیم انجن اور پھر اس کی جگہ فیول انجن نے لے لی۔
وقت کے ساتھ ساتھ توانائی کا استعمال بڑھتا چلا گیا۔سائنس دان توانائی کی بڑھتی ضروریات کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شکار کرنے والے ہمارے آباو اجداد سالانہ 10 گیگا جولز توانائی استعمال کرتے تھے جبکہ اب ایک اکیلا امریکی اس سے 50 گنا زیادہ توانائی استعمال کرتا ہے۔ ان اعداد و شمار کو اور آبادی کے پہاڑ کو ذہن میں لائیے اور انصاف سے بتائیے کہ انرجی کے اس سمندر کو سمیٹنا کس حد تک ممکن ہے ؟۔ ہمیں حقیقت پسندی سے سوچتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھنی چائیے کہ اس وقت بھی عالمی طور پر 50 فیصد بجلی تیل ، گیس اور کوئلے سے بنائی جا رہی ہے جبکہ بجلی، توانائی کے عالمی استعمال کا صرف پانچ فیصد ہے۔ سولر اور ونڈ کا عالمی سپلائی میں محض دو فیصد حصہ ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ فوسل فیول کے بڑھتے استعمال کی قابل تجدید ذرائع کی طرف منتقلی نہ ہونے کی بڑی وجہ دنیا کے پاور سٹیشن ،سٹیل ورکس، سیمنٹ پلانٹ ، فرٹیلائزر پلانٹ ، گلاس فیکٹریوں کے علاوہ گاڑیوں اور جہازوں پر انحصار میں اضافہ ہے۔
فوسل فیول کے استعمال کے خلاف بلاشبہ ہمارے پاس بہت مضبوط اور مدلل جواز تو موجود ہیں لیکن اصل مسئلہ ان عملی اقدامات کو بروئے کار لانے کا ہے، جن کیلئے جدید ٹیکنالوجی، مالی وسائل کا دستیاب ہونا اور توانائی منتقلی کے مربوط نظام کا فعال ہونا ہے۔اس سے بڑھ کر تیل پیدا کرنے والے ممالک کی آمادگی کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا جن کی معیشت کا دارومدار ہی تیل پر ہے۔
اگرچہ اس وقت بھی عالمی طور پر توانائی کی 80 فیصد ضروریات فوسل فیول ہی کے ذریعے پوری کی جارہی ہیں لیکن حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کی دوڑ میں قابل تجدید توانائی ذرائع کا استعمال بھی متواتر بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے عالمی شمسی توانائی کی قیمتیں عالمی منڈی میں تیزی سے نیچے آ رہی ہیں۔ ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ عشرے کے مقابلے میں اس عشرے کے دوران شمسی توانائی کی قیمتیں 90 فیصد جبکہ ونڈ پاور ٹربائن سے حاصل کردہ توانائی کی قیمتوں میں 70 فیصد کے قریب کمی نوٹ کی گئی ہے۔
سروے رپورٹس
''انٹرنیشنل انرجی ایجنسی‘‘ ( IEA ) کی رپورٹ کے مطابق 2030ء تک توانائی کی عالمی سپلائی میں فوسل فیول کا حصہ 80 فیصد سے کم ہو کر 73 فیصد تک آجائے گا۔
لندن اسکول آف اکنامکس کے ایک سروے کے مطابق دنیا کی 63 بڑی معاشی طاقتیں ، عالمی سطح پر ہونے والی مضر صحت گیسوں کے 90 فیصد اخراج کے ذمہ دار ہیں جبکہ ان میں سے کوئی بھی ملک موسمیاتی اثرات سے نمٹنے کیلئے اپنا کردار اد نہیں کررہا۔
اسی رپورٹ میں یہ تجویز بھی پیش کی گئی تھی کہ ، فوسل فیول سے مرحلہ وار چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے بڑی معیشتوں کے حامل ممالک کو کلیدی کردار ادا کر کے اس کارخیر میں حصہ ڈالنا ہو گا ورنہ فوسل فیول سے چھٹکارا ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں ہو گا۔