ذیابیطس ایشیائی باشندوں کیلئے زیادہ خطرہ کیوں ہے؟
''دی لانسیٹ‘‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والے ایک تازہ تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں 82 کروڑ بالغ افراد ٹائپ ٹو ذیابیطس کا شکار ہیں۔ 1990 ء سے 2022ء کے دوران دنیا بھر 63 کروڑ افراد اس مرض کا شکار ہوئے۔جنوبی ایشیاکے لوگوں میں ذیابیطس کا امکان یورپی باشندوں کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے اور ان میں یہ بیماری یورپی باشندوں کی نسبت 10 سال پہلے ظاہر ہو سکتی ہے۔ ''نیچر میڈیسن‘‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں اس کا ایک سبب موروثیت کو قرار دیا گیا ہے۔علاوہ ازیںپراسیس شدہ گوشت کا زیادہ استعمال ‘ فضائی آلودگی میں موجود PM2.5 ذرات بھی ذیابیطس کے خطرے میں اضافے کی بڑی وجہ ہیں۔دنیا میں ذیابیطس کے شکار ملکوں میں سے چار ایشیا میںہیں۔ بھارت میں ذیابیطس کے21 کروڑ 20 لاکھ مریض ہیں‘ چین میں 14کروڑ، پاکستان میں تین کروڑ 30 لاکھ اور جاپان میں ایک کروڑ 10 مریض موجود ہیں۔ جزیرہ نارو میں دنیا میں سب سے زیادہ ذیابیطس کے مریض ہیں۔ماہرین کے مطابق جنوبی ایشیائی باشندوں کے خون میں شوگر کی سطح نسبتاً بلند رہتی ہے جس کے نتیجے میں دل، گردے اور جگر کے امراض پیدا ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
ٹائپ ون ذیابیطس انسانی جسم میں موجود بیٹا سیلز پر حملہ کرتی ہے جس سے جسم میں انسولین کی مقدار کم ہو جاتی ہے جس کے سبب شوگر خون کے بہاؤ میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ذیابیطس کے کل کیسز میں سے تقریباً 96 فیصد ٹائپ ٹو ذیابیطس کے کیسز ہوتے ہیں۔ غیر صحت مندانہ خوراک، موٹاپا اور بڑھتی عمر کے ساتھ اس مرض کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ تاہم جینیات بھی اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔جرمن ویب سائٹ ڈی ڈبلیو نے اپنی ایک رپورٹ میںامریکی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان فرانسسکو کی کلینیکل سائنسدان الکا کنایا کے حوالے سے بتایا تھا کہ جینیاتی عوامل کے باعث جنوبی ایشیائی افراد میں ذیابیطس کی بیماری کا آغاز تیزی سے ہوتا ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص پری ڈائبیٹک (جب بلڈ شوگر بہت زیادہ ہو لیکن ذیابیطس کے رینج میں نہیں) ہو تو وہ جلدی ذیابیطس کا شکار ہو سکتا ہے۔ نتیجتاً ایسے افراد کے پاس اس مرض کے شروع ہونے سے پہلے اسے روکنے کے لیے وقت کم ہوتا ہے۔سائنسی جریدے ''نیچر میڈیسن‘‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق جینیاتی عوامل کی وجہ سے جنوبی ایشیائی افراد یورپی ممالک کے افراد کے مقابلے میں جلد ذیابیطس کا شکار ہو جاتے ہیں۔
جنوبی ایشیائی افراد میں کچھ خاص جینیاتی خصوصیات ہوتی ہیں جن کی وجہ سے چربی جسم کے ان حصوں میں جمع ہو جاتی ہے جو ان کی صحت کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں، مثال کے طور پر رانوں یا بازوؤں کے گرد، جگر اور اندرونی اعضا کے قریب ۔ ان عوامل کے باعث ان افراد کے لیے ٹائپ ٹو ذیابیطس کی دوا بھی بہت زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوتی۔طبی ماہرین کے مطابق اگرچہ جینیاتی خصوصیات کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا لیکن طرز زندگی میں معمولی تبدیلیوں کے ذریعے ٹائپ ٹو ذیابیطس کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے فضا میں موجود پی ایم 2.5 کے آلودہ ذرات ٹائپ ٹو ذیابیطس کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ ٹائپ ٹو ذیابیطس کے نصف کیسز میں موٹاپا ایک اہم وجہ ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ مقدار میں پراسیسڈ گوشت ( جس میں نمک، چکنائی اور دیگر مضر اجزاشامل ہوں) کا استعمال بھی ذیابیطس کے خطرے کو بڑھاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے 2006ء میں خبر دار کیا تھا کہ آئندہ بیس سالوں میں ایشیا میں ذیابیطس کے کیس 90 فیصد تک بڑھ جائیں گے اور یہ بیماری اور اس سے ہونے والے مسائل اکیسویں صدی میں صحت کے حوالے سے سب سے بڑا بحران کھڑا کریں گے۔