ایجادات اور اتفاقات
انسانی زندگی کو آسان بنانے کے لیے سائنسی علم کو بروئے کار لاتے ہوئے ایجادات ایک منظم کاوش کا نتیجہ سمجھی جاتی ہیں ‘ مگر یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ بہت سی ایجادات جنہوں نے نوع انسانی کو بہت فائدہ پہنچایا اور ان کی افادیت بدستور موجود ہے دراصل ایک اتفاق کے نتیجے میں وجود میں آئیں۔ آئیے ان ایجادات کے بارے جانتے ہیں جن کی دریافت اتفاقیہ ہوئی۔
مائیکروویو اون
مائیکر و ویوز گرمی اور روشنی کی لہروں کی طرح شارٹ ریڈیو ویوز ہیں جو موشن کے ذریعہ کام کرتی ہیں اور خوراک کے مالیکیول میں موشن پید اکرتی ہیں جن کی وجہ سے فرکشن پیدا ہوتی ہے۔ فرکشن کی وجہ سے کھانے کے اندر گرمی پید ا ہوتی ہے جس سے کھانا گرم ہو جاتا ہے۔
1946ء میں امریکہ میں Raytheon کمپنی کا ایک ملازمPercy Spencer لیبارٹری کے معا ئنہ کے دوران میگنا ٹرون کے سامنے آکر رکا جو مائیکرو ویوز پیدا کرتی ہیں۔میگنا ٹرون وہ پاور ٹیوب ہے جس سے ریڈار سیٹ چلتا ہے۔Percyکی جیب میں چا کلیٹ تھی جب اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو وہ پگھل چکی تھی۔اس کو احساس ہو گیا کہ چاکلیٹ مائیکرو ویوز کی وجہ سے پگھلی ہے۔ چنانچہ Raytheonکمپنی نے اس کی سفارش پر 1947ء میں سب سے پہلا اوون 'ریڈار رینج‘ کے نام سے تیار کیا۔ 1953ء تک اوون کی قیمت تین ہزار ڈالر تھی اور یہ بڑے ریستورانوں اور بحری جہازوں میں استعمال ہوتا تھا۔
ٹائپ رائٹر
ٹائپ رائٹرمیں 1869ء میں امریکہ میں ایجادہوا۔ ٹائپ رائٹر کی ایجاد کا سہرا امریکہ کے دو افراد کے سر ہے۔ ایک Christopher Latham Sholes اور دوسرا Samuel W. Souléتھا جس نے پریکٹیکل ٹائپ رائٹر مشین شاپ میں بنا ئی تھی۔ Christopher Latham Sholes کے بنائے بورڈ پر انگلش کے حروف تہجی A-Z ترتیب دیے گئے تھے۔مگر اس ترتیب میں مسئلہ یہ تھاکہ ABCکی ترتیب سے اس کی کیز آپس میں اٹک جاتی تھیں۔اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ٹائپسٹ آہستہ آہستہ ٹائپ کرتا تھا۔
مسٹر شولز نے اپنے ایک عزیز کو کی بورڈ دوبارہ ترتیب دینے کے لیے کہا۔یوں کہ حروف تہجی ایک دوسرے سے زیادہ قریب نہ ہوں۔نئی ترتیب میں حروف تہجی یوں بنتے ہیں QWERTYیہی ترتیب اب کمپیوٹرز میں بھی استعمال ہوتی ہے۔رفتہ رفتہ لوگوں نے ٹا ئپ رائٹر کی مقبولیت کے پیش نظر ان حروف کی ترتیب ذہن نشین کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ مشہور امریکی مصنف اور ادیب مارک ٹوئین نے 1874ء میں ٹائپ رائٹر خریدا تھا۔
آرک ویلڈنگ
امریکی پر وفیسر تھامپسن فلاڈلفیا شہر کے شہرہ آفاق فرینکلن انسٹی ٹیوٹ میں بجلی پر لیکچر دے رہا تھا۔لیکچر کے دوران ڈیمانسٹریشن کے دوران اس نے غلطی سے دوتاروں کو آپس میں ملایا تو وہ آپس میں جڑ گئیں۔ تھامپسن کے خیال میں ان تاروں کو جڑنا نہیں چاہیے تھا۔ اس نے ان کو الگ کرنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ہوا یہ کہ بجلی کی وجہ سے حرارت پیدا ہوئی تھی اور یہ تاریں ویلڈ ہو گئی تھیں۔ تھامپسن نے یوں اتفاقی طور پر آرک ویلڈنگ کا نیا طریقہ دریافت کر لیا تھا۔
انسولین
1923ء میں Frederick Banting اورJohn Macleod کو ذیا بیطس کے علاج کیلئے انسولین کی دریافت پر نوبیل انعام دیا گیا۔ لبلبے اور انسولین میں تعلق انہوں نے یورپ کے سائنسدانوں کے تعاون سے معلوم کیا تھا۔جرمن فزیشن Joseph von Mering اورOskar Minkowskiنے ایک صحت مند کتے کے جسم سے لبلبے کو الگ کیا تا کہ نظام ہضم میں اس کے کردار کا پتہ لگا یا جاسکے۔ لبلبہ الگ کرنے کے کئی روز بعد سائنسدانوںنے دیکھا کہ کتے کے پیشاب کے اوپر مکھیاں اڑ رہی تھیں۔ پیشاب کا ٹیسٹ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس میں شو گر تھی جو ذیابیطس کی نشانی ہے۔ انہوں نے مزید ٹیسٹ کیے تو پتہ چلا کہ لبلبہ ایک چیز پیدا کرتا ہے جو انسانی جسم کے اندر شوگر کو کنٹرول کرتی ہے۔اس کے بعدکئی سائنسدانوں نے انسولین جو لبلبے سے پیدا ہوتی ہے الگ کرنے کی کوشش کی۔ آخر کار کینیڈین پروفیسر Banting اور Macleod نے پتہ لگا لیا کہ لبلبے سے پیدا ہونے والا مادہ انسولین ہے۔
ہیضہ ویکسین
فرانس کا مشہور سا ئنسدان لوئی پا سچر انیسویں صدی کا معروف ترین انسان تسلیم کیا جاتا ہے۔1880ء میں اس نے فرانس کی چکن انڈسٹری کومرغیوں کے ہیضہ سے محفوظ کر لیا۔ پا سچر نے اس جراثیم کو لیبارٹری میں خود پیدا کیا جس سے ہیضہ کی بیماری ہوتی تھی۔اس نے یہ جراثیم ایک بوتل میں محفوظ کر لیے۔ ایک روز اس نے یہ جراثیم چند مرغیوں کو کھلا دیے۔ اس کا خیال تھا کہ بیمار ہو کرمر جائیں گی مگر ہوا یہ کہ مرغیاں کچھ عرصے بعد صحت یاب ہو گئیں۔اس طرح پاسچر نے محض اتفاقی طور پر یہ حقیقت دریافت کر لی کہ پرانے جراثیم دراصل اپنی ہیئت بدل چکے تھے اوران سے بیماری پید ا نہ ہوتی تھی۔پا سچر نے جلد ہی اس بات کا اندازہ لگا لیا کہ وہ بیکٹیریا جو انسانوں کو متاثر کرتا ہے اس کا اثر بھی ویسا ہی ہوگا؛ چنانچہ1881ء میں اس نے ہیضہ کی ویکسین تیار کر لی جس سے لاکھوں انسانوں کو فائدہ پہنچا۔
کو نین
بیماریوں کے علاج میں کونین یعنی سنکونا درخت کی چھال کے جوہر نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔اس دوا سے ملیریا بخار کا علاج کیا جاتا ہے جو مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔کہتے ہیں کونین کی دریافت1600ء کے لگ بھگ محض اتفاقی طور پر ہوئی تھی۔ جنوبی امریکہ کے ملک پیرو میں ایک ہسپانوی سپاہی کو ملیریا کا سخت بخار ہوگیا اور اس پر کپکپی طاری ہو گئی۔اس نے قریبی تالاب کا پانی پی لیا جس سے بخاراتر گیا۔
تالاب کے پانی کا تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہواکہ اس میں کڑواہٹ کی وجہ ایک درخت کی چھال تھی جو تالاب کے کنارے پر تھا۔اس سپا ہی نے محض حادثاتی طور پر یہ بات دریافت کر لی کہ سنکونادرخت کی چھال سے ملیریا کا علاج کیا جاسکتا ہے۔اس درخت کی چھال سے پاؤڈر بنا کر اس کی گولیاں تیار کی جانے لگیںجو ملیریا کا مؤثر علاج ہے۔