از خود نوٹس پر قانون سازی اور سپریم کورٹ کے 9 متنازع نوٹسز
اسلام آباد: (دنیا نیوز انویسٹی گیشن سیل) حکومت از خود نوٹس پر قانون سازی کر رہی ہے، از خود نوٹس قانون کیا ہے اور اس کو تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟۔
چھ جون 2011ء کا واقعہ ہے جب معروف ٹی وی اداکارہ عتیقہ اوڈھو کراچی روانہ ہونے کیلئے اسلام آباد کے پرانے ہوائی اڈے پر پہنچیں، محکمہ کسٹمز نے جب ان کے سامان کی تلاشی لی تو اس میں سے بقول کسٹم حکام شراب کی دو بوتلیں برآمد ہوئیں۔
کسٹم حکام نے بوتلیں ضبط کر کے عتیقہ اوڈھو کو سفر کی اجازت دے دی، اگلے دن اخباروں میں خبر چھپ گئی جس پر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اس واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے پنجاب پولیس کے سربراہ، ڈائریکٹر جنرل ایئرپورٹ سکیورٹی فورس اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین کو نوٹس جاری کر دیے۔
عتیقہ اوڈھو جنرل پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ کی نائب صدر بھی تھیں، اس وقت اسی جماعت کے ترجمان فواد چودھری نے مختلف انٹرویوز میں الزام لگایا تھا کہ عتیقہ اوڈھو کو سیاسی وابستگی کی بنا پر نشانہ بنایا گیا ہے، عتیقہ اوڈھو پر یہ مقدمہ 9 سال تک چلا اور بعد میں انہیں عدم ثبوت کی بنا بری کر دیا گیا، ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا تھا کہ وہ 100 مرتبہ عدالت میں پیش ہو چکی ہیں۔
پاکستانی پارلیمان نے از خود نوٹس کے قانون کا مسودہ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے جس کے تحت اب صرف ایک جج کی بجائے سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین ججز از خود نوٹس کا فیصلہ کریں گے، اس کے علاوہ مسودے میں از خود نوٹس کے فیصلے پر 30 دن کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق دینے کی تجویز بھی دی گئی ہے جس کا حق اس سے پہلے دستیاب نہیں تھا۔
سوو مو نوٹس ہے کیا اور یہ کب کب استعمال ہوتا رہا؟
عدالتی زبان میں بہت سے لاطینی الفاظ استعمال ہوتے ہیں جن میں سے یہ ایک سو موٹو ہے، سوو کا مطلب ہے، خود۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لفظ ہندوستانی زبانوں میں بھی استعمال ہوتا ہے، ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں ’سوراج‘ کے نعرے کا مطلب سوو + راج، یعنی ’خود اپنا راج تھا۔
’موٹو‘ کے معنی ہیں حرکت کے، موٹر کار اور پانی کی موٹر کو اسی لیے موٹر کہا جاتا ہے کہ یہ حرکت کرتی ہیں، دونوں لفظوں کو ملا دیں تو سوو موٹو = خود حرکت میں آ جانا، قانونی زبان میں سوو موٹو کا مطلب یہ ہے کہ عدالت کا بغیر کسی درخواست کے خود کسی مقدمے کی کارروائی شروع کر دینا۔
پاکستان میں رائج قانون کو حریفانہ یا ایڈورسیریل نظامِ انصاف کہتے ہیں، اس میں عام طور پر دو فریقوں کا ہونا ضروری ہے، یعنی کوئی شخص آ کر شکایت کرے کہ مجھے فلاں شخص نے نقصان پہنچایا ہے اس لیے مجھے انصاف دلوایا جائے، اس کے بعد عدالت حرکت میں آتی ہے اور مقدمہ چلا کر قصوروار کو سزا دے دیتی ہے یا اگر جرم ثابت نہ ہوا تو بری کر دیتی ہے۔
لیکن کسی بھی ایسے شکایت کنندہ کے بغیر اگر عدالت خود ہی حرکت میں آ کر کسی مقدمے کی کارروائی شروع کر دے تو اسے سوو موٹو نوٹس لینا کہا جاتا ہے، آسان الفاظ میں اگر سپریم کورٹ سمجھے کہ عوامی اہمیت کا کوئی معاملہ ایسا ہے جس کا تعلق بنیادی انسانی حقوق سے ہو تو وہ اس پر نوٹس لے کر کارروائی شروع کر سکتی ہے۔
سپریم کورٹ یا چیف جسٹس؟
اصل شق میں ’سپریم کورٹ‘ لکھا ہوا ہے لیکن حالیہ برسوں میں ہوتا یہ رہا ہے کہ چیف جسٹس اس اختیار کو از خود استعمال کرتے رہے ہیں، اس کی وجہ سے ایک ابہام شروع سے رہا ہے کہ یہ اختیار کس کو حاصل ہے؟، صرف چیف جسٹس کو یا پوری سپریم کورٹ کو۔
ماہرِ قانون ایڈووکیٹ آصف محمود کے مطابق ’آئین میں صرف وفاقی شرعی عدالت کو از خود نوٹس کا واضح اختیار دیا گیا ہے، سپریم کورٹ کے بارے میں صریح الفاظ میں یہ بات آئین میں کہیں نہیں لکھی، سپریم کورٹ نے خود ہی 3/184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار حاصل کر لیا ہے جبکہ اس شق میں بھی ’سپریم کورٹ‘ کا لفظ لکھا گیا ہے، چیف جسٹس کا نہیں۔
از خود نوٹس کی ابتدا کیسے ہوئی؟
اس حوالے سے شفا تعمیرِ ملت یونیورسٹی میں شعبہ شریعہ اور قانون کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد نے کہا کہ پاکستانی تاریخ کے ابتدائی عشروں میں فوجی حکومتوں کا غلبہ رہا اور عدلیہ زیادہ تر بیک فٹ پر ہی رہی، عدلیہ کی اہمیت کو پہلی بار 90 کی دہائی میں اس وقت کے چیف جسٹس افضل ظلہ نے اجاگر کیا، انہوں نے قراردادِ مقاصد کو بنیاد بنا کر قرار دیا کہ عدلیہ خود مختار ہو گی۔
مزید یہ کہ اس وقت کے چیف جسٹس نے استدلال دیا کہ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس صرف ایک عدالت کا سربراہ نہیں بلکہ پورے ملک کا چیف جسٹس ہے، یہیں سے سوو موٹو لینے کے رجحان کی راہ ہموار ہوئی۔
کس نے کتنے ازخود نوٹس لیے؟
سال 2000 سے پہلے سوو موٹو کی اکا دکا مثالیں ملتی ہیں لیکن جسٹس افتخار چودھری نے از خود نوٹس کو انتہا تک پہنچا دیا، انہوں نے اپنے 7 سالہ دور میں 79 از خود نوٹس لیے، جسٹس ثاقب نثار نے 2 سالہ دور میں 47 نوٹس لیے اور یوں سالانہ شرح کے لحاظ سے وہ افتخار چودھری سے بھی آگے نکل گئے۔
انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کی ایک رپورٹ میں سوو موٹو پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’بعض اوقات یہ اختیار خود سپریم کورٹ کے قانون یا بین الاقوامی انسانی حقوق سے مطابقت نہیں رکھتا، کچھ کیسوں میں سپریم کورٹ نے پھرتی سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا نوٹس لیا، تاہم دوسرے موقعوں پر وہ براہِ راست دائر کردہ درخواستوں پر تیزی سے عمل نہیں کر سکی۔
رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’یہ ابہام برقرار ہے کہ عدالت انسانی حقوق کی بعض خلاف ورزیوں کو دوسروں پر کیوں ترجیح دیتی ہے جس سے عدالت پر تنقید ہوتی ہے کہ وہ من مانی کرتی ہے اور عدالت کی غیر جانب داری اور آزادی پر سوال اٹھتے ہیں۔
دو رکنی بینچ
جسٹس فائز عیسیٰ قرار دے چکے ہیں کہ 2 رکنی بینچ بھی سپریم کورٹ ہے، اس لیے 2 رکنی بینچ بھی سوو موٹو لے سکتا ہے، اس میں بھی انتشار پیدا ہونے کا خدشہ ہے (جو اس وقت بھی نظر آ رہی ہے) کیوں کہ ہر دو جج مل کر کسی بھی قسم کا از خود نوٹس لے سکتے ہیں۔
فل کورٹ بینچ
اس رائے کے حامی جسٹس اطہر من اللہ ہیں کیوں کہ انہوں نے آئین کی اسی طرح تشریح کی ہے، اس میں مسئلہ یہ ہے کہ اس کا مطلب ہے عدالت اور کوئی کام نہ کرے بس اسی کیلئے مختص ہو کر رہ جائے۔
حکومت نے چوتھا راستہ چنا
پروفیسر مشتاق کہتے ہیں کہ حکومت نے ان تینوں آراء سے مختلف چوتھا راستہ اختیار کیا ہے کیوں کہ انہوں نے بینچ کا ذکر نہیں کیا، چیف جسٹس کے علاوہ دو سینئر ترین ججوں کی خصوصی کمیٹی کی تجویز پیش کی ہے جو سوو موٹو لے سکے۔
انہوں نے اس قانون سازی کا خیرمقدم کیا البتہ یہ بھی کہا کہ ’یہ مسودہ بہت عجلت میں تیار کیا گیا ہے اور اس کیلئے مختلف اور وسیع مشاورت ہونی چاہیے تھی، سٹیک ہولڈرز سے مشاورت نہیں کی گئی، بہتر ہوتا کہ اس سلسلے میں سپریم کورٹ سے بھی مشاورت کی جاتی۔
ان کا کہنا تھا کہ خاص طور پر سپریم کورٹ لا اینڈ جسٹس کمیشن ہے اس کو اعتماد میں لیا جاتا، اس میں چیف جسٹس ہوتے ہیں، سینئر جج بھی ہوتے ہیں، وزیرِ قانون بھی ہوتا ہے، جب حکومت اور عدالت کے درمیان مشاورت کا فورم موجود ہے تو اسے استعمال کرنا چاہیے تھا۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس مسودہ قانون کے مطابق اپیل کیلئے بینچ کی تشکیل بھی یہی کمیٹی کرے گی اور ججوں کا انتخاب بھی یہی کمیٹی کرے گی، اس سے مسائل پیدا ہوں گے۔
چند متنازع سوو موٹو کیسز
افتخار محمد چودھری: سموسہ قیمت، عتیقہ اوڈھو بوتلیں، حج کرپش کیس، رینٹل پاور کیس، شاہ زیب قتل کیس، وحیدہ شاہ تھپڑ کیس، سرفراز شاہ قتل کیس۔
جسٹس ثاقب نثار: خدیجہ صدیقی حملہ کیس
عمر عطا بندیال: ارشد شریف قتل کیس