'عزم استحکام' آپریشن نہیں حکمت عملی اور ویژن کا نام

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) عزم استحکام آپریشن نہیں بلکہ حکمت عملی اور ویژن کا نام ہے جو 2023-2028 کی نیشنل انٹرنل سکیورٹی پالیسی کا تسلسل ہے لیکن اگر پہلے سے اعلان کردہ اس پالیسی پر عملدرآمد نہ ہوا تو ملک میں سکیورٹی صورتحال خراب ہو سکتی ہے۔

دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پوری قوم کی شمولیت سے ریاست کی رٹ کو قائم کرنا مقصود ہے، دہشتگردی کے مکمل خاتمے کیلئے صوبائی حکومتوں کے اقدامات، مؤثر قانونی سپورٹ، دہشتگردی اور انتہا پسندی کیخلاف قومی حمایت ناگزیر ہے۔

سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ سیاسی جماعتوں کو انگیج کرنا اور انکے تحفظات دور کرنا فوج کا نہیں حکومت کا کام ہے، سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے حکومت کردار ادا کریگی، فوج صرف اپنا کام کریگی۔

دہشتگردی کیخلاف جنگ میں فورسز کو بڑی کامیابیاں ملیں مگر وفاق کی اکائیوں میں ہم آہنگی نہ ہونے اور ایکشن پلان پر پوری طرح عملدرآمد نہ ہونے کے باعث ان کامیابیوں کا فائدہ نہ اٹھایا جا سکا، اس جنگ میں ریاست کے تمام ستونوں کی شمولیت کی ضرورت تھی مگر یہ ذمہ داری صرف سکیورٹی فورسز پر ڈال دی گئی۔

سیکورٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں کوئی نو گو ایریا نہیں ہے، دہشتگردی کا خطرہ ہائبرڈ ہے، ملک میں جرائم پیشہ مافیا اور دہشتگردوں کا گٹھ جوڑ ہے جسے توڑنا ہے۔

گزشتہ 6 ماہ کے دوران سب سے زیادہ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں ہوئے، جنوری 2024 سے اب تک دہشتگردی کے 1063 واقعات دونوں صوبوں میں پیش آئے۔

اس عرصے میں خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں 22 ہزار 714 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کئے گئے یوں روزانہ کی بنیاد پر 126 آپریشنز کیے گئے، ان 6 ماہ میں سکیورٹی فورسز کے 111 جوان اور افسر شہید ہوئے جبکہ 354 دہشتگرد جہنم واصل ہوئے۔

سیکورٹی ذرائع کے مطابق پنجاب میں کچے کے علاقے میں رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 131 جوائنٹ آپریشنز کیے جس کے بعد وہاں جرائم میں خاطر خواہ حد تک کمی واقع ہوئی۔

پنجاب، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں سکیورٹی صورتحال بہتر ہے، سندھ میں جرائم کی شرح زیادہ ہے مگر دہشتگردی کے واقعات خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں ہو رہے ہیں۔

سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ 2023 میں ملک بھر میں دہشتگردی کے الزام میں گرفتار ہونے والوں کی تعداد 1346 ہے، انسداد دہشتگردی کی عدالتوں میں زیر التوا کیسز کی تعداد 605 رہی مگر صرف 217 کو ہی سزا ہو سکی۔

دہشتگردوں کو سزاؤں کے معاملے میں پنجاب سزاؤں کی 72 فیصد شرح کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہے، سندھ 54 فیصد کیساتھ دوسرے، خیبر پختونخواہ 35 فیصد کیساتھ تیسرے جبکہ بلوچستان صرف 6 فیصد کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہا۔

گزشتہ برس ملک میں قومی سطح پر دہشتگردوں کو سزاؤں کی شرح 44 فیصد رہی، یہی وجہ ہے کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی عدلیہ کے مؤثر کردار کی ضرورت ہے۔

حکام نے بتایا کہ 2014 میں مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق پالیسی آئی مگر آج تک صرف 51.2 فیصد مدارس ہی رجسٹر ہو سکے، دس برسوں کے دوران 32 ہزار مدارس میں سے صرف 16 ہزار 300 مدارس کی رجسٹریشن تشویشناک ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں