پڑھو اور جانو ، ذرائع آمدو رفت کی تاریخ

تحریر : ثوبیہ سلیم


آج سے دو سو سال پہلے تک موٹر سے چلنے والی کوئی بھی چیز موجود نہ تھی۔لوگوں کو سفر کرنے کے لیے پیدل یا پھر گھوڑے کا سفر کرنا پڑتا تھا،مگر آج ہم نے اگر کہیں جانا ہوتو ہم موٹر گاڑی یا ہوائی جہاز وغیرہ کی مدد سے مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے کر رہے ہیں۔

ذرائع آمدو رفت کے لیے جو چیز سب سے پہلے ایجاد کی گئی وہ پہیہ تھا۔5000سال پہلے کی ایجاد ذرائع آمدو رفت کے لیے ایک بڑی ایجاد تھی،کیونکہ اس سے پہلے انسان کو ہر چیز کو کھینچنا پڑتا تھا یا جانوروں کی مدد سے کام کرنا پڑتا تھا۔2000ق م میں مصریوں نے وہ پہیہ جو کہ آج کے پہیے سے بہت ملتا جلتا ہے بنایا۔دنیا کے شرو ع کے پہیے بہت زیادہ آرام دہ نہ تھے مگر1800ص ع میں گھوڑا گاڑی میں لگانے کے لیے بہت اچھے پہیے بن چکے تھے۔

پہیے کی ایجاد کے قریب ہی انسان نے پانی میں تیز سفر کرنے کے لیے بادیان ایجاد کیے،جو کہ کپڑے کے بڑے بڑے ٹکڑے تھے اور یہ ہوا پر قابو کر کے کشتی کو تیز چلنے میں مدد دیتے تھے۔اس سے پہلے انسان کو چپوئوں کی مدد لینی پڑتی تھی۔

1700کے درمیانی عرصے میں ایک بڑی ایجاد ہوئی ۔جس نے آمدو رفت کو پہلے سے بہت زیادہ تیز اور یقینی بنادیا۔یہ ایک بھاپ سے چلنے والا انجن تھا۔1769میں ایک فرانسیسیNicholas Cugnotنے ایک بہت بھاری بھاپ سے چلنے والا ٹریکٹر بنایا جو کہ پانچ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتا تھا۔اس کے تین پہیے تھے اور یہ ایک لکڑی کے مضبوط ڈھانچے میں بنا ہوا تھا۔بھاپ کے انجن کا سب سے بہتر استعمال1800کے درمیان میں ہوا جب ان کا استعمال ریل کے انجنوں میں کیا گیا۔اس انجن میں پانی ایک بڑے ٹینکر میں اُبلتا رہتا تھا اور جب بہت زیادہ بھاپ بن جاتی تو اس کو چھوڑا جاتا تھا۔ جس کی وجہ سے بہت زیادہ طاقت پیدا ہوتی تھی اور پھر اس طاقت کی مدد سے کوئی بھی کام کیا جا سکتا تھا۔بھاپ والا انجن ایکThermalانجن ہوتا ہے جس میں ہیٹ انرجی استعمال ہوتی ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

بیسویں پارے کا خلاصہ

جلالت و قدرت:بیسویں پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ استفہامی انداز میں اپنی جلالت و قدرت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کو کس نے پیدا کیا‘ آسمان سے بارش برسا کر بارونق باغات کس نے اگائے‘

بیسویں پارے کا خلاصہ

سورۂ نمل: بیسویں پارے کا آغاز سورۂ نمل سے ہوتا ہے۔ اس پارے کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت کے ساتھ اپنی قوتِ تخلیق اور توحیدکا ذکر کیا ہے۔

انیسویں پارے کا خلاصہ

کفار کے مطالبات: انیسویں پارے کے شروع میں ایک بار پھر کفارِ مکہ کے ناروا مطالبات کا ذکر ہے کہ منکرینِ آخرت یہ مطالبہ کرتے تھے کہ ہمارے پاس فرشتہ اتر کر آئے یا ہم اللہ تعالیٰ کو کھلے عام دیکھیں۔ قرآن پاک نے بتایا کہ جس دن کفار ان نشانیوں کو دیکھ لیں گے تو وہ ان کیلئے بہت برا دن ہو گا۔ قیامت کے دن کفار ندامت سے اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے کہ کاش دنیا میں ہم نے رسولوں سے تعلق رکھا ہوتا۔ آیت 32 میں کفار کے اس اعتراض کا ذکر ہوا کہ پورا قرآن ایک ہی وقت میں نازل کیوں نہ کیا گیا‘ قرآن نے بتایا کہ تدریجی نزول میں حکمت یہ ہے کہ وحی کے تسلسل کے ذریعے نبیﷺ کا اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رہے اور آپ کے دل کو قرار و سکون نصیب ہو۔

انیسویں پارے کا خلاصہ

کفار کا پچھتاوہ: انیسویں پارے کا آغاز سورۃ الفرقان سے ہوتا ہے۔ انیسویں پارے کے آغاز میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں کو میری ملاقات کا یقین نہیں وہ بڑے تکبر سے کہتے ہیں کہ ہمارے اوپر فرشتے کا نزول ہونا چاہیے یا ہم پروردگار کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں۔

اٹھارہویں پارے کا خلاصہ

سورۃ المؤمنون: سورہ مؤمنون کی ابتدائی گیارہ آیات تعلیماتِ اسلامی کی جامع ہیں‘ ان میں فلاح یافتہ اہلِ ایمان کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں۔ نمازوں میں خشوع وخضوع‘ ہر قسم کی بیہودہ باتوں سے لاتعلقی‘ زکوٰۃ کی ادائیگی‘ اپنی پاکدامنی کی حفاظت‘ امانت اور عہد کی پاسداری اور نمازوں کی پابندی۔ آخر میں فرمایا کہ ان صفات کے حامل اہلِ ایمان ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔

اٹھارہویں پارے کا خلاصہ

سورۃ المؤمنون: اٹھارہویں پارے کا آغاز سورہ مومنون سے ہوتا ہے‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے اس گروہ کا ذکر کیا ہے جو جنت کے سب سے بلند مقام یعنی فردوس کا وارث بننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’وہ مومن کامیاب ہوئے جنہوں نے اپنی نمازوں میں اللہ کے خوف اور خشیت کو اختیار کیا‘ جنہوں نے لغویات سے اجتناب کیا‘ جو زکوٰۃ کو صحیح طریقے سے ادا کرتے ہیں‘ جو امانتوں اور وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں‘ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں‘ جو اپنی پاک دامنی کا تحفظ کرتے ہیں‘ سوائے اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے کسی کی خلوت میں نہیں جاتے، جو صاحبِ ایمان ایسا کرے گا‘ وہ فردوس کا وارث بن جائے گا‘‘۔