زکوٰۃ کے شرعی مسائل

تحریر : مفتی ڈاکٹرمحمد کریم خان


’’اور نماز پڑھا کرو،اور زکوٰۃ دیاکرو‘‘(سورۃ النور) معدنیات پر 1/5، بارانی زمین پر 1/10، غیر بارانی زمین پر 1/20، سونا،چاندی اور مال تجارت پر 1/40 زکوٰۃ کی شرح مقرر ہے

قرآن مجید اور احادیث میں نمازکے ساتھ اور نماز کے بعد جس عبادت کا سب سے زیادہ ذکر کیا گیا ہے وہ زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ کی وجہ سے معاشرے کے امیر اور سرمایہ دار طبقہ اور معاشرے کے نادار فقراء ومساکین غرباء کے درمیان توازن پیدا ہوتا ہے۔

زکوٰۃکا معنی

لغت میں زکوٰۃ کا معنی پاکیزگی، بڑھنا، برکت اور مدح ہے۔ یہ تمام معانی قرآن وحدیث میں استعمال ہوئے ہیں (نہایہ، ج2، ص307)۔زکوٰۃ کا شرعی معنٰی سال گزرنے کے بعد معین نصاب سے زکوٰۃ کی نیت سے کسی غریب کو ایک حصہ ادا کرنا زکوٰۃ کہلاتا ہے۔ (عمدۃ القاری، ج8، ص223)

 واجب ہونے کی شرائط

جس شخص پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے اس میں درج ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔ مسلمان ہونا، بالغ ہونا، عقلمند ہونا، آزاد ہونا، مقروض نہ ہونا،نصاب حاجت اصلیہ سے فارغ ہو(جیسے مکان، کپڑا، سواری،گھریلوسامان وغیرہ)، زکوٰۃ کے نصاب پر مکمل سال گزرنا۔

زکوٰۃکے اموال

وہ مال جس پر زکوٰۃ فرض ہے درج ذیل ہیں۔ معدنیات، زرعی پیداوار، جانور، سونا،چاندی، مال تجارت۔

مختلف مالوں پرزکوٰۃ کی شرح

رسول اللہﷺ نے نہایت حکیمانہ طریقہ سے پیداوار کی مختلف قسموں پرشرح زکوٰۃ مقرر فرمائی ہے۔ سب سے پہلے پیداور کی ان اقسام پر زکوٰۃ مقرر فرمائی جو کچھ عرصہ تک محفوظ رہ سکتی ہے۔ تاکہ ان سے مرضی کے مطابق نجی اورکارباری فائدہ اٹھایا جا سکے جیسے زرعی پیداوار وغیرہ۔ جن چیزوں میں ترقی اور نشوونما کی صلاحیت نہیں ہے ان پر زکوٰۃ مقرر نہیں کی گئی، جیسے مشینری، آلات وغیرہ۔ جس مال کو حاصل کرنے میں مالک کی محنت نہیں بلکہ وہ خاص عطیہ خداوندی ہے اس پر شرح سب سے زیادہ ہے اور جس مال کوحاصل کرنے، محفوظ رکھنے کیلئے محنت اور کوشش زیادہ ہے اس میں زکوٰۃ کی شرح کم رکھی گئی ہے۔ معدنیات کی شرح زکوٰۃ 1/5،بارانی زمین جوبارش سے سیراب ہو اس پر1/10، غیر بارانی زمین یعنی جسے سیراب کرنے پر مشقت اور خرچ آئے اس پر 1/20، سونا،چاندی اور مال تجارت پر 1/40 زکوٰۃ کی شرح مقررکی گئی ہے۔

زکوٰۃ کے ضروری مسائل

معدنیات: اس کیلئے کوئی نصاب مقرر نہیں بلکہ جو زمین سے نکلے اس کا پانچواں حصہ زکوٰۃ اداکرنا ہو گا۔

زرعی پیداوار: اس کا بھی کوئی نصاب مقرر نہیں۔ پیداوار تھوڑی ہو یا زیادہ زمین کے حساب سے اس پر زکوٰۃ (عشر) ہو گی۔

سونا، چاندی: اس کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونا ہے جبکہ چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولہ ہے۔

مال تجارت: خام مال یا تیار شدہ مصنوعات جب ان کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب ہو گی۔

جانور: اونٹ کا نصاب 5 اونٹ ہیں، گائے بھینس کا نصاب 30 جانور ہے، بھیڑ بکریوں کا نصاب 40 جانور ہے۔

 نصاب کی مقدار پر سال کا گزرنا ضروری ہے۔ البتہ سال کا گزرنا صرف نصاب کی مقدار پر ضروری ہے۔ نصاب کی مقدار سے زائد مال اگرچہ کچھ دن پہلے ہی صاحب نصاب کے پاس آیا ہو تو اس پر زکوٰۃ کی ادائیگی لازمی ہو گی۔

٭:سونے اورچاندی کی زکوٰۃ سونے چاندی سے بھی ادا کی جا سکتی ہے، ساڑھے سات تولہ سوناکی زکوٰۃ 2ماشے ہے جبکہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی زکوٰۃ 1تولہ 3ماشے 6رتی ہے اور ان کی زکوٰۃ  قیمت سے بھی ادا کی جا سکتی ہے۔

 ٭:سونے چاندی کی موجودہ مالیت لگوائی جائے اور اس حساب سے چالیسواں حصہ 2.5 فیصد بطور زکوٰۃ ادا کیا جائے۔

٭:اسی طرح مال تجارت کی بھی اوسط نکال کر موجودہ مالیت کے اعتبارسے زکوٰۃ  ادا کی جائے۔

٭:نقد رقم جو ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو وہ بھی مال زکوٰۃ ہے اور اس پر بھی زکوٰۃ فرض ہو گی۔

٭:جن زیورات کی مالکہ عورت ہو خواہ ماں باپ کی طرف سے ملے ہوں یا سسرال کی طرف سے ان کی زکوٰۃ ادا کرنا عورت کے ذمہ فرض ہے۔ البتہ اگر شوہر بھی ادا کر دے تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔ اگر عورت کے زیورات صرف پہننے کیلئے دیے گئے ہوں اسے مالک نہ بنایا گیا ہو مالک شوہر ہو تو زکوٰۃ ادا کرنا شوہر کے ذمہ ہو گا۔

٭:جو اشیاء کرایہ پر دی جاتی ہوں مثلاً گاڑیاں، دریاں، کرسیاں، میزیں، ٹینٹ وغیرہ اسی طرح مکانات اور دوکانیں اگر ان سے حاصل ہونے والی آمدنی نصاب کی مقدار کے برابر ہو اور اس پر سال گزر جائے تو اس آمدنی پر زکوٰۃ واجب ہو گی۔

٭:جسے زکوٰۃ کا مال دیا جائے اسے اس کا مالک بھی بنایا جائے تاکہ وہ اسے مرضی سے خرچ کر سکے۔

اسلام نے غرباء اور ضرورت مندوں کی مدد کیلئے اخلاق اور قانون دونوں سے کام لیا ہے۔ زکوٰۃ کی صورت میں نقد اور عشر کی صورت میں زمین سے پیدا ہونے والی اجناس پر مقرر و متعین شرح سے آمدنی کا ایک حصہ صاحب ثروت لوگوں سے قانوناً لے کر ضرورت مندوں کی کفالت کا بندوبست کیا اور یہ کام اسلامی حکومت کے اوّلین فرائض میں شامل کردیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وہ لوگ کہ اگر ہم ان کو زمین میں اختیار و اقتدار دیں تو نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں‘‘(الحج، 22: 41)۔

مصارفِ زکوٰۃ 

زکوٰۃ کا مال جن لوگوں پر خرچ کیا جا سکتا ہے ان کے متعلق قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’زکوٰۃ تو صرف ان لوگوں کیلئے ہے جو محتاج اور نادار (مسکین) ہوں، اور جو اس کی تحصیل پر مقرر ہیں، اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے (اسلام کی طرف مائل کرنا ہو)، اور (مملوکوں کی) گردنیں آزاد کرنے میں اور قرض داروں کو اور اللہ کی راہ اور مسافر کو، یہ ٹھہرایا ہوا (مقرر شدہ) ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ علم و حکمت والا ہے‘‘ (التوبہ: 60)۔

اس آیت مبارکہ میں آٹھ مصارفین کا ذکر موجود ہے۔فقراء، مساکین، عاملین زکوٰۃ (زکوٰۃ اکٹھی کرنے والے)، مؤلف القلوب، غلام کی آزادی، مقروض، فی سبیل اللہ،مسافر۔قرآن کریم میں زکوٰۃ کے یہ آٹھ مصارف ذکر ہوئے ہیں، احناف کے نزدیک ان میں سے کسی بھی مصرف میں زکوٰۃ دینے سے ادائیگی ہو جائے گی اور دینے والا دینی فریضہ سے سبکدوش ہو جائے گا۔ (ہدایہ، ج2، ص215)،ذیل میں مصارف زکوٰۃ کی اختصار کے ساتھ کچھ تفصیل بیان کی جاتی ہے:

فقیر و مسکین : فقیر اور مسکین دونوں ہی مالی ضروریات کیلئے دوسروں کے مالی تعاون کے محتاج ہیں دونوں کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔ 

والعاملین علیہا : وہ لوگ جو زکوٰۃ و عشر جمع کرنے پر مامور ہوں، ان سب کو زکوٰۃ فنڈ سے اجرت یا تنخواہ دی جائے گی خواہ امیر ہوں خواہ غریب۔ 

مؤلفۃ القلوب : زکوٰۃ وعشر کاچوتھا مصرف مؤلفۃ القلوب ہیں یعنی وہ لوگ جن کی تالیف قلب مقصود ہے۔ تالیف قلب کا مطلب ہے دل موہ لینا، مائل کرنا، مانوس کرنا۔ اس حکم خداوندی کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ اسلام کے سخت مخالف ہیں اور مال دے کر ان کی مخالفت ختم کی جا سکتی ہے یا ایسے نادار کافر جن کی مالی امداد کرکے ان کو اسلام کی طرف مائل کیا جاسکتا ہے۔ یا وہ لوگ جو نئے نئے مسلمان ہوں اور ان کی مناسب مالی مدد نہ کی گئی تو امکان ہے کہ وہ اپنی کسمپرسی اور کمزوری کی بناء پر پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے۔ 

فی الرقاب: گردنیں چھڑانے میں اسلام سے پہلے دنیا کے اکثر ممالک میں غلامی کا دور دورہ تھا، کمزور، نادار، اور پسماندہ انسانوں کو طاقتور لوگ اپنا غلام بنا لیتے تھے۔ یونہی لڑائیوں اور جنگوں میں غالب قوم، مغلوب قوم کو اپنا غلام بنا کر ان کے گھر بار زمین جائیداد یہاں تک کہ ان کی جانوں کی مالک بن جاتی تھی۔ اسلام نے انسانی غلامی کو جرم قرار دیا، ان کو قانوناً و اخلاقاً کئی طریقوں سے آزاد کرنے کا دروازہ کھول دیا۔ جس کے نتیجہ میں تھوڑے ہی عرصہ میں دنیا اس لعنت سے پاک ہو گئی۔

الغارمین: ’’والغارمین‘‘ یعنی مال زکوٰۃ سے قرض داروں کے قرض بھی ادا کئے جا سکتے ہیں۔

فی سبیل اللہ : ’’اور اللہ کے راستے میں‘‘ امام یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والے مجاہدین مراد لئے ہیں اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وہ عازمین حج جو راستے میں مالی مدد کے محتاج ہوں۔ کچھ علماء کے نزدیک طالب علم مراد ہیں۔ امام کاسانی حنفی ؒ نے فرمایاہے: فی سبیل اللہ سے مراد ہے تمام نیکی کے کام، اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو اللہ کی اطاعت اور نیک کاموں میں تگ ودو کرے۔ جب کہ (زکوٰۃ کا) حاجت مندہو۔ (بدائع الصنائح، 2: 45)

ابن سبیل : زکوٰۃ کا آٹھواں مصرف مسافر ہے۔ خواہ گھر میں مالدار ہو مگر سفر میں تنگدست ہو جائے اور مالی تعاون کا محتاج ہو، تو زکوٰۃ سے اس کی مالی مدد کی جائے گی۔ اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے وسائل واسباب گھر ٹھکانہ اور مال سے دور سفر میں ہونے کی وجہ سے اس کی دسترس سے باہر ہیں۔ اس کو مال زکوٰۃ سے دیاجائے گا اگرچہ اپنے شہر میں امیر ہو۔ (الجامع الاحکام القرآن للقرطبی، 8: 119)

جنہیں زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی

اپنی اصل (باپ، ماں، دادا، دادی، نانا، نانی) اپنے فروع (بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسا، نواسی) کو زکوٰۃ، صدقہ فطر، منت نذر اور کفارہ نہیں دیا جا سکتا۔اصول و فروع کے علاوہ باقی رشتہ دار بھائی، بہن ان کی اولاد، چچا، پھوپھی اور ان کی اولاد، ماموں، خالہ اور ان کی اولاد۔ اگر یہ مستحق ہوں تو ان کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے بلکہ انہیں زکوٰۃ دینے کا دُگنا اجر ہے۔ ایک صلہ رحمی کا اور دوسرا زکوٰۃ ادا کرنے کا۔

مقروض پر زکوٰۃ  واجب نہ ہو گی بشرطیکہ قرض وجوب زکوٰۃ سے پہلے ہو۔ البتہ وہ قرض جو صنعتی یا کاروباری ادارے کے خام مال یا مصنوعات پر زکوٰۃ کیلیے مانع نہ ہو گا بلکہ ان پر زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہو گی۔ اسی طرح وہ قرض جس کی ادائیگی یکمشت نہ ہو بلکہ تھوڑا تھوڑا کر کے ادا کیا جائے تو تب بھی قرض زکوٰۃ کی ادائیگی سے مانع نہ ہو گا۔

٭:زکوٰۃ ساری اکٹھی بھی دی جاسکتی ہے اورتھوڑی تھوڑی کرکے بھی دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح وقت سے پہلے بھی زکوٰۃ کی ادائیگی جائز ہے۔

٭:دینی طلباء پرایک روپیہ خرچ کرنا، باقی امور میں لاکھوں صدقہ و خیرات کرنے سے افضل ہے کیونکہ یہ لوگ شریعت کے حامل ہیں اور اس کی ترویج و اشاعت کرنے والے ہیں۔ (مکتوبات، ج1، ص160)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

چودھویں پارے کا خلاصہ

اہل جہنم: چودھویں پارے کی پہلی آیت کا شانِ نزول حدیث میں آیا کہ اہل جہنم جب جہنم میں جمع ہوں گے تو جہنمی ان گناہگار مسلمانوں پر طعن کریں گے کہ تم تو مسلمان تھے‘ پھر بھی ہمارے ساتھ جہنم میں جل رہے ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے گناہگار مسلمانوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں لے جائے گا تو کفار تمنا کریں گے کہ کاش! ہم بھی مسلمان ہوتے اور اس مرحلے پر نجات پا لیتے۔

چودھویں پارے کا خلاصہ

فرشتوں کا اتارنا: چودھویں پارے کا آغاز سورۃ الحجر سے ہوتا ہے۔ چودھویں پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا ذکر کیا ہے کہ کافر رسول اللہﷺ کی ذاتِ اقدس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے کہ اگر آپ سچے ہیں تو ہمارے لیے فرشتوں کو کیوں لے کر نہیں آتے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ فرشتوں کو تو ہم عذاب دینے کیلئے اتارتے ہیں اور جب فرشتوں کا نزول ہو جاتا ہے تو پھر اقوام کو مہلت نہیں دی جاتی۔

رمضان المبارک : ماہِ عبادت و ریاضت

نفل کا ثواب فرض اور فرض کا ثواب 70فرائض کے برابر ملتا ہے

مسائل اور ان کا حل

روزے کی حالت میں کلی کرنا :سوال:روزے کی حالت میں وضو کرتے ہوئے کلی کیسے کی جائے؟ کیا زبان گیلی ہونے سے روزہ ٹوٹ سکتا ہے؟ (عبد اللہ، کراچی)

تیرھویں پارے کا خلاصہ

حضرت یوسف ؑ کی پاکدامنی: گزشتہ پارے میں تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے خوابوں کی تعبیر کے حوالے سے شہرت کے سبب بادشاہ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو دربار میں طلب کیا۔

تیرھویں پارے کا خلاصہ

خوشحالی کے سال: تیرہویں پارے کا آغاز بھی سورۂ یوسف سے ہوتا ہے۔ جنابِ یوسف علیہ السلام جب جیل سے آزاد ہو گئے تو بادشاہ نے ان کو اپنے قریبی مصاحبین میں شامل کر لیا۔ آپ علیہ السلام ابتدائی طور پر وزیر خزانہ اور بعد میں عزیزِ مصر کے منصب پر فائز ہو گئے۔ جناب یوسف علیہ السلام نے زرعی نظام کو بڑی توجہ سے چلایا اور خوشحالی کے سات سالوں میں مستقبل کیلئے بہترین پلاننگ کی‘ یہاں تک کہ جب پوری دنیا میں قحط سالی عام ہو گئی تو مصر کی معیشت انتہائی مضبوط اور مستحکم تھی۔