چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد قاسم خان کےپنجاب کی ماتحت عدلیہ کیلئے انقلابی اقدامات
لاہور ہائیکورٹ اور پنجاب کی ماتحت عدلیہ میں کورونا وباء کے باوجود مجموعی طور پر 19لاکھ8ہزار163کیسز کے ریکارڈ فیصلے سنائے گئےچیف جسٹس قاسم خان کی پالیسیزکے ثمرات سائلین اور وکلاء کو ملنے لگے 78سال بعد ضابطہ دیوانی میں 100سے زائد ترامیم
جسٹس محمد قاسم خان نے چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ کے عہدے کا 19مارچ کو حلف اٹھایا تو سب سے پہلے 3 نکات پر کام شروع کیا۔ جن میں سائلین کو بروقت انصاف کی فراہمی کو عملی طور پر یقینی بنانا، وکلا ء کی فلاح و بہبود کیلئے عملی اقدامات کرنا، اور عدالت عالیہ اور ماتحت عدالتو ں میں ججز کی شفاف تقرریاں کرنا تھا ۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد قاسم خان نے وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ماتحت عدلیہ کیلئے اصلاحات کا سلسلہ جاری رکھا۔ ضابطہ دیوانی 1908 ء کے سیکشن 122 کے تحت ملک کے صوبے کی کوئی بھی ہائیکورٹ اپنے طور پر رولز کمیٹی تشکیل دیکر ترامیم کر سکتی ہے جس کے تحت پہلی مرتبہ 1942ء میں ترامیم کی گئیں تھیں جس کے بعد اب دوسری مرتبہ یعنی 78برس کے بعد یہ اعزاز چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد قاسم خان کو حاصل ہوا کہ ان کی نگرانی میں یہ ترامیم کی گئیں۔ان ترامیم کے لیے لاہورہائیکورٹ کی 7رکنی رولز کمیٹی نے اقدامات کیے ۔اس کمیٹی میں لاہور ہائیکورٹ کے3 جج،2 وکیل جس میں قانونی ماہر ظفر اقبال کلانوری اور شہزاد شوکت کیساتھ سینئر سول جج شکیب عمران شامل تھے۔ کمیٹی نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ انگریز دور کے بنائے گئے قانون میں 100 سے زائد ترامیم کی منظوری دیکر سفارشات چیف جسٹس قاسم خان کو بھجوادیں۔ چیف جسٹس قاسم خان نے ترامیم کی منظوری کیلئے فل کورٹ اجلاس بلایا ، جس کی صدارت انہوں نے خود کی۔ لاہور ہائیکورٹ کے فل کورٹ اجلاس میں عدالت عالیہ کے تمام ججز نے شرکت کی اور رولز کمیٹی کی سفارشات کی متفقہ طور پر منظوری دیدی ۔ فل کورٹ کی منظوری کے بعد ان ترامیم کو پنجاب کابینہ کو بھجوایا گیا تو کابینہ نے بھی ان ترامیم کی منظوری دینے کے بعد نوٹیفکیشن کا معاملہ گورنر پنجاب کے سپرد کر دیا گورنر پنجاب نے ان ترامیم کو ضابطہ دیوانی کا حصہ بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا جس کے بعد چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ محمد قاسم خان نے وکلاء تنظیموں سے طویل مشاورت کے بعد ان ترامیم کو پورے پنجاب کی ماتحت عدلیہ پر لاگو کردیا۔ 78برسوں بعد دیوانی کیسز میں کئی سال التواء کے شکار مقدمات کے چند دنوں میں فیصلے ہونے لگے جس سے سائلین کو لمبی لمبی تاریخوں سے چھٹکارا ملا اور کیسز کے بروقت فیصلے ہونے لگے۔ ضابطہ دیوانی میں چیف جسٹس قاسم خان کا سائلین کو ان کی دہلیز پر انصاف فراہم کرنے کا خواب پورا ہونے لگا۔ پاکستان کا صوبہ پنجاب آبادی کے تناسب سے تو بڑا صوبہ ہے ہی لیکن زیر التواء مقدمات کے لحاظ سے بھی بڑا صوبہ ہے۔ پورے پاکستان کے 84فیصد زیر التواء مقدمات صرف صوبہ پنجاب کی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور 16فیصد دیگر صوبوں میں زیر سماعت ہیں۔ ضابطہ دیوانی کی ترامیم یکم نومبر 2020 ء سے لاگو کی گئیں جس کے باعث انتظامی اور ٹرائل جج کو علیٰحدہ علیٰحدہ کردیا گیا۔ تمام سیشن ججز اپنے اضلاع میں ججز کی تعداد کے مطابق انتظامی جج، ٹرائل ججز اور مصالحتی ججز مقرر کردیا جن اضلاع میں ایک سے زیادہ مصالحتی جج موجود ہیں وہاں سب سے سینئر جج کو انتظامی جج مقرر کیا گیا، جس ضلع یا تحصیل میں صرف1 سول جج موجود ہو وہاں اسی جج کوانتظامی جج کا درجہ دیاگیا۔ فوری انصاف کی فراہمی کیلئے انتظامی اور ٹرائل ججز کی عدالتوں کی علیٰحدہ علیٰحدہ کاز لسٹ عدالت کے باہر آویزاں کی جا رہی ہے جبکہ لاہور ہائیکورٹ نے ماتحت عدالتوں میں زیر التواء مقدمات فوری نمٹانے کیلئے رہنما اصول وضع کر دیئے ہیں۔ ضابطہ دیوانی میں ترامیم کے بعد مقدمات نمٹانے کے اصول وضع کئے گئے ہیں جس کے تحت کیسز جلد نمٹانے کیلئے ججوں کی غیر ضروری چھٹیوں پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ سول عدالتوں کے ججوں کو روزانہ کی بنیاد پر سماعت کر کے 4 ماہ میں تمام کیسز نمٹانے کا حکم دیا گیا۔ پنجاب کی سول عدالتوں میں 6 ماہ سے زائد عرصے سے زیر التواء حکم امتناعی کے کیسز کو 15 دنوں میں نمٹایا جائے، ضلعی عدالتوں میں بھی 6 ماہ سے زائد عرصے سے زیر التواء حکم امتناعی اور متفرق درخواستوں کو 15 روز کے وقت میں نمٹایا جائے گا ۔فیملی، گارڈین اور جانشینی سرٹیفیکیٹس کے کیسز جو1 سال سے زیر التواء ہیں انہیں 3 ماہ کے اندر نمٹایا جائے گا۔ ضلعی عدالتوں کے مجسٹریٹس سپرداری اور عدم شواہد کی بنیاد پر ملزموں کی بریت کیلئے دائر درخواستیں 15 روز میں نمٹائیں گے۔پنجاب کے تمام جوڈیشل مجسٹریٹس راضی نامہ اور اعتراف جرم اور معمولی جرائم کے کیسز کے تیز ترین انداز میں فیصلے کر رہے ہیں۔ ایڈیشنل سیشن ججز بھی قبل از اور بعد از ضمانت گرفتاری اور بریت کی درخواستوں پر 4 ہفتوں میں فیصلے کرنے کے پابند ہیں۔ سیشن عدالتیں حبس بے جا کی درخوا ستوں پر 2 ہفتوں میں فیصلے کرنے کی پابند ہوں گی۔ فوجداری مقدمات جن میں راضی نامہ یا ملزموں نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہو اس کیس کی ترجیحی بنیادوں پر سماعت کا سلسلہ جاری ہے۔ پروبیشن پر رہا کئے گئے ملزموں کے مقدمات کو غیر ضروری طور پر ملتوی نہیں کیا جا رہا۔ تمام اضلاع کے سیشن ججز کیسز جلد نمٹانے کیلئے اپنی متعلقہ بار ایسوسی ایشنز کے نمائندوں سے میٹنگز کریں گے، اس سلسلے میں لاہور ہائیکورٹ تمام ماتحت عدالتوں کی کارکردگی کا بغور جائزہ جاری رکھے گی۔ سول عدالتوں میں 31 دسمبر 2017ء یا اس سے پہلے دائر کیسز کو 28 فروری 2021 ء تک نمٹا نے اورفوجداری عدالتیں بھی 31 دسمبر 2017ء یا اس سے پہلے دائر کیسز کو 28 فروری 2021 ء تک نمٹانے کی پابند ہیں۔
مجموی طور پر رواں برس تاریخ میں پہلی مرتبہ چیف جسٹس قاسم خان کی پالیسیز پر عمل درآمد کرتے ہوئے انتہائی قلیل مدت میں 12 اکتوبر سے لے کر15دسمبر تک کورونا وباء کے باوجود لاہور ہائیکورٹ اور ماتحت عدالتوں میں رواں برس 19لاکھ8ہزار163کیسز کے ریکارڈ فیصلے سنائے گئے ،پہلی مرتبہ سائلین کو بروقت انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں وڈیو لنک کے ذریعے مقدمات کی سماعت کی گئی سال 2020کورونا وباء کی لپیٹ میں رہا ملک کے تمام ادارے بند کیے گئے لیکن عدلیہ نے احتیاطی تدابیر کے ساتھ سائلین کو بروقت انصاف کی فراہمی جاری رکھی۔ چیف جسٹس قاسم خان کی بہترین پالیسی کے نتیجہ میں کورونا وباء کے باوجود مجموعی طور پر 19لاکھ8ہزار163کیسز کے فیصلے سنائے گئے جب کہ عدلیہ پرعوام کے اعتماد میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے21لاکھ 39 ہزار 479 کیسز دائر ہوئے جبکہ اس وقت لاہور ہائیکورٹ اور مجموعی طورپر پنجاب کی ماتحت عدالتوں میں اسوقت 15لاکھ 74ہزار 734 کیسزکے فیصلے ہونا باقی ہیں۔ پنجاب کی ماتحت عدلیہ میں 13لاکھ86ہزار761 کیسز زیر سماعت ہیں۔ ماتحت عدلیہ نے 17لاکھ 95 ہزار284کیسز کے فیصلے سنائے ۔ 20 لاکھ 20 ہزار926کیسز نئے دائر ہوئے اسی طرح سے لاہور ہائیکورٹ میں کورونا وباء کے دوران احتیاطی تدابیر پرعمل درآمد کے ساتھ کیسز کی سماعت جاری رہی اور 1لاکھ12 ہزار 879 کیسز کے فیصلے سنائے۔ 1لاکھ 87 ہزار 673 مقدمات کے فیصلے ہونا باقی ہیں جبکہ 20لاکھ 20 ہزار 926 کیسز نئے دائر ہوئے۔
تحفے دینے پر پابندی
چیف جسٹس قاسم خان سائلین کو تو بروقت انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے اقدامات کر ہی رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ انتظامی سطح پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس قاسم خان نے تاریخ میں پہلی مرتبہ ضلعوں کی انسپکشن کرنے والے ہائیکورٹ کے ججز کی آمد پر گارڈ آف آنر ، ڈھول بجانے،پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے پر سختی سے پابندی لگادی اور دورے کے اختتام پر اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو متعلقہ سیشن ججز کو گفٹ دینے پر بھی پابندی عائد کردی۔ چیف جسٹس کے اس فیصلے کو وکلاء تنظیموں نے سراہا اور کہا کہ ایسے اقدامات سے انصاف کا بول بالا ہوگا۔
ماتحت عدلیہ کے ججز پر کڑی نظر رکھنے
کیلئے خصوصی انسپکشن ٹیمیں تشکیل دیدی گئیں
پنجاب کی ماتحت عدالتوں کے ججز کی کارکردگی اور ان کے خلاف شکایات کے معاملے پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد قاسم خان کی ہدایت پر ضلعی عدلیہ کے لیے خصوصی انسپکشن ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جو پنجاب کی عدالتوں کے دورے کررہی ہیں۔ عدالتی قوانین کے مطابق زیرِ سماعت فوجداری و دیوانی مقدمات سمیت متفرق درخواستوں کے احکامات اور فیصلہ جات کی انسپکشن کی جائے گی۔گواہان کے بیانات اور آئندہ تاریخیں دینے کا ریکارڈ چیک کیا جارہا ہے۔انسپکشن ٹیمیں موزوں وجوہات کے بغیر تاریخیں دینے کا ریکارڈ بھی چیک کریں گی۔انسپکشن ٹیمیں اپنی مفصل رپورٹس مرتب کرکے لاہور ہائی کورٹ میں جمع کروائیں گی۔متعلقہ ضلع کے انسپکشن جج(جج لاہور ہائی کورٹ) اس ضلع کی انسپکشن بھی کریں گے۔
ماتحت عدلیہ کے 1756ججز میں لیپ ٹاپ تقسیم کئے
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد قاسم خان کی جانب سے ماتحت عدالتوں کے ججوں کو بھی سہولتیں فراہم کی گئیں تاکہ انہیں مقدمات کے بروقت فیصلوں میں مشکلات کا سامنا نہ ہو۔ چیف جسٹس قاسم خان کے حکم پر پنجاب بھر کے تمام1756 جوڈیشل افسران کو لیپ ٹاپ فراہم کیے گئے۔ سول عدالتوں کے 1102 جبکہ سیشن عدالتوں کے 654 ججز کو لیپ ٹاپ دیئے گئے ہیں۔ لاہور کی 189 سول اور 149 سیشن عدالتوں کے ججز کو لیپ ٹاپ دیئے گئے ہیں۔ اٹک کے 30 سول و سیشن ججز اور بہاولنگر کے 32 ججز کولیپ ٹاپ دیئے گئے۔ بہاولپور کے46 ، گوجرانوالہ کے 80 اور رحیم یار خان کی 43 سول و سیشن عدالتوں کے ججزمیں لیپ ٹاپ تقسیم کیے گئے۔ راولپنڈی کی 135 سول وسیشن عدالتوں اور ملتان کی29 سیشن اور 45 سول عدالتوں کے ججزکے لئے بھی لیپ ٹاپ مہیا کئے گئے ہیں۔جوڈیشل افسران کو لیپ ٹاپس کی تقسیم کے حوالے سے ڈی جی ڈسٹرکٹ جوڈیشری کی جانب سے متعلقہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججزکو ہدایات بھی جاری کر دی گئی ہیں۔
یہ روایت ختم ہونی چاہیے دادا کیس کرے اور پوتا تاریخیں بھگتے: جسٹس( ریٹائرڈ) ناصرہ جاوید اقبال
ضابطہ دیوانی میں ترامیم وقت کی اہم ضرورت تھی یہ سن کر
خوشی ہوئی کہ ترامیم کو پورے پنجاب میں لاگو کردیا گیا ہے
جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید اقبال نے کہاکہ دیوانی مقدمات کو بروقت نمٹانے کیلئے کی گئی ترامیم وقت کی اہم ضرورت تھیں۔ چیف جسٹس قاسم خان کے ان اقدامات سے اب یہ روایت ختم ہوگی کہ داد کیس دائر کرتا تھا اور پوتا تاریخیں بھگتتا رہتا تھا۔انہوں نے کہاکہ تیز ترین انصاف سے سائلین کے عدالتی نظام پر اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ بعض لوگ جان بوجھ کر مخالفین کو تنگ کرنے کیلئے حکم امتناعی لے آتے ہیں اور ان کے فیصلے نہیں ہونے دیتے لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ ترامیم کو پورے پنجاب میں لاگو کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ جب ہم غلام تھے تو یہ قوانین اس زمانے کے ہیں۔ اب ہم آزاد ہیں اسلئے ہمیں اپنے ملک اور عوام کی سہولت کیلئے قوانین میں ترامیم کرکے اسے مزید بہتر بنانے کے لیے اقدامات جاری رکھنے چاہئیں ۔
ضابطہ دیوانی میں ترامیم سے سائلین کو بروقت انصاف ملے گا ،چیف جسٹس
کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں: صدر لاہور بار ایسویسی ایشن جی اے خان طارق
چیف جسٹس نے وکلاء کی فلاح و بہبود
کے لیے تاریخ ساز اقدامات کیے
صدر لاہور بار ایسوسی ایشن جی اے خان طارق کے مطابق ضابطہ دیوانی میں ترامیم سے وکلاء کیساتھ ساتھ سائلین کو بھی فائدہ ہورہا ہے اور نظامِ عدل پر سائلین کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔چیف جسٹس قاسم خان کے بہترین اقدامات کا براہ راست فائدہ سائلین کو مل رہا ہے۔ جی اے خان طارق کا مزید کہنا تھاکہ چیف جسٹس قاسم خان کی پالیسیز کے باعث تاریخ پر تاریخ کے کلچر کا خاتمہ ہوچکاہے۔ ہم عدلیہ کی بہتری کے لیے چیف جسٹس کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ ہم چیف جسٹس کے مشکور ہیں جنہوں نے لاہور بار کی درخواست پر کینٹ کچہری،ماڈل ٹائون کچہری سمیت دیگر اضلاع میں وکلا ء کی فلاح وبہبود کے منصوبوں کی منظوری دی۔ کینٹ کچہری اور ماڈل ٹائون کچہری میں نیا جوڈیشل کمپلیکس تعمیر کیاجائیگا۔ انہوں نے کہاکہ کورونا وباء سے پوری دنیا کی طرح پاکستان بھی متاثر ہوا اور تمام ادارے بند کردئیے گئے لیکن چیف جسٹس قاسم خان کی حکمت علی پر عمل کرتے ہوئے سائلین کو انصاف کی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھا اور ویڈیو لنک کے ذریعے لاہورہائیکورٹ اور ماتحت عدالتوں میں کیسز کی سماعت کی گئی جس سے سائلین کی مشکلات کا بروقت ازالہ ہوا جبکہ اس دوران وکلاء نے بھی ایس اوپیز پر عمل درآمد کرکے اپنے فرائض منصبی ادا کیے۔
انصاف میں تاخیر ،انصاف کے قتل کے مترادف ہے :سابق جج لاہورہائیکورٹ اکرم قریشی
ضابطہ دیوانی میں کی گئی ترامیم سے بروقت انصاف
کی فراہمی کے مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں
سابق جج لاہورہائیکورٹ اکرم قریشی کا کہنا تھاکہ انصاف وہی ہوتا ہے جوفوری طور پر ہو غیر ضروری طور پر کیسز میں تاخیر انصاف کو شکست دیتی ہے ۔چیف جسٹس کی جانب سے جو ترامیم کی گئیں ان پر من وعن عمل درآمد سے مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ سائلین کے کیسز کا بروقت فیصلہ ہو اس سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ سول ججز کی بہترین ٹریننگ ہونی چاہیے، ماضی میں قتل مقدمات کے فیصلے صرف3 دن میں ہوتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اب جو تاریخی ترامیم کی گئی ہیں ان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
ضابطہ دیوانی میں ترامیم پر عمل درآمد سے جوڈیشل سسٹم درست سمت کی جانب گامزن ہوگا، ممبر رولز کمیٹی ظفر اقبال کلانوری
ممبران کی دن رات محنت اور1 سال 8ماہ
کے بعد ضابطہ دیوانی میں ترامیم کا مسودہ تیار کیا
ججز ،عملہ اور وکلا ء کی مزید تربیت سے ترامیم
کے نفاذ اور ان کو سمجھنے میں آسانی ہوگی
ضابطہ دیوانی میں ترامیم کی رولز کمیٹی کے سینئر ممبر ماہر قانون ظفر اقبال کلانوری کا کہنا ہے کہ 78سال بعد ضابطہ دیوانی میں ترامیم بہت بڑی کامیابی ہے ان پر من وعن عمل درآمد سے ہمارا جوڈیشل سسٹم درست سمت کی طرف گامزن ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ پورے1 سال 8ماہ کمیٹی کے ارکان کی دن رات محنت کے بعد ضابطہ دیوانی میں ترامیم کی سفارش کی گئی۔ ظفر اقبال کلانوری کاکہنا تھاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان ترامیم کے نفاذ سے کیسز کے جلد فیصلے ہورہے ہیں۔ ان ترامیم کے بعد حکم امتناعی کی درخواستوں کے بروقت فیصلے ہوں گے۔ تاریخ پر تاریخ کے کلچر کا خاتمہ ہوگا، غیر ضروری التوا ء نہیں ہوگا۔ ہر ضلع میں انتظامی اور ٹرائل جج کی علیٰحدہ علیٰحدہ کیٹیگری بنادی گئی۔ انتظامی جج کے پاس کیس دائر ہوگا جس پر وہ حکم امتناعی کی درخواست کا فیصلہ کرکے مخالف پارٹی کونوٹس جاری کرے گا اور تمام متفرق درخواستوں کے فیصلے سنائے گا اور پھر ایشوز فریم کرنے کے بعد کیس ٹرائل جج کو بھیج دے گا جس کے بعد گواہان شہادتیں ریکارڈ کروائیں گے ،پھر ٹرائل جج کیس کا حتمی فیصلہ کرے گا۔ جبکہ اہم بات یہ ہے کہ ان ترامیم سے قبل کسی سائل کو دیوانی کیس میں ڈگری کا فیصلہ ہونے کے بعد الگ سے اجرا کا کیس دائر کرنا پڑتا تھا لیکن اب کسی بھی دیوانی کیس کا فیصلہ ہونے یعنی کسی کی پراپرٹی کا فیصلہ ہونے کے بعد اجراء کے لیے الگ سے درخواست دائر نہیں ہوگی بلکہ فیصلہ ہوتے ہی جج خود ہی ڈگری کے اجرا ء پر عمل کروائے گا۔ اس کا بنیادی مقصد سائلین کا قیمتی وقت اور پیسے بچانا ہے اور کیسز کے بروقت فیصلے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اگر ان ترامیم کو مرحلہ وار اضلاع میں نافذ کیا جاتا تو اس کے نتائج مختلف ہونے تھے۔ ججز ،عملے اور وکلاء کی مزید تربیت سے ترامیم کے نفاذ اور ان کو سمجھنے میں وکلاء اور ججز کو آسانی ہوگی۔