اخلاص ۔۔۔۔عبادت کی شرط لازم
عبادت کے ضمن میں قرآن حکیم میں یہ مضمون صراحت کے ساتھ آیا ہے کہ عبادت خالصتاً اللہ کیلئے ہونی چاہیے۔ چنانچہ سورہ الزمر میں فرمایا: ترجمہ ’’(اے نبیﷺ) ہم نے حق کے ساتھ اس کتاب کو آپ کی طرف نازل کیا ہے‘ پس آپ اللہ کی بندگی کیجیے‘ پوری اطاعت اسی کیلئے خالص کرتے ہوئے! یاد رکھو کہ خالص اطاعت بس اللہ ہی کیلئے ہے۔‘‘پھر اسی سورۃ میں آگے چل کر فرمایا: ترجمہ’’(اے نبیﷺ) کہہ دیجیے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی اس طرح عبادت کروں کہ ساری اطاعت صرف اسی کیلئے خالص ہو جائے۔‘‘
دین کی رُو سے اس اطاعت و فرماں برداری میں شوق و محبت‘ جی کی رغبت اور دل کی پوری آمادگی شرطِ لازم ہے۔ تذلل اور محبت دونوں مل کر عبادت کا تقاضا پورا کرتی ہیں۔ خدا کی اطاعت اس طرز کی اطاعت نہیں ہے کہ جیسے کسی جابر اور قاہر کی اطاعت طوعاً و کرہاً کی جاتی ہے‘ بلکہ یہ اطاعت انتہائی مشفق اور وَدود ہستی کی اطاعت ہے‘ یہ الرحمن اور الرحیم کی اطاعت ہے‘ الرئوف اور الکریم کی اطاعت ہے‘ جو ہم سے بڑھ کر ہمارا خیرخواہ ہے۔ ہم اپنے آپ سے وہ محبت نہیں کر سکتے جو محبت وہ ہم سے کرتا ہے۔ ہم اپنے خیر اور شر کو نہیں جانتے اوراس میں تمیز نہیں کر سکتے‘ لیکن وہ اسے خوب جانتا اور پہچانتا ہے۔ ہم اپنی مصلحتوں سے آگاہ نہیں‘ لیکن وہ جانتا ہے کہ کس چیز اور کس کام میں ہماری مصلحت ہے۔ اس تصور اور شعور کے ساتھ خدا کے سامنے بچھ جانا اور اپنی پوری زندگی کو بطیبِ خاطر اس کے قانون کی پابندی اور اطاعت میں دے دینا‘یہ ہو گی وہ اطاعت جسے قرآن حکیم ’’عبادت‘‘ سے تعبیر کرتا ہے اور بنی نوعِ انسان کو جس کی دعوت دیتا ہے اور جو انسان کی تخلیق کی غرض و غایت ہے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ کی دوصفات بیان ہوئی ہیں:ایک اس کا ربّ ہونااور دوسرے اس کا خالق ہونا۔ درحقیقت یہ دو صفات ہی دعوتِ عبادتِ ربّ کی دلیلیں ہیں۔ یعنی وہی تمہارا خالق‘ تمہیں وجود بخشنے والا ہے اور وہی تمہارا پروردگار اور پالنہار بھی ہے‘ لہٰذا صرف اسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اس کی بندگی کی جائے۔ انسان نہ تو آپ سے آپ پیدا ہو گیا ہے اور نہ ہی وہ خود اپنا خالق ہے۔
سورۃ الطور میں فرمایا گیا، ترجمہ ’’کیا یہ یوں ہی آپ سے آپ پیدا ہو گئے یا انہوں نے خود اپنے آپ کو پیدا کیا ہے؟ ‘‘ معلوم ہوا کہ ہم نے خود اپنے آپ کو پیدا نہیں کیا‘ بلکہ ہم مخلوق ہیں۔ پس جو خالق ہے اسی کو حق پہنچتا ہے کہ مخلوق پر اس کی مرضی چلے۔ یہی وہ بات ہے جو سورہ الاعراف میں بایں الفاظ فرمائی گئی:’’خبردار ہو جائو! وہی خالق ہے اور اسی کی حکومت و فرماں روائی ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ عقل سلیم اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ جس نے پیدا کیا ہے اسی کو حق پہنچتا ہے کہ اس کی بات مانی جائے‘ اس کا حکم مانا جائے‘ اس کی اطاعت کی جائے اور اسی کی مرضی چلے۔ آدمی خود اپنا خالق نہیں‘ یہاں تک کہ اس کے آبائواجداد بھی اس کے خالق نہیں‘ وہ بھی مخلوق تھے۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ بلاسوچے سمجھے آبائو اجداد کے طریقے کی پیروی کی جائے اور غیر اللہ کی پرستش شروع کر دی جائے‘ اس ہستی کی بندگی اور پرستش کرنی چاہیے جو خالق ہے۔ آبائو اجدادکے طور طریقے اگر خدا کے حکم کے مطابق ہوں تب تو اُن کا اتباع کیا جائے گا‘ لیکن اگر ان کی روش اس کے برعکس ہو تو ان کو کوئی استناد حاصل نہیں۔ ان کا یہ حق ہرگز نہیں کہ ان کا اتباع کیا جائے‘ اس لیے کہ خالق سب کا اللہ ہے۔
دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ اللہ صرف تمہارا خالق ہی نہیں‘ بلکہ وہ تمہارا ’’ربّ‘‘ بھی ہے۔ وہ تمہاری تمام ضروریات پوری کر رہا ہے۔ تمہیں درجہ بدرجہ ترقی دیتے ہوئے اور ہر درجے کی تمام ضروریات کا اہتمام کرتے ہوئے تمہیں تمہارے مقامِ کمال کی طرف لے جا رہا ہے۔ ماں کے دل میں مامتا‘ باپ کے دل میں شفقت اور عزیزوں کے دل میں محبت اسی کی پیدا کردہ ہے۔ موسموں کا تغیر و تبدل‘ بارش کا یہ نظام‘ زمین میں روئیدگی اور نشوونما کی قوت اور اس پر تمہارے لیے نفع رساں چوپایوں کا وجود‘ یہ نظامِ شمسی اور اس میں موجود جذبِ باہمی‘ غرضیکہ یہ پورا نظام اس کی شانِ ربوبیت کا مظہر ہے۔ پس وہی تمہارا خالق ہے اور وہی تمہارا ربّ ہے۔وہی عبادت کے لائق ہے ، جس خلوص سے عبادت ہوگی وہ اتنی ہی قبول ہوگی۔
اس نکتے کو اچھی طرح سمجھیے کہ ربوبیت کو تخلیق پر کیوں مقدم کیا گیا! انسان کے ذہن کا بچپن سے جو ارتقاء ہوتا ہے اگر ہم اس کا جائزہ لیں اور اس کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا ذہن سب سے پہلے جس چیز کا اثر قبول کرتا ہے اور اس میں جو شعور و احساس سب سے پہلے اجاگر ہوتا ہے وہ ربوبیت ہی کا اثر اور احساس ہے۔ ایک چھوٹے سے بچے کے ذہن کی کائنات بڑی ہی محدود ہوتی ہے‘ لیکن اپنے والدین کے بارے میں یہ تاثر بہرحال اس کے ذہن میں موجود ہوتا ہے کہ میری ہر ضرورت یہی فراہم کرتے ہیں۔ مجھے بھوک لگتی ہے تو غذا اور خوراک کا اہتمام کرتے ہیں‘ مجھے اگر کہیں سے کوئی خطرہ اور خوف لاحق ہو جائے تو میں لپک کر ان کی گود میں پناہ لے لیتا ہوں‘ لہٰذا یہ میرے محافظ بھی ہیں۔ گویا کہ ربوبیت کے تصور کے ساتھ جتنی چیزیں بھی وابستہ ہیں‘ ان کا تاثر اس کے ذہن کی محدود کائنات میں موجود رہتا ہے اور والدین کیلئے ایک جذبۂ تشکر اس کے دل میں ابھرتا رہتا ہے۔ اسی لیے قرآن حکیم نے سورہ بنی اسرائیل میں والدین کیلئے یہی لفظ ’’ربوبیت‘‘ استعمال کیا ہے۔ آیت میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے ہوئے ان کیلئے یہ دعا کرنے کی تلقین کی گئی ہے کہ: ’’اے میرے پروردگار! ان دونوں (والد اور والدہ) پر رحمت فرمائیے جیسا کہ انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔‘‘ یہ ربوبیت کا تصور ہے جو انسان کے ذہن میں سب سے پہلے پیدا ہوتا ہے۔
آگے چل کر صرف یہ فرق واقع ہوتا ہے کہ جوں جوں اس کا افقِ ذہنی وسیع ہوتا ہے اور اس کی فکر کا دائرہ پھیلتا ہے وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ والدین کے علاوہ مجھے اپنے بہن بھائیوں‘ اعزّہ و اقرباء اور برادری کی حمایت اور تحفظ بھی حاصل ہے۔ جب وہ اس سے بھی آگے بڑھتا ہے تو اس میں یہ شعور اجاگر ہوتا ہے کہ معاملہ صرف رشتہ داروں اور برادری تک محدود نہیں ہے‘ بلکہ مجھے ایک پورے نظام کی پشت پناہی حاصل ہے‘ میری قوم اور میرا ملک میری پشت پر ہیں۔ جب اس کا ذہن مزید ترقی کرتا ہے تو اس سے آگے جا کر انسان کے مادی علم کا نقطۂ عروج یہ ہے کہ وہ یہ سمجھ لے کہ اس کی ربوبیت اور اس کی ضروریات کی فراہمی کا تو ایک بڑا ہی وسیع و عریض نظام ہے‘ اس میں سورج کا بھی دخل ہے اور ہواؤں کے چلنے‘ بارش کے برسنے اور موسموں کے تغیر و تبدل کو بھی ایک فیصلہ کن اہمیت حاصل ہے۔ کائنات کا یہ پورا نظام اور اس کی ہر ہر چیز اس کی ربوبیت اور اس کی ضروریات کی کفالت کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ گندم کا ایک دانہ جو زمین سے اُگتا ہے تو اس کو اُگانے میں نہ معلوم قدرت کی کتنی قوتیں بروئے کار آتی ہیں۔
اس کے بعد انسان اگر ایک چھلانگ اور لگا لے تو یہ حقیقت اس پر منکشف ہو جاتی ہے کہ یہ سارا سلسلۂ اسباب ایک مسبّب الاسباب کے ہاتھ میں ہے ۔یہ نظام اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اب اس نے جان لیا کہ میرا ربّ‘ میرا پالنے والا‘ میرا روزی رساں اور میری ضروریات کا کفیل اللہ ہے‘ جو میرا خالق بھی ہے۔ قرآن حکیم میں ربوبیت کو خلق پر مقدم کرنے میں یہی رمز پوشیدہ ہے کہ انسان کو ربوبیت کا تصور پہلے حاصل ہوتا ہے۔
(کتاب’’مطالباتِ دین ‘‘سے مقتبس)