عید پر منفرد نظر آنے کی خواہش
رمضان اور عید کی تیاریاں ساتھ ساتھ شروع ہوتی ہیں ،جوں جوں رمضان المبارک کا آخری عشرہ قریب آنے لگتا ہے ،ویسے ویسے عید کی تیاریوں میں بھی شدت آجاتی ہے،کہیں ٹیلر ماسٹر کے نخرے اور کہیں وقت پر جوڑا سی کر نہ دینے پر جھگڑے ۔ اگر سی دیا تو وہ ڈیزائن نہیں بنایاجو کہا گہا تھا۔ مکان پر رنگ روغن ہونے لگتا ہے تو مالکن کو گھر کی ڈیکوریشن کی فکر لاحق ہوتی ہے، پردے صاف کرائے جاتے ہیں، کچن آئٹمز کے لئے ایک لمبی فہرست لے کر صاحب خانہ گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں ، لیکن اس مرتبہ کورونا نے عید کی خوشیوں کو بڑھانے والی یہ چہل پہل بھی روک دی ہے۔
ہر لڑکی عید کے دن منفرد نظر آنا چاہتی ہے، ہیئر اسٹائل بنانے والی اشیاء سے لیکر سینڈل یا جوتوں تک ہر چیز باریکی سے پرکھنے کے بعد ہی خریدی جاتی تھی،یوں بھی چوڑیوں ، لباس اور میک اپ کا چولی دامن کا ساتھ ہے، چوڑیاں لباس کے رنگوں سے مشابہہ نہ ہوں تو مزہ ہی نہیں آتا،ان دنوں کرتے اور ٹراؤزر کے علاوہ لمبی قمیضوں اور چھوٹی ، دونوں قسم کی قمیضوں کا فیشن کورونا سے پہلے بہت عام تھا لیکن اب بھی نہیں بدلا۔ سیل نہ ہونے سے اکثر مارکیٹوں میں پرانے ڈیزائنز کے ٹو پیس اور تھری پیس سوٹس لٹک رہے ہیں،فروخت کم ہونے سے سیلیں بھی لگی ہوئی ہیں، خواتین دوپٹے اور میچنگ ٹراؤزر خرید رہی ہیں ۔
اس سال نخریلے ٹیلر ماسٹروں کی عقل ٹھکانے آ گئی ہے کیونکہ میں نے کل ہی دیکھا ہے کہ ملک کے بعض بڑے برانڈزنے بھی 30فیصد سے 70فیصد تک سیل لگا دی ہے۔کئی ایک نمونے تو ختم بھی ہو چکے ہیں، کئی برانڈز نے ایک دن میں ڈلیوری سسٹم بھی متعارف کر دیا ہے، لو یہ مشکل تو کم ہوئی۔پہلے تو بازار بازارپھرنے کے بعد کہیں سے سوٹ اور کہیں سے دوپٹہ پسند آتا تھا مگر اب جتنی دیر چاہو گھر بیٹھ کر کمپیوٹریا موبائل فون کی سکرین پر ڈیزائنیزکو دیکھتے رہو ۔بدلتے طریقے سے بچت ہو گی اور کورونا کو شکست دینا بھی آسان ہو جائے گا۔
تاہم ان کے لئے مشکل برقرا ررہے گی جنہیں ریڈی میڈ جوڑے کبھی پسند نہیں آئے ، جو اپنے ڈیزائن بھی منفرد رکھنا چاہتی ہیں اور جن کے ٹیلر ماسٹرز بھی مخصوص ہوتے ہیں ، کئی کئی عشروں تک بعض خواتین ایک ہی ٹیلرماسٹرسے کپڑے سلواتی ہیں کیونکہ یہ ٹیلرز خواتین کے بتائے ہوئے ڈیزائن کو پک کر لیتے ہیں، وہ کہیں بھی دکان شفٹ کر لیں ، اپنی پسند کے اچھے ڈیزائن سلوانے کی خواہش مند خواتین پہنچ ہی جاتی ہیں ۔ ورنہ اکثر ٹیلرز کو کہو کہ بیل گلے کے ساتھ لگانی ہے توقمیض کے نچلے حصے میں جوڑ دیتے ہیں۔ ایسے ٹیلر ماسٹروں کے ساتھ جھگڑنے سے کیا فائدہ ۔ملبوسات کے رنگوں سے میچ کرنے والے جوتوں اور سینڈلز کا انتخاب کیا جاتا ہے مگر ڈیزائن بھی تو مقبول ہونا چاہئے ۔ اونچی ہیل والے سینڈلز آج کل بھی توجہ کا مرکز ہیں مگر کولہا پوری چپل اور کندن والے کھسوں کی مانگ بھی کم نہیں ہوئی۔ ان کے لئے مارکیٹ میں جوتیاں چٹخانے کی کوئی ضرورت نہیں، ہر سینڈل اور جوتا ایک فون کال کے فاصلے پر ہے۔
میک اپ جلدکی رنگت کی مناسب سے نہ کیا جائے تو اچھا نہیں لگتا، دو تین سال قبل بیوٹی پارلرز والے بھی قابو نہیں آرہے تھے۔ من چاہئے ریٹس بھی دینے کو تیار تھے ہم ....لیکن وقت ہی نہیں ملتا تھا۔ اس سال کورونا نے بیوٹی پارلروں کے ہوش بھی ٹھکانے لگا دیئے ہیں۔ ہفتہ کے روز میں نکلی تو کئی دکانوں پر پڑے تالے منہ چڑا رہے تھے۔اب خود ہی گھرپر میک اپ کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، بعض پوش سوسائٹیوں میں بھی بیوٹیشن کے کورسز کرانے والیوں کی تعداد برابر بڑھ رہی ہے۔ خواتین خود بھی سیکھ رہی ہیں ا ور میک اپ کرنے والی لڑکیوں کو گھروں پر بھی بلا رہی ہیں۔ یہی ہے کورونا کا سبق اوریہی تو ہیں عید کے ر نگ ۔انہی تیاریوں میں ایک اور اہم تیاری میک اپ ، چوڑیوں اور مہندی کے انتظام کی بھی ہوتی ہے ۔
میری کئی سہیلیوں نے تو آن لائن چوڑیاں منگوا لی ہیں، آپ کیا کہتی ہیں؟ پہلے بڑی مشکل ہوتی تھی ، بھائی ساتھ نہ جائے توکیا کریں، کسی بڑے کے پاس وقت نہ ہو تو بازار کیسے جائیں، وقت نے خواتین اور لڑکیوں کی یہ بے بسی ختم کر دی ہے۔اب تو سکول کی بچیاں بھی میک اپ کا سامان اور چوڑیاں آن لائن منگوا رہی ہیں ۔ ہم یہ بھی بتائے دیتے ہیں کہ آپ کے خوش رنگ ملبوسات ،چوڑیوں اور مہندی کی تیاری میں کہیں بچیوں اور بچوں کے خون کے آنسو بھی شامل ہوتے ہیں آپ پلیز ان کا بھی سوچئے گا۔ یہ تو آپ جانتی ہی ہیں کہ چائلڈ لیبر دنیا بھر میں ایک برائی ہے ،جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ آپ کی چوڑیوں میں چائلڈ لیبر سب سے زیادہ شامل ہے،یہ اتنا بڑا ظلم ہے کہ اس سے بچیوں کے ہاتھ کی لکیریں تک مٹ جاتی ہیں۔ حیدر آباد چوڑیوں کا گھر کہلاتاہے۔ تقریباََ چار لاکھ خواتین اس انڈسٹری سے منسلک تھیں ،معلوم نہیں کورونا کے بعد ان کی تعداد کتنی رہ گئی ہے ۔
دونوں ممالک (پاکستان اور انڈیا) کے حیدر آباد کی تنگ و تاریک گلیوں میں داخل ہوتے ہی آپ کو ہاتھ جلا دینے والے کیمیکلز کی بو بھی آئے گی اور پیروں کو چھلنی کر دینے والی شیشے کی کرچیاں جا بجا بکھری نظر آئیں گی۔دکھ تو اس بات کا ہے کہ چوڑیاں بنانے والی بھٹیوں کے مالک بھٹہ مالکان کی طرح بچیوں کو عید کی خوشی میں بھی چوڑیاں نہیں دیتے ، تھیلے بھرنے کے بعد بھی ان کو دن بھر میں اتنے پیسے بھی نہیں ملتے کہ یہ پیٹ بھر کر کھانا کھا سکیں ۔350 چوڑیاں بنانے کے 10 روپے ملتے تھے ۔اس طرح 350چوڑیاں بنانے پر خرچہ 30روپے سے زیادہ کا نہیں ہوتا تھا،لیکن مارکیٹ میں ان کی قیمت من مانی بنتی تھی ، کم سے کم 120روپے ۔ یہ سارا منافع چوڑی ساز اداروں اور دکانداروں کی جیب میں جاتا ہے ،شعلوں میں لڑکیوں کے ہاتھ اتنی بار جلتے ہیں کہ وہ اپنی پہچان (لکریں ) کھو دیتی ہیں۔جبکہ سانس کی بیماریاں الگ ہوتی ہیں۔جسم جل جائے تو کوئی مدد کو نہیں آتا،اس لئے جب بھی چوڑیاں پہنیں تو ان لڑکیوں کو ضرور یاد کیجئے گا اورحید آباد(سندھ)سے گزر ہو تو چوڑی پاڑہ کے علاقے میں ان کی مدد ضرور کیجئے گا۔
عید کے آنے کی خوشی اور رمضان کے جانے کا غم سبھی کوہے۔ہمارے لئے دونوں ہی اہم ہیں۔ رمضان میں روزے رکھنا اور عید کا دن منانا مسلمانوں پر فرض ہے۔