ہاجرہ مسرور : ایک باکمال افسانہ نویس
انہوں نے عورتوں کے حقوق کے بارے میں بہت لکھاوہ اردو کی مشہور ادیبہ خدیجہ مستور کی چھوٹی بہن تھیں غیر روایتی انداز میں افسانے لکھتیں، اس لئے تنازعات کا شکار بھی ہوئیں
اُردو ادب میں جہاں مرد افسانہ نگاروں نے اپنی فنی عظمت کے نقوش ثبت کئے وہاں خواتین بھی اس میدان میں پیچھے نہیں رہیں۔ ان میں قراۃ العین حیدر اور عصمت چغتائی کے نام سرفہرست ہیں۔ قراۃ العین حیدر کی ناول نگاری کے بارے میں کیاکہا جائے۔ وہ بلاشبہ ایک عظیم ناول نویس تھیں۔ لیکن ناولوں کے علاوہ انہوں نے افسانہ نویسی میں بھی اپنے آپ کو منوایا۔ عصمت چغتائی نے بھی ناول نویسی اور افسانہ نگاری میں اپنا ایک الگ مقام بنایا۔ اس صف میں ہاجرہ مسرور کا نام اگر شامل نہ کیا جائے تو یہ ناانصافی ہوگی۔ یہ وہ افسانہ نویس تھیں جنہوں نے عورتوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھائی۔ اس لحاظ سے انہیں جتنا بھی خراج عقیدت پیش کیا جائے کم ہے۔
ہاجرہ مسرور17جنوری1929ء کو لکھنئو(بھارت) میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ڈاکٹر ظہور احمد خان برطانوی حکومت میں آرمی ڈاکٹر تھے۔ وہ دل کے دورے کے باعث انتقال کر گئے۔ ہاجرہ مسرور کی پانچ بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی تھا۔ ان کی والدہ نے اس موقع پر خاندان کو سنبھالا۔ ہاجرہ نے بچپن سے ہی لکھنا شروع کر دیا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ اور ان کی ہمشیرہ پاکستان آ گئیں اور لاہور میں مقیم ہو گئیں۔ وہ اُردو کی مشہور ادیبہ خدیجہ مستور کی چھوٹی بہن تھیں۔ ہاجرہ مسرور کی کہانیاں ادبی جرائد میں بڑی باقاعدگی سے چھپتی تھیں۔ ادبی حلقوں میں ان کی کہانیوں کو بہت پسند کیا جاتا تھا۔ انہوں نے احمد ندیم قاسمی کے ساتھ ان کے ماہنامہ جریدے کیلئے کام کیا۔ وہ غیر روایتی انداز میں افسانے لکھتی تھیں۔ اس لئے وہ تنازعات کا شکار بھی ہوئیں۔ پھر ایک مرحلہ ایسا آیا کہ انہوں نے لکھنا چھوڑ دیا اور بڑی خاموشی سے زندگی گزارنا شروع کردی۔ لیکن اس کے باوجود ادبی حلقوں میں ان کی کمی بہت محسوس کی جاتی تھی۔ وفات سے کم از کم 20برس قبل انہوں نے لکھنا چھوڑ دیا تھا۔ ایک زمانے میں ان کے فیض احمد فیض کے ساتھ اختلافات پیدا ہو گئے اور کچھ لوگوں نے ان اختلافات کو بہت ہوا دی۔ اس پر بہت سے لوگوں نے ان سے منہ موڑ لیا۔ انہیں ہاجرہ آپا کہہ کر پکارا جاتا تھا۔
اصل میں ہاجرہ مسرور پر اپنے شوہر احمد علی خان کی وفات کا بہت اثر ہوا اور پھر وہ نارمل زندگی بسر نہ کر سکیں۔ ان کی ایک چھوٹی بہن عائشہ جمال نے بھی افسانے لکھے لیکن وہ کوئی خاص مقام نہ بنا سکیں۔
ہاجرہ مسرور اور ان کی بہنوں کو لکھنئو میں یہ سہولت حاصل تھی کہ وہ ایک ایسے مکان میں رہتی تھیں جہاں کتابیں رکھنے کی بہت جگہ تھی۔ ان کے گھر بہت سے ادبی جرائد بھی منگوائے جاتے تھے۔ ان بہنوں نے لکھنا شروع کیا اور ان کی کہانیاں جن ادبی جرائد میں چھپتی تھیں ان میں’’ادبی دنیا‘‘، ’’ہمایوں‘‘، ’’ ساقی‘‘،’’ خیام‘‘ اور’’ عالمگیر‘‘ شامل ہیں۔ ہاجرہ کو پانچ کہانیوں کے عوض 15روپے ملتے تھے۔ آزادی سے کچھ عرصہ قبل خدیجہ مستور اور ہاجرہ مسرور نے آل انڈیا ریڈیو کے لکھنئو سٹیشن پر اپنی کہانیاں ریکارڈ کرائیں۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان پہلے ممبئی سے کراچی آیا اور پھر لاہور شفٹ ہو گیا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ ابھی وہ ممبئی میں تھیں تو ان کے دو افسانوی مجموعے’’چرکے کے‘‘ اور ’’ہائے اللہ‘‘ شائع ہو گئے۔ ان کی پہلی کتاب سے انہیں40روپے رائلٹی ملتی تھی جبکہ دوسری کتاب سے انہیں 600 روپے ملے۔
پاکستان میں ہاجرہ مسرور نے کئی ادبی جرائد کیلئے لکھنا شروع کیا اور یہاں ان کے چار افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے۔ لاہور میں ان کا افسانوی مجموعہ’’سب افسانے میرے‘‘ شائع ہوا جبکہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے ان کی بچوں کی دو کہانیاں شائع کیں۔ ان کہانیوں کے بارے میں یہ متفقہ رائے ہے کہ یہ بہت اعلیٰ پائے کی کہانیاں تھیں۔
ایک دفعہ ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے اپنی بہن خدیجہ مستور کی طرح ناول کیوں نہیں تحریر کیے۔ حالانکہ جبکہ خدیجہ مستور نے ناول نویسی کی وجہ سے بہت نام کمایا۔ اس پر ہاجرہ مسرور نے کہا تھا کہ خدیجہ ایسا کر سکتی تھی کیونکہ اس میں صبر بھی تھا اور استقامت بھی۔ اس کے علاوہ ناول لکھنے کیلئے جو ارتکاز درکار ہوتا ہے وہ بھی اس میں بہت تھا جبکہ مجھ میں نہیں۔ ہاجرہ مسرور نے سادہ مگر موثر نثر تحریر کی۔ ان کے استعارے ایک مکمل جہان لیے ہوئے تھے۔ ان کی کردار نگاری میں بھی اتنی ہی لطافت تھی جتنی کہ ان کی علامتوں میں ہوتی تھی۔ پھر ان کا یہ وصف بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ ان کا انداز بیاں نہایت اثر انگیز تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کہانی لکھنے کا ڈھنگ جانتی تھیں۔ یہ بات حیران کن نہیں کہ اب بھی ان کی کہانیاں پڑھ کر قاری لطف اندوز ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ کہانیاں 50اور 60کی دہائی میں لکھی گئی تھیں۔
1962ء میں مجلس ترقی ادب نے انہیں ’’رائٹر آف دی ایئر‘‘ ایوارڈ دیا۔ یہ ایوارڈ انہیں ان کے ایک ایکٹ کے ڈراموں کے مجموعے ’’وہ لوگ‘‘ پر دیا گیا۔ ان کے ڈراموں کے مجموعوں کے دیباچے فیض احمد فیض اور امتیاز علی تاج نے تحریر کیے تھے۔ ہاجرہ مسرور نے کبھی فلمی کہانیوں پر توجہ نہیں دی لیکن انہوں نے 60کی دہائی میں صرف ایک فلم کا سکرپٹ لکھا۔ انہوں نے اس فلم کی نہ صرف کہانی لکھی بلکہ مکالمے بھی تحریر کیے۔ انہیں اس فلم کا بہترین سکرپٹ لکھنے پر نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اس فلم کے بارے میں یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا کہ اداکارہ شبنم نے مشرقی پاکستان میں بننے والی اس اردو فلم میں سب سے بہترین کارکردگی دکھائی۔ کہا جاتا ہے کہ ’’آخری سٹیشن‘‘ کے بعد ہاجرہ مسرور کو دیگر فلموں کی کہانیاں لکھنے کیلئے بھی کہا گیا لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔
ہاجرہ مسرور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک جرأت مند ادیبہ تھیں اور انہوں نے جو لکھا بڑی بے خوفی سے لکھا۔ انہوں نے کبھی مصلحت سے کام نہیں لیا وہ جو لکھنا چاہتی تھیں وہ لکھا اور اپنے اصولوں پر ہمیشہ قائم رہیں۔ انہیں 1995ء میں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں نگار ایوارڈ اور عالمی فروغ اردو ادب ایوارڈ بھی دیا گیا، ان کے افسانوی مجموعوں میں’’چاند کی دوسری طرف، تیسری منزل، اندھیرے اجالے، چوری، چھپے، ہائے اللہ، چرکے، وہ لوگ‘‘ اور ’’طمع‘‘ شامل ہیں۔
اُردو کے ایک ادیب نے ایک جگہ لکھا ہے کہ بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ ہاجرہ مسرور کی ساحر لدھیانوی سے منگنی ہو چکی تھی لیکن پھر یہ منگنی ٹوٹ گئی۔ اس منگنی کے ٹوٹنے کی وجہ بھی بہت دلچسپ بیان کی جاتی ہے۔ ایک ادبی محفل میں ساحر لدھیانوی نے پڑھتے ہوئے تلفظ کی غلطی کر دی جس پر ہاجرہ نے ان پر تنقید کی۔ اس پر ساحر نے ناراضی کا اظہار کیا اور پھر ان کی منگنی ٹوٹ گئی۔ بعد میں ہاجرہ کی شادی معروف صحافی احمد علی خان سے ہو گئی جو ایک مشہور انگریزی اخبار کے ایڈیٹر تھے۔
15ستمبر 2012ء کو ہاجزہ مسرور کا 82ء برس کی عمر میں کراچی میں انتقال ہو گیا۔ حقوق نسواں کی اس علمبردار کا نام زندہ رہے گا۔
عبدالحفیظ سینئر صحافی ہیں اور روزنامہ ’’دنیا‘‘ سے طویل عرصہ سے وابستہ ہیں