علامہ صاحب کی رمزیہ شاعری
لالہ جذبۂ عشق کی نکھری ہوئی صورت کے طور پر شوقِ شہادت کا عکاس بھی ہے اور محض حسن و رعنائی کی علامت بھی
کلام اقبالؔ میں لالہ کی علامت بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ رمزِ دلکش ان کے کلام میں کثرت سے موجود ہے اور اندازہ یہ ہے کہ ان کے ہاں تقریباً دوسو مقامات پر لالہ کا ذکر آیا ہے جو ان کی اس پھول سے وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔ انھوں نے موسمِ بہار میں نمود کرنے والے اس چھوٹے سے سرخ پھول سے متنوع معانی پیدا کیے ہیں۔ اس کا تیز رنگ علامہ کیلئے بڑی کشش رکھتا ہے اور وہ اس کی حدت انگیز سرخی کے پیش نظر اسے مختلف ناموں سے پکارتے ہیں۔
شعراقبالؔ (اردو و فارسی) میں اس حوالے سے ’’لالۂ صحرا‘‘، ’’لالۂ آتشیں پیرہن‘‘، ’’لالۂ پیکانی‘‘،’’لالۂ خودرو‘‘، ’’لالۂ خونیں کفن‘‘،’’لالۂ دل سوز‘‘، ’’لالۂ صحرائی‘‘،’’لالۂ آتش بجاں‘‘، ’’لالۂ احمر‘‘، ’’لالۂ حمرا‘‘،’’لالۂ تشنہ کام‘‘، ’’لالۂ خورشیدِ جہاں تاب‘‘،’’لالۂ خونیں پیالہ‘‘، ’’لالۂ صحرا مست‘‘،’’لالۂ صحرانشیں‘‘، ’’لالہ ہاے نعمانی‘‘،’’لالۂ ناپایدار‘‘ اور ’’لالۂ طُور‘‘ جیسی مؤثر ترکیبی صورتیں موجود ہیں۔ اردو کلام میں ہر شعری دور میں لالہ کی علامت موجود ہے۔
اقبالؒنے لالہ کے گوناگوں ابعاد کو سامنے رکھتے ہوئے بڑی معنی خیز فضائیں تشکیل دی ہیں۔ یہ علامت ایک ارتقائی کیفیت بھی رکھتی ہے اور علامہ کے مختلف ادوارِ شعری میں اس کے نئے نئے رنگ نظر آتے ہیں۔ ابتدائً وہ اسے عشق کے روایتی معنوں میں برت کر شہید محبت کی علامت بناتے ہیں تاہم رفتہ رفتہ یہ نت نئے مضامین میں ڈھل کر بے مثل صورتیں اختیار کر لیتی ہے۔
لالہ جذبۂ عشق کی نکھری ہوئی صورت کے طور پر شوقِ شہادت کا عکاس بھی ہے اور محض حسن و رعنائی کی علامت بھی۔خاص طور پر جب اقبالؒ اسے تہذیبِ حجازی کی علامت کے طور پر متعارف کراتے ہیں تو لطف دوگونہ ہو جاتا ہے۔ ایسے مواقع پر ان کے داخلی واردات کی شمولیت سے عجیب و غریب رنگ آمیزی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ کہیں کہیں لالہ خود شاعر کی اپنی ذات کی علامت بن گیا ہے اور کہیں اس سے باطنی حقائق کی ترجمانی ہوتی ہے۔ بعینہٖ یہ فرد اور ملت دونوں کے حوالے سے علامہ کے منفرد خیالات کا آئینہ دار ہونے کے ناتے فکرِ اقبالؒ کی تفہیم میں بھرپور کردار ادا کرتا ہے۔
یہ گل بہاریں جسے اقبالؒ ’’گل نخستیں‘‘ بھی کہتے ہیں اوّل اوّل ان کے کلام میں کسی قدر کلاسیکی شاعری کے مروج معنوں میں مستعمل ملتا ہے۔ اس روایتی علامتی پیمانے کے تحت وہ اسے ایک عاشق یا ’’شہید محبت‘‘ کی صورت میں پیش کرتے ہیں جو جگر سوختہ ہے۔
لالہ کی علامت اپنے حسن و رعنائی اور شدت و حدت کے باعث بھی شعراقبالؔ کا حصہ بنتی نظر آتی ہے۔ اس گلِ ارغوانی کی سرخی اور تیزی کو سراہتے ہوئے علامہ نے اکثر اوقات اسے بہار، نشاط اور عروج کی علامت کے طور پر پیوندِ شعر کیا ہے ۔دیکھیے ذیل کے اشعار میں یہ رمز کس لطافت سے بہاریہ و نشاطیہ منظرنامے کی تشکیل کرتی ہے:
جوئے سرود آفریں آتی ہے کوہسار سے
پی کے شرابِ لالہ گوں مے کدئہ بہار سے
……
سورج نے جاتے جاتے شامِ سیہ قبا کو
طشت اُفق سے لیکر لالے کے پھول مارے
……
ضمیرِ لالہ مئے لعل سے ہوا لبریز
اشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہیز
……
پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغِ چمن
……
حضورِ حق سے چلا لے کے لولوے لالا
وہ ابر جس سے رگِ گل ہے مثلِ تارِ نفس
……
بہار و قافلۂ لالہ ہاے صحرائی
شباب و مستی و ذوق و سرور و رعنائی!
یہ حقیقت ہے کہ گُلِ لالہ کی علامت کا ایک دلآویز اور نسبتاً نمایاں پہلو وہ ہے جس کے تحت اقبالؒ نے اس سے فرد اور ملت کے مسائل کی عقدہ کشائی کی کاوشِ پُرسوز کی ہے۔ اس قبیل کے اشعار میں لالہ کبھی ملتِ اسلامیہ کے ان افراد کی ترجمانی کرتا ہے جو سینے پر تحرک و حرارت کا داغ نہیں رکھتے یا جن کے دلوں میں چراغِ آرزو نہیں جلتا، جو تہی جام ہیں، بے سو زِجگر اور سوزِ دروں سے عاری ہیں:
اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ جو سینے میں رکھتے ہوں، وہ لالے ہی نہیں
……
ابرِ نیساں! یہ تنک بخشیِ شبنم کب تک
مرے کہسار کے لالے ہیں تہی جام ابھی
……
یوں تو روشن ہے مگر سوزِ دروں رکھتا نہیں
شعلہ ہے مثلِ چراغِ لالۂ صحرا ترا
……
چمن میں رختِ گل شبنم سے تر ہے
سمن ہے، سبزہ ہے، بادِ سحر ہے
……
مگر ہنگامہ ہو سکتا نہیں گرم
یہاں کا لالہ بے سوزِ جگر ہے
دراصل ایسے مواقع پر اقبالؒ نے لالہ کو عشق، سوز، تڑپ اور جنوں کی اس حالت سے تعبیر کیا ہے جو حصول مقصد کی غایتِ اولیٰ قرار دی جا سکتی ہے اور اسی مرحلے پر ہی ان کی یہ آتشیں پیرہن رمز گل و بلبل کی روایت سے نکل کر آفاقی مرتبے پر فائز ہو جاتی ہے۔ بلاشبہ لالہ کی علامت کا یہ پہلو لائق تحسین ہے۔اقبالؒ کے ہاں لالہ فرد کے ساتھ ساتھ بہت حد تک سرگزشت ملت بیضا کا ترجمان بھی ہے اور تہذیب حجازی کے مدّوجزر کی بڑی پُرتاثیر تصویریں پیش کرتا ہے یہ تصویریں بیک وقت ندائیہ و استہزائیہ اور رجائیہ و دعائیہ جذبات لیے ہوئے ہیں۔ چند شعر:
یہ چمن وہ ہے کہ تھا جس کیلئے سامانِ ناز
لالۂ صحرا جسے کہتے ہیں تہذیبِ حجاز
……
وہ بھی دن تھے کہ یہی مایۂ رعنائی تھا
نازشِ موسمِ گل لالۂ صحرائی تھا
……
ہو گئی رسوا زمانے میں کلاہِ لالہ رنگ
جو سراپا ناز تھے، ہیں آج مجبورِ نیاز
……
ضمیر لالہ میں روشن چراغِ آرزو کر دے
چمن کے ذرّے ذرّے کو شہیدِ جستجو کر دے
……
خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
قبا چاہیے اس کو خونِ عرب سے
……
حاجت نہیں اے خطۂ گل شرح و بیاں کی
تصویر ہمارے دلِ پُرخوں کی ہے لالہ
اقبالؒ لالے کی آتش قبائی، خودروئی، دل سوزی، سرخوشی و رعنائی اور چاک پیرہنی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس رمز بلیغ و دلنشین کو تلقین عمل کیلئے بھی بڑی خوبی سے برتتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا بنیادی مقصد افرادِ ملت کے دلوں میں تگ و تاز پیدا کرنا ہے، مثلاً لکھتے ہیں:
حنا بندِ عروسِ لالہ ہے خونِ جگر تیرا
تری نسبت براہیمی ؑ ہے، معمارِ جہاں تو ہے
کہیں کہیں وہ لالہ کو اپنی ذات کی علامت بناتے ہوئے بھی نظم کرتے ہیں اور اس ضمن میں بھی اس گلِ احمریں کے تمام تر تلازمات ان کے پیش نظر رہتے ہیں۔ داخلی واردات و جذبات پر مبنی چند شعر دیکھیے جن میں علامہ نے لالہ کی علامت کے ذریعے تعلی کے انداز میں اپنی شاعری کی افضیلت ظاہر کی ہے۔
لالہ کی علامت کے ضمن میں لائقِ تحسین امر یہ بھی ہے کہ بعض اوقات شاعر نے اپنی ذات کی شمولیت سے اس کے خط وخال روشن تر کر دیئے ہیں اور کمال مہارت سے ملتِ اسلامیہ کے فردِواحد کے جذبات سامنے آ جاتے ہیں۔ اس کی دلکش مثال کے طور پر اقبالؔ کی نظم ’’لالۂ صحرا‘‘ کا انتخاب کیا جا سکتا ہے جس میں لالہ کی علامت کے مذکورہ تمام عناصر پورے رچائو سے سما گئے ہیں، نظم یہ ہے:
یہ گنبدِ مینائی، یہ عالمِ تنہائی
مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی
بھٹکا ہوا راہی میں، بھٹکا ہوا راہی تُو
منزل ہے کہاں تیری اے لالۂ صحرائی!
خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ
تو شعلۂ سینائی، میں شعلۂ سینائی!
تو شاخ سے کیوں پھوٹا،
میں شاخ سے کیوں ٹوٹا
اک جذبۂ پیدائی، اک لذّتِ یکتائی!
غواّصِ محبت کا اللہ نگہباں ہو
ہر قطرئہ دریا میں دریا کی ہے گہرائی
اُس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اُٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
ہے گرمیِ آدم سے ہنگامۂ عالم گرم
سورج بھی تماشائی، تارے بھی تماشائی
اے بادِ بیابانی! مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دل سوزی، سرمستی و رعنائی!
لالہ سے متعلق یہ نکات شاہد ہیں کہ یہ کلامِ اقبالؔ میں خاموشی و دلسوزی، سرمستی و رعنائی کی ایک دلکش علامت کے طور پر ابھرا ہے جس کی نظیر بہم پہنچانا یقینا محال ہے۔
ابرِ کوہسار (علامہ اقبالؒ)
ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا
ابرِ کہسار ہوں گل پاش ہے دامن میرا
کبھی صحرا، کبھی گلزار ہے مسکن میرا
شہر و ویرانہ مرا ، بحر مرا ، بن میرا
کسی وادی میں جو منظور ہو سونا مجھ کو
سبزۂ کوہ ہے مخمل کا بچھونا مجھ کو
مجھ کو قدرت نے سکھایا ہے درافشاں ہونا
ناقۂ شاہدِ رحمت کا حُدی خواں ہونا
غم زدائے دل افسردۂ دہقاں ہونا
رونقِ بزمِ جوانانِ گلستاں ہونا
بن کے گیسو رخِ ہستی پہ بکھر جاتا ہوں
شانۂ موجۂ صرصر سے سنور جاتا ہوں
دور سے دیدۂ امید کو ترساتا ہوں
کسی بستی سے جو خاموش گزر جاتا ہوں
سیر کرتا ہوا جس دم لبِ جُو آتا ہوں
بالیاں نہر کو گرداب کی پہناتا ہوں
سبزۂ مزرعِ نوخیز کی امید ہوں میں
زادۂ بحر ہوں پروردۂ خورشید ہوں میں
چشمۂ کوہ کو دی شورشِ قلزم میں نے
اور پرندوں کو کیا محوِ ترنم میں نے
سر پہ سبزے کے کھڑے ہو کے کہا قُم میں نے
غنچۂ گل کو دیا ذوقِ تبسم میں نے
فیض سے میرے نمونے ہیں شبستانوں کے
جھونپڑے دامنِ کہسار میں دہقانوں کے