جادوئی سکہ

تحریر : دانیال حسن چغتائی


دور دراز کی پہاڑیوں میں ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ چھوٹے چھوٹے گھر تھے۔سبز لہلہاتے کھیت تھے۔علی نام کا ایک لڑکا وہاں رہتا تھا۔ علی بہت بہادر تھا۔علی معمول کے مطابق اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔سب دوست چھپن چھپائی کھیل رہے تھے۔ کچھ بچے کھیت میں اور کچھ جنگل میں چھپ گئے۔ علی بھی ان بچوں کے ساتھ چھپ گیا۔

جنگل میں اسے زمین پر پڑی ایک سنہری چیز دکھائی دی جو سورج کی روشنی کی وجہ سے خوب چمک رہی تھی۔ جب علی نے قریب جاکر اسے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ سنہری سکہ تھا۔علی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

جیسے ہی علی نے اس سکے کو زمین سے اٹھایا، اسے ایک عجیب سی سنسنی محسوس ہوئی۔ ایک جادوئی آواز نے اس کے کان میں سرگوشی کی، ’’اب سے ہر چیز جو تم چھوؤ گے ،سونا بن جائے گی ‘‘۔علی پرجوش ہونے کے ساتھ ساتھ خوفزدہ تھا۔وہ نہیں جانتا تھا کہ اس جادوئی سکے کے ساتھ کیا کرنا ہے۔

جیسے ہی علی نے سونے کا سکہ تھاما ،اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔اس نے خود سے پوچھا ’’کیا ایسا ہوگا ؟کیا میں ہر چیز کو سونے میں بدل سکتا ہوں ؟‘‘اس نے جنگل کے چاروں طرف نظر دوڑائی ،سوچا کہ پہلے کس چیز کو چھوئے۔

علی نے سکے کی طاقت کو جانچنے کا فیصلہ کیا۔سب سے پہلے اس نے ایک پتے کو چھوا تو وہ سونے میں بدل گیا۔ اس نے ایک چٹان کو چھوا وہ بھی سونے میں بدل گئی۔ علی کا جوش بڑھ گیا اور اس نے ان تمام حیرت انگیز چیزوں کا تصور کرنا شروع کر دیا جن کو وہ سونے میں بدل سکتا تھا۔

ہر تجربے کے ساتھ علی کو اپنی نئی طاقت کے نتائج کا احساس ہونے لگا۔ اس نے خوبصورت پھول کو چھوا تو وہ اپنی خوشبو اور نازک خوبصورتی کو کھو کر سونے میں بدل گیا۔ اس نے گھونسلے کو چھوا تو وہ سونا بن گیا، جس سے پرندے بے گھر ہو گئے۔

علی کو ندامت اور اداسی کا احساس ہونے لگا۔ وہ سمجھ گیا کہ اس کی طاقت صرف تحفہ نہیںبلکہ ذمہ داری بھی ہے۔اس نے اپنے گاؤں کے بارے میں سوچا کہ کس طرح اس کی طاقت گاؤں والوں کی مدد کرسکتی ہے ،لیکن اسے سمجھداری سے استعمال نہ کیا جائے تو اس سے نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ وہ بروقت سمجھ گیا تھا اور یوں اس نے سکہ گاؤں والوں کی فلاح و بہبود کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

سردیوں کی چھٹیاں !

عدنان آج بے حد خوش تھا ،کیونکہ امتحانات کے بعد سردیوں کی چھٹیاں ہوچکی تھیں۔

مطیعِ اعظم (دوسری قسط )

بیماری کی اسی کیفیت میں چند دنوں کے بعد حجاج آپؓ کی تیمارداری کیلئے آیا۔ باتوں باتوں میں اس نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ’’ ابو عبدالرحمنؓ! تجھے کس نے زہر آلود کردیا ہے‘‘؟۔ابن عمرؓنے کہا: ’’تم یہ جان کر کیا کرو گے‘‘؟۔حجاج نے جواب دیا ’’ اگر میں اس کو قتل نہ کر دوں تو اللہ مجھے ہلاک کر دے‘‘۔

پڑھو اور جانو

٭…بال پوائنٹ پین 1888ء میں ایجا د ہوا ٭…پیپر مشین 1809ء میں ایجاد ہوئی ٭…پرنٹنگ پریس 1475ء میں ایجاد ہوئی

متفرق ودلچسپ

٭… دریا نیل دنیا کا سب سے لمبا دریا ہے جس کی لمبائی 6670 کلومیٹر ہے۔

پہیلیاں

اجلا پنڈا رنگ نہ باس کام کی شے ہے رکھنا پاس (سکہ)

ذرا مسکرائیے

قصاب ایک بکرے کو کان سے پکڑ کر لے جا رہا تھا۔ ایک بچی نے دیکھا تو قصاب سے پوچھا کہ آپ اس بکرے کو کان سے پکڑ کر کہاں لے جا رہے ہیں؟