حضرت امیر خسرو اور بچے

بچو! آپ حضرت امیر خسروؒ کو خوب جانتے ہونگے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ امیر خسروؒ گھوڑے پر سوار کہیں سے آ رہے تھے۔ مہر ولی پہنچتے ہی انہیں پیاس لگی، آہستہ آہستہ پیاس کی شدت بڑھتی چلی گئی۔ انہوں نے اپنے پانی والے چمڑے کا بیگ کھولا اس میں ایک قطرہ بھی پانی نہ تھا، وہ خود اپنے سفر میں سارا پانی پی چکے تھے۔ مئی، جون کے مہینوں میں آپ جانتے ہی ہیں دلّی میں کس شدت کی گرمی پڑتی ہے۔ انہوں نے دیکھا کچھ دور آم کا ایک گھنا باغ ہے۔ اس کے پاس ہی ایک کنواں ہے۔
نزدیک آئے تو دیکھا وہاں چند بچے ایک پیڑ کے نیچے بیٹھے رسیلے آم چوس رہے ہیں اور مٹکے سے پانی نکال نکال کر پی رہے ہیں۔ پانی کا مٹکا دیکھ کر حضرت امیر خسروؒ کی پیاس اور بڑھ گئی۔ یوں تو وہ آم کے دیوانے تھے ، لیکن اس وقت آم کا زیادہ خیال نہیں آیا، بس وہ پانی پینا چاہتے تھے۔
گھوڑے پر سوار، آہستہ آہستہ وہ بچوں کے پاس آئے۔ بچوں نے انہیں فوراً پہچان لیا۔ خوشی سے چیخنے لگے ’’ خسرو بابا خسرو بابا‘‘۔ امیر خسروؒ انہیں اس طرح خوشی سے اُچھلتے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ آپ گھوڑے سے اُترے تو بچوں نے انہیں گھیر لیا۔
’’ خسرو بابا، خسرو بابا کوئی پہیلی سنایئے‘‘۔ بچوں کی آوازیں اِدھر اُدھر سے آنے لگیں۔ ’’نہیں بابا آج پہیلی وہیلی کچھ بھی نہیں، مجھے پیاس لگ رہی ہے میری کٹوری میں پانی بھر دو تاکہ میری پیاس بجھے، اور میرے گھوڑے کو بھی پانی پلا دو‘‘۔ امیر خسروؒ نے اپنی پیالی بچوں کی طرف بڑھائی ہی تھی کہ ایک بچے نے کٹوری اُچک لی اور بھاگ کر مٹکے سے پانی لے آیا۔
حضرت کی پیاس بجھی لیکن پوری نہیں بجھی۔ بولے ’’ اور لائو پانی، ایک کٹوری اور ‘‘۔ بچے نے کٹوری لیتے ہوئے کہا ’’ پہلے آپ ایک آم کھا لیں اس سے پیاس بھی کم ہو جائے گی۔ یہ لیجئے، یہ آم کھایئے، میں ابھی پانی لاتا ہوں‘‘۔ حضرت امیر خسروؒ نے مسکراتے ہوئے بچے کا تحفہ قبول کر لیا اور بچہ ایک بار پھر دوڑ کر پانی لے آیا۔ حضرت نے پانی پی کر سب بچوں کو دعائیں دیں، بچوں نے گھوڑے کو بھی خوب پانی پلایا۔
’’خسرو بابا، اس سے کام نہیں چلے گا آپ کو آج ہمیں کچھ نہ کچھ سنانا ہی پڑے گا، ورنہ ہم آپ کو جانے نہ دیں گے‘‘ ایک بچے نے مچل کر کہا۔
’’ تو پھر ایسا کرو بچو، تم لوگ مجھ سے سوال کرو، میں تمہیں جواب دوں گا‘‘ حضرت امیر خسروؒ نے بچوں کے سامنے ایک تجویز رکھی۔ بچے فوراً راضی ہو گئے۔
تو پھر کرو سوال‘‘ حضرت امیر خسروؒ نے فرمایا۔ایک بچے نے سوچتے ہوئے پوچھا ’’خسرو بابا، خسرو بابا، آپ کو کون سا پھول سب سے زیادہ پسند ہے؟حضرت امیر خسروؒ نے جواب دیا:’’ یوں تو تمام پھول خوبصورت ہیں، سب کی خوشبو بہت اچھی اور بھلی ہے، لیکن تمام پھولوں میں مجھے چمپا سب سے زیادہ پسند ہے۔ میں اسے پھولوں کا سرتاج کہتا ہوں‘‘۔
’’چمپا تو مجھے بھی بہت پسند ہے، اس کی خوشبو بہت اچھی لگتی ہے‘‘ ایک بچے نے کہا۔
خوب! دیکھو ناہمارے ملک میں کتنے پھول ہیں کوئی گن نہیں سکتا انہیں، اپنے استاد سے کہنا، وہ تمہیں ہر پھول کے بارے میں کچھ نہ کچھ بتا دیں گے۔ ایک دوسرے بچے نے سوال کیا: ’’خسرو بابا اور پھلوں میں آپ کو سب سے زیادہ کون سا پھل پسند ہے‘‘؟۔’’آم‘‘۔ حضرت نے فوراً جواب دیا۔سارے بچے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ ’’خسرو بابا، آم ہم سب کو بھی سب سے زیادہ پسند ہے۔ دیکھئے نا ہم کتنی دیر سے بس آم کھائے جا رہے ہیں۔ آپ بھی کھایئے نا، ہاتھ پر لے کر کیا بیٹھے ہیں؟‘‘ اُس بچے نے کہا۔ ’’میں اس آم کو تحفے کے طور پر لے جائوں گا، اپنے بچوں کا تحفہ ہے نا،گھر پہنچ کر اسے دھو کر اطمینان سے بیٹھ کر کھائوں گا‘‘ حضرت امیر خسروؒ نے جواب دیا۔
’’ اور خسرو بابا، پرندوں میں کون سا پرندہ آپ کو زیادہ پسند ہے‘‘؟ ایک تیسرے بچے نے سوال کیا۔’’پرندوں میں مجھے طوطا بہت ہی پسند ہے، اس لئے کہ طوطے اکثر انسان کی طرح بول لیتے ہیں۔ مجھے موراور مینا بھی پسند ہیں۔ اب تم لوگ پوچھو گے، جانوروں میں مجھے کون سا جانور پسند ہے؟‘‘ حضرت نے کہا۔’’ میں تو ابھی پوچھنے ہی والا تھا‘‘ ایک بچے نے کہا۔’’تو سن لو مجھے ہاتھی، بندر اور بکری پسند ہیں‘‘ حضرت نے جواب دیا پھر خود ہی پوچھا: ’’ جانتے ہو بکری مجھے کیوں پسند ہے؟ اور مور کیوں پسند کرتا ہوں‘‘؟
’’کیوں‘‘؟ کئی بچے ایک ساتھ بول پڑے۔ ’’ مور اس لئے کہ وہ دلہن کی طرح سجا سجایا نظر آتا ہے اور بکری اس لئے کہ وہ ایک پتلی سی لکڑی پر چاروں پائوں رکھ کر کھڑی ہو جاتی ہے‘‘۔ بچے کھلکھلا پڑے۔
’’اچھا بچوں، اب میں چلتا ہوں۔ پانی پلانے کا شکریہ اور اس آم کا بھی شکریہ، میرے گھوڑے کو پانی پلایا اس کا بھی شکریہ۔حضرت امیر خسروؒ چلنے کو تیار ہو گئے تو ایک چھوٹے بچے نے روتے ہوئے کہا ’’ آپ سے دوستی نہیں کروں گا‘‘۔
’’بھلا کیوں بابا، آپ ناراض کیوں ہو گئے‘‘؟ حضرت امیر خسروؒ نے پوچھا۔’’آپ نے کوئی گانا نہیں سنایا۔ وہی گانا سنایئے نا جو آپ حضرت نظام الدین اولیا ؒ کے پاس کل صبح گا رہے تھے‘‘۔ ’’لیکن تم کہاں تھے‘‘؟ حضرت نے حیرت سے دریافت کیا۔’’میں وہیں چھپ کر سن رہا تھا‘‘ پھر رونے لگا وہ بچہ۔’’ ارے بابا رو نہیں، آنسو پونچھو۔ میں تمہیں وہی گانا سنائوں گا‘‘ اور لگے لہک لہک کر گانے۔
حضرت امیر خسروؒ دیکھ رہے تھے کہ گانا سنتے ہوئے بچے جھوم رہے ہیں۔ گانا ختم ہوتے ہی بچے چپ ہو گئے اور پھر اچانک ہنسنے لگے۔ حضرت امیر خسروؒ بچوں کو پیار کرنے کے بعد اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔ آم کے پیڑوں کے نیچے وہ بچے جھوم جھوم کر گا رہے تھے۔
’’چھاپ تلک سب چھینی
رے موسے نیناں ملائکے‘‘