ملکی سیاست افواہوں کی زد میں۔۔۔

تحریر : خاور گھمن


ملکی سیاست ایک بار پھر طرح طرح کی خبروں کی زد میں ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے ہمارے سیاستدان کسی اور ہی دنیا سے آئے ہیں۔ حکومتی ارکان ہوں یا پھر حزب اختلاف والے، ان کے بیانات کی کوئی منطق ہوتی ہے اور نہ ہی حقیقت سے دور کا واسطہ۔جس کا جو دل کرتا ہے بول دیتا ہے ۔

 ان بیانات پر ٹی وی ٹاک شوز شروع ہو جاتے ہیں اورکالمز لکھے جاتے ہیں۔ ایسا ماحول بنایا جاتا ہے کہ لوگ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ اسلام آباد کی سیاست کو لے کر چہ میگوئیاں پھر عروج پرہیں۔ اور تو اور کسی دوست، رشتہ دار یا پھر دوکان پر جائیں تو پہلا سوال وہ یہی پوچھتے ہیں ’’ کیا عمران خان کی حکومت جارہی ہے؟‘‘ نواز شریف کب واپس آئیں گے؟ وغیرہ وغیرہ۔

 پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم نے حکومت کے خلاف الگ الگ لانگ مارچ کی تاریخیں دے دی ہیں۔پیپلزپارٹی فروری کے آخری ہفتے اور پی ڈی ایم والے23 مارچ کو اسلام آباد کی طرف مارچ کا ارادہ رکھتے ہیں۔ایک بار پھر حکومت کے خاتمے کے حوالے سے بحث ومباحثہ شروع ہو گیا ہے۔ ایک بار پھر پوچھا جا رہا ہے کہ حکومت رہے گی یا جائے گی؟ حزب اختلاف والے شاید اتنے پر امید نہ ہوں لیکن چند صحافی حضرات اور سیاسی مبصرین جو شروع دن سے حکومت کے جانے کی خبریں دیتے رہے ہیں متحرک ہو گئے ہیں اور دوبارہ سے تاریخیں دینے لگے ہیں۔ 

اس حوالے سے میں نے ایک سے زیادہ مرتبہ مستند ذرائع کی بنیاد پر لکھا ہے اور میری اطلاعات آج بھی وہی ہیں کہ حکومت کو فی الوقت کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ وزیراعظم عمران خان خود اسمبلیاں نہ توڑ دیں تو وہ اور بات ہے۔اپوزیشن میں یہ دم خم موجود نہیں۔ پچھلے ہفتے میری ملاقات کے دوران وزیراعظم سے جب اس بابت سوال پوچھا تھا تو ان کا بڑا واضح جواب تھا۔ ان کی حکومت کو کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی وہ خود اسمبلیاں توڑنے جا رہے ہیں۔ مطلب حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے گی اور آئندہ عام انتخابات میں اپنی اچھی بری کارکردگی کے ساتھ جائے گی۔

 اس کے بعد دوسرا موضوع جو ہمیشہ سے وقفے وقفے سے زیر بحث آتا رہا ہے اور نومبر تک آتا رہے گا ،کبھی شدت سے اور کبھی دبے الفاظ میں وہ ہے کہ کیا راولپنڈی اور اسلام آباد میں تعلقات ٹھیک ہیں یا نہیں ؟ کیا ایک پیج ابھی تک قائم ہے یا پھر پھاڑ دیا گیا ہے؟ اس موضوع کو لیکر طرح طرح کے تبصرے، تجزیوں کے ساتھ پیش گوئیاں بھی کی جا رہی ہیں۔ 

وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران اس موضوع پر بھی بات ہوئی اور یہ بتایا گیا کہ میڈیا اس پر ضرورت سے زیادہ قیاس آرائی کر رہا ہے۔سب کچھ نارمل ہے۔ بد قسمتی کہیں یا پھر کوئی اور نام دیں، سکیورٹی کے اداروں کو اس طرح میڈیا میں زیر بحث نہیں لایا جانا چاہیے لیکن کیا کریں یہ ملکی سیاست کا خاصہ رہا ہے اور مستقبل قریب میں یہ روایت ختم ہوتے دکھائی نہیں دے رہی۔ 

شریف خاندان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک بار پھر مبینہ ڈیل اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ممکنہ سیاسی تبدیلی پر بھی بات ہو رہی ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ شریف خاندان بند دروازوں کے پیچھے بات چیت کرنے کا ماہر ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کیا ایسا ہو رہا ہے؟ اطلاعات یہی ہیں کہ شہباز شریف اس حوالے سے بھرپور کو شش کر رہے ہیں۔پیغام رسانی بھی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ اس مبینہ ڈیل کے نتیجے میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو سکتی ہے۔ حکومت پر لانگ مارچز کے ذریعے دباو ٔبڑھایا جا سکتا ہے تا کہ وزیراعظم عمران خان خود حکومت چھوڑ دیں۔ ایک خبر یہ بھی ہے جس پر شہباز گل اور شیخ رشید نے بات کی ہے کہ اس ڈیل کی وجہ سے شریف خاندان کے باقی لوگ بھی لندن چلے جائیں گے اور پارٹی شاہد خاقان عباسی چلائیں گے جب تک سیاسی حالات ن لیگ کی قیادت کے لیے ساز گار نہیں ہو جاتے۔ 

ہماری جن ذرائع سے بات ہوئی ہے ان کا ماننا ہے کہ کوشش تو یقینی طور پر ہو رہی ہے لیکن کسی بھی طرف سے کسی بھی قسم کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے کہ شریف خاندان ایک بار پھر جنرل مشرف والے فارمولے کی طرح کچھ حاصل کر پائے گا۔ ظاہر ہے سب سے بڑی رکاوٹ اس سارے عمل میں وزیر اعظم خود ہیں۔ اگر عمران خان کے ہوتے ہوئے ایسا ہوتا ہے تو پھر تحریک انصاف کے پاس اگلے انتخابات میں جانے کے لیے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہوگا۔ مہنگائی کی وجہ سے تحریک انصاف پہلے ہی سے کافی دباو ٔکا شکار ہے۔ اس کے برعکس تحریک انصاف امید لگائے بیٹھی ہے کہ ٓائندہ چند مہینوں میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز پر منی لانڈرنگ کے کیسز کافی حد تک اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائیں گے جن کا حکومتی ارکان بشمول وزیر اعظم کے نزدیک نتیجہ ان دونوں حضرات کا سیاست سے نااہل ہونے کے صورت میں نکل سکتا ہے۔ 

ان کیسز کے حوالے سے حکومت کامیاب ہوتی ہے یا پھر شریف خاندان فی الوقت کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ ایک بات جس کے قوی امکانات موجود ہیں وہ ڈیل یا ڈھیل کا نہ ہونا ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال بھی یہی ہے کہ حالات جیسے مرضی ہوں، حکومت پر جتنامرضی دباو ٔہو،وزیر اعظم کی موجودگی میں کوئی ڈیل ممکن نہیں ۔ شریف خاندان کو اپنے کیسز عدالتوں میں جبکہ سیاسی جنگ میدان میں رہتے ہوئے ہی لڑنی پڑے گی۔ یوں آنے والے مہینوں میں ملکی سیاست بظاہر اُبال کا شکار تو رہے گی لیکن یہ اُبال کسی تبدیلی کا باعث بنے گا ، فی الوقت ایسے کوئی آثار موجود نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

مسائل اور ان کا حل

باجماعت نماز میں امام کی قرات میں مختلف آیات کا جواب دینے کی شرعی حیثیت سوال :امام صاحب اگرباجماعت نمازمیں اگرایسی آیات تلاوت کریں جس میں دعا کا ذکر ہویااللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان ہویاجس میں عذاب الٰہی کا ذکرہواورمقتدی دعاکی صورت میں ’’آمین، سبحان اللہ، یا اعوذ باللہ‘‘ دل میں کہے ،کیاایساکرناجائزہے؟

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔

سندھ میں امن وامان کی دعائیں!

سندھ میں پیپلز پارٹی میدان پر میدان مار رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ پر آصفہ بھٹو زرداری کا بلامقابلہ انتخاب ہوا اور اب قمبر شہداد کوٹ سے ضمنی الیکشن میں خورشید احمد نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔

خیبرپختونخوا میں مایوسی!

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورہر طرف سے مسائل میں گھرے نظر آرہے ہیں ۔ایک طرف صوبے کو مالی بحران درپیش ہے تو دوسری جانب دہشت گردی پھیلتی نظرآرہی ہے ۔ اب انہیں کابینہ کے اندر بھی مسائل کا سامنا کرناپڑرہاہے۔

60نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا،عمل کا منتظر!

بلوچستان کی مخلوط حکومت کی 14 رکنی کابینہ نے بالآخر حلف اٹھا لیا ہے۔ کابینہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے چھ،چھ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے دو ارکان نے بحیثیت وزراحلف اٹھایا۔