ایفائے عہد: عمدہ اخلاق کی نشانی،وعدہ کو پورا کرو، بیشک عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا (الاسراء:34)

تحریر : مفتی محمد اویس اسماعیل


نبی کریم ﷺ نے سب سے زیادہ تاکید وعدہ کی پاسداری کی فرمائی ہے،‘‘ اس شخص کا کوئی دین نہیں جس میں عہد کی پاسداری نہیں۔ایفائے عہد ایمان کی نشانی ہے، وعدہ خلافی کی عادت منافقوں کا شیوہ ہے (مشکاۃالمصابیح،ص:15)

انسانی سیرت کے مختلف پہلو ہیں جن سے کسی بھی انسان کی شخصیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کچھ خوبیاں ایسی ہیں جو انسان کی شخصیت کو  نکھارتی ہیں اورکچھ اخلاق ایسے ہیں جو اس کی شخصیت کو داغدار کر دیتے ہیں۔ انسانی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اچھے اخلاق کو پسند کرتی ہے اور برے اخلاق کو ناپسند کرتی ہے۔ اگر ان اچھے اخلاق کو مذہبی تائید بھی حاصل ہو جائے تو سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے۔  اچھے کردار کی مالک شخصیت کو دنیا بھی پسند کرتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کے اجر میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اچھے اخلاق کیلئے تو خود نبی کریم ﷺ نے نماز کے موقع پر جو قبولیت دعا کا ایک مقام ہے دعا مانگی ہے: ’’اے میرے رب ، تو مجھ کو بہتر سے بہتر اخلاق کی رہنمائی کر، تیرے سوا کوئی بہتر اخلاق کی راہ نہیں دکھا سکتا،اور برے اخلاق کو مجھ سے پھیر دے اور ان کو کوئی نہیں پھیر سکتا سوائے تیرے۔ (صحیح مسلم، 201)

ان اچھے اخلاق میں سے ایک ایفائے عہد بھی ہے۔ انسانی تعلقات میں بسا اوقات باہمی معاملات وعدوں پر منحصر ہوتے ہیں اگر ان وعدوں کی پاسداری کی جائے تو معاملات ٹھیک رہتے ہیں لیکن اگر وعدوں کو وفا نہ کیا جائے اور وعدہ خلافی کسی بھی معاملے میں شامل ہو جائے تو پھر بگاڑ شروع ہو جاتا ہے، تعلقات میں خرابی در آتی ہے اور ایک دوسرے پر اعتماد برقرار نہیں رہتا ہے۔ کسی بھی وعدہ خلاف انسان کو قابلِ اعتماد نہیں سمجھا جاتا اور ہمیشہ اس سے ان معاملات میں احتیاط کی جاتی ہے جو وعدے پر منحصر ہو۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے سب سے زیادہ جس بات پر زور دیا وہ ’’ایفائے عہد‘‘ ہی ہے۔ 

حضرت انسؓ ایک حدیث روایت کرتے ہیں جس میں وہ بتاتے ہیں کہ :جب بھی رسول اللہ ﷺ ہمیں خطبہ ارشاد فرماتے تو اس میں ضرور یہ بات کہتے ’’اس شخص کا کوئی ایمان نہیں جس میں امانت داری نہیں اور اس شخص کا کوئی دین نہیں جس میں عہد کی پاسداری نہیں۔‘‘ (الترغیب والترہیب،21) یعنی جو امانت میں خیانت کرتا ہے وہ کامل مومن نہیں اور جو وعدہ خلافی کرتا ہے اس کا دین کامل نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کے دین کے اثرات اس کے لوگوں سے تعلقات پر بھی نظر آنے چاہئیں۔ محض عبادات کو دین کہہ دینا کافی نہیں بلکہ کامل دین تب ہوگا جب عبادات کے ساتھ ساتھ معاملات بھی ٹھیک ہوں۔ اسی لیے ایفائے عہدسے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ’’بے شک عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘ (الاسراء :34)یعنی کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ معاہدات تو ہمارے آپس کے معاملات ہیں، خداکا اس سے کیا تعلق وہ تو صرف عبادات اور حقوق اللہ سے متعلق جو احکامات دیئے ہیں اس کا حساب لے۔ اگر ہمارے باہمی معاملات میں اونچ نیچ ہو گئی ہے تو اس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تصور غلط فہمی پر مبنی ہے بلکہ عہدو پیمان کے بارے میں جوابدہی کرنی ہو گی کہ جو وعدہ کیا تھا اس کو وفا بھی کیا تھا یا نہیں؟

قرآنِ مجید میں جابجا وعدوں کو پورا کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور اس حوالے سے اہلِ ایمان اور فاسقین کا طرز عمل بھی بتایا گیا ہے کہ ان دونوں گروہوں کا وعدوں سے متعلق کیا رویہ ہوتا ہے۔ ایک مقام پر کامیابی پانے والے مومنین کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی خاصیت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اپنے عہد کی پاسداری کرنے والے ہوتے ہیں۔ (المؤمنون:8) اسی طرح ایک مقام پر  مؤمنین اور فاسقین دونوں کا مختلف معاملات میں موازنہ کیا گیا ہے اور اس موازنے میں ایک بات یہ بھی شامل ہے کہ مومن وہ ہوتا ہے جو اللہ سے کیے گئے عہد کو پورا کرتا ہے اور میثاق کو نہیں توڑتا ہے۔ (الرعد:  20) لیکن فاسق اللہ سے کیے گئے عہد کو توڑنے والا ہوتا ہے (الرعد: 25)۔

انسان کا سب سے بڑا عہد ہی اپنے رب سے کیا ہوا ہے کہ وہ اسے اپنا رب مانے گا اور اسی عہد کی یاد دہانی کیلئے انبیائے کرام ؑ تشریف لاتے رہے ہیں (الاعراف: 172)۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے باہمی معاہدات پورا کرنے کی بطور خاص ہدایت کی ہے : ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو!اپنے عہدوں کو پورا کرو‘‘(المائدہ:1) اس میں مالی، عائلی اور دیگر ہر قسم کے معاہدات جو قرآن و سنت کی تعلیمات کے برخلاف نہ ہوں، شامل ہیں ۔ اسی بات کو سید سلیمان ندویؒ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: عام طور پر لوگ عہد کے معنی صرف قول و قرار کو سمجھتے ہیں، لیکن اسلام کی نگاہ میں اس کی حقیقت بہت وسیع ہے۔ وہ اخلاق، معاشرت، مذہب اور معاملات کی ان تمام صورتوں پر مشتمل ہے جن کی پابندی انسان پر عقلاً، شرعاً، قانوناً اور اخلاقاً فرض ہے۔ اس لحاظ سے یہ مختصر سا لفظ انسان کے بہت سے عقلی، شرعی، قانونی، اخلاقی اور معاشرتی فضائل کا مجموعہ ہے۔ (سیرت النبی ﷺ ، 583/6)

وعدہ پورا کرنا خدا کی صفت ہے اور خدا یہ صفت اپنے بندوں میں بھی دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی کو خدائی رنگ قرار دیا گیا ہے اور اللہ کے رنگ سے بھلا رنگ اورکس کا ہو سکتا ہے (البقرہ: 138)۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت میں بے شمار ایسے واقعات ملتے ہیں کہ سخت سے سخت حالات میں بھی اللہ کے رسولﷺ نے معاہدے کی پاسداری کی۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب کفارِ مکہ نے نہایت سخت شرائط کے ساتھ معاہدہ کیا جس پر مسلمان خوش نہیں تھے، ایسے موقع پر زنجیروں میں جکڑے ہوئے ایک صحابی حضرت ابو جندلؓ کسی طریقے سے مکہ سے حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ اب معاہدے کی رو سے آپ ﷺ پر لازم تھا کہ ان صحابی کو مکہ والوں کے حوالے کر دیں لیکن ان کو واپس کرنے پر مسلمان خوش نہیں تھے کہ پہلے ہی ان کی سخت شرائط پر معاہدہ کیا گیا ہے اور اب یہ ایک مظلوم مسلمان ہمارے پاس پناہ لینے کیلئے آیا ہے تو ہم کیسے اسے مکہ والوں کے حوالے کر دیں۔ اس موقع پر بھی آپﷺ نے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے ابو جندلؓ کو مکہ والوں کے حوالے کر دیا اور فرمایا : ہم نے ان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے اور ہم اس معاہدے کو توڑنے والے نہیں ہیں (مسند احمد،18910)۔ ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے چھ چیزوں کی ضمانت کے بدلے میں جنت کی ضمانت دی ہے اس میں سے ایک وعدے کی پاسداری بھی ہے۔ (صحیح ابن حبان، 271)

ایفائے عہد کے سلسلے میں ایک پہلو یہ بھی مدِ نظر رہے کہ بچوں کے ساتھ اس معاملے میں بڑوں کا رویہ مثبت ہونا چاہیے۔ بسا اوقات ایسے ہوتا ہے کہ بچہ کسی معاملے میں ضد کرتا ہے تو اس کے والدین یا بڑے اسے تسلی دینے کیلئے یا چپ کرانے کی خاطر اس سے کوئی وعدہ کر لیتے ہیں لیکن اسے پورا نہیں کرتے۔ اس طرح کا رویہ بچے کی تربیت پر گہرا اثر ڈالتا ہے کہ بچہ سمجھتا ہے کہ وعدہ کر کے اسے پورا نہ کرنا یا اس سے مکر جانا کوئی بری بات نہیں ہے بلکہ ایسا کیا جا سکتا ہے۔ اور پھر یہی بچے بڑے ہوکر اسی طرح کا طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں کہ وعدے یا معاہدے کوئی قرآن و حدیث تھوڑی ہیں کہ انہیں پورا کرنا ضروری ہو۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ وعدوں کو پورا کرنے کا حکم قرآنِِ مجید ہی نے دیا ہے۔ اس لیے اگر والدین یا بچے کے بڑے اس سے کوئی وعدہ کرے تو پھر انہیں چاہیے کہ اس وعدے کو پورا کریں یا پھر اس بچے سے وعدہ کرنا ہی نہیں چاہیے تاکہ بعد میں وعدہ پورا نہ کرنے پر مزید کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو اور بچے کی تربیت پر برا اثر نہ پڑے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

چیمپئنز ون ڈے کپ

پاکستان کرکٹ بورڈ نے چیمپئنز ون ڈے کپ کی پانچ ٹیموں کے کپتانوں کے ساتھ ساتھ 12 سے 29 ستمبر تک فیصل آباد میں منعقد ہونے والے ٹورنامنٹ کیلئے عارضی اسکواڈز کا اعلان بھی کر دیا ہے۔کپتانوں کا تقرر پانچ ٹیموں کے مینٹور نے کیا۔

یوم تحفظ ختم نبوتﷺ

عقیدہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ مقبولہ شاہدودالّ ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ تاویل و تخصیص کرنے والا قرآن مجیدکی تکذیب کرتا ہے۔

عقیدہ ختم نبوت شفاعت رسولﷺ کا ذریعہ

7ستمبرہماری تاریخ کا وہ روشن اور تاریخ ساز دن ہے جب ہزاروں مسلمانوں نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے طویل جدوجہد کے بعد پارلیمنٹ سے قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قراردلوانے میں کامیابی حاصل کی۔ عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ ہر مسلمان کی ذمہ داری، اس کے ایمان کا تقاضہ اور آخرت میں شفاعتِ رسولﷺ کا ذریعہ ہے۔ ختم نبوت کا عقیدہ اسلام کا وہ بنیادی اور اہم عقیدہ ہے جس پر پورے دین کا انحصار ہے ۔عقیدہ محفوظ تو پورا دین محفوظ، اگر عقیدہ محفوظ نہیں تو دین بھی محفوظ نہیں۔

7ستمبر 1974ء عشاقان مصطفی کیلئے ایک یادگار دن

7ستمبر 1974ء کا دن عالم اسلام کیلئے بالعموم اور اسلامیانِ پاکستان کیلئے بالخصوص ایک یادگار اور تاریخی موقع کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن خلاقِ عالم نے ختم نبوت کیلئے جدوجہد کرنے والے اور اس مبارک کام کیلئے خود کو میدانِ عمل میں اتارنے والے علماء، طلباء اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ مجاہدین ختم نبوت اور فدایان ختم الرسلﷺ کی بے مثال قربانیوں اور انتھک کاوشو ں کے نتیجے میں قادیانی مسئلہ ہمیشہ کیلئے قانونی طور پر حل کر دیا۔

سنی سنائی باتیں بغیر تحقیق کے نہ آگے پہنچائیں!

قرآن پاک کی سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 6 میں ارشاد ربانی ہے ’’ اے ایمان والو! اگر آئے تمہارے پاس کوئی گناہگار خبر لے کر تو تحقیق کر لو، کہیں جا نہ پڑو کسی قوم پر نادانی سے پھر کل کو اپنے کئے پر لگو پچھتانے‘‘ ۔یہ آیت حضرت ولیدؓ بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جنہیں رسول اللہﷺ نے بنو مصطلق کی طرف زکوٰۃ وصول کرنے کیلئے بھیجا تھا۔

غیبت:گناہ کبیرہ

ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے لوگوں جو ایمان لائے ہو بہت گمان کرنے سے پر ہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، تجسس نہ کرو، اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے، تم کو اس سے گھن آئے گی اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے (سورۃ الحجرات :12)