ایفائے عہد: عمدہ اخلاق کی نشانی،وعدہ کو پورا کرو، بیشک عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا (الاسراء:34)
نبی کریم ﷺ نے سب سے زیادہ تاکید وعدہ کی پاسداری کی فرمائی ہے،‘‘ اس شخص کا کوئی دین نہیں جس میں عہد کی پاسداری نہیں۔ایفائے عہد ایمان کی نشانی ہے، وعدہ خلافی کی عادت منافقوں کا شیوہ ہے (مشکاۃالمصابیح،ص:15)
انسانی سیرت کے مختلف پہلو ہیں جن سے کسی بھی انسان کی شخصیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کچھ خوبیاں ایسی ہیں جو انسان کی شخصیت کو نکھارتی ہیں اورکچھ اخلاق ایسے ہیں جو اس کی شخصیت کو داغدار کر دیتے ہیں۔ انسانی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اچھے اخلاق کو پسند کرتی ہے اور برے اخلاق کو ناپسند کرتی ہے۔ اگر ان اچھے اخلاق کو مذہبی تائید بھی حاصل ہو جائے تو سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے۔ اچھے کردار کی مالک شخصیت کو دنیا بھی پسند کرتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کے اجر میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اچھے اخلاق کیلئے تو خود نبی کریم ﷺ نے نماز کے موقع پر جو قبولیت دعا کا ایک مقام ہے دعا مانگی ہے: ’’اے میرے رب ، تو مجھ کو بہتر سے بہتر اخلاق کی رہنمائی کر، تیرے سوا کوئی بہتر اخلاق کی راہ نہیں دکھا سکتا،اور برے اخلاق کو مجھ سے پھیر دے اور ان کو کوئی نہیں پھیر سکتا سوائے تیرے۔ (صحیح مسلم، 201)
ان اچھے اخلاق میں سے ایک ایفائے عہد بھی ہے۔ انسانی تعلقات میں بسا اوقات باہمی معاملات وعدوں پر منحصر ہوتے ہیں اگر ان وعدوں کی پاسداری کی جائے تو معاملات ٹھیک رہتے ہیں لیکن اگر وعدوں کو وفا نہ کیا جائے اور وعدہ خلافی کسی بھی معاملے میں شامل ہو جائے تو پھر بگاڑ شروع ہو جاتا ہے، تعلقات میں خرابی در آتی ہے اور ایک دوسرے پر اعتماد برقرار نہیں رہتا ہے۔ کسی بھی وعدہ خلاف انسان کو قابلِ اعتماد نہیں سمجھا جاتا اور ہمیشہ اس سے ان معاملات میں احتیاط کی جاتی ہے جو وعدے پر منحصر ہو۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے سب سے زیادہ جس بات پر زور دیا وہ ’’ایفائے عہد‘‘ ہی ہے۔
حضرت انسؓ ایک حدیث روایت کرتے ہیں جس میں وہ بتاتے ہیں کہ :جب بھی رسول اللہ ﷺ ہمیں خطبہ ارشاد فرماتے تو اس میں ضرور یہ بات کہتے ’’اس شخص کا کوئی ایمان نہیں جس میں امانت داری نہیں اور اس شخص کا کوئی دین نہیں جس میں عہد کی پاسداری نہیں۔‘‘ (الترغیب والترہیب،21) یعنی جو امانت میں خیانت کرتا ہے وہ کامل مومن نہیں اور جو وعدہ خلافی کرتا ہے اس کا دین کامل نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کے دین کے اثرات اس کے لوگوں سے تعلقات پر بھی نظر آنے چاہئیں۔ محض عبادات کو دین کہہ دینا کافی نہیں بلکہ کامل دین تب ہوگا جب عبادات کے ساتھ ساتھ معاملات بھی ٹھیک ہوں۔ اسی لیے ایفائے عہدسے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ’’بے شک عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘ (الاسراء :34)یعنی کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ معاہدات تو ہمارے آپس کے معاملات ہیں، خداکا اس سے کیا تعلق وہ تو صرف عبادات اور حقوق اللہ سے متعلق جو احکامات دیئے ہیں اس کا حساب لے۔ اگر ہمارے باہمی معاملات میں اونچ نیچ ہو گئی ہے تو اس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تصور غلط فہمی پر مبنی ہے بلکہ عہدو پیمان کے بارے میں جوابدہی کرنی ہو گی کہ جو وعدہ کیا تھا اس کو وفا بھی کیا تھا یا نہیں؟
قرآنِ مجید میں جابجا وعدوں کو پورا کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور اس حوالے سے اہلِ ایمان اور فاسقین کا طرز عمل بھی بتایا گیا ہے کہ ان دونوں گروہوں کا وعدوں سے متعلق کیا رویہ ہوتا ہے۔ ایک مقام پر کامیابی پانے والے مومنین کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی خاصیت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اپنے عہد کی پاسداری کرنے والے ہوتے ہیں۔ (المؤمنون:8) اسی طرح ایک مقام پر مؤمنین اور فاسقین دونوں کا مختلف معاملات میں موازنہ کیا گیا ہے اور اس موازنے میں ایک بات یہ بھی شامل ہے کہ مومن وہ ہوتا ہے جو اللہ سے کیے گئے عہد کو پورا کرتا ہے اور میثاق کو نہیں توڑتا ہے۔ (الرعد: 20) لیکن فاسق اللہ سے کیے گئے عہد کو توڑنے والا ہوتا ہے (الرعد: 25)۔
انسان کا سب سے بڑا عہد ہی اپنے رب سے کیا ہوا ہے کہ وہ اسے اپنا رب مانے گا اور اسی عہد کی یاد دہانی کیلئے انبیائے کرام ؑ تشریف لاتے رہے ہیں (الاعراف: 172)۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے باہمی معاہدات پورا کرنے کی بطور خاص ہدایت کی ہے : ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو!اپنے عہدوں کو پورا کرو‘‘(المائدہ:1) اس میں مالی، عائلی اور دیگر ہر قسم کے معاہدات جو قرآن و سنت کی تعلیمات کے برخلاف نہ ہوں، شامل ہیں ۔ اسی بات کو سید سلیمان ندویؒ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: عام طور پر لوگ عہد کے معنی صرف قول و قرار کو سمجھتے ہیں، لیکن اسلام کی نگاہ میں اس کی حقیقت بہت وسیع ہے۔ وہ اخلاق، معاشرت، مذہب اور معاملات کی ان تمام صورتوں پر مشتمل ہے جن کی پابندی انسان پر عقلاً، شرعاً، قانوناً اور اخلاقاً فرض ہے۔ اس لحاظ سے یہ مختصر سا لفظ انسان کے بہت سے عقلی، شرعی، قانونی، اخلاقی اور معاشرتی فضائل کا مجموعہ ہے۔ (سیرت النبی ﷺ ، 583/6)
وعدہ پورا کرنا خدا کی صفت ہے اور خدا یہ صفت اپنے بندوں میں بھی دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی کو خدائی رنگ قرار دیا گیا ہے اور اللہ کے رنگ سے بھلا رنگ اورکس کا ہو سکتا ہے (البقرہ: 138)۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت میں بے شمار ایسے واقعات ملتے ہیں کہ سخت سے سخت حالات میں بھی اللہ کے رسولﷺ نے معاہدے کی پاسداری کی۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب کفارِ مکہ نے نہایت سخت شرائط کے ساتھ معاہدہ کیا جس پر مسلمان خوش نہیں تھے، ایسے موقع پر زنجیروں میں جکڑے ہوئے ایک صحابی حضرت ابو جندلؓ کسی طریقے سے مکہ سے حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ اب معاہدے کی رو سے آپ ﷺ پر لازم تھا کہ ان صحابی کو مکہ والوں کے حوالے کر دیں لیکن ان کو واپس کرنے پر مسلمان خوش نہیں تھے کہ پہلے ہی ان کی سخت شرائط پر معاہدہ کیا گیا ہے اور اب یہ ایک مظلوم مسلمان ہمارے پاس پناہ لینے کیلئے آیا ہے تو ہم کیسے اسے مکہ والوں کے حوالے کر دیں۔ اس موقع پر بھی آپﷺ نے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے ابو جندلؓ کو مکہ والوں کے حوالے کر دیا اور فرمایا : ہم نے ان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے اور ہم اس معاہدے کو توڑنے والے نہیں ہیں (مسند احمد،18910)۔ ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے چھ چیزوں کی ضمانت کے بدلے میں جنت کی ضمانت دی ہے اس میں سے ایک وعدے کی پاسداری بھی ہے۔ (صحیح ابن حبان، 271)
ایفائے عہد کے سلسلے میں ایک پہلو یہ بھی مدِ نظر رہے کہ بچوں کے ساتھ اس معاملے میں بڑوں کا رویہ مثبت ہونا چاہیے۔ بسا اوقات ایسے ہوتا ہے کہ بچہ کسی معاملے میں ضد کرتا ہے تو اس کے والدین یا بڑے اسے تسلی دینے کیلئے یا چپ کرانے کی خاطر اس سے کوئی وعدہ کر لیتے ہیں لیکن اسے پورا نہیں کرتے۔ اس طرح کا رویہ بچے کی تربیت پر گہرا اثر ڈالتا ہے کہ بچہ سمجھتا ہے کہ وعدہ کر کے اسے پورا نہ کرنا یا اس سے مکر جانا کوئی بری بات نہیں ہے بلکہ ایسا کیا جا سکتا ہے۔ اور پھر یہی بچے بڑے ہوکر اسی طرح کا طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں کہ وعدے یا معاہدے کوئی قرآن و حدیث تھوڑی ہیں کہ انہیں پورا کرنا ضروری ہو۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ وعدوں کو پورا کرنے کا حکم قرآنِِ مجید ہی نے دیا ہے۔ اس لیے اگر والدین یا بچے کے بڑے اس سے کوئی وعدہ کرے تو پھر انہیں چاہیے کہ اس وعدے کو پورا کریں یا پھر اس بچے سے وعدہ کرنا ہی نہیں چاہیے تاکہ بعد میں وعدہ پورا نہ کرنے پر مزید کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو اور بچے کی تربیت پر برا اثر نہ پڑے۔