مسئلہ کشمیر :کب کیا ہوا؟
15 اگست 1947ء: برطانیہ سے آزادی کے بعد دو خود مختار ریاستیں پاکستان اور بھارت وجود میں آئیں، ریاستوں اور راجواڑوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے عوام کی منشا کے مطابق کسی بھی ملک میں شامل ہونے کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی مگر اس کے ہندو راجہ نے وقت پر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
اکتوبر1947ء: کشمیر میں جاری داخلی خانہ جنگی میں پاکستان سے قبائلی لشکر بھی شامل ہو گئے۔
26اکتوربر1947ء: مہاراجہ نے بھارت سے مدد چاہتے ہوئے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیئے تاہم یہ الحاق مشروط تھا کہ جیسے ہی حالات معمول پر آئیں گے کشمیر میں رائے شماری ہو گی۔
27 اکتوبر 1947ء: بھارت نے اپنی فوجیں ہوائی جہازوں کے ذریعے سری نگر میں اتار دیں تاکہ کشمیر میں ہونے والی بغاوت کو کچلا جا سکے جس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی جنگ چھڑ گئی۔
یکم جنوری 1948ء: بھارت نے مسئلہ کشمیر پر اقوام ِ متحدہ سے مدد مانگ لی۔
5 فروری 1948ء: اقوام متحدہ نے ایک قرار داد کے ذریعے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا تاکہ وہاں رائے شماری کرائی جا سکے۔
یکم جنوری 1949ء: اقوامِ متحدہ نے جنگ بندی کراتے ہوئے دونوں ممالک کی فوجوں کو جنگ بندی لائن کا احترام کرنے کا پابند کیا اور وہاں رائے شماری کرانے کا اعلان کیا۔
26 جنوری 1950ء: بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کا اضافہ جس میں ریاست جموں و کشمیر کو دفاع ، خارجہ اور مواصلات کے علاوہ خود مختار حیثیت دی گئی۔
ستمبر 1951ء: کشمیر کی اسمبلی کے انتخابات میں نیشنل کانفرنس نے تمام 75 نشستیں بلا مقابلہ حاصل کر لیں۔
جولائی 1953ء: سائما پرشاد مکر جی نے 1952ء سے کشمیر کے بھارت سے مکمل الحاق کے بارے میں جو تحریک شروع کر رکھی تھی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شیخ عبداللہ نے کشمیر کی خود مختاری کی تجویز دے دی۔
8 اگست 1953ء: شیخ عبداللہ کو بطور وزیراعظم فارغ کرتے ہوئے گرفتار کر کے بھارت میں قید کر دیا گیا اور ان کی جگہ بخشی غلام محمد کو وزیر اعظم بنا کر مظاہرین کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا ٹاسک سونپا گیا۔
17-20 اگست 1953ء: بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے درمیان دہلی میں ملاقات ہوئی جس میں اپریل 1954ء کے آخر تک وہ کشمیر میں رائے شماری کے لیے ایڈمنسٹریٹر تعینات کرنے پر متفق ہو گئے۔تاہم جیسے ہی پاکستان اور امریکہ کے درمیان سٹریٹجک تعلقات گہرے ہوئے تو بھارت نے اس مسئلے کو بھی سرد جنگ کا حصہ قرار دیتے ہوئے رائے شماری سے انکار کر دیا۔
فروری 1954ء: کشمیر کی اسمبلی نے بھارت کے ساتھ الحاق کر دیا۔
14 مئی 1954ء: آئینی حکم نامہ 1954ء جس کا تعلق ریاست جموں و کشمیر سے تھا اسے لاگو کر دیا گیا جو دہلی معاہدے کومنسوخ کرتے ہوئے ریاست کو بھارتی عمل داری میں دیتے ہوئے تمام شہری آزادیوں کو ختم کرتا تھا۔
14 جنوری 1957ء: اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک بار پھر 1951ء کی قرارداد کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی اسمبلی کسی طور بھی کشمیر کے مستقبل کے بارے میں فیصلے کا اختیار نہیں رکھتی اور نہ ہی یہ رائے شماری کا متبادل ہے۔
26 جنوری 1957ء: ریاستی اسمبلی نے جموں و کشمیر کا آئین نافذ کیا جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی یونین کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔
9 اگست 1955ء: رائے شماری محاذ قائم کیا گیا جس نے شیخ عبداللہ کی رہائی اور اقوام ِ متحدہ کی زیر نگرانی کشمیر میں رائے شماری کا مطالبہ کیا۔
20 اکتوبر تا 20 نومبر 1962ء: لداخ میں بھارت اور چین کے مابین ایک سرحدی تنازعے نے جنگ کی شکل اختیار کر لی جس کے نتیجے میں لداخ کے ایک بڑے علاقے پر چین قابض ہو گیا۔
مارچ 1965ء: بھارتی پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کیا جس کے تحت کشمیر کو بھارت کا صوبہ قرار دیتے ہوئے بھارت کو وہاں گورنر تعینات کرنے، کشمیر میں حکومت کو برطرف کرنے اور اسے آئین سازی سے روکنے کے اختیار حاصل ہو گئے۔
2 جولائی 1972ء: پاکستان اور بھارت کے درمیان شملہ معاہدہ ہو ا، جس میں اقوام ِ متحدہ کی فائر بندی لائن کو لائن آف کنٹرول قرار دیا گیا ۔مزید یہ کہ اس معاہدے کی رو سے فریقین اس مسئلے کو دو طرفہ مذاکرات سے حل کریں گے۔
13 نومبر 1974ء: شیخ عبداللہ کو رہا کر کے اسے بطور وزیر اعلی ٰ بحال کر دیا گیا۔ اس کے نائب وزیر اعلیٰ نے بھارت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کر دیئے جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر بھارت کاآئینی حصہ ہو گا، اس طرح وہ 1953ء میں اپنے خود مختاری کے دعوے سے پھر گئے۔
8 ستمبر 1982ء: شیخ عبداللہ انتقال کر گئے جس کے بعد ان کے بیٹے فاروق عبداللہ نے قیادت سنبھال لی۔
اپریل 1984ء: بھارت نے سیاچین گلیشئر پر قبضہ کر لیا۔
جون 1984ء: بھارت کے تعینات کردہ گورنر اور ہندو قوم پرست رہنما جگموہن نے فاروق عبداللہ کو معطل کر کے غلام محمد شاہ کو وزیراعلیٰ نامزد کر دیا، جس سے کشمیر میں مظاہرے پھوٹ پڑے جس پر غلام محمد شاہ نے کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا۔
7 مارچ 1986ء: جگموہن نے غلام محمد شاہ کو وزارت ِ اعلیٰ سے برخاست کرتے ہوئے خود اختیارات سنبھال لیے اور مسلمانوں کی سرکاری نوکریوں پر پابندی لگا دی۔
1990ء: بغاوت جاری رہی۔پاکستان سے بڑی تعداد میں مجاہدین وادی میں داخل ہو گئے۔
مارچ 1993ء: سیاسی، سماجی اور مذہبی گروپوں پر مشتمل آل پارٹیز حریت کانفرنس نے حق خود اختیاری کا مطالبہ کیا۔
1998ء: پاکستان اور بھارت دونوں کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے تجربات۔
21 فروری 1999ء: بھارتی وزیر ا عظم اٹل بہاری واجپا ئی اور پاکستانی وزیر اعظم نوازشریف نے اعلان لاہور پر دستخط کئے جس کے تحت کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کو باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا اعادہ کیا گیا۔
مئی /جولائی 1999ء: پاکستان وبھارت کے درمیا ن کارگل جنگ چھڑ گئی۔
2000ء: ایک دہائی سے جاری کشمیر میں عسکری تحریک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی جس میں پر امن اور غیر متشدد طریقے اختیار کرنے پر زور دیا گیا۔
2004ء2007-ء: مسئلہ کشمیر پر بیک چینل روابط کے ذریعے دونوں ممالک نے کشمیری قیادت کے ساتھ مذاکرات کئے۔
مئی 2008ء: بھارتی حکومت اور جموں و کشمیر کی حکومت کی جانب سے ہندو شری امرناتھ شرائن بورڈ کو زمین منتقل کرنے کے فیصلے کے خلاف کشمیر بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے جو 1990ء کے بعد سب سے بڑے مظاہرے تھے ۔
21 فروری 2009ء: بومائی میں بھارتی فوج نے دو عباد ت گزاروں کو گولی مار دی جس پر بومائی اور ملحقہ علاقوںمیں مظاہرے شروع ہو گئے اور کرفیو لگانا پڑا۔
فروری 2013ء: کشمیری جیش محمد کے کارکن محمد افضل گرو جن پر 2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا الزام تھا انہیں پھانسی دیئے جانے کے خلاف وادی میں مظاہرے ہوئے ۔
ستمبر 2013ء: پاکستان و بھارتی وزرائے اعظم کی ملاقات میں لائن آف کنٹرول کے آر پار تشدد کو کم کرنے پر اتفاق۔
اکتوبر 2014ء: پاکستان اور بھارت میں سرحدوں پر کشیدگی ، دونوں طرف 18 ہلاکتوں کی تصدیق۔
مارچ 2015ء: تاریخ میں پہلی بار بی جے پی نے کشمیر میں مقامی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی اور مفتی محمد سعید کو وزیراعلیٰ چنا گیا۔
ستمبر 2015ء: کشمیر میں مسلمانوں نے بڑے گو شت پر پابندی کے خلاف اپنی دوکانیں اور تجارتی مراکز بند کئے۔
اپریل 2016ء: محبوبہ مفتی اپنے باپ مفتی سعید کے بعد کشمیر کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بنیں۔
جولائی 2016ء: حزب المجاہدین کے سرکردہ کمانڈ ر برہان وانی کی شہادت کے بعد ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں کشمیر میں کرفیو لگا دیا گیا۔
مئی 2017ء: حریت کمانڈر سبزار احمد بھٹ کی نماز جنازہ میں شمولیت کے لیے ہزاروں لوگوں نے کرفیو کو توڑ ڈالا۔
14 فروری 2019ء: پلواما میں ایک خود کش حملے کے نتیجے میں 40 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے۔
21 فروری 2019ء: بھارت نے پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکی دی۔
26 فروری 2019ء: بھارت نے بالا کوٹ میں فضائی حملہ کر کے کئی مجاہدین کو مارنے کا دعویٰ کیا۔
27 فروری 2019ء: پاکستان نے بھارت کے دو طیاروں کو مار گرایا اور ایک بھارتی پائلٹ کو گرفتار کر لیا۔
5 اگست 2019ء: بھارتی حکومت نے آئین میں سے آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا جو کہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا تھا۔اس طرح کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کر دیا گیا۔
16 اگست 2019ء: 1965ء کے بعد پہلی بار کشمیر کے مسئلے پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا۔
27اکتوبر2020ء: غیر کشمیریوں کر پراپرٹی خرید نے کی اجازت دے دی گئی جس کے تحت کوئی بھی بھارتی شہری کشمیر میں جائیداد خرید سکتا ہے۔
24اکتوبر 2021ء: دو زیر حراست کشمیری نوجوانو ں کو جعلی پولیس مقابلے میں شہید کر دیا گیا۔
25اکتوبر2021ء: پاک بھارت کرکٹ میچ میں بھارت کی شکست کے بعدانتہا پسند ہندوؤں نے پنجاب میں کشمیری طلباء پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں متعدد طلبا زحمی ہوئے۔
17نومبر 2021ء: مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فورسز کی جانب سے 5کشمیریوں کو شہید کر دیا گیا۔ اس سے ایک روز قبل بھارتی افواج کے ہاتھوں 4کشمیریوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔
25نومبر 2021ء: مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشتگردی سے مزید 3کشمیری شہید ہو گئے۔
30دسمبر2021ء: بھارتی افواج کی جانب سے سری نگر میں چھ کشمیری مظاہرین کو جعلی پولیس مقابلے میں شہید کر دیا گیا۔
31دسمبر 2021ء: مقبوضہ جموں و کشمیر میں سال نو کے موقع پر مذہبی رسومات کی ادائیگی کے دوران مندر رویشنو دیوی میں بھگدڑ مچ جانے سے 12افراد چل بسے۔
31دسمبر 2021ء: قابض بھارتی فورسز نے دسمبر میں 31کشمیریوں کو شہید، جن میں سے 10کو ماورائے عدا لت قتل اور 94کو بلاجواز گرفتار کیا گیا جبکہ 11گھروں کو دھماکا خیز مواد سے تباہ کیا۔
04جنوری 2022ء:مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشتگردی سے 2نوجوان شہید ہوئے۔
13جنوری 2022ء:قابض بھارتی فورسز نے کلگام میں جعلی مقابلے میں ایک نوجوان کو شہید کر دیا۔
02فروری 2022ء: بھارت نے غیر قانونی طور پر زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارتی انتظامیہ نے سری نگر اور بڈگام اضلاع میںتقریباً 290ایکڑ اراضی غیر کشمیریوں کیلئے کالونیوں کی تعمیر کیلئے منتقل کر دی۔