فضول خرچی کی ممانعت

تحریر : مفتی محمد وقاص رفیع


فضول خرچی ویسے تو اپنے وسیع ترین معنی کے لحاظ سے زندگی کے ہر قسم کے معاملے میں مقررہ حد سے تجاوز کرنے اور مخصوص دائرہ کار سے آگے بڑھنے کا وسیع مفہوم رکھتا ہے، لیکن عام طو ر پر اس کا اطلاق اللہ تعالیٰ کی عطاء کی ہوئی نعمتوں میں حد سے تجاوز کرنے پر کیا جاتا ہے۔

 قرآنِ کریم اور احادیث نبویہ میں فضول خرچی کی انتہائی سخت ممانعت اور مذمت بیان کی گئی ہے اور اس کے نتیجے میں انسانوں کی معاشرت اور اُن کی اجتماعی زندگی پر رُونما ہونے والے بھیانک اثرات اور برے نتائج کوبیان کیا گیا ہے۔ اسلام دُنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو انسان کی ہر شعبہ زندگی میں سادگی، اعتدال اور میانہ روی کو پسند کرتا ہے۔ اُس کے مقابلے میں فضول خرچی، عیش و عشرت اور نام و نمودسے نہ صرف یہ کہ منع کرتا ہے بلکہ اس کی انتہائی سخت الفاظ میں مذمت بھی کرتا ہے۔ 

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اور رشتہ دار کو اُن کا حق دو، اور مسکین اور مسافر کو (اُن کا حق) اور اپنے مال کو بے ہودہ کاموں میں نہ اُڑاؤ! یقین جانو کہ جو لوگ بیہودہ کاموں میں مال اُڑاتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں (سورۃ الاسراء: 26,27)۔ دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور فضول خرچی نہ کرو! یاد رکھو وہ فضول خرچ لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘(سورۃ الانعام: 141، سورۃ الاعراف:31)

اِس کے برعکس خرچ کرنے کے صحیح اور جائز موقعوں اور جگہوں کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’اورنہ تو (ایسے کنجوس بنوکہ) اپنے ہاتھ کو گردن سے باندھ کر رکھو ، اور نہ (ایسے فضول خرچ کہ) ہاتھ کو بالکل ہی کھلا چھوڑ دو جس کے نتیجے میں تمہیں قابل ملامت و قلاش ہوکر بیٹھنا پڑے۔ (سورۃ الاسراء: 29)

 افراط و تفریط کے اِن دونوں راستوں سے ہٹ کر اعتدال و میانہ روی سے خرچ کرنے والے نیک بندوں کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد ربانی ہے : ’’اور ( رحمن کے بندے )وہ (ہیں) جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں، نہ تنگی کرتے ہیں، بلکہ اُن کا طریقہ اِس (افراط و تفریط)کے درمیان اعتدال کا طریقہ ہے۔ (سورۃ الفرقان: 67)  

آیاتِ مذکورہ میں ’’اسراف‘‘ یعنی فضول خرچی کا مفہوم بتانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے دو قسم کے الفاظ بیان فرمائے ہیں ۔ ایک ’’اسراف ‘‘ دوسرا ’’ تبذیر‘‘۔ بعض علماء کے نزدیک دونوں الفاظ کا مفہوم ایک ہی ہے یعنی فضول خرچی، البتہ بعض دوسرے علماء کے نزدیک ’’اسراف‘‘ اور’’ تبذیر‘‘ میں فرق ہے۔ اُن کے نزدیک ’’اسراف‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ جائز اور مباح کاموں میں ضرورت سے بڑھ کر نامناسب اور غلط طریقے سے خرچ کرنا ’’اسراف‘‘ کہلاتا ہے۔ اور’’ تبذیر‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ ناجائز اور گناہ کے کاموں میں مال خرچ کرنا ’’تبذیر‘‘ ہے۔

اسی طرح آنحضرت ﷺ نے بھی فضول خرچی سے منع فرمایا ہے۔ آپﷺ فرماتے ہیں: ’’کھاؤ، پیؤ، صدقہ کرو اور اور پہنو لیکن فضول خرچی اور تکبر سے بچو‘‘ (صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب قول اللہ تعالیٰ، ج 7، ص140، سنن ابن ماجہ:3605)

یہ حدیث کھانے، پینے اور لباس میں اسراف کی حرمت پر دلالت کرتی ہے اور بغیر دکھاوے اور شہرت کے صدقہ کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ اسراف کا حقیقی معنی ہے: ہر فعل و قول میں حد سے تجاوز کرنا۔ تاہم خرچ کرنے کے معاملے میں حد سے گزرنے میں اسراف کے لفظ کا استعمال زیادہ مشہور ہے۔ یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ماخوذ ہے کہ: ’’کھاؤ اور پیو لیکن اسراف نہ کرو!‘‘ (سورۃ الاعراف: 31)اس میں بڑائی اور تکبر کی حرمت کا بھی بیان ہے۔ نیز اس میں انسان کے اپنے نفس کے تئیں بہتر تدبیر اختیار کرنے کے فضائل اور دنیا و آخرت کے لحاظ سے روحانی اور جسمانی مصالح کا بیان ہے۔ کسی بھی شے میں اسراف جسم اور معیشت دونوں کیلئے نقصان دہ ہوتا ہے اور زیاں کا باعث بنتا ہے، جس کے نتیجے میں انسانی روح کو ضرر پہنچتا ہے، کیونکہ یہ عموماً جسم کے تابع ہوتی ہے۔ تکبر سے بھی روح کو ضرر لاحق ہوتا ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے اس میں خود پسندی آتی ہے اور آخرت کیلئے بھی یہ نقصان دہ ہے۔ امام بخاریؒ نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ: ’’جو چاہو، کھاؤ اور جو چاہو، پیو، جب تک کہ دو باتیں تم میں نہ آئیں: اسراف اور تکبر‘‘۔

ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کا حضرت سعدؓ کے پاس سے گزر ہوا اور وہ وضو کر رہے تھے تو آپﷺ نے دیکھا اور ارشاد فرمایا: ’’یہ اسراف کیسا؟‘‘ تو اُنہوں نے عرض کیا: ’’کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟‘‘ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ہاں! اگرچہ تم بہتے ہوئے دریا پر ہو‘‘(سنن ابن ماجہ: 425)۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میری اُمت میں سے کچھ لوگ طہارت کی بابت حد سے تجاوز کریں گے‘‘ (ابی داؤد: 96)۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’وضو کیلئے ایک شیطان ہے جسے ’’ولہان‘‘ کہا جاتا ہے، لہٰذا تم پانی کے بارے میں وسوسوں سے بچو‘‘ (جامع ترمذی: 57، سنن ابن ماجہ: 421)

بہ ہرحال ہمارے معاشرے میں مال خرچ کرنے کے حوالے سے عموماً تین قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ لوگ جو مال سمیٹ کر رکھتے ہیں کہ جہاں خرچ کرنا ضروری ہو وہاں بھی بخل اور کنجوسی سے کام لیتے ہیں۔دوسرے وہ لوگ جو اپنی عیش و عشرت کی خاطر مال کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ تیسرے وہ لوگ جو اپنی ضرورت کے مطابق اعتدال اور میانہ روی سے کام لیتے ہیں اور فضول ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرتے۔ ان تینوں قسم کے لوگوں میں سے تیسری قسم کے لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ہیں، کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کو اسی کے منشا و مرضی کے مطابق خرچ کرتے ہیں۔

کچھ لوگوں کایہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب کسی کو دولت سے نوازا ہے تو اسے استعمال کرنے میں اور خاص کر اپنی خوشیوں کو دوبالا کرنے اور اپنے ار مانوں اورآرزئوں کی تکمیل کرنے میں اور عیش و آرام کیلئے صرف کرنے میں کیا حرج ہے؟ یقینا مال و دولت اللہ کی نعمت ہے، جس کے حاصل ہونے پر ہر شخص کو شکر ادا کرنا چاہیے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے دولت عطا کرکے کسی فرد کو یہ کامل اختیار نہیں دیاکہ وہ جیسے چاہے خرچ کرے۔ بعض لوگوں کایہ خیال ہے کہ سوائے ناجائز و حرام کاموں کے دیگر امور پر دولت کو جیسے چاہے خرچ کیاجاسکتا ہے۔ یہ خیال صحیح نہیں ہے اسلام نے دولت کی آمد اور خرچ دونوں پر بندھ باندھا ہے۔ نہ حصول دولت میں حرص و ہوس کی اجازت دی ہے اور نہ خرچ میں بے اعتدالی کی اجازت دی ہے۔بلکہ یہ بات بھی بتادی ہے کہ قیامت کے دن دولت کی آمد و خرچ کے متعلق سوال کیاجائے گا۔ چنانچہ حدیث میں آیاہے کہ قیامت کے دن کسی بنی آدم کے قدم اس وقت تک نہیں ہٹیں گے جب تک کہ اس سے چار سوال نہ کیے جائیں:عمر کیسے گزری ؟ جوانی کہاں گزری؟ مال کہا ںسے کمایا اورکہاں خرچ کیا؟ اورجو کچھ علم حاصل کیاتھا، اس پر کہاں تک عمل کیا؟(ترمذی)

موجودہ زمانے میں ہم لوگ بہت سارے مواقع پر اللہ تعالیٰ کی عطاء کردہ نعمتوں کا انتہائی بے دردی سے اُن کا بے دریغ کا استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ انتخابات کے موقع پر امید وار بے تحاشہ دولت لٹاتے ہیں۔ سرکاری دوروں کے مواقع پر مقتدر طبقہ فضول مال خرچ کرتا ہے۔ملکی تقریبات کے ایام انتہائی دھوم دھام اور سج دھج سے منائے جاتے ہیں ۔ ذاتی فنکشنوں پر فنکاروں اورگلوکاروں وغیرہ کو محض تفریح کیلئے مدعو کرکے اُن پر دولت کے دریا بہائے جاتے ہیں۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو اور اُس کے عطا کردہ رزق کوبے جا اور بے موقع فضول خرچ کرنے کے زُمرے میں آتا ہے جس سے توبہ ضروری اور احتراز لازمی ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

خود اعتمادی، خواتین کی معاشرتی ضرورت

خود اعتمادی ہر شخص کی شخصیت، کامیابی اور ذہنی سکون کا بنیادی جزو ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو انسان کو اپنے فیصلوں، خیالات اور احساسات پر یقین کرنے کی ہمت دیتی ہے۔

شال، دوپٹہ اور کوٹ پہننے کے سٹائل

سردیوں کا موسم خواتین کے فیشن میں تنوع اور نفاست لے کر آتا ہے۔ اس موسم میں شال، دوپٹہ اور کوٹ نہ صرف جسم کو گرم رکھتے ہیں بلکہ شخصیت، وقار اور انداز کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ درست سٹائل کا انتخاب خواتین کے لباس کو عام سے خاص بنا سکتا ہے۔

آج کا پکوان:فِش کباب

اجزا : فش فِلے : 500 گرام،پیاز :1 درمیانہ (باریک کٹا ہوا)،ہری مرچ : 2 عدد (باریک کٹی)،ہرا دھنیا : 2 چمچ،ادرک لہسن پیسٹ :1 چمچ،نمک : 1 چمچ،لال مرچ پاؤڈر : 1چمچ،کالی مرچ : آدھا چائے کا چمچ،زیرہ پاؤڈر : 1 چائے کا چمچ،دھنیا

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے