دعا:فضیلت و آداب
ارشاد ربانی ہے !’’کون ہے جو بے قرار و بے کس کی پکار کو سنتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف و پریشانی کو دور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے، کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے؟ تم بہت کم نصیحت و عبرت حاصل کرتے ہو‘‘ (النمل: 62)۔
انسان کی فطرت میں ہے کہ جب وہ کسی مصیبت اور آزمائش میں گرفتار ہوتا ہے اورتمام دنیاوی اسباب سے وہ مایوس ہو جائے تو پھر ایک ایسی ان دیکھی طاقت سے امید لگاتا اور دعا کرتا ہے کہ جس کے متعلق اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ تمام اسباب سے بڑھ کر اور تمام طاقتوں سے مضبوط ہے۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ وہی طاقت اس کا سہارا بھی بنے گی اور اسے مصیبت سے نجات دے گی۔ وہ ان دیکھی طاقت مختلف مذاہب میں مختلف ناموں سے موجود ہے حتیٰ کہ وہ لوگ جو کسی خدا کے قائل نہیں وہ بھی ’’قدرت‘‘ کے قائل ہیں۔ ان سب کے برعکس مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ ایک ان دیکھی طاقت خدا کی ذات ہے۔ وہی ہے جو بے قرار و بے کس کی دعاؤں کو سنتا بھی ہے اور اس کی تکلیف و پریشانی کو دور بھی کرتا ہے۔ صرف اور صرف خدا کی ذات ہی وہ ایک ہستی ہے جو انسان کی دعا کو سنتی بھی ہے اور اس کا جواب بھی دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’انہیں (خدا کے علاوہ اور خداؤں کو) پکارو تو وہ تمہاری دعائیں سن نہیں سکتے، اور سن لیں تو ان کا تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے‘‘(فاطر:14)۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ تمہاری دعا کے جواب میں پکار کر کہہ نہیں سکتے کہ تمہاری دعا قبول کی گئی یا نہیں کی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمہاری درخواستوں پر کوئی کارروائی نہیں کر سکتے۔اس لیے اپنی حاجات اور ضروریات صرف خداہی کے سامنے براہِ راست پیش کرنی چاہیے تا کہ انہیں سنا بھی جائے اور ان پرکارروائی بھی ہو۔
کیا خدا کو ہماری دعاؤں کی ضرورت ہے؟ یہ بات یقینی ہے کہ ہماری ضروریات اور حاجات کا اللہ تعالیٰ کو خوب علم ہے اور اسے ہماری دعاؤں کی محتاجی بھی نہیں ہے، وہ بن مانگے بھی عطا کر دیتا ہے لیکن قرآن و حدیث کی تعلیمات اور نبی کریم ﷺ کا اسوہ اس بات پر شاہد ہے کہ بندوں کو خود اپنی حاجات کا شعور ہو اور وہ اپنی عاجزی اور کمزوری کا اعتراف دعا کی صورت میں کرے کہ یہ عمل خدا کو خوب پسند ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’دعا سے بڑھ کر کوئی چیز خدا کے نزدیک قابلِ عزت نہیں ہے‘‘ (مسند احمد: 8748)۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ ’’تمہارے رب کو تمہاری کیا حاجت پڑی ہے اگر تم اس کو نہ پکارو‘‘ (الفرقان: 77)۔ یعنی اگر انسان دعا مانگنا چھوڑ دے تو اس سے خدا کی بادشاہت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
دعا ایک عبادت
دُعا جہاں بندے کی طرف سے خدا کے حضور اپنی عاجزی کے اظہار کی ایک صورت ہے وہیں دعا خود ایک بندگی کا عمل ہے جو کہ بندے سے مطلوب بھی ہے۔ جیسے نماز، روزہ وغیرہ عبادت کی مختلف صورتیں ہیں اسی طرح قرآنِ مجید میں دعا کو عبادت کہا گیا ہے اور جو دعا نہیں کرتے انہیں متکبرین میں شمار کیا گیا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’تمہارا رب کہتا ہے مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ گھمنڈ میں آ کر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں، ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے(الغافر:60)۔اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ خدا کے حضور دعا مانگنا عین عبادت ہے، اور اس سے منہ موڑنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی تکبر میں مبتلا ہے اسی لیے اپنے خالق کے آگے اپنی عاجزی اور بندگی کا اعتراف کرنے سے کتراتا ہے۔ اس بات کی مزید وضاحت نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارک سے ہوتی ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر ؓ ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’دعا عین عبادت ہے، پھر آپﷺ نے مذکورہ آیت تلاوت فرمائی (المستدرک: 1806)۔ اسی طرح ایک اور حدیث مبارک ہے جوحضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہتے ہیں،نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس پر غضبناک ہوتا ہے‘‘ (ترمذی:3373)۔
جتنی بھی عبادتیں ہیں ان سب کا مغز دعا ہی ہے۔ جس طرح مغز کے بیکار انسان بیکار ہے اسی طرح تمام نیک اعمال دعا کے بغیر ادھورے ہیں۔ حضرت انسؓکی روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا ’’دعا عبادت کا مغز ہے‘‘ (ترمذی: 3371)۔
اسی لیے تمام نیک اعمال کے بعد ان کی قبولیت کیلئے دعا کرنے کا ہمیں طریقہ سکھایا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ جب خانہ کعبہ کی بنیادوں کو اٹھا رہے تھے اور تعمیر بیت اللہ کا عظیم الشان کام سرانجام دے رہے تھے تب بھی وہ یہی دعا کررہے تھے۔ ’’اے ہمارے رب اسے تو قبول فرما بے شک تو ہی سننے جاننے والا ہے‘‘ (البقرہ: 127)
دعا رب سے تعلق کا فوری اور مؤثر ذریعہ
دعا کے ذریعے بندہ اپنے رب سے براہِ راست فوری رابطہ کرسکتا ہے اور یہ وہ ذریعہ ہے جو مؤثر بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ہم انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں‘‘ (ق: 16)۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا (الغافر: 60)۔ ان دونوں آیات سے ثابت ہوا کہ دعا کے ذریعے خدا سے فوراً تعلق جڑتا ہے اور اس سے جو دعا مانگی جائے اسے وہ قبول بھی کرتا ہے۔ خدا کو یہ پسند ہے کہ اسے آہستہ آواز میں اور گڑگڑا کرپکارا جائے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے، یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الاعراف: 55)
بسا اوقات ہم دعا میں کچھ مانگتے ہیں لیکن ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے جو دعا مانگی ہے شاید وہ قبول نہیں ہوئی جب کہ ایسا نہیں ہوتا۔ کیا بندے کی دعا اسی طرح قبول ہوجاتی ہے جیسی وہ دعا مانگتا ہے یا دعاکی قبولیت کے اور طریقے بھی ہیں؟ احادیث مبارک سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا کی قبولیت کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں۔
حضرت جابر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’آدمی جب کبھی اللہ سے دعا مانگتا ہے، اللہ اسے یا تو وہی چیز دیتا ہے جس کی اس نے دعا کی تھی یا اسی درجے کی کوئی بلا اس پر آنے سے روک دیتا ہے‘‘ (ترمذی: 13381)۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون ایک دوسری حدیث میں ہے جو حضرت ابو سعید خدری ؓ نے روایت کی ہے۔ آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں ’’ایک مسلمان جب بھی کوئی دعا مانگتا ہے، بشرط یہ کہ وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ ہو، تو اللہ تعالیٰ اسے تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں قبول فرماتا ہے۔ اس کی دُعا دنیا میں قبول کر لی جاتی ہے یا اسے آخرت میں اجر دینے کیلئے محفوظ رکھ لیا جاتا ہے۔ یا اسی درجہ کی کسی آفت کو اس پر آنے سے روک دیا جاتا ہے۔ (ابن ابی شیبہ:29170)
نبی کریم ﷺ نے جب دعا کی قبولیت کی تین صورتیں بتائیں تو صحابہ کرام ؓ نے سوال کیا کہ اگر ہم کثرت سے دعائیں مانگیں تو کیا تب بھی اسی طرح کا معاملہ کیا جائے گا؟ تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’ہاں اللہ بھی اسی طرح اضافہ کرے گا‘‘(ابن ابی شیبہ: 29170)۔ اس لیے ہمیں مستقل اور اکثر اللہ سے دعائیں مانگنی چاہیے کہ وہی تمام دعاؤں کو سننے اور قبول کرنے والا ہے۔