اللہ کے نام کی عظمت وفضیلت

تحریر : مولانا رضوان اللہ پشاوری


آپ کے رب کا نام بڑی برکت والا ہے، جو صاحبِ عظمت و جلال اور صاحبِ اِنعام و اِکرام ہے(سورہ الرحمٰن:78)

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رحمت ِ عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، (یعنی) سو میں ایک کم، جس نے ان کو(یاد کیا، یا ان کو پڑھا، یا ان کے معانی جانے اور ان پر عمل کیا اور محفوظ کر لیا) وہ جنت میں داخل ہوگا‘‘(صحیح بخاری: 6957، صحیح مسلم: 2677، ترمذی: 3508، ابن ماجہ: 3860)۔

بلاشبہ اللہ جل جلالہ کی عبادت و معرفت کا جذبہ اور حوصلہ انسانی فطرت اور طبیعت کا خاصہ اور ایک حصہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اس دنیا کے انسان نے اپنے خالق و حقیقی مالک کے وجود کو دیکھا تو نہیں لیکن اس کے باوجود جب کبھی اس کی زندگی میں کوئی خوشگوار واقعہ پیش آتا ہے توعموماً جبینِ انسانی میں سجدہ شکر مچلنے لگتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ اس ان دیکھی غیبی ہستی کا شکر ادا کرے۔ ایسے ہی جب کوئی ناگوار حادثہ پیش آتا ہے تو انسانی ہاتھ اسی نادیدہ ذات کی طرف بے اختیار بڑھتے ہیںاور آنکھیں اپنے عجز کے اظہار میں اشکبار ہو جاتی ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا کی تاریخ کا کوئی زمانہ اور کائنات کا کوئی خطہ خدا پرستی کے اس فطری جذبہ سے خالی نہیں رہا ہے، ہمیشہ سے دنیا والے اسی کو یاد کرتے اور پکارتے ہیں۔

 اللہ جل شانہ کو ہر اس نام سے پکار سکتے ہیں جو اس کے شایانِ شان ہو، اللہ جل شانہ کی ذاتِ منبع الکمالات کو ہر قوم و مذہب کے لوگوں نے آج تک مختلف ناموں سے مانا اور پکارا ہے، مانتے اورپکارتے رہیں گے۔ اللہ جل شانہ خود ارشاد فرماتے ہیں: ’’آپ ﷺ کہہ دیجیے کہ اللہ کہہ کر پکارو! یا رحمن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو، سب اسی کے بہترین نام ہیں‘‘(بنی اسرائیل: 110)۔ اس آیتِ کریمہ سے دو باتیں معلوم ہوئیں

 (1)اللہ جل شانہ کو ہر اس نام سے پکار سکتے ہیں جو اس کے شایانِ شان ہو، خواہ کسی بھی زبان میں ہو، کیونکہ اس کی عظمت والا نام عربی زبان کے ساتھ ہی خاص نہیں  اور نہ ہی صرف انسانوں کی زبانوںکے ساتھ خاص ہے ، بلکہ مختلف مخلوقات کی زبانوں پر بھی تو اسی کا نام ہے ۔ اگر گوشِ ہوش سے سُنا جائے تو پتوں اور کلیوں کی سر سراہٹ، پھولوں کی مسکراہٹ، پرندوں اور چڑیوں کی چہچہاہٹ میں ’’اللہ، اللہ‘‘ کی آواز آتی ہے۔ وَاِنْ مِنْ شَیْئٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہ(بنی سرائیل)، اس آیت میں یہی فرمایا گیا ہے، جس کامطلب یہ ہے کہ اور کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کر رہی ہو۔ معلوم ہوا ہر مخلوق اس کو پکارتی ہے اور پکار سکتی ہے۔

(2) دوسری بات یہ واضح ہو گئی کہ اللہ جل شانہ کے بہت سے بہتر نام ہیں، بلکہ تمام بہترین نام اسی کے ہیں،  فرمایا:وَلِلّٰہِ الأَسْماَئُ الْحُسْنیٰ (الأعراف: 180) اور حدیث مذکور میں اس اجمال کی تفصیل کرتے ہوئے سرکار ِ دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حق تعالیٰ کے اسمائِ حسنیٰ کی تعداد ننانوے ہے ، جو شخص ایمان اور عقیدت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرنے کیلئے اس کے ننانوے نام محفوظ کر لے، یا ان کے ذریعہ دعا کرے یاان کے ذریعہ اپنے رب کو یاد کرے ، یا ان کے معانی جان کر عمل کرے تو وہ جنت میں جائے گا۔

علمائِ محدثین فرماتے ہیں کہ اس تعبیر سے اللہ جل شانہ کے اسمائِ حسنیٰ کی تکثیر بیان کرنا مقصود ہے، تحدید نہیں۔ ورنہ ان ننانوے اسمائِ حسنیٰ کے علاوہ بھی اللہ جل شانہ کے ایسے بہت سے نام ہیں جن کا ذکر کلام اللہ اور احادیث ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  میں نہیں، البتہ ننانوے کا جو عدد ذکر کیا گیا اس کا مقصد یہ ہے کہ حدیث ِ پاک میں اسمائِ حسنیٰ کو یاد کر نے والے کیلئے جنت کی جو فضیلت ہے وہ ان ہی ننانوے ناموں کے ساتھ مخصوص ہے۔ (مظاہرِ حق جدید) اور بعض سلف سے منقول ہے کہ جس نے ’’اللّٰہم‘‘ سے دعا مانگی اس نے گویا تمام ہی اسمائِ حسنیٰ کے ذریعہ دعا مانگی۔( مظاہرِ حق جدید)

پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ جل شانہ کے جتنے بھی اسما حسنیٰ ہیں وہ سب کے سب اس کی الوہیت و ربوبیت اور شانِ عظمت و رفعت، قدرت و قوت، نصرت و حفاظت، محبت و ہدایت، شفقت و سخاوت وغیرہ پر دلالت کرتے ہیں۔ ان تمام اسما حسنیٰ میں لفظ اللہ اسمِ ذات اور باقی اسما صفات ہیں، جیسا کہ خود قرآنِ پاک کے ارشاد سے پتہ چلتا ہے، فرمایا: ’’وہ اللہ وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسے تمام کھلی چھپی باتوں کا علم ہے، وہی رحمٰن و رحیم ہے‘‘ (الحشر: 22)۔

’’اور صبح و شام اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کریں،  اور رات کی کچھ گھڑیاں اس کے حضور سجدہ ریزی کیا کریں اور رات کے (بقیہ) طویل حصہ میں اس کی تسبیح کیا کریں‘‘(الدھر: 25-26)۔

’’بیشک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا۔ اور وہ اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہا اور (کثرت و پابندی سے) نماز پڑھتا رہا‘‘(الاعلیٰ: 14-15)۔

’’فرما دیجیے:کیا تم اللہ کے سوا اس کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہارے لیے کسی نقصان کا مالک ہے نہ نفع کا، اور اللہ ہی تو خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے‘‘ (المائدۃ: 76)۔

آپﷺ کے رب کا نام بڑی برکت والا ہے، جو صاحبِ عظمت و جلال اور صاحبِ اِنعام و اِکرام ہے(الرحمٰن:78)۔

’’سو اپنے ربِّ عظیم کے نام کی تسبیح کیا کریں(الواقعۃ: 74)۔

’’اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں، اور وہی بڑی عزت والا بڑی حکمت والا ہے۔ اسی کیلئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے، وہی جِلاتا اور مارتا ہے، اور وہ ہر چیز پر بڑا قادر ہے۔ وہی (سب سے) اوّل اور (سب سے) آخر ہے اور (اپنی قدرت کے اعتبار سے) ظاہر اور (اپنی ذات کے اعتبار سے) پوشیدہ ہے، اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے‘‘ (الحدید: 1-3)۔

’’اپنے رب کے نام کی تسبیح کریں جو سب سے بلند ہے۔ جس نے (کائنات کی ہر چیز کو) پیدا کیا پھر اسے (جملہ تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ) درست توازن دیا۔ اور جس نے (ہر ہر چیز کیلئے) قانون مقرر کیا پھر (اسے اپنے اپنے نظام کے مطابق رہنے اور چلنے کا) راستہ بتایا، اور جس نے (زمین سے) چارہ نکالا۔ پھر اسے سیاہی مائل خشک کر دیا‘‘ (الاعلیٰ: 1-5)۔

 یہاں اسما حسنیٰ میں لفظ اللہ کو اسم ِ ذات قرار دیا اور موصوف بنایا، اور دوسرے اسما حسنیٰ کو صفت بنایا ہے، پھر عجیب بات یہ ہے کہ اس کی عظمتِ شان اس کے ہر ہر عظیم الشان نام سے بھی ثابت ہوتی ہے۔

اللہ جل شانہٗ کی رفعت 

 ذات خدا وندی کو ’’اللہ‘‘ اسی لیے توکہتے ہیں کہ وہ نہایت ہی اعلیٰ و ارفع اور بلند و بالا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات اتنی بلند ہیں کہ پستی کا امکان ہی نہیں، وہ عجز و فنا سے بلند، ضعف و اضمحلال سے بلند، فقر و محتاجی سے بلند، سونے اور اونگھنے سے بلند، کمزوری اور سستی سے بلند، ہر قسم کے نقص و عیب اور وہم و گمان سے بلند ہے۔ اس کی بلندی کے سامنے تمام بلندیاں ہیچ ہیں۔ اس کے علم کے سامنے سب علوم جہالت، اس کی سماعت کے سامنے سب کی سماعتیں بہرا پن، اس کی بصارت کے سامنے سب کی بصارتیں اندھا پن، اس کی فصاحت کے سامنے سب کی فصاحتیں گونگا پن، اس کے وجود کے سامنے سب کا وجود کالعدم ۔ وہ اس قدر بلند و بالا ہے کہ عظمتوں کی معراج اور بلندیوں کی انتہا اسی کیلئے ہے۔

       لفظ ’’اللہ‘‘ حق تعالیٰ

 کے ساتھ خاص ہے 

جس طرح اللہ جل شانہٗ کی ذات و صفات بلند و بالا ہیں، ان میں اس کا کوئی ثانی اور شریک نہیں، اسی طرح اس کا اسم ِ ذات بھی بلند و   بالا ہے، اس میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں۔ اس لیے علماء نے فرمایا کہ لفظ ’’اللہ‘‘ حق تعالیٰ شانہ ٗکے ساتھ خاص ہے لہٰذا لفظ ’’اللہ‘‘ سے حق تعالیٰ ہی کو موسوم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی کو نہیں۔ ارشاد ربانی ہے: ’’کیا کوئی اور ہے ؟ جو اللہ کے نام سے موسوم ہو‘‘(سورۃ مریم)۔ 

لفظ اللہ کی ایک زبر دست خصوصیت یہ ہے کہ قرآنِ کریم میں لفظ ’’اللہ ‘‘تقریباً دو ہزار نوسو چالیس مرتبہ آیا ہے۔ (حکا یتوں کا گلدستہ) حتیٰ کہ جمہور اہل علم نے تولفظ ’’اللہ‘‘ہی کو اسم اعظم قرار دیا ہے۔ (مرقاۃ)

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒفرماتے ہیں کہ اگر لفظ ’’اللہ‘‘ زبان سے اس حال میں ادا کیا جائے کہ دل میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کچھ نہ ہو، تب لفظ ’’اللہ‘‘ اسم اعظم ہے۔ (مرقاۃ)۔ لفظ ’’اللہ‘‘ تو ایسا بابرکت نام ہے کہ اگر خدا نا خواستہ غفلت کے ساتھ لیا جائے تب بھی برکت سے خالی نہیں، پھر عظمت کے ساتھ لینے کی کیا فضیلت ہو گی؟

اللہ جل شانہٗ کا مقدس نام

 کائنات کی روح 

اللہ جل جلالہ کا مقدس نام تو اس وقت بھی تھاجب کائنات میں کچھ نہ تھااور اس وقت بھی ہوگا جب کچھ بھی باقی نہ رہے گا،اللہ جل جلالہ کا مقدس نام ہی کائنات کی اصل روح اور جان ہے ، یہ دنیا کی بستی اسی وقت تک آباد رہے گی جب تک کسی ایک کی زبان پر بھی یہ مقدس نام جاری رہے گا،اور جس وقت کوئی زبان بھی ’’اللہ، اللہ‘‘ کا ورد کرنے والی باقی نہ رہے گی اس وقت بساطِ عالم کو لپیٹ دیا جائے گا،آسمان کی قندیلیں بجھادی جائیں گی، دریائوں اور سمندروں کا پانی خشک ہو جائے گا،نظامِ عالم درہم برہم ہو جائے گا۔(مشکوٰۃ )

 اللہ جل شانہٗ کی ذات جیسے عظیم ہے اس کا مقدس نام بھی اسی طرح عظیم ہے اور عظمت سے اس کا مقدس نام لینے والا بھی عظیم ہے ۔ حضرت تھانوی ؒ فرماتے ہیں: اللہ رب العزت کا نام اتنا عظمت والا ہے کہ اگر ہم ہزار بار بھی مشک اورعنبر سے اپنی زبان دھو کر اس کا مقدس نام لیں تو اس کے تقدس کا حق ادا نہیں کر سکتے ، لیکن یہ اس کا انعام اور احسان ہے کہ اس نے اپنا مقدس اور عظیم نام ہماری ناپاک اورحقیر زبان پر بآسانی جاری فرمادیا، اب جو اس پاک نام کو وردِ زبان رکھے گا،اس کی زبان اور جسم دونوں پاک ہو جائیں گے ۔ انشااللہ۔حق تعالیٰ ہمیں اپنی معرفت اور اپنے نام کی عظمت نصیب فرمائے۔ (آمین)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

میدان محشر میں نعمتوں کا سوال!

’’اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘ (سورہ ابراہیم :7) ’’اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘ (سورۃ النحل : 78)’’اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اُسی کی عبادت کرتے ہو‘‘ (البقرہ )’’اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے جو کھاتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)

کامیاب انسان کون؟

’’وہ اہل ایمان کامیابی پائیں گے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں‘‘ (المومنون) قرآن و سنت کی روشنی میں صفاتِ مومناللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’جس نے خود کو گناہوں سے بچالیا حقیقتاً وہی کامیاب ہوا(سورۃ الیل)

صدقہ: اللہ کی رضا، رحمت اور مغفرت کا ذریعہ

’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے چھپا کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘(سورۃ البقرہ)

مسائل اور ان کا حل

’’اسے اپنے گھر لے جاو‘‘ کہنے سے طلاق نہیں ہوتی سوال :میں نے اپنی بیوی سے ایک موقع پرکہاتھاکہ میں تمہیں کبھی ناراض نہیں کروں گا،اگرکوئی ناراضی ہوئی توآپ کے کہنے پرطلاق بھی دے دوں گا۔

فیض حمید کی سزا،بعد کا منظر نامہ

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سزا سنا دی گئی ہے جو کئی حلقوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے۔ ریاست ملک میں عدم استحکام پھیلانے والے عناصر کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے امکانات

چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہے،لیکن حکومتِ پنجاب نے10 جنوری تک کا وقت مانگا ہے۔ پنجاب حکومت نے انتخابی بندوبست کرنا ہے جبکہ شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔