اے عشق ہمیں برباد نہ کر۔۔۔۔اختر شیرانی
شاعر حسن و جوانی اخترؔ شیرانی بلاشبہ ایک بہترین رومانی شاعر تھے۔ اپنے ہمعصر شعراء میں وہ منفرد و ممتاز ہی نہیں بلکہ مقبول ترین شاعر تھے اور ان کی شاعری نے شہرت کے پر پرواز نکال کر بام عروج کو چھو لیا تھا۔ ان کا نظریۂ شاعری فی الواقع حقیقت پسندانہ تھا اور وہ فن شاعری میں افادی پہلو کے ہرگز قائل نہ تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے خود کہا تھا کہ:
’’میں نے جب شعر کہنا شروع کیا تو شاعری کے افادی مقصود کا وہ تصور کہیں موجود نہ تھا جسے ترقی پسندی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس تصور نے کافی فروغ پا لیا۔ شاعر کا کام زندگی کے حسن کو دیکھنا اور دوسروں کو دکھانا ہے۔ زندگی کے ناسوروں کے علاج کی کوشش اس کا کام نہیں۔ میرے نزدیک شاعر کیلئے اپنے آپ کو کسی سیاسی یا اقتصادی نظام سے وابستہ کرنا ضروری نہیں۔ شاعر کی قدریں سب سے الگ اور آزاد ہیں‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ اشتراکی ناقدروں نے ان کی شاعرانہ عظمت سے صرف نظر کیا اور انہیں وہ منصب وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ صحیح معنوں میں مستحق تھے۔ ورنہ شعر و ادب میں انہوں نے اتنے قابل قدر اضافے اور تجربے کئے ہیں اور اتنے لائق و فائق کارنامے انجام دیئے ہیں کہ مجاز و مخدوم اور جان نثار اختر و جذبی جیسے ان کے ہمعصر شعراء ان کے پاس بھی نہیں ٹھہرتے۔ اگر منصفانہ طریقے سے ان کی شاعری کا تجزیہ کیا جائے اور حقیقت پسندی کے ساتھ ان کے مختلف النوع کارناموں کو احاطۂ تحریر میں لایا جائے تو کئی جہات میں ان کی افضلیت اور اوّلیت ثابت ہو گی۔ چند پہلوئوں سے یہ بات بخوبی واضح ہو سکے گی۔
اختر شیرانی محض و مانی شاعر نہیں تھے حالانکہ انہوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ ’’رومان و محبت مشغلہ ہے میرا بچپن سے‘‘۔ ان کی قومی شاعری بھی بہت وقیع درجہ رکھتی ہے۔ اگر خالص رومانی شاعر کی مسند پر ہی انہیں متمکن کردیا جائے تب بھی ہمیں لازمی طور پر یہ کہنا پڑے گا کہ وہ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے اردو شاعری کو ’عورت‘ سے روشناس کرایا۔ اختر شیرانی سے پہلے اردو کی تمام عشقیہ شاعری میں معشوق جنس ذکور کی صورت میں نظر آتا ہے اور زیادہ تر مرد پرستی کے جذبات غزل کے پیرائے میں منظوم ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ اچھے اچھے غزل گو شعرا نے معشوق کا ذکر مذکر فعلوں اور مذکر صفتوں کے ساتھ کیا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف تاویلیں پیش کی جا سکتی ہیں اور کہا جا سکتا ہے کہ ہماری تہذیب میں برملا عورتوں کا ذکر کرنا اور نام لینا تک شرم و حیا کے منافی ہے۔ اس لئے شعراء نے شرافت و غیرت کو ملحوظ رکھا۔ مگر اختر شیرانی نے اپنے واشگاف عشق کا اظہار کیا اور کھلم کھلا محبوب کے حسن و جمال کا عشق کا بیان کیا۔ انہوں نے ہماری شاعری کو نسائی کرداروں سے آراستہ و پیراستہ کرکے عروس سخن کو اس کے فطری حسن کے ساتھ پیش کیا۔ ان کا محبوب ماورائی نہیں بلکہ ارضی ہے، وہ تخیلی نہیں، حقیقی ہے اس لئے انہوں نے نسوانی وقار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ایسی شاعری کی داغ بیل رکھی جس میں عورت اپنی تمام تر رعنائیوں اور دیدہ زیبیوں کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔ مونث الفاظ اور اسماء کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے علانیہ طور پر کہا :
بہار حسن کا تو ایک پیکر شاداب ہے سلمیٰ
اور اس پیکر شاداب کی نسوانی کیفیات کو اپنے شعروں میں سمو دیا۔ سلمیٰ سے دل لگا کر وہ بستی کی لڑکیوں میں بدنام بھی ہوئے لیکن اردو شاعری کو ایک نئی قبا عطا کر گئے۔ اختر شیرانی سے پہلے کسی شاعر نے اس طرح کھل کر نہیں کہا تھا کہ:
خدائی کہکشاں کہتی ہے جس کو
وہ سلمیٰ کا خرام رائیگاں ہے
حریم حضرت سلمیٰ کی سمت جاتا ہوں
ہوا نہ ضبط تو چپکے سے آہ کر لوں گا
ان کی انفرادی شعری کارگزاری ریحانہ کے وطن مالوف کی صورت میں بھی جلوہ گر ہوتی ہے:
یہی وادی ہے وہ ہمدم جہاں ریحانہ رہتی تھی
وہ اس وادی کی شہزادی تھی اور شاہانہ رہتی تھی
کنول کا پھول تھی، سنسار سے بیگانہ رہتی تھی
جہاں سے دور، مثلِ نرگس مستانہ رہتی تھی
سلمیٰ اور ریحانہ نام کے طور پر عورت کا حوالہ ہیں لیکن ان کی شاعری میں استعارہ بن کر رونما ہوئی ہیں۔ ایک طلسم آفریں اور خوابناک استعارہ اور وہ اپنے عہد کے حوالے سے اس لئے اہمیت کے حامل ہیں کہ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ ایک نئی دنیا دریافت کی۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے جذبہ عشق کو اور معشوق کو فطری رنگ و روپ میں اپنے اشعار میں جگہ دی اور اس اجتہادی اور انقلابی قدم سے دنیائے شعر میں ہلچل مچا دی۔
اختر شیرانی کی رومانی شاعری کا رنگ ڈھنگ اور آہنگ سب سے الگ ہے۔ انہوں نے شاعری میں کسی کا تتبع نہیں کیا اور نہ کسی کے انداز بیانِ سے اپنے اشعار کو متاثر کیا بلکہ انہوں نے آپ اپنی شاعری کی شاہراہ الگ سے منتخب کی اور اس میں ایسے سنگِ میل قائم کئے کہ پیش روئوں کیلئے نئی راہیں استوار ہو گئیں۔ انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا۔ اپنی نظموں اور گیتوں کے طوفانی سلسلے کے دوران انہوں نے مختلف ہئیتی تجربے بھی کئے اور اردو میں غنائیت و نغمگی سے بھرپور نئی بحروں کو مروج کرنے کا شاندار کارنامہ انجام دیا۔ علاوہ ازیں انہوں نے دوسری زبانوں کی بہترین اصناف کو اپنی شاعری کے وسیلے سے اردو میں داخل کیا۔مثال کے طور پر ماہیا گوئی ،پنجابی لوک گیت ماہیا کو منتقل و مروج کرنے کا مہتم بالشان کام وہ پہلے انجام دے چکے ہیں۔ ان کے مجموعہ ہائے کلام ’’شہناز‘‘(1946ء) اور ’’شہرود‘‘(1949ء) میں ماہیے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لاہور میں رہتے ہوئے بھلا پنجاب کے ’ماہیا‘ سے وہ کیسے دامن بچا سکتے تھے۔ ان کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پنجابی لوک گیت کو اپنا کر اسے ’’مکتوبی‘‘ شکل عطا کی ورنہ لوک گیت سینہ بہ سینہ اور نسل درنسل منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح ہندی ادب سے گیتوں کو مستعار لیا تو انگریزی شعریات سے ’سانیٹ‘ کی صنف کو اردو، کا لباس فاخرہ پہنایا۔ اردو میں باقاعدہ سانیٹ نگاری کی ابتدا اختر شیرانی کے ہاتھوں عمل میں آئی،ان کے مجموعہ کلام ’شعرستان‘ (1941ء)، ’اختر ستان‘ (1946ء)،’لالہ طور‘ (1947ء) اور ’’مشہرود‘‘ (1949ء) میں سانیٹ کی وافر تعداد دیکھی جا سکتی ہے۔
اختر شیرانی نے اپنے 43سالہ مختصر عرصہ حیات میں شاعری کا وافر ذخیرہ چھوڑا۔ ’’پھولوں کے گیت، نغمۂ حرم، صبح بہار، اخترستان، لالہ طور، طیور آوارہ، شہناز، شہرود‘‘ اور ’’شعرستان‘‘ کے شعری مجموعے ہیں جو ’’شہرود‘‘ کے علاوہ ان کی زندگی ہی میں شائع ہو کر مقبول ہو گئے تھے۔ ان کا اولین مجموعہ ’’پھولوں کے گیت‘‘ ہے جو 1936ء میں اشاعت پذیر ہوا تھا۔ اس مجموعہ میں صرف بچوں کیلئے نظمیں لکھی گئی ہیں۔ ادب اطفال کے سلسلے میں نامی گرامی شعراء نے کاوشیں کی ہیں لیکن مجموعہ کی شکل میں بچوں کو اشعار کی سوغات پہلے پہل اختر شیرانی نے ہی پیش کی۔’’نغمۂ حرم‘‘ میں بھی انہوں نے جو نظمیں شامل اشاعت کی ہیں وہ سب بچوں اور عورتوں سے متعلق ہیں، اس لئے انہیں ادب اطفال میں بھی امتیاز حاصل ہے۔
اس طرح بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اختر شیرانی مطلع شعر و ادب کے وہ اختر تابندہ تھے جس نے آسمان شعر و ادب کو اپنی چمک دمک سے روشن کیا۔ بنیادی طور پر وہ رومانی شاعر رہے ہوں لیکن انہوں نے اپنی ذہنی اپج اور جودت طبع سے نہ صرف چمنستان شعر میں ایسے پھول کھلائے ہیں جنہوں نے مشام جان کو معطر کیا بلکہ ایسے گل ہائے نوکی بھی پودا لگائی جن کی جاذبیت و نکہت نے پورے شعرستان کو مہکا دیا۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
کانٹوں سے دل لگاؤ جو تا عمر ساتھ دیں
پھولوں کا کیا جو سانس کی گرمی نہ سہ سکیں
غم زمانہ نے مجبور کر دیا ورنہ
یہ آرزو تھی کہ بس تیری آرزو کرتے
ان رس بھری آنکھوں میں حیا کھیل رہی ہے
دو زہر کے پیالوں میں قضا کھیل رہی ہے
کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا
تم نہ ہوتے نہ سہی ذکر تمہارا ہوتا
تھک گئے ہم کرتے کرتے انتظار
اک قیامت ان کا آنا ہو گیا
زندگی کتنی مسرت سے گزرتی یا رب
عیش کی طرح اگر غم بھی گوارا ہوتا