حضورﷺ کی شفقت و محبت

تحریر : عبدالمالک مجاہد


’’پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کیلئے نرم طبع ہیں، اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ جاتے‘‘(آل عمران:159)

 دین اسلام میں اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق کے بارے میں بہت واضح احکامات دیے گئے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ صرف اس کی عبادت کی جائے، اس کے ساتھ کسی بھی قسم کا شرک نہ کیا جائے۔ اللہ کی مخلوق یا اس کے بندوں کا حق یہ ہے کہ ان کے ساتھ احسان، حسن خلق، شفقت اور رحمت سے پیش آیا جائے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے سو رحمتیں پیدا کی ہیں، ان میں سے ایک رحمت پوری مخلوق میں تقسیم کی اور باقی ننانوے رحمتیں اپنے پاس رکھی ہیں‘‘ ۔

 اس حدیث سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اللہ اپنی مخلوق کیلئے کتنا مہربان اور مشفق ہے، اس کی رحمت اس کے غضب پر حاوی ہے۔ اللہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے بھی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت وشفقت سے پیش آئیں اور ایک دوسرے سے اچھا سلوک کریں۔ صحابہ کرام ؓ کے اندر بیشمار خوبیوں میں سے ایک نمایاں خوبی یہ تھی کہ وہ آپس میں نہایت رحیم وکریم اور شفیق ومہربان تھے۔قرآن کریم نے اس پر یوں شہادت دی ہے : ’’ رسول اللہﷺ کے صحابہ کافروں پر سخت اور آپس میں رحم دل ہیں‘‘۔ مسلمان رحم دل ہوتا ہے اور رحم کرنا اس کی عادت ہوتی ہے جو مسلمان رحمدل نہیں وہ ایمان کی لذت سے محروم ہے ایسے مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے ایمان کاجائزہ لے اور اپنی اصلاح کرے۔ ایمان کی لذت سے آشنا مسلمان خود بھی رحم کرتا ہے اور دوسروں کوبھی اس کی تاکید کرتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایمان والوں کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’پھر وہ ان لوگوں میں سے ہوتا ہے جو ایمان لائے ایک دوسرے کو صبر اور رحم کرنے کی وصیت کرتے رہتے ہیں، یہی لوگ دائیں جانب والے یعنی سعادت مند ہوتے ہیں‘‘۔

 کسی شخص کا رحم دل ہونا، دوسروں کے غم اور پریشانی پراس کا تڑپ اٹھنا، مشکل میں لوگوں کے کام آنا اس کے عمدہ ایمان اور اعلیٰ اخلاق کی نشانی ہے۔  اقرع بن حابس بنو تمیم کا بڑا سردار تھا۔ ایک وقت آیاکہ اس نے اسلام قبول کر لیا۔ یہ اللہ کے رسولﷺ پاس بیٹھا ہوا تھا۔اتنے میں آپ ﷺ کے نواسے سیدنا حسن بن علیؓ آتے ہیں۔ یہ چھوٹی عمر کے تھے اور اللہ کے رسولﷺ کو بے حد محبوب تھے۔ آپﷺ نے سیدنا حسنؓ کو اپنے سینے سے لگایا۔ بیٹے کے منہ کو محبت سے چوما اور بار بار چوما۔ اقرع بن حابس یہ منظر دیکھ رہا ہے۔ کہنے لگا: میرے دس بچے ہیں، میں نے تو کبھی ان کو نہیں چوما۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس کے جواب میں فرمایا: ’’جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا‘‘۔اس حدیث سے یہ معلوم ہواکہ اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے لیے حالات سازگار ہوں ، لوگ اس کے ساتھ محبت کریں ، اس کی عزت واحترام کریں اور اس کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آئیں تو اسے چاہئے کہ دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ 

 اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایک عورت کو محض اس لیے عذاب ہوا کہ اس نے ایک بلی کو باند ھ کر رکھا،جس وجہ سے وہ بھوکی پیاسی مر گئی۔ اللہ کی طرف سے اسے روز قیامت کہا جائے گا ’’ تونے باندھ کر اسے کھانا دیا نہ پانی، نہ ہی اسے چھوڑا کہ وہ زمینی جانور یا دیگر چیزیں کھا کر گزارا کر لیتی،چنانچہ اسے جہنم کی طرف روانہ کر دیا جائے گا۔ بظاہر دیکھا جائے تو بلی ایک عام سی مخلوق ہے، ہم اسے کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے مگر یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق تو ہے۔ اس پر رحم کرنا بھی ضروری ہے۔ 

احادیث میں یہ واقعہ بھی مذکور ہے کہ بنی اسرائیل کے دور میں ایک پیاسا کتا کنوئیں کے قریب کھڑا پیاس سے ہانپ رہا تھا قریب تھا کہ وہ گرمی کی حدت اور پیاس کی شدت سے مرجاتا ،اتنے میں ایک فاحشہ عورت کا وہاں سے گزر ہوا، اس نے جب کتے کو اس حالت میں دیکھا تو کنوئیں سے پانی نکال کر اسے پلایا، اللہ کو اس فاحشہ کا یہ عمل اتنا پسند آیا کہ اسی عمل کی برکت سے ہی اسے معاف کردیا۔ 

 اسلام ایک ایسا خوبصورت دین ہے جو ہمیں صرف کلمہ گو بہن بھائیوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ ہمیں کافروں کے ساتھ بھی نرمی کا اور حسن سلوک کا حکم دیتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے سے ایک جنازہ گزر رہا تھا۔ آپﷺ جنازے کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔ عرض کیا گیااے اللہ کے رسولﷺ ! یہ تو یہودی کا جنازہ ہے۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہودی ہے تو کیا ہوا؟ کیا یہ انسان نہیں ؟اس واقعہ سے یہ بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ جس نبیﷺ کی تعلیمات اتنی عمدہ ہیں ان کا اپنا اخلاق کتنا اعلیٰ ہوگا۔ 

اسی نرمی اور شفقت کی صفت کا ذکر سورۃ التوبہ میں یوں آیا ہے : ’’بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (ﷺ) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے، (اے لوگو!) وہ تمہارے لئے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کیلئے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں‘‘ (التوبہ: 128)۔ یعنی اس کا تمہیں بلانا بھی اس کی تم پر مہربانی اور شفقت ہے کیونکہ تمہارا ذلت اور پستی میں پڑنا اسے گوارا نہیں اور وہ اس بڑے عمل کے ذریعے تمہاری مغفرت اور گناہوں کی معافی چاہتا ہے، وہ تمہاری آخرت کا نقصان نہیں چاہتا۔

سورۃ الشعراء میں رسول اللہ ﷺ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: ’’اور ایمان لانے والوں میں سے جو لوگ تمہاری پیروی کریں ان کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ‘‘(الشعراء : 215) ۔ یعنی ان سے نرمی برتیے اور اپنی بانہوں کو ان کی جانب جھکا دیجیے،بالکل اسی طرح جیسے پرندہ اپنے پر سمیٹ لیتا ہے تو زمین پر آ جاتا ہے۔رسول اللہ ﷺ تمام عمر اپنے اصحاب کے ساتھ اسی طرح رہے،  یقیناً ان کا خلق قرآن تھا اور وہ قرآن کی ان آیات کا حقیقی مصداق تھے۔

آپﷺ کی ذات مبارکہ میں نرمی و شفقت دوسروں کی مدد کے تناظر میں بھی ہمیشہ عروج پر رہتی۔ آپ ﷺ کے صحابہ اور غلاموں میں سے اگر کوئی کسی مشکل، مصیبت یا مدد میں آپ ﷺ کو پکارتا تو آپ ﷺ پکارنے والے کی آواز سن کر جواباً اْسے لبیک کہتے۔جیساکہ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓروایت کرتی ہیں،رسول اللہﷺ سے زیادہ حسنِ اخلاق والا کوئی نہیں تھا، صحابہ میں سے یا اہلِ بیت میں سے جب بھی کوئی آپ ﷺ کو پکارتا تو آپ ﷺ فرماتے: میں موجود ہوں، اِسی لیے اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل فرمائی (آپ ﷺ خُلقِ عظیم کے بلند مرتبے پر فائز ہیں) (دلائل النبویہ،حدیث119)۔

 حضورنبی اکرم ﷺدوسروں کے احساسات کا بھی خیال کرتے۔جیساکہ حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ اگر کسی سے کوئی نامناسب کام ہو جاتا تو آپ ﷺ اُس کام کرنے والے کو موردِالزام نہیں ٹھہراتے تھے۔یہ نہیں کہتے تھے کہ تم نے یہ کیا کر دیا، ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا بلکہ فرماتے تھے ، اللہ کو ایسا ہی منظور تھا(اخلاق النبی وآدابہ ، 1/192)۔ یہ طریقہ کارآپﷺاس لیے اختیارفرماتے تاکہ انسانی احساسات کااحترام بھی ہو اور دوسرا آدمی اپنے کیے پرشرمندہ نہ ہو۔

آپ ﷺ کی پوری حیات طیبہ میں ایسا لمحہ کبھی نہیں آیا کہ کسی سائل نے نبی کریم ﷺسے کچھ مانگا ہو اور آپ ﷺ نے جواب میں انکار فرما دیا ہو۔ آپ ﷺ کا غرباء و مساکین پرشفقت کاعالم یہ تھاکہ جس نے جو کچھ مانگا حضور ﷺ نے اُسے عطا کیا (مصنف ابن ابی شیبہ ، حدیث 3699)۔

برادران اسلام !ہم نبی اکرم ﷺ کے ماننے والے ہیں۔ان کی شان تو یہ ہے کہ آپ نے امت کو پرندوں اور حیوانوں کے ساتھ بھی شفقت اور پیار کرنے کا سبق دیا ہے۔ جانوروں کی اہمیت اور خصوصیت بیان کرنے کیلئے کیا یہ بات ہی کافی نہیں کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے دو سو آیات میں جانوروں کا ذکر فرمایا ہے جبکہ کچھ سورتوں کے تو نام ہی جانوروں اور پرندوں کے نام پر رکھے گئے ہیں۔ اس سلسلہ میں بنی کریمﷺ کی تعلیمات بھی ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنی امت کو یہ تعلیم دیتے ہوئے فرمایا کہ : بے زبان جانوروں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو ، سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں: ہم ایک مرتبہ اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ کسی غزوہ میں شرکت کیلئے سفرکررہے تھے۔راستہ میں ایک جگہ پڑائو کیا۔اللہ کے رسولﷺ ضروری حاجت کیلئے تشریف لے گئے۔ اسی دوران ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے ساتھ دوبہت خوبصورت بچے تھے۔ ہم نے اس کے بچوں کو پکڑ لیا۔چڑیا نے بچوں کو ہمارے پاس دیکھا تو پھڑپھڑاتے ہوئے آئی،ماں کی ممتا تھی،وہ باربار چکر لگارہی ہے۔اتنے میں اللہ کے رسول ﷺ تشریف لے آتے ہیں۔ آپ ﷺ نے چڑیا کو دیکھا تو ارشاد فرمایا: ’’اس چڑیا کے بچوںکو اٹھا کر کس نے اسے مصیبت اور اذیت میں ڈال رکھاہے،اس کے بچے واپس کردو‘‘۔ ہم نے حکم کی تعمیل کی اور بچوں کو چھوڑ دیا۔

یقینا یہ اللہ کے رسول ﷺ کی پرندوں کے ساتھ شفقت تھی۔ اگر کسی آدمی کے بچوں کو گرفتار کرلیا جائے تواسے کتنی تکلیف ہوتی ہے؟اسی طرح پرندوں کوبھی بطور خاص ماں کی ممتاکو بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ماں بے چین ہوجاتی ہے۔اس کا سکون ختم ہوجاتا ہے۔اللہ کے رسول ﷺ تو سراپا رحمت ہی رحمت تھے۔صرف انسانوں پر نہیں بلکہ کائنات کے تمام باسیوں اور دونوں جہانوں کیلئے رحمت تھے۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے : ’’ہم نے آپ ﷺکو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا ہے‘‘۔ہمیں بھی چاہئے کہ ہم اپنے پیارے نبیﷺ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اپنے والدین ، بہن بھائیوں ، عزیز و اقارب، دوست واحباب، پڑوسیوں اور محلے داروں کیلئے سراپا رحمت و شفقت بن جائیں، ان کے لیے نرمی کے پر بچھا دیں اور ان کے ساتھ وہی سلوک کریں جو ہمارے نبی کریم ﷺ کیا کرتے تھے۔ اگر ہم یہ عمل کرلیں تو اس سے نہ صرف ہماری آخرت بہتر ہوگی بلکہ ہمارے لیے زندگی آسان ہو جائے گی، ہمارے لیے خیروبرکت کے دروازے کھل جائیں گے، رزق میں برکت ہو گی ، دلوں سے کدورتیں دور ہوجائیں گی اور دنیا بھی جنت بن جائے گی۔

 

 

 

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

ہیروں کا سیب

ایک بادشاہ بہت نیک اور رحمدل تھا اس کی رعایا اپنے بادشاہ سے بے حد خوش تھی۔بادشاہ کی صرف ایک ضد تھی کہ وہ شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ایک دن اس کے وزیروں نے تنگ آ کر کہا ’’حضور! اگر آپ ہمارے بادشاہ رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو شادی کرنا ہو گی‘‘

بلی، شیر کی خالہ

دریا کے کنارے سرسبزوشادا ب جنگل آباد تھا جہاں ایک شیرحکمرانی کرتا تھا۔ بادشاہ ہونے کے ناطے وہ بہت معزورتھا۔ اس علاقے میں کسی دوسرے شیرکو حملہ کرنے کی ہمت نہ تھی۔ ایک دن شیر اپنے وزیروں کے ساتھ جنگل کے دورے پر نکلااس کی ملاقات خالہ ’’بلی‘‘ سے ہوئی،شیر نے پوچھا ’’خالہ بلی، یہ تمہارا حال کس نے کیا ہے ؟‘‘بلی نے بتایا جب سے مجھے انسانوں نے پکڑا ہے میرا یہ حال کردیا ہے۔

شیر کے بارے میں چند دلچسپ حقائق

بچوں شیر کے بارے میں آپ سب یہ تو جانتے ہی ہیں کہ اسے جنگل کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔شیر کو ببر شیر بھی کہتے ہیں۔اسے عربی میں ’’اسد‘‘اور انگریزی میں’’لائن‘‘کہا جاتا ہے۔شیرکی چال بڑی شہانہ ہوتی ہے اسی لیے اسے تمام جنگلی جانوروں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔

ذرامسکرایئے

استاد:جب بجلی چمکتی ہے تو ہم کو روشنی پہلے اور آواز بعد میں کیوں آتی ہے؟ طالب علم : کیونکہ ہماری آنکھیں آگے ہیں اور کان پیچھے۔ ٭٭٭

دلچسپ معلومات

٭…دنیا کی سب سے بلند آبشار کا نام اینجل آبشار ہے۔ ٭…دنیا میں سب سے بڑی تازہ پانی کی جھیل لیک سپیرئیر کینیڈا میں ہے۔ ٭…جھیل وکٹوریہ تین ممالک یوگنڈا، کینیا اور تنزانیہ میں واقع ہے۔

اقوال زریں

٭…زبان کا زخم تلوار کے زخم سے زیادہ گھائل کرتا ہے۔ ٭…اگر تم کچھ حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنا ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرو۔ ٭…لالچ انسان کو تباہ کر دیتا ہے۔