7ستمبر 1974ء عشاقان مصطفی کیلئے ایک یادگار دن

تحریر : مولانا قاری محمد سلمان عثمانی


7ستمبر 1974ء کا دن عالم اسلام کیلئے بالعموم اور اسلامیانِ پاکستان کیلئے بالخصوص ایک یادگار اور تاریخی موقع کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن خلاقِ عالم نے ختم نبوت کیلئے جدوجہد کرنے والے اور اس مبارک کام کیلئے خود کو میدانِ عمل میں اتارنے والے علماء، طلباء اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ مجاہدین ختم نبوت اور فدایان ختم الرسلﷺ کی بے مثال قربانیوں اور انتھک کاوشو ں کے نتیجے میں قادیانی مسئلہ ہمیشہ کیلئے قانونی طور پر حل کر دیا۔

یہ دراصل 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں تیرہ ہزار شہداء کے بہنے والے مقدس خون کی برکت تھی کہ ان کی قربانیوں کی لاج رکھتے ہوئے مالک کائنات نے پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کے ممبران کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ انہوں نے غداران ملک وملت اور دشمنان دین و وطن فتنہ مرزائیت کے دونوں گروپوں قادیانی گروپ اور لاہوری گروپ کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر قادیانیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا۔ قادیانیوں کو کافر قرار دینے کا فیصلہ عجلت میں نہیں کیا گیا بلکہ کئی دنوں پر مشتمل طویل بحث و مباحثہ میں فریقین کے دلائل سننے کے بعد اراکین اسمبلی نے اس اہم مسئلے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے، اس کی حساسیت کا ادراک کرتے ہوئے، اس کے تمام پہلوؤں کاسنجیدگی سے جائزہ لیتے ہوئے اور مرزائیت کے گمراہ کن نظریات کی وجہ سے اسلام کے مجروح ہوتے ہوئے مذہبی تشخص کے پیش نظر انتہائی منصفانہ اور معتدلانہ فیصلہ سنایا جو اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ پاکستان ایک نظریاتی شناخت رکھنے والا ملک ہے جو کسی بھی اسلام مخالف نظریے کو اتنی آسانی سے پروان نہیں چڑھنے دے سکتا۔ 1953ء میں ختم نبوت کی جو تحریک چلی تھی وہ ریاستی جبر اور قادیانیوں پر حکومتی سرپرستی کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکی لیکن 1974ء میں قادیانیت کا گڑھ سمجھے جانے والے شہر چناب نگر (سابقہ ربوہ) میں ایک دلخراش واقعہ پیش آیا جس کے ردِ عمل میں دوسری بار تحریک چلی جو قادیانیت کے خرمن پر قہربن کر ٹوٹی اور بالآخر ان کے کفر کے فیصلے پر اختتام پذیر ہوئی۔

 وہ واقعہ یہ ہواکہ ملتان نشتر میڈیکل کالج کے طلباء کاایک گروپ ہفتہ بھر کے سیاحتی دورے پر بذریعہ ٹرین پشاور کی طرف روانہ ہوا۔ جب ٹرین چناب نگر سٹیشن پر آ کررکی تو قادیانیوں نے اپنے روزمرہ کے معمول کے مطابق ان طلبہ اور مسافروں میں اپنا لٹریچر تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ ان غیرت مند طلباء نے دینی حمیت کی بناء پر اس کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے مزید لٹریچر تقسیم کرنے سے روک دیا اور تقسیم شدہ لٹریچرمسافروں سے واپس لے لیا۔ ساتھ ہی ’’ختم نبوت زندہ باد‘‘ کے فلک شگاف نعروں سے  ڈبہ گونج اٹھا۔ ملحدانہ اور گمراہ کن عقائد پر مشتمل مواد بانٹنے والے ان باغیان کو عشاقان مصطفی کا یہ جوابی رویہ ایک آنکھ نہ بھایا۔ جوش انتقام میں بھڑکتے ہوئے ان قادیانی اوباشوں نے لڑائی کیلئے قریبی گراؤنڈ میں ہاکی کھیلتے قادیانی نوجوانوں کو بلالیا اور سب مل کر ابھی مارپیٹ کرنے ہی والے تھے کہ مسافروں اور ٹرین عملے کی مداخلت سے معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ اس واقعہ سے پہلے قادیانیوں کی ہزیمت کا ایک اورواقعہ بھی رونما ہوا تھا جس کی وجہ سے قادیانی مسلمانوں پر غضبناک تھے۔وہ یہ کہ نشترمیڈیکل کالج ملتان میں طلباء کا انتخاب ہوا تھا جس میں ایک امیدوار قادیانی بھی تھا۔ مسلمان طلباء نے اس انتخابی مہم میں قادیانی امید وار کی مخالفت میں محض قادیانیت کی بناء پر بھرپورکردار ادا کیا تھا جس کے نتیجے میں اسے ذلت آمیزشکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس واقعہ کی وجہ سے بھی قادیانیوں میں شدید غم وغصہ پایا جاتا تھا۔ دوسری طرف یہ لٹریچر کی تقسیم کا واقعہ ہو گیا جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور معاملہ شدید نزاع کی صورت اختیارکرگیا۔ انہوں نے اس کا مؤثر جواب دینے کیلیے ایک خفیہ حکمت عملی اپنائی۔ جس کے نقظہ آغاز میں انہوں نے اپنی سی آئی ڈی کے ذریعے ان طلباء کی پشاور سے ملتان واپسی کا معلوم کیا۔ اس مذموم مقصد کی تکمیل کیلئے چناب نگر کے قادیانی ریلوے اسٹیشن ماسٹرنے نشتر آباد اور سرگودھا کے اسٹیشن ماسٹرز سے بذریعہ فون رابطے کر کے اس پلان کوحتمی ترتیب دی۔ طے یہ ہوا کہ جیسے ہی ٹرین چناب نگر اسٹیشن پر پہنچے گی تو پہلے سے تیار مسلح جتھے ان پر حملہ کرکے اپنے انتقامی ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ پروگرام کے مطابق جب ایک ہفتے کے سیاحتی دورے کے بعد یہ طلباء اسی ٹرین کے ذریعے ملتان واپس لوٹے اور چناب نگرریلوے سٹیشن پر رکے تو اس سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ریل کے اس ڈبے میں پہلے سے موجودقادیانی اوباشوں نے جونشتر آباد،لالیاں وغیرہ سے خاص طور پر اس مقصد کیلئے سوار ہوئے تھے، ان نہتے طلبہ پر آہنی ہتھیاروں سے حملہ کر دیااورانہیں لہولہان کر دیا۔

ناموس رسالتﷺکے ان پہرے داروں پرجبرو استبداداورلوٹ مار کا یہ واقعہ ملک بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیااوراس نے ایک عظیم تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ جس نے ملک کے طول و عرض کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس واقعہ کو ’’سانحہ ربوہ‘‘ کا نام دیا گیا۔اس غنڈہ گردی کے واقعے پر شدید رد عمل دیتے ہوئے مولانا تاج محمودؒ نے فیصل آباد میں قادیانیوں کے خلاف ایک زبردست جلسے اور جلوس کا اہتمام کیا جس کے بعدپورے ملک میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔اکثر شہروں میں ہڑتال ہو گئی۔ 

سانحہ ربوہ پر ایکشن لینے کیلئے اسمبلی میں تحریک التواء پیش کی گئی جسے4جون 1974ء کو مسترد کر دیا گیا۔حکومت کی طرف سے اس اہم مسئلے کو نظرانداز کرنے پرمحدث العصر مولانا یوسف بنوریؒ نے 9 جون کو بیس جماعتوں کے عمائدین کا اجلاس رکھا جس میں مفتی محمود، نوابزادہ نصراللہ خان، آغا شورش کاشمیری،غلام شیخ جیلانی اور متعدد زعمائے ملت نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں بہرصورت عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کا عزم مصمم کیا گیا اور مجلس عمل کی طرف سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ 14جون کو ملک بھر میں عام ہڑتال ہو گی۔ قادیانیوں کے نزدیک اس واقعہ کی اتنی اہمیت نہیں تھی، وہ اس زعم میں مبتلا تھے کہ مظاہرین دو چار دن کے بعد خاموش ہو کر گھروں میں بیٹھ جائیں گے لیکن معاملہ ان کی توقع کے بالکل بر عکس ہوا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ احتجاج شدت اختیار کرتا گیا۔ ملک میں پیدا شدہ اضطرابی صورتحال نے  ارباب اقتدار کیلئے بہت بڑی مشکل کھڑی کر دی اور انہیں اس کے مضبوط، مؤثر اوردیرپا حل کیلئے سنجیدہ اقدامات کرنے پر مجبور کردیا۔ اس وقت کے وزیراعظم  ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی ذاتی دلچسپی کی بناء پر اس مسئلے کوقومی اسمبلی کے پلیٹ فارم پرپیش کرنے کا فارمولہ پیش کیا تاکہ اراکین اسمبلی آزادانہ اور جمہوری طریقے سے اسے حل کر سکیں اور جو بھی فیصلہ ہو اس پر کسی کو اعتراض نہ ہو۔ اس اعلان سے قادیانی حلقوں میں تشویش کی لہردوڑ گئی کیونکہ اپنے کفریہ عقائد اور حالیہ واقعے میں جارحانہ پالیسی اپنانے اورملک میں پیداشدہ نئی صورتحال کے تناظر میں وہ سمجھتے تھے کہ یہ فیصلہ بہرصورت ہمارے خلاف آئے گا۔ اس لئے انہوں نے وزیراعظم بھٹو اورقومی اسمبلی کے جنرل سیکرٹری کو درخواست بھجوائی کہ پارلیمنٹ میں ہمارے عقائد پر بات ہونی ہے تو ہمیں اپنے موقف کو دلائل کے ساتھ پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔ اس وقت قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے منصب پرمفکراسلام حضرت مولانا مفتی محمود فائز تھے جن سے مشاورت کے بعد وزیر اعظم نے مرزائیوں کے دونوں گروپوں کے سربراہان کو قومی اسمبلی کے فلور پر اپنے عقائد پر بحث کرنے کی اجازت دے دی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس اہم ایشو پراس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی خان کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی تشکیل دی جس کی زیر صدارت پورا مہینہ وقفے وقفے سے اجلاس ہوتے رہے اور فریقین کی آراء سامنے آتی رہیں۔  اس سلسلے کا پہلا اجلاس 5اگست کو ہوا۔ جس میں قادیانی گروپ کے تیسرے سربراہ مرزاناصر احمد پرجرح ہوئی۔ تمام ممبران اسمبلی کو یہ مکمل اختیار دیا گیاکہ وہ اس مسئلہ سے متعلق جو سوال کرنا چاہیں وہ اس وقت پاکستان کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار کے ذریعے سے کر سکتے ہیں۔ مفکراسلام مولانا مفتی محمود اور مجاہدملت مولانا غلام غوث ہزاروی مرزا ناصرکی طرف سے پیش کئے جانے والے دلائل کا جواب دیتے۔ یہ جرح 24 اگست کو مکمل ہوئی۔ یہ کل20 دن بنتے ہیں جن میں11 اگست سے 19 اگست تک یعنی نودن اسمبلی کی کارروائی معطل رہی،یوں یہ جرح گیارہ دن بنتی ہے۔ اس کے تین دن بعد 27اور28 اگست کولاہوری گروپ پرجرح ہوئی جس میں اس گروپ کے تین بڑے گرو صدرالدین لاہوری، مسعود بیگ لاہو ر ی اورعبدالمنان لاہوری پیش ہوئے۔ یہ جرح دو دن جاری رہی،اس طرح کل تیرہ دن میں یہ جرح اپنے اختتام کو پہنچی۔31 اگست کو رکن اسمبلی مولانا عبدالحکیم نے مسئلہ ختم نبوت پرمولانا غلام غوث ہزاروی کا تیارکردہ محضرنامہ پڑھا۔

7ستمبر کو اڑھائی بجے قومی اسمبلی کے اجلاس کاآغازہوا، وزیر قانون وپارلیمانی امور عبدالحفیظ پیرزادہ نے تین بج کر چالیس منٹ پر مختصر ابتد ا ئی کلمات کے بعداپنے سمیت مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمدنورانی، پروفیسر غفور احمد، غلام فاروق،چوہدری ظہور الٰہی اور سردار مولا بخش سومرو(سات ممبرانِ پارلیمنٹ) کی طرف سے قادیانیوں کو کافر قراردینے کی قرارداد پڑھ کر سنائی۔جس کا مضمون یہ تھا ’’جو شخص خاتم النبیین محمدﷺ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیرمشروط ایمان نہ رکھتا ہواور محمدﷺ کے بعد کسی بھی معنی مطلب یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبرہونے کا دعویٰ کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہووہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں‘‘۔

 اس کے بعد جب اس قرارداد پر ووٹنگ ہوئی تو کوئی ووٹ بھی اس کے خلاف نہ آیا،گویا یہ فیصلہ اکثریت ِ رائے کی بنیاد پر نہیں بلکہ اجتماعی اور متفقہ رائے سے کیا گیا۔ اسپیکر کی جانب سے قرارداد منظور ہو جانے کے بعد جب یہ خبر ٹی وی اور ریڈیو پر نشر ہوئی تو یہ ایک تاریخی اور ایمان افروز لمحہ تھا،فرط جذبات میں آنکھوں سے آنسو رواں تھے،ہر طرف مبارکبادی کا سلسلہ جاری تھااور 1953ء کے شہداء کی قربانیو ں کے نتیجے میں آج امت مسلمہ کو یہ مبارک دن دیکھنا نصیب ہوا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مصطفیٰ زیدی منفرد اسلوب کا شاعر

مصطفی زیدی بیسویں صدی کی اردو شاعری کے معروف و مقبول شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔اردو ادب کی تاریخ میںبے شمار شعراء ایسے ملتے ہیں جن کی شاعری کے کئی رنگ ہیں۔

سوء ادب :ہمارے جانور شیر

یہ جنگل کا بادشاہ کہلاتا ہے لیکن جب سے ن لیگ نے اسے اپنے انتخابی نشان کے طور پر اپنایا ہے، اِس کا دماغ مزید خراب ہو گیا ہے اور وہ کسی کی پرو ا ہی نہیں کرتا۔

قومی یکجہتی میں ادب کا کردار

ہر ادب، ادیب کے ایک نظریئے کے تحت پیدا ہوتا ہے اور ادیب ایک معاشرے کا جزو ہوتا ہے اور اس معاشرے کا ایک نظریۂ حیات ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے ادیبوں اور ان کی تخلیقات یعنی ادب میں جہت اور سمت کا تعین اس اجتماعی شعور یا نظریئے سے پیدا ہوتا ہے۔

پاکستان کو پہلے ٹیسٹ میں بد ترین شکست

پاکستان کرکٹ ٹیم کو تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے پہلے مقابلے میں مہمان انگلینڈ کے ہاتھوں ایک اننگز اور 47 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، جسے پاکستان کرکٹ کی بدترین شکست قرار دیا جا سکتا ہے۔

ملتان ٹیسٹ میں بننے والے منفرد ریکارڈز

پہلے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ کیخلاف پاکستان کے متعدد نئے ریکارڈ بنے، جو درج ذیل ہیں۔

چھوٹا پھول

ایک باغ میں بہت سے پودے اور درخت تھے، جن پر ہر طرح کے پھول اور پھل لگے ہوئے تھے۔ وہ باغ بہت بڑا تھا۔ درختوں پر پرندوں کی چہچہاہٹ اور پھولوں کی خوشبو باغ کو خوبصورت بنائے ہوئے تھی۔ ایک دفعہ گلاب کے بہت سے پھول کرکٹ کھیل رہے تھے کہ ایک چھوٹا سا پھول آیا اور کہنے لگا ’’ کیا میں آپ کے ساتھ کرکٹ کھیل سکتا ہوں‘‘۔