سیرت نبویﷺ میں رحم و کرم کے تابندہ نقوش

تحریر : مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی


اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک بڑی دولت اور نعمت سے نوازا ہے جو پورے دین کو جامع اور اس کی تبلیغ کا بہترین ذریعہ ہے۔ وہ نعمت اور دولت اخلاق ہے۔ حضورﷺ کی ساری زندگی اخلاقِ حسنہ سے عبارت تھی، قرآن کریم نے خود گواہی دی ’’بلاشبہ آپﷺ اخلاق کے بڑے مرتبہ پر فائز ہیں‘‘۔ آپ ﷺ لوگوں کو بھی ہمیشہ اچھے اخلاق کی تلقین کرتے۔ حضرت انس ؓفرماتے ہیںکہ میں نے آپﷺ کو دیکھا کہ آپ لوگوں کو عمدہ اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں‘‘(صحیح مسلم)۔

اخلاق کی ایک اعلیٰ صفت غصہ کو دبانا اور ضبط کرنا ہے جو برسوں کی ریاضت کے بعد کسی کو حاصل ہوتی ہے۔ اس کے فضائل بیان کر دینا تو آسان ہے مگر اس پر عمل کرنا بڑا مشکل ہے۔ نبی کریم ﷺ کے اندر یہ اعلیٰ صفت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اگر سیرت کا مطالعہ غور سے کیا جائے تو اس کی مثالیں قدم قدم پر ملیں گی۔ آپ ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا جب مکہ سے ہجرت کر کے (اونٹ پر سوار ہو کر) مدینہ منورہ جا رہی تھیں تو راستہ میں ہبار بن اسود نامی ایک شخص نے انہیں نیزہ مارا تو وہ اونٹ سے گر پڑیں، حمل ساقط ہو گیا، اس صدمہ سے تاب نہ لا سکیں اور اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ رسول اکرمﷺ کو جب اس حادثہ کی خبر ہوئی تو آپﷺ کو اس بات سے بہت صدمہ ہوا۔ جب بھی اس حادثہ کی یاد تازہ ہوتی تو آبدیدہ ہو جاتے لیکن جب ہبار بن اسود اسلام لے آئے اور معافی کی درخواست کی توآپ ﷺ نے انھیں معاف کر دیا۔

اسی طرح وحشی بن حرب جنھوں نے رسول اکرم ﷺ کے محبوب چچا کو قتل کیا تھا لیکن جب وہ اسلام لا کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ان کا اسلام تسلیم فرما لیا۔ پھر آپ ﷺ نے ان سے حضرت حمزہؓ کے قتل کی کیفیت دریافت فرمائی۔ جب انھوں نے واقعہ بیان کیا تو آپ ﷺ پر گریہ طاری ہوگیا اور فرمایا، وحشی! تمہارا قصور معاف ہے لیکن تم میرے سامنے نہ آیا کرو، تمہیں دیکھ کر پیارے شہید چچا کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔

جس طرح لب ملتے ہیں نام محمد ؐکے سبب

کاش کہ ہم سب مل جائیں نام محمدؐ کے سبب

اخلاقِ ایمانی اور انسانی کی ایک اعلیٰ صفت وفا بھی ہے، جس کے اندر وفا نہ ہو وہ یقیناً انسانیت اور ایمان کے کمال سے محروم ہے۔ قرآن میں بدعہدی کو یہود جیسی مردود قوم کی صفت بتایا گیا ہے اور ایفائے عہد کو مومنوں، متقیوں اور اللہ کے نبیوں کی صفت قرار دیا گیا ہے۔ آپﷺ کے اخلاق حسنہ میں ایک اخلاق یہ بھی ہے کہ آپﷺ ہمیشہ وفا کرتے تھے، بے وفائی اور عہد شکنی نہیں کرتے تھے۔ حضرت ابورافعؓ بیان فرماتے ہیں کہ مجھے قریش نے رسول اکرمﷺ کی خدمت میں کسی کام سے بھیجا (یہ اس وقت کی بات ہے جب میں اسلام سے محروم تھا) جب میں نے آپﷺ کی زیارت کی تو فوراً میرے دل میں اسلام کی محبت بیٹھ گئی، چنانچہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ!خدا کی قسم اب میں یہاں سے واپس نہیں جائوں گا۔ آپﷺ نے فرمایا نہ تو میں وعدہ خلافی کرتا ہوں اور نہ عہد شکنی کرتا ہوں، فی الوقت تم واپس چلے جائو البتہ اگر تمہارے دل میں یہی جذبہ، یہی ارمان، یہی تمنا، یہی خواہش رہی تو پھر واپس چلے آنا چنانچہ میں اس وقت تو چلا گیا لیکن بعد میں خدمت اقدس میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔

نبی کریم ﷺ نے اپنے اخلاق حسنہ کی دولت سے تڑپتی انسانیت کی غم خواری کی، اپنے ازلی و ابدی دشمنوں کو پتھر کے جواب میں گلدستہ پیش کیا۔ نفرت کے اندھیروں میں الفت و محبت کی شمع روشن کی، آپسی تفرقہ بازی اور دائمی بغض و عداوت کی بیخ کنی کر کے بھائی چارگی اور الفت و محبت کے چشمے بہائے، یہی نہیں بلکہ ذرا دو قدم آگے بڑھ کر فتح مکہ کی تاریخ کے اوراق کو الٹ کر دیکھئے کہ آپ ﷺ مکہ میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوتے ہیں، صحابہ کرامؓ کی دس ہزار کی جمعیت آپﷺ کے ساتھ ہے، صحابہ کرامؓ اعلان کرتے ہیں آج بدلے کا دن ہے، آج جوش انتقام کو سرد کرنے کا دن ہے، آج گذشتہ مظالم کے زخموں پر مرہم رکھنے کا دن ہے، آج ہم اپنے دشمنوں کی کھوپڑیوں کو اپنی تلواروں پر اچھالیں گے، آج ہم شعلہ جوالہ بن کر خرمن کفار کو جلاکر بھسم کردیں گے اور گذشتہ مظالم کی بھڑکتی چنگاری کو ان کے لہو سے بجھائیں گے۔ تاریخ شاہد ہے اور زمین و آسمان گواہی دیتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہوا، رحمت نبویﷺ جوش میںآ ئی اور زبان رسالت کی صدائیں لوگوں کے کانوں سے ٹکراتی ہیں ’’جائو تم سب آزاد ہو، تم لوگوں سے کسی قسم کا بدلہ نہیں لیا جائے گا، یہ تھا آپﷺ کا اخلاق کریمانہ۔

نبی پاک ﷺ کی زندگی اخلاق حسنہ سے بھری پڑی ہے، جسے آج ہمیں اس نازک ترین حالات میں اپنانے کی ضرورت ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اخلاق کی تعلیم دوسروں کو دیں اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں اور نبی کریم ﷺ کے طرز عمل پر اپنی زندگی کو سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں کیونکہ نبی کریم ﷺ کے اخلاق حسنہ کو اپنانے کے بعد ہمارے لیے بھی اخلاقیت کی بلند اور دشوار گزار گھاٹی پر چڑھنا آسان ہوجائے گا۔

زندگیاں بیت گئیں اور قلم ٹوٹ گئے

تیرے اوصاف کا ایک باب بھی پورا نہ ہوا

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اخلاق نبوی ﷺ اپنانے کی توفیق عطا فرمائے (آمین یارب العالمین بحرمۃ سیدالانبیاء والمرسلین)

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مصطفیٰ زیدی منفرد اسلوب کا شاعر

مصطفی زیدی بیسویں صدی کی اردو شاعری کے معروف و مقبول شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔اردو ادب کی تاریخ میںبے شمار شعراء ایسے ملتے ہیں جن کی شاعری کے کئی رنگ ہیں۔

سوء ادب :ہمارے جانور شیر

یہ جنگل کا بادشاہ کہلاتا ہے لیکن جب سے ن لیگ نے اسے اپنے انتخابی نشان کے طور پر اپنایا ہے، اِس کا دماغ مزید خراب ہو گیا ہے اور وہ کسی کی پرو ا ہی نہیں کرتا۔

قومی یکجہتی میں ادب کا کردار

ہر ادب، ادیب کے ایک نظریئے کے تحت پیدا ہوتا ہے اور ادیب ایک معاشرے کا جزو ہوتا ہے اور اس معاشرے کا ایک نظریۂ حیات ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے ادیبوں اور ان کی تخلیقات یعنی ادب میں جہت اور سمت کا تعین اس اجتماعی شعور یا نظریئے سے پیدا ہوتا ہے۔

پاکستان کو پہلے ٹیسٹ میں بد ترین شکست

پاکستان کرکٹ ٹیم کو تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے پہلے مقابلے میں مہمان انگلینڈ کے ہاتھوں ایک اننگز اور 47 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، جسے پاکستان کرکٹ کی بدترین شکست قرار دیا جا سکتا ہے۔

ملتان ٹیسٹ میں بننے والے منفرد ریکارڈز

پہلے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ کیخلاف پاکستان کے متعدد نئے ریکارڈ بنے، جو درج ذیل ہیں۔

چھوٹا پھول

ایک باغ میں بہت سے پودے اور درخت تھے، جن پر ہر طرح کے پھول اور پھل لگے ہوئے تھے۔ وہ باغ بہت بڑا تھا۔ درختوں پر پرندوں کی چہچہاہٹ اور پھولوں کی خوشبو باغ کو خوبصورت بنائے ہوئے تھی۔ ایک دفعہ گلاب کے بہت سے پھول کرکٹ کھیل رہے تھے کہ ایک چھوٹا سا پھول آیا اور کہنے لگا ’’ کیا میں آپ کے ساتھ کرکٹ کھیل سکتا ہوں‘‘۔