ایک خاکہ ایک یاد : کم آمیز، سادہ اور بے تکلف غلام عباس
کبھی کبھار تو وہ خود اپنے افسانوں کا ایک کردار معلوم ہوتے تھے غلام عباس موسیقی میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے باقاعدہ موسیقی سیکھی تھی اور بڑا ریاض کیا ۔وائلن بجانے میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔
غلام عباس دو چار ملاقاتوں میں ایسے کھل جاتے کہ یوں لگتا ہے جیسے ان سے مدت کی شناسائی ہے اور جیسے ہم اور یہ ساتھ ساتھ پلے بڑھے ہیں۔ کبھی تو غلام عباس خود اپنے افسانوں کا ایک کردار معلوم ہوتے تھے اور کبھی یہ خود اپنے کرداروں کے تماشائی نظر آتے ۔ منٹو اور عباس میں یہ فرق ہے کہ منٹو اپنے کرداروں میں نظر آتا ہے اور عباس اپنے پورے افسانے کی صورت میں آپ کے سامنے آتے ہیں۔ میں عباس صاحب کو اس زمانے سے جانتا ہوں جب وہ بچوں کے اخبار’’پھول‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ یہ پھول بھی جب ادارہ تھا، اگر روزنامہ زمیندار صحافت کی یونیورسٹی تھا تو پھول نرسری تھا اور شمس العلماء سید ممتاز علی اس ہفت روزہ اخبار کے کرتا دھرتا تھے۔ عربی فارسی میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ شمس العلماء مولوی ممتاز علی اور پھول کے بارے میں غلام عباس لکھتے ہیں:
’’پھول ایک اخبار ہی نہیں تھا بلکہ ایک ادارہ بھی تھا جو ایک طرف تو ملک کے نونہالوں کے دلوں میں علم کی لگن لگاتا، ان کے اخلاق سنوارتا، ان میں ادب کا ذوق پیدا کرتا اور دوسری طرف ملک کے ادیبوں کے ذہنوں کی تربیت کرتا اور انہیں آسان اور سلیس زبان لکھنا سکھاتا۔ جو ادیب اس کا ایڈیٹر مقرر ہوتا، اگر وہ خام ہوتا تو اسے آموختہ بھلا کر نئے سرے سے اُردو لکھنے کے قواعد و ضوابط سیکھنے پڑتے۔
مولوی ممتاز علی اس درس گاہ کے معلم تھے، وہ بہت روشن خیال بزرگ تھے، وہ عربی فارسی کے بڑے عالم تھے اس کے ساتھ ساتھ انگریزی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔ وہ کئی دینی اور علمی و ادبی کتابوں کے مصنف تھے۔ وہ بہت سلیس زبان میں لکھتے مگر کمال یہ کہ سادگی کے باوجود ان کی تحریر کا عالمانہ وقار باقی رہتا‘‘۔
پھول کے ایڈیٹر حفیظ جالندھری، نشتر جالندھری، مولانا عبدالمجید سالک، وجاہت حسین جھنجھانوی اور پنڈت ہری چند اختر رہ چکے ہیں اور اسی نرسری سے غلام عباس بھی منسلک رہے ہیں۔ غلام عباس کی آنکھیں بولتی تھیں اور کان سنتے تھے۔ وہ اپنی زبان سے بہت کم کام لیتے ہیں۔ ہر گھر کے ماحول میں وہ گھل مل کر گھر کا ایک فرد بن جاتے ۔ انہیں ہر ماحول میں بے شمار افسانوں کے جال پھیلے ہوئے اور ان میں بے شمار جیتے جاگتے کردار نظر آتے ۔ وہ کردار تراشتے ہیں، کردار بناتے نہیں ہیں۔ آدمی شریف ہیں لہٰذا طوائف کے کوٹھے پر بھی وہ اپنی شرافت سے کام لیتے ہیں۔ ان کا افسانہ’’ آٹو میٹک‘‘ قسم کا افسانہ ہوتا ہے۔
غلام عباس نے بڑی دنیا دیکھی ہے۔ ملک ملک گھومے پھرے ہیں، ہر معاشرے میں ڈوب کر نکلے ہیں۔ معاشرے کے ہر کردار کا انہوں نے گہرا مطالبہ کیا ہے۔ ان کی شہرت کا آغاز ’’ جزیرہ سخن وراں‘‘ سے ہوا۔ لیکن’’ آنندی‘‘نے انہیں غیر فانی بنا دیا۔ غلام عباس اپنے افسانوں میں نفسیاتی حقائق پر خاص توجہ دیتے تھے۔ وہ اپنے نظریات اپنے پڑھنے والوں کے ذہنوں میں ٹھونسنے کی کوشش نہیں کرتے پھر ان کا انداز ناصح کا ہے نہ مصلح کا اور نہ نقاد کا، وہ اپنے افسانوں پر فیصلہ کرنے کا حق اپنے قارئین پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں ان کے مزاج کی طرح بڑا دھیما پن ہے لیکن اس دھیمے پن سے قاری کی طبیعت اکتاتی نہیں ہے بلکہ اس کی دلچسپی کا سلسلہ برابر قائم رہتا ہے۔
غلام عباس سے یوں تو کھل کر میری ملاقاتیں اس وقت ہوئیں جب میں محکمہ نشریات میں ملازم ہوا اور وہ بی بی سی سے آئے تھے۔ ن م راشد مرحوم ان کے بڑے گہرے دوست تھے اور میری ملاقات بھی ان سے راشد صاحب کے مکان پر ہوئی تھی۔ پھر برابر ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ وہ ’’آہنگ‘‘ اور پاکستان کالنگ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ عباس صاحب کو میں نے ہر دور میں ایک جیسا پایا، وہی کم آمیزی، وہی سادگی، وہی بے تکلفی، یہ اس زمانے میں انٹیلی جینس سکول کے ایک ڈھول نما مکان میں رہا کرتے تھے اور ایسے ہی مکان میں ن م راشد بھی رہتے تھے۔
غلام عباس پطرس بخاری کے بڑے گہرے دوستوں میں تھے۔ آل انڈیا ریڈیو میں وہ افسر اور یہ ماتحت ہو گئے تھے۔ عباس صاحب نے ادب کا فاصلہ برابر قائم رکھا۔ البتہ بخاری صاحب ان سے بہت بے تکلف تھے اور ان سے دل کھول کر دل کی باتیں کرتے۔ بخاری صاحب ہی انہیں ریڈیو میں لائے اور وہ برابر کوششیں کرتے رہے کہ ان کے عہدے میں بھی ترقی ہو لیکن ڈگری کا نہ ہونا مانع ہوا۔ اگرچہ پطرس بخاری نے اوپر والوں کو بہت سمجھایا کہ ان کی قابلیت خود بہت بڑی ڈگری ہے، لیکن ڈگریوں کی بیساکھیوں پر چلنے والے ایسی باتیں کب سنتے اور مانتے ہیں، جب تک پطرس بخاری اقوام متحدہ میں رہے، ان کے خطوط عباس صاحب کے پاس برابر آیا کرتے تھے۔
غلام عباس نے پطرس بخاری کا ایک خط مجھے دکھایا جس میں انہوں نے یہ لکھا تھا کہ مغربی ملکوں میں لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہاں منٹو برصغیر کا بڑا افسانہ نگار تھا وہاں ہ بڑا شاعر بھی تھا۔ میں نے انہیں بہت سمجھایا کہ ایسا نہیں ہے۔ شاعری سے اس کا دور کا واسطہ بھی نہیں لیکن یہ لوگ برابر اصرار کئے جا رہے ہیں۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ اس غلط فہمی کو دور کیا جائے، میں نے عرض کیا کہ مغربی ادیب ٹھیک کہتے ہیں۔ ایک زمانے میں کئی طویل و مختصر افسانوی نظمیں جو روسی اور فرانسیسی نظموں کا ترجمہ ہیں، اردو کے ادبی رسالوں میں منٹو کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ان نظموں کا اردو ترجمہ میرے سامنے مرحوم آغا خلش کاشمیری نے کیا تھا۔
پطرس، غلام عباس کی افسانہ نگاری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
’’ہمارے گرد و پیش کئی ایسی دلچسپیاں تھیں جو غلام عباس کے بغیر آج تک نظر نہیں آئی تھیں اور جن کی بدولت اب زندگی کے بے کیف گوشے بھی رنگین نظر آتے ہیں‘‘۔
راشد صاحب کی رائے بھی سنئے:
’’غلام عباس غالباً وہ واحد افسانہ نگار ہے جس کا فن انسانی زندگی کے رنگا رنگ مسائل کا احاطہ کرتا ہے جیسے زندگی سے گہری محبت ہے۔ اتنی گہری محبت کہ وہ نہ اس کے بخیے ادھیڑتا ہے( منٹو کی طرح) نہ اس کو ننگا کرتا ہے۔(عسکری کی طرح) نہ اپنی انا سے مرعوب کرتا ہے (عزیز احمد کی طرح) بلکہ زندگی کو اپنا محرم راز جانتا ہے اس سے سرگوشیاں کرتا ہے اور کی سرگوشیاں سنتا ہے‘‘۔
غلام عباس 1909ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے۔ والد کا انتقال ہو گیا تو گھر بار کا بار ان پر پڑ گیا۔ معمولی حیثیت کی نوکریاں ملتی تھیں جو وہ کرنا نہیں چاہتے تھے۔ افسانہ نگاری کا کاروبار تو پہلے ہی شروع کر چکے تھے۔’’نیرنگِ خیال‘‘ میں ان کا پہلا افسانہ چھپا تو انہیں بیس روپے معاوضے کے طور پر ملے۔ سوچا چلو معمولی نوکری سے تو قلم کی مزدوری میں آبرو رہ جائے گی۔ پھر حکیم احمد شجاع مرحوم کے رسالے میں مغربی افسانوں کے ترجمے اور کچھ طبع زاد افسانے چھپے جو بہت مقبول ہوئے۔ ان کی تحریروں میں جو نرالا پن اور جو انفرادیت تھی، اس نے انہیں آگے بڑھایا۔ مرزا محمد سعید کا غلام عباس سے دلی تعلق تھا، خوب ملاقاتیں رہتیں۔ وہ ان سے شفقت سے پیش آتے۔ یہ اپنی نیاز مندی سے ان کی صحبت سے بہت کچھ حاصل کرلیتے اور پھر مرزا صاحب مغربی اور مشرقی ادب کے سمندر کھنگال چکے تھے اور ان کا شمار جدید ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں کی فہرست میں سرفہرست آتا ہے۔ وہ پریم چند کے پیش رو تھے۔ مرزا صاحب کی میراث کا ایک حصہ غلام عباس کو بھی ملا۔
غلام عباس موسیقی میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے باقاعدہ موسیقی سیکھی تھی اور بڑا ریاض کیا ۔ وہ وائلن بجانے میں بڑی مہارت رکھتے تھے اور ایک زمانہ تو ایسا تھا کہ انہیں وائلن بجانے کی اچھی تنخواہ پر ملازمت مل رہی تھی۔ اگر غلام عباس افسانے نہ لکھتے تو وہ برصغیر کے چوٹی کے وائلن نواز ہوتے۔ جب وہ لندن میں تھے تو انہوں نے باقاعدہ مغربی موسیقی بھی سیکھی۔ وہ خان صاحب عبدالوحید خان کے بڑے چہیتے شاگرد تھے۔
غلام عباس کا پہلا مجموعہ ’’آنندی ‘‘ہے۔ دوسرا ’’جاڑے کی چاندنی‘‘ اور تیسرا ’’کن رس‘‘ ہے۔ غلام عباس کے یہاں افسانہ اسی طرح جنم لیتا ہے جس طرح بچہ پیدا ہوتا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ بچے کے پیدا ہونے کی ایک مدت مقرر ہوتی ہے غلام عباس کے یہاں یہ مدت مقرر نہیں ہے۔ بچہ جب پورا ہو جاتا ہے تو خود ولادت پا لیتا ہے۔ دوسرے افسانہ نگاروں کی طرح ان کے یہاں سیزیرین بچے پیدا نہیں ہوتے یعنی پیٹ کاٹ کے نکالے نہیں جاتے۔ قدرتی ولادت ہوتی ہے۔ گویا وہ فی البدیہہ قسم کے افسانہ نگار نہیں ہیں۔ وہ افسانے کا پلاٹ بنا کر افسانہ نہیں لکھتے۔ افسانہ خود اپنا پلاٹ اپنے ساتھ لے کر آتا ہے جب وہ افسانہ لکھنے لگتے ہیں تو انہیں صرف الفاظ اس کے خاکے میں بھرنے پڑتے ہیں۔ اور الفاظ کے استعمال میں وہ بڑی احتیاط سے کام لیتے۔ ’’از دل خیزد و بردل ریزد‘‘ (جو دل سے اُٹھتا ہے ، دل پہ ٹپکتا ہے) والی بات ہوتی۔غلام عباس کا انتقال2 نومبر1982 میں72 سال کی عمر میں ہوا۔